شکست کے باوجود کپتان کا ہتھیار ڈالنے سے انکار
کبھی قیادت چھوڑنے کا نہیں سوچا، اسد شفیق پر پورا بھروسہ ہے، فارم میں واپسی کیلیے 1بڑی اننگز درکار ہوگی، اظہر علی
10 سال بعد انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز ہارنے کے باوجود پاکستانی کپتان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔
ساؤتھمپٹن ٹیسٹ اور سیریز کے اختتام پر ویڈیو لنک پرمیڈیاکانفرنس میں ٹیسٹ کپتان اظہرعلی نے کہا کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں سیریز برابر کرنے نہیں بلکہ جیتنے کی سوچ لے کر آئی تھی، مانچسٹر میں ہمیں موقع بھی ملا لیکن ضائع کردیا، شکست کا بہت زیادہ افسوس ہے، جو غلطیاں ہوئیں ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میری تمام تر توجہ سیریز پر رہی، پہلا ٹیسٹ ہارے تو ہر چیز کپتان کے اوپر پڑگئی تھی لیکن اس وقت بھی یہی ذہن میں تھا کہ اپنی اور ٹیم کی پرفارمنس سے سیریز کا نتیجہ بدلنا ہے،میں نے کسی بھی وقت قیادت چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا، ناکامی پر سب کو دکھ تھا، صرف ایک اہم سیشن میں میچ ہاتھ سے نکل گیا، تجربہ کار ٹیم مینجمنٹ حوصلہ دیتی ہے اسی لیے تمام کھلاڑیوں کی توجہ دوسرے ٹیسٹ پر مرکوز ہوگئی تھی۔
انھوں نے اسد شفیق کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میری فارم اچھی نہیں تھی لیکن ایک اننگز کے بعد چیزیں ٹھیک لگنے لگی ہیں۔اسد شفیق نے بھی بہتر آغاز کیے مگر بڑا اسکور نہیں کرسکے، بدقسمتی سے وہ اولڈ ٹریفورڈ میں رن آؤٹ ہوگئے، اسد تجربہ کار بیٹسمین اور انھیں سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے، میڈیا کو بھی چاہیے کہ ماضی قریب میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے، اسد انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں رنز بنا چکے ہیں،ہمیں ان پر پورا بھروسہ ہے،انھیں فارم میں واپسی کیلیے صرف ایک بڑی اننگز درکار ہے۔
اظہرعلی نے کہا کہ بابر اعظم نے بہترین بیٹنگ کی، زیادہ تر وقت کنڈیشنز آسان نہیں تھیں اس کے باوجود وہ پْراعتماد انداز میں کھیلے، بابر ورلڈ کلاس بیٹسمین اور زیادہ تر وقت بولنگ پر حاوی رہے، یقیناً ان کو بھی احساس ہوا ہوگا کہ 60،70 رنز کو سنچری میں تبدیل کیوں نہیں کیا۔
کپتان نے کہا کہ نسیم شاہ نے ٹیلنٹ کی جھلک ضرور دکھائی لیکن بدقسمتی سے توقعات کے مطابق وکٹیں نہ لے سکے، ان کے پاس اسپیڈ ہے لیکن وہ ابھی ناتجربہ کار ہیں، انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ یقین ہے کہ مستقبل میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔
ٹیسٹ کپتان نے کہا کہ ٹیم کا توازن میڈیم پیسر آل راؤنڈر سے قائم ہوتا ہے، فہیم اشرف محنت کررہے ہیں، شاداب خان نے پہلے ٹیسٹ میں بہت عمدہ بیٹنگ کی، انھیں اگلے میچ میں باہر بٹھانا مشکل فیصلہ تھا لیکن کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا پڑا، محمد رضوان کی کارکردگی بہت ہی شاندار رہی،ہم انھیں ایک مکمل بیٹسمین کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ شان مسعود اورعابد علی نے بھی اچھا پرفارم کیا۔
دوسری جانب ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق نے اپنے کالم میں لکھا کہ پہلے ٹیسٹ میں جیت کے اتنے قریب آکر ہارنے پر مایوسی ہوئی، خوش آئند بات یہ ہے کہ کھلاڑی اس مشکل صورتحال سے باہر نکلے،کپتان اظہر علی نے سخت دباؤ میں ایک یادگار اننگز کھیلی اور تیسرا میچ بچانے میں کامیاب ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ سیریز میں نوجوان پیسرز شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو فٹنس اور بولنگ میں بہتری لانے کا موقع ملا،ان سے خامیوں کے بارے میں بات کی ہے، ان کو دور کرنے کیلیے کام کریں گے،کھلاڑیوں کو تحریری پروگرام بھی دیا ہے۔
ساؤتھمپٹن ٹیسٹ اور سیریز کے اختتام پر ویڈیو لنک پرمیڈیاکانفرنس میں ٹیسٹ کپتان اظہرعلی نے کہا کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں سیریز برابر کرنے نہیں بلکہ جیتنے کی سوچ لے کر آئی تھی، مانچسٹر میں ہمیں موقع بھی ملا لیکن ضائع کردیا، شکست کا بہت زیادہ افسوس ہے، جو غلطیاں ہوئیں ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میری تمام تر توجہ سیریز پر رہی، پہلا ٹیسٹ ہارے تو ہر چیز کپتان کے اوپر پڑگئی تھی لیکن اس وقت بھی یہی ذہن میں تھا کہ اپنی اور ٹیم کی پرفارمنس سے سیریز کا نتیجہ بدلنا ہے،میں نے کسی بھی وقت قیادت چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا، ناکامی پر سب کو دکھ تھا، صرف ایک اہم سیشن میں میچ ہاتھ سے نکل گیا، تجربہ کار ٹیم مینجمنٹ حوصلہ دیتی ہے اسی لیے تمام کھلاڑیوں کی توجہ دوسرے ٹیسٹ پر مرکوز ہوگئی تھی۔
انھوں نے اسد شفیق کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میری فارم اچھی نہیں تھی لیکن ایک اننگز کے بعد چیزیں ٹھیک لگنے لگی ہیں۔اسد شفیق نے بھی بہتر آغاز کیے مگر بڑا اسکور نہیں کرسکے، بدقسمتی سے وہ اولڈ ٹریفورڈ میں رن آؤٹ ہوگئے، اسد تجربہ کار بیٹسمین اور انھیں سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے، میڈیا کو بھی چاہیے کہ ماضی قریب میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے، اسد انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں رنز بنا چکے ہیں،ہمیں ان پر پورا بھروسہ ہے،انھیں فارم میں واپسی کیلیے صرف ایک بڑی اننگز درکار ہے۔
اظہرعلی نے کہا کہ بابر اعظم نے بہترین بیٹنگ کی، زیادہ تر وقت کنڈیشنز آسان نہیں تھیں اس کے باوجود وہ پْراعتماد انداز میں کھیلے، بابر ورلڈ کلاس بیٹسمین اور زیادہ تر وقت بولنگ پر حاوی رہے، یقیناً ان کو بھی احساس ہوا ہوگا کہ 60،70 رنز کو سنچری میں تبدیل کیوں نہیں کیا۔
کپتان نے کہا کہ نسیم شاہ نے ٹیلنٹ کی جھلک ضرور دکھائی لیکن بدقسمتی سے توقعات کے مطابق وکٹیں نہ لے سکے، ان کے پاس اسپیڈ ہے لیکن وہ ابھی ناتجربہ کار ہیں، انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ یقین ہے کہ مستقبل میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔
ٹیسٹ کپتان نے کہا کہ ٹیم کا توازن میڈیم پیسر آل راؤنڈر سے قائم ہوتا ہے، فہیم اشرف محنت کررہے ہیں، شاداب خان نے پہلے ٹیسٹ میں بہت عمدہ بیٹنگ کی، انھیں اگلے میچ میں باہر بٹھانا مشکل فیصلہ تھا لیکن کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا پڑا، محمد رضوان کی کارکردگی بہت ہی شاندار رہی،ہم انھیں ایک مکمل بیٹسمین کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ شان مسعود اورعابد علی نے بھی اچھا پرفارم کیا۔
دوسری جانب ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق نے اپنے کالم میں لکھا کہ پہلے ٹیسٹ میں جیت کے اتنے قریب آکر ہارنے پر مایوسی ہوئی، خوش آئند بات یہ ہے کہ کھلاڑی اس مشکل صورتحال سے باہر نکلے،کپتان اظہر علی نے سخت دباؤ میں ایک یادگار اننگز کھیلی اور تیسرا میچ بچانے میں کامیاب ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ سیریز میں نوجوان پیسرز شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو فٹنس اور بولنگ میں بہتری لانے کا موقع ملا،ان سے خامیوں کے بارے میں بات کی ہے، ان کو دور کرنے کیلیے کام کریں گے،کھلاڑیوں کو تحریری پروگرام بھی دیا ہے۔