سائیکل پر محبت کا سفر
محمد علی بخش، سعودی عرب میں پاکستان کی نئی پہچان ہیں جو کہ اہل سندھ کے لیے اعزاز کی بات ہے۔
سندھ نے ہر شعبے میں قابل ترین لوگ پیدا کیے جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی سندھ کا نام روشن کیا ہے۔انہی میں لاڑکانہ کے اسٹیشن روڈ کے ڈری محلے کے رہائشی حاجی محمد علی ججنی بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے پیغام محبت کو نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک سعودی عرب میں عام کیا ہے ۔
آج محمد علی بخش، سعودی عرب میں پاکستان کی نئی پہچان ہیں جو کہ اہل سندھ کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایک پاکستانی نے سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس طرح سے حصہ لیا کہ سعودی عرب کے حکم راں ان کے اس کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔
آیئے آپ کو محمد علی سے ملواتے ہیں۔ محمد علی دراصل جذباتی اور نہایت محبت کرنے والے انسان ہیں، جنہوں نے سعودی عرب میں انسداد دہشت گردی مہم میں امن چاہیے دہشت گردی نہیں کا بینر لے کر ہزاروں کلومیڑ کا سوار اپنی سائیکل پر کر کے اہل سعودی عرب کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ محمد علی سعودی عرب کے تاریخی شہر العلا میں بارہ دسمبر انیس سو ساٹھ کو پیدا ہوئے۔ بعد میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے آبائی گھر آگئے، لیکن 1974کو دوبارہ اپنے دادا کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی تعلیم روشنی اسکول تبوک سے حاصل کی۔ وہ بڑے ہوئے تو ان کے دل میں سائیکل چلانے کا شوق جاگزیں ہوگیا۔ گزراوقات کے لیے وہ تبوک کی مقامی کمپنی میں سیلز مین ہو گئے اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم اور اپنا شوق جاری رکھا۔
سائیکلنگ کے لیے ان کا ذوق و شوق دیکھ کر لوگ انہیں دیوانہ کہہ کر پکارتے، لیکن وہ محض مسکرا کر رہ جاتے۔ یہ وہ وقت تھا جب محمد علی بھی ان ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں میں سے ایک تھے جو بسلسلہ روزگار نہایت عزت و وقار کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم تھے۔ محمد علی کے کفیل بھی ان کی شرافت، دیانت داری اور محنت کے قدر دان ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے اور کئی دہشت گرد پکڑے گئے، جس پر اُس وقت کے وزیرداخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز نے ٹی وی قوم سے خطاب میں انسداد دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کرتے ہوئے نہ صرف عوام کو اس کے خطرات سے آگاہ کیا، بلکہ سعودی عرب میں مقیم ہر شخص کو دعوت دی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں اپنا کردار ادا کرے۔
یہ اعلان سننا تھا کہ محمد علی نے اس مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ سعودی عرب جب یہ جنگ جیتے تو اس میں ان کا نام بھی شامل ہوجائے۔ اُس وقت محمد علی کو نہیں معلوم تھا کہ ان کا یہ فیصلہ نہ صرف سعودی عرب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا، بل کہ وہ پاکستان کے لیے باعث فخر بن جائیں گے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں سائیکل پر حصہ لینے کی ٹھان لی۔
انہوں نے اس بات کا ذکر اپنے کفیل مدنی محمد حسین سلامہ سے کیا تو وہ بہت خوش ہوا، جس کی مشاورت سے جب محمد علی بخش نے اُس وقت کے سعودی گورنر تبوک پرنس فہد بن سلطان بن عبدالعزیز کو اجازت نامے کے لیے درخواست دی تو دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر مسترد ہو گئی، جس پر محمد علی نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے یوتھ ویلفیئر کے سربراہ شہزادہ سلطان بن فہد بن عبدالعزیز کو تار بھیج کر مہم میں سائیکل پر حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کردیا، جس پر انہیں اجازت مل گئی۔ اجازت ملتے ہی محمد علی سائیکل پر سوار ہوکر سعودی عرب کے پانچ ریجنز کے سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی ان کا سفر شروع ہوا تو وزیر داخلہ امیر نائف بن عبدالعزیز نے ایک پاکستانی کے دہشت گردی کے خلاف مہم میں جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں سیکیوریٹی فراہم کر دی، کیوںکہ یہ سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف پہلی باضابطہ عوامی کوشش تھی۔ یوں محمد علی بخش تبوک سے 12مئی 2004 کو اپنی پرانی سائیکل پر روانہ ہوئے۔
ان کا حوصلہ بہت بلند تھا یہ سفر چار ماہ سولہ دن تک جاری رہا جس کے دوران نو ہزار کلو میٹر کا سائیکل پر سفر کرتے ہوئے سعودی عرب کے 35چھوٹے بڑے شہر اور اضلاع جن میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف، دارالحکومت ریاض، دمام، بریدہ، حائل شامل ہیں کا دورہ کیا اور لوگوں میں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سعودی حکومت کے بازو بنیں۔ مدینہ میں گورنر مقرند بن عبدالعزیز نے انہیں اپنے پاس بلوا کر ملاقات کی، جب کہ مکہ مکرمہ میں گورنر عبدالمجید بن عبدالعزیز اور ریاض میں اس وقت کے گورنر اور موجودہ ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز نے محمد علی کو بلوا کر ملاقاتیں کر کے انہیں ان کے جذبے پر بے حد سراہا اور شاباش دی۔ محمد علی کا ہر شہر پہنچنے سے پہلے والہانہ استقبال ہوتا رہا، ریاض میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر نے بھی ان سے ملاقات کی۔ اس پورے سفر کے دوران پورے سعودی عرب میں محمد علی بخش کی وجہ سے تمام پاکستانی کمیونٹی کو سراہا گیا۔ یوں محمد علی بخش، اہل پاکستان کے لیے قابل فخر بن گئے۔
ان کے اس سفر نے انہیں سعودی عرب میں ایک نئی شناخت دے دی۔ 2005 میں جب یہ خبریں عام ہوئیں کہ خلیجی ممالک میں منشیات کی لت، کسی وبا کی طرح پھیل رہی ہے تو محمد علی بخش نے منشیات کے خلاف سائیکل جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں محمد علی بخش نے اپنی سائیکل کو لیا اور اس پر سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے پرچم لگائے اور ریاض سے اپنا سفر شروع کردیا۔ ایک ماہ اور سترہ دن تک کے اس طویل سفر میں انھوں نے پانچ ہزار کلومیٹر سفر کرتے ہوئے ابوظبی، دبئی، العین، شارجہ، عجمان اور راس خیمہ جاکر اپنا سفر ختم کیا۔
اس دوران انھوں نے لوگوں کے دل جیتے، وہیں ابوظبی میں سعودی عرب کے سفیر عبداﷲ بن عبدالعزیز نے ان کی دعوت کی اور ان کی ملاقات دیگر ممالک کے سفیروں سے کراتے ہوئے انہیں پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ قابل فخر اثاثہ بھی قرار دیا، لیکن محمد علی بخش کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا، کیوںکہ جب محمد علی بخش نے پاکستان جا کر اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا فیصلہ کیا تو ملک میں اس وقت خوف ناک زلزلہ آ چکا تھا اور لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنے اور شدید متاثر ہوئے تھے۔
محمد علی بخش نے متاثرین کی مدد کے لیے فنڈ ریزنگ کا فیصلہ کیا جو کہ سعودی عرب میں اس طرح ممنوع ہے جس طرح محمد علی کرنا چاہ رہے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے جب گورنر تبوک فہد بن سلطان سے اجازت مانگی تو گورنر تبوک نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ ایک پاکستانی ان کے ملک میں فلاح و بہبود کے لیے اپنی خدمات انجام دے گا۔ محمد علی نے نہایت مختصر سے عرصے میں پاکستانی کمیونٹی سے پچاس ہزار ریال اور دو ٹرالر سامان جمع کیا اور اسے سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفیر کے حوالے کیا۔
پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سعودی عوام اظہار یک جہتی کے لیے محمد علی بخش فوراً ہی پاکستان پہنچ گئے اور اپنے آبائی شہر لاڑکانہ سے متاثرین کے لیے امداد جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے بعد شکارپور، سکھر، جیک آباد، صادق آباد، رحیم یار خان، اوچ شریف، ملتان، ہڑپہ، فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، جہلم، راولپنڈی، اسلام آباد کے راستے ہوتے ہوئے کوہ مری کے ذریعے مظفر آباد پہنچے۔ اس سفر میں ان کا ساتھ ان کے بھائی نے دیا۔ دونوں بھائیوں نے سولہ سو کلومیٹر کا سفر پندرہ دن میں مکمل کیا۔ 2007 میں اردن اور شام میں جب حالات خراب ہونے لگے تو ایک بار پھر محمد علی بخش تڑپ اٹھے اور امن کا پیغام اور سفید پرچم لے کر ان دونوں بردار اسلامی ممالک کی طرف سائیکل پر عازمِ سفر ہوئے۔ اس بار سفر کا آغاز تبوک سے ہوا جس کے دوران وہ دمشق، ساسہ، گیندا، اردن، عمان، امان سے ہوتے ہوئے عریت پہنچے۔ یوں اب تک یہ مایہ ناز پاکستانی سپوت اپنی سائیکل پر بیس ہزار کلومیڑ تک کے سفر کر چکا ہے۔
ان میں سے ہر سفر کا کوئی نہ کوئی اصلاحی مقصد تھا۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف نکلے تو پھر متحدہ عرب امارات میں منشیات کے خلاف سائیکل کا پہیا گھمایا، پاکستان میں زلزلے کے متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے سائیکل چلائی تو برادر ممالک میں امن کا پیغام لے کر گئے ۔ ایسے میں 2010 میں سعودی عرب کے ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز سخت بیمار ہونے کے بعد صحت یاب ہوئے تو اس خوشی میں محمد علی بخش نے پاکستان سے سعودی عرب تک موٹر سائیکل پر سفر کرنے کی ٹھان لی۔ اس سفر کے دوران وہ لاڑکانہ سے نکلتے اور ایران، ترکی، شام، اردن، عراق سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچ کر تبوک میں اپنا سفر ختم کرتے، لیکن بدقسمتی سے اسی دوران ان کے والد کا انتقال ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ یہ سفر نہ کرسکے، لیکن ابھی یہ خواہش ہے کہ کوئی اسپانسر ملے تو وہ پاکستان سعودی عرب میں پائے دار دوستی کے لیے موٹر سائیکل پر اپنا سفر مکمل کریں۔ محمد علی تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے والد ہیں، جب کہ انھوں نے ایک سال پہلے ہی سعودی شہری لطیفہ سلم الزویت سے دوسری شادی کی ہے جو ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں۔ اگر کوئی محمد علی بخش کو جانتا نہ ہو تو وہ محمد علی کو پہچان نہیں سکتا کہ وہ پاکستانی ہیں، انہیں عربی پر اس قدر عبور حاصل ہے کہ سعودی شہری انہیں تبوک کے کسی قبیلے کا فرد سمجھتے ہیں، کیوںکہ ان کا لہجہ ٹھیٹھ بدوی ہو گیا ہے۔
محمد علی بزلہ سنج شخصیت کے مالک ہیں۔ لطیف انداز میں مذاق کرنا اور اس پر دیر تک ہنستے اور ہنساتے رہنا ان کی عادات ہے، جب کہ تصاویر کھینچنا اور کھنچوانا ان کا تیسرا شوق ہے، پہلا شوق سائیکلنگ ہے جس سے ان کو عشق ہے، دوسرا شوق فٹ بال ہے جو کہ عربوں کا پسندیدہ کھیل بھی ہے۔ وہ اپنے موبائل کے ذریعے تصویریں بناکر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ خریداری کرنے جائیں تو دکان دار کے ساتھ ضرور تصاویر بنواتے ہیں اور دکان دار انہیں ان کی عربی زبان پر دسترس، سعودی عرب کے بارے میں معلومات اور شاہی خاندان کے افراد سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ محمد علی کا ایک اور شوق ہے جو ان کے تمام مشاغل سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ کہ وہ سعودی عرب میں پریشان حال پاکستانیوں کی مدد کرنے کو اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھتے ہیں۔
وہ مستقبل میں ایسا کام کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان سے حجاز مقدس آنے والوں کو کبھی کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس کا حل نکال سکیں۔ انھوں نے اب تک ایسے افراد، جو سعودی عرب عمرہ ویزہ پر جاکر وہیں رک جاتے ہیں اور پھر طویل عرصے تک چھپ کر نوکری کرتے ہیں، کی بڑی تعداد کو پیار محبت سے قائل کر کے واپس بھیجا کہ وہ قانونی طریقے سے واپس سعودی عرب آئیں اور اپنی حرکتوں کی وجہ سے برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں پاکستان کی بے عزتی کا سبب نہ بنیں۔
محمد علی عربی اور سندھی کے ساتھ اردو اور پنجابی پر بھی دسترس رکھتے ہیں، بلکہ عربی بھی وہ دو لہجوں شہری و بدوی میں بولتے ہیں۔ محمد علی کو اپنے بچوں سے بہت پیار ہے اور سائیکلنگ کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب اب دنیا کے آٹھ ممالک میں پھیل چکا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ عمرہ و حج کے لیے آنے والوں کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو بھی ایک بار محمد علی بخش سے مل لے ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ وہ سندھ کی روایت کے مطابق سعودی عرب آنے والوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ ان کے قریبی دوستوں میں محرم جنجی، منیر سومرو، دیدار، میر سومرو اور دیگر شامل ہیں، جن کی اکثریت مدینہ منورہ میں مقیم ہے اور وہاں وہ عازمین کی خدمت کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
محمد علی بخش، کا نام اور شخصیت آج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کا نام ان ممالک میں روشن کرنے والے اس شخص کو آج تک اپنے ہی ملک اور صوبے میں کسی اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں مکمل اعزاز کے ساتھ بلوایا جاتا اور انہیں مثالی کارکردگی اور پاکستان کا نام روشن کرنے پر تمغہ دیا جاتا، لیکن یہاں سیاسی بنیادوں پر تو تمغات کی بارش کر دی جاتی ہے اور اصل حق دار محروم رہ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں محمد علی بخش کا کہنا ہے کہ انھوں نے اب تک جتنی بھی سائیکلنگ کی ہے وہ کسی اعزاز، تمغے یا مفادات کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ نہایت نیک نیتی سے کی ہے اور سعودی عرب میں انہیں اس کا ان کی توقع سے بڑھ کر صلہ ملا ہے۔ محمد علی کی خدمات اس بات کی مستحق ہیں کہ حکومت پاکستان، حکومت سندھ یا پھر گورنر سندھ انھیں کسی اعزاز سے نوازیں، یہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی اعزاز ہو گا۔
آج محمد علی بخش، سعودی عرب میں پاکستان کی نئی پہچان ہیں جو کہ اہل سندھ کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایک پاکستانی نے سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس طرح سے حصہ لیا کہ سعودی عرب کے حکم راں ان کے اس کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔
آیئے آپ کو محمد علی سے ملواتے ہیں۔ محمد علی دراصل جذباتی اور نہایت محبت کرنے والے انسان ہیں، جنہوں نے سعودی عرب میں انسداد دہشت گردی مہم میں امن چاہیے دہشت گردی نہیں کا بینر لے کر ہزاروں کلومیڑ کا سوار اپنی سائیکل پر کر کے اہل سعودی عرب کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ محمد علی سعودی عرب کے تاریخی شہر العلا میں بارہ دسمبر انیس سو ساٹھ کو پیدا ہوئے۔ بعد میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے آبائی گھر آگئے، لیکن 1974کو دوبارہ اپنے دادا کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی تعلیم روشنی اسکول تبوک سے حاصل کی۔ وہ بڑے ہوئے تو ان کے دل میں سائیکل چلانے کا شوق جاگزیں ہوگیا۔ گزراوقات کے لیے وہ تبوک کی مقامی کمپنی میں سیلز مین ہو گئے اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم اور اپنا شوق جاری رکھا۔
سائیکلنگ کے لیے ان کا ذوق و شوق دیکھ کر لوگ انہیں دیوانہ کہہ کر پکارتے، لیکن وہ محض مسکرا کر رہ جاتے۔ یہ وہ وقت تھا جب محمد علی بھی ان ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں میں سے ایک تھے جو بسلسلہ روزگار نہایت عزت و وقار کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم تھے۔ محمد علی کے کفیل بھی ان کی شرافت، دیانت داری اور محنت کے قدر دان ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے اور کئی دہشت گرد پکڑے گئے، جس پر اُس وقت کے وزیرداخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز نے ٹی وی قوم سے خطاب میں انسداد دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کرتے ہوئے نہ صرف عوام کو اس کے خطرات سے آگاہ کیا، بلکہ سعودی عرب میں مقیم ہر شخص کو دعوت دی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں اپنا کردار ادا کرے۔
یہ اعلان سننا تھا کہ محمد علی نے اس مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ سعودی عرب جب یہ جنگ جیتے تو اس میں ان کا نام بھی شامل ہوجائے۔ اُس وقت محمد علی کو نہیں معلوم تھا کہ ان کا یہ فیصلہ نہ صرف سعودی عرب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا، بل کہ وہ پاکستان کے لیے باعث فخر بن جائیں گے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں سائیکل پر حصہ لینے کی ٹھان لی۔
انہوں نے اس بات کا ذکر اپنے کفیل مدنی محمد حسین سلامہ سے کیا تو وہ بہت خوش ہوا، جس کی مشاورت سے جب محمد علی بخش نے اُس وقت کے سعودی گورنر تبوک پرنس فہد بن سلطان بن عبدالعزیز کو اجازت نامے کے لیے درخواست دی تو دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر مسترد ہو گئی، جس پر محمد علی نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے یوتھ ویلفیئر کے سربراہ شہزادہ سلطان بن فہد بن عبدالعزیز کو تار بھیج کر مہم میں سائیکل پر حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کردیا، جس پر انہیں اجازت مل گئی۔ اجازت ملتے ہی محمد علی سائیکل پر سوار ہوکر سعودی عرب کے پانچ ریجنز کے سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی ان کا سفر شروع ہوا تو وزیر داخلہ امیر نائف بن عبدالعزیز نے ایک پاکستانی کے دہشت گردی کے خلاف مہم میں جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں سیکیوریٹی فراہم کر دی، کیوںکہ یہ سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف پہلی باضابطہ عوامی کوشش تھی۔ یوں محمد علی بخش تبوک سے 12مئی 2004 کو اپنی پرانی سائیکل پر روانہ ہوئے۔
ان کا حوصلہ بہت بلند تھا یہ سفر چار ماہ سولہ دن تک جاری رہا جس کے دوران نو ہزار کلو میٹر کا سائیکل پر سفر کرتے ہوئے سعودی عرب کے 35چھوٹے بڑے شہر اور اضلاع جن میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف، دارالحکومت ریاض، دمام، بریدہ، حائل شامل ہیں کا دورہ کیا اور لوگوں میں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سعودی حکومت کے بازو بنیں۔ مدینہ میں گورنر مقرند بن عبدالعزیز نے انہیں اپنے پاس بلوا کر ملاقات کی، جب کہ مکہ مکرمہ میں گورنر عبدالمجید بن عبدالعزیز اور ریاض میں اس وقت کے گورنر اور موجودہ ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز نے محمد علی کو بلوا کر ملاقاتیں کر کے انہیں ان کے جذبے پر بے حد سراہا اور شاباش دی۔ محمد علی کا ہر شہر پہنچنے سے پہلے والہانہ استقبال ہوتا رہا، ریاض میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر نے بھی ان سے ملاقات کی۔ اس پورے سفر کے دوران پورے سعودی عرب میں محمد علی بخش کی وجہ سے تمام پاکستانی کمیونٹی کو سراہا گیا۔ یوں محمد علی بخش، اہل پاکستان کے لیے قابل فخر بن گئے۔
ان کے اس سفر نے انہیں سعودی عرب میں ایک نئی شناخت دے دی۔ 2005 میں جب یہ خبریں عام ہوئیں کہ خلیجی ممالک میں منشیات کی لت، کسی وبا کی طرح پھیل رہی ہے تو محمد علی بخش نے منشیات کے خلاف سائیکل جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں محمد علی بخش نے اپنی سائیکل کو لیا اور اس پر سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے پرچم لگائے اور ریاض سے اپنا سفر شروع کردیا۔ ایک ماہ اور سترہ دن تک کے اس طویل سفر میں انھوں نے پانچ ہزار کلومیٹر سفر کرتے ہوئے ابوظبی، دبئی، العین، شارجہ، عجمان اور راس خیمہ جاکر اپنا سفر ختم کیا۔
اس دوران انھوں نے لوگوں کے دل جیتے، وہیں ابوظبی میں سعودی عرب کے سفیر عبداﷲ بن عبدالعزیز نے ان کی دعوت کی اور ان کی ملاقات دیگر ممالک کے سفیروں سے کراتے ہوئے انہیں پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ قابل فخر اثاثہ بھی قرار دیا، لیکن محمد علی بخش کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا، کیوںکہ جب محمد علی بخش نے پاکستان جا کر اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا فیصلہ کیا تو ملک میں اس وقت خوف ناک زلزلہ آ چکا تھا اور لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنے اور شدید متاثر ہوئے تھے۔
محمد علی بخش نے متاثرین کی مدد کے لیے فنڈ ریزنگ کا فیصلہ کیا جو کہ سعودی عرب میں اس طرح ممنوع ہے جس طرح محمد علی کرنا چاہ رہے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے جب گورنر تبوک فہد بن سلطان سے اجازت مانگی تو گورنر تبوک نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ ایک پاکستانی ان کے ملک میں فلاح و بہبود کے لیے اپنی خدمات انجام دے گا۔ محمد علی نے نہایت مختصر سے عرصے میں پاکستانی کمیونٹی سے پچاس ہزار ریال اور دو ٹرالر سامان جمع کیا اور اسے سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفیر کے حوالے کیا۔
پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سعودی عوام اظہار یک جہتی کے لیے محمد علی بخش فوراً ہی پاکستان پہنچ گئے اور اپنے آبائی شہر لاڑکانہ سے متاثرین کے لیے امداد جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے بعد شکارپور، سکھر، جیک آباد، صادق آباد، رحیم یار خان، اوچ شریف، ملتان، ہڑپہ، فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، جہلم، راولپنڈی، اسلام آباد کے راستے ہوتے ہوئے کوہ مری کے ذریعے مظفر آباد پہنچے۔ اس سفر میں ان کا ساتھ ان کے بھائی نے دیا۔ دونوں بھائیوں نے سولہ سو کلومیٹر کا سفر پندرہ دن میں مکمل کیا۔ 2007 میں اردن اور شام میں جب حالات خراب ہونے لگے تو ایک بار پھر محمد علی بخش تڑپ اٹھے اور امن کا پیغام اور سفید پرچم لے کر ان دونوں بردار اسلامی ممالک کی طرف سائیکل پر عازمِ سفر ہوئے۔ اس بار سفر کا آغاز تبوک سے ہوا جس کے دوران وہ دمشق، ساسہ، گیندا، اردن، عمان، امان سے ہوتے ہوئے عریت پہنچے۔ یوں اب تک یہ مایہ ناز پاکستانی سپوت اپنی سائیکل پر بیس ہزار کلومیڑ تک کے سفر کر چکا ہے۔
ان میں سے ہر سفر کا کوئی نہ کوئی اصلاحی مقصد تھا۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف نکلے تو پھر متحدہ عرب امارات میں منشیات کے خلاف سائیکل کا پہیا گھمایا، پاکستان میں زلزلے کے متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے سائیکل چلائی تو برادر ممالک میں امن کا پیغام لے کر گئے ۔ ایسے میں 2010 میں سعودی عرب کے ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز سخت بیمار ہونے کے بعد صحت یاب ہوئے تو اس خوشی میں محمد علی بخش نے پاکستان سے سعودی عرب تک موٹر سائیکل پر سفر کرنے کی ٹھان لی۔ اس سفر کے دوران وہ لاڑکانہ سے نکلتے اور ایران، ترکی، شام، اردن، عراق سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچ کر تبوک میں اپنا سفر ختم کرتے، لیکن بدقسمتی سے اسی دوران ان کے والد کا انتقال ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ یہ سفر نہ کرسکے، لیکن ابھی یہ خواہش ہے کہ کوئی اسپانسر ملے تو وہ پاکستان سعودی عرب میں پائے دار دوستی کے لیے موٹر سائیکل پر اپنا سفر مکمل کریں۔ محمد علی تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے والد ہیں، جب کہ انھوں نے ایک سال پہلے ہی سعودی شہری لطیفہ سلم الزویت سے دوسری شادی کی ہے جو ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں۔ اگر کوئی محمد علی بخش کو جانتا نہ ہو تو وہ محمد علی کو پہچان نہیں سکتا کہ وہ پاکستانی ہیں، انہیں عربی پر اس قدر عبور حاصل ہے کہ سعودی شہری انہیں تبوک کے کسی قبیلے کا فرد سمجھتے ہیں، کیوںکہ ان کا لہجہ ٹھیٹھ بدوی ہو گیا ہے۔
محمد علی بزلہ سنج شخصیت کے مالک ہیں۔ لطیف انداز میں مذاق کرنا اور اس پر دیر تک ہنستے اور ہنساتے رہنا ان کی عادات ہے، جب کہ تصاویر کھینچنا اور کھنچوانا ان کا تیسرا شوق ہے، پہلا شوق سائیکلنگ ہے جس سے ان کو عشق ہے، دوسرا شوق فٹ بال ہے جو کہ عربوں کا پسندیدہ کھیل بھی ہے۔ وہ اپنے موبائل کے ذریعے تصویریں بناکر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ خریداری کرنے جائیں تو دکان دار کے ساتھ ضرور تصاویر بنواتے ہیں اور دکان دار انہیں ان کی عربی زبان پر دسترس، سعودی عرب کے بارے میں معلومات اور شاہی خاندان کے افراد سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ محمد علی کا ایک اور شوق ہے جو ان کے تمام مشاغل سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ کہ وہ سعودی عرب میں پریشان حال پاکستانیوں کی مدد کرنے کو اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھتے ہیں۔
وہ مستقبل میں ایسا کام کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان سے حجاز مقدس آنے والوں کو کبھی کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس کا حل نکال سکیں۔ انھوں نے اب تک ایسے افراد، جو سعودی عرب عمرہ ویزہ پر جاکر وہیں رک جاتے ہیں اور پھر طویل عرصے تک چھپ کر نوکری کرتے ہیں، کی بڑی تعداد کو پیار محبت سے قائل کر کے واپس بھیجا کہ وہ قانونی طریقے سے واپس سعودی عرب آئیں اور اپنی حرکتوں کی وجہ سے برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں پاکستان کی بے عزتی کا سبب نہ بنیں۔
محمد علی عربی اور سندھی کے ساتھ اردو اور پنجابی پر بھی دسترس رکھتے ہیں، بلکہ عربی بھی وہ دو لہجوں شہری و بدوی میں بولتے ہیں۔ محمد علی کو اپنے بچوں سے بہت پیار ہے اور سائیکلنگ کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب اب دنیا کے آٹھ ممالک میں پھیل چکا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ عمرہ و حج کے لیے آنے والوں کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو بھی ایک بار محمد علی بخش سے مل لے ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ وہ سندھ کی روایت کے مطابق سعودی عرب آنے والوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ ان کے قریبی دوستوں میں محرم جنجی، منیر سومرو، دیدار، میر سومرو اور دیگر شامل ہیں، جن کی اکثریت مدینہ منورہ میں مقیم ہے اور وہاں وہ عازمین کی خدمت کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
محمد علی بخش، کا نام اور شخصیت آج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کا نام ان ممالک میں روشن کرنے والے اس شخص کو آج تک اپنے ہی ملک اور صوبے میں کسی اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں مکمل اعزاز کے ساتھ بلوایا جاتا اور انہیں مثالی کارکردگی اور پاکستان کا نام روشن کرنے پر تمغہ دیا جاتا، لیکن یہاں سیاسی بنیادوں پر تو تمغات کی بارش کر دی جاتی ہے اور اصل حق دار محروم رہ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں محمد علی بخش کا کہنا ہے کہ انھوں نے اب تک جتنی بھی سائیکلنگ کی ہے وہ کسی اعزاز، تمغے یا مفادات کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ نہایت نیک نیتی سے کی ہے اور سعودی عرب میں انہیں اس کا ان کی توقع سے بڑھ کر صلہ ملا ہے۔ محمد علی کی خدمات اس بات کی مستحق ہیں کہ حکومت پاکستان، حکومت سندھ یا پھر گورنر سندھ انھیں کسی اعزاز سے نوازیں، یہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی اعزاز ہو گا۔