پاک سرزمین میں بنت حوا کی حرمت

دوسروں کے حق کےلیے لڑنے والے کو اگر اس طرح نشانِ عبرت بنایا جاسکتا ہے تو پھر عام آدمی کی کیا اوقات ہے؟

اگر ایک قانون دان ہی اس ملک میں محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ چار برسوں سے سال کے یہ دن ہمیشہ سے میرے لیے گزارنا مشکل ہوتے ہیں۔ مجھے بارش کے بعد لاہور اپنے گھر کے لان میں اکلوتے آم کے درخت کے نیچے بیٹھ کر فیملی کے ساتھ سہ پہر کی چائے پینا یاد آتا ہے۔ مظفرگڑھ، بہاولپور کے باغات سے آئے تازہ آموں سے لطف اندوز ہونا یاد آتا ہے اور شام میں بچوں کے ساتھ بارش سے بھیگی لاہور کی سڑکوں اور فوڈ اسٹریٹس پر وقت گزارنا یاد آتا ہے۔

یہاں پردیس میں اول تو بارشیں ہوتی نہیں، اگر اِکا دُکا ہوتی ہیں تو وہ ایسی بے رنگ اور بے مزہ ہوتی ہیں کہ نہ پوچھئے۔ جتنے مرضی مہنگے داموں درجہ اول آم خرید لو لیکن وہ اپنے تازہ رسیلے میٹھے آموں کا عشر عشیر بھی نہیں کہلا سکتے۔ کہنے کو دبئی رنگوں، روشنیوں اور بلند عمارتوں کا شہر ہے، لیکن کورونا نے ساری رونقیں ماند کر ڈالیں۔ اگر کبھی تقریبات میں ہم وطنوں سے یا ہم خیال لوگوں سے ملنا ملانا ہو بھی تو ہر کوئی ڈرا ڈرا سہما سہما سا ایک میٹر دور سے ہی گفتگو میں شریک ہوتا ہے۔ اور پھر اگر دل ہی ہمارے میلوں دور ہوں تو یہ زمینی دوریاں ہوں یا نہ ہوں، کیا فرق پڑتا ہے۔

آج کا دن بھی ایک ایسا ہی اداس کردینے والا دن تھا جب میں نے ٹوئٹر وال کھولی تو اسکرول کرتے ہوئے ایک انتہائی تکلیف دہ بلکہ دہشت ناک ویڈیو نے میری توجہ کھینچ لی۔

ویڈیو ایک خاتون کی تھی جسے 14 اگست، جب ہم سب آزادی کا جشن منا رہے تھے، دن دہاڑے زبردستی اس کے دفتر سے اغوا کیا گیا اور مسلسل ایک ہفتہ دورانِ قید بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جسے بعد ازاں دیپالپور کی ایک تحصیل میلسی کے کھیتوں سے پولیس نے بازیاب کروایا۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن میں نے اس ویڈیو کو تکلیف دہ اور دہشت ناک کیوں کہا؟

اس خاتون کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ جب اسے بازیاب کروایا گیا تو اس کے منہ میں بھی ایک رسی سختی سے باندھی گئی تھی، جسے جب کھولا گیا تو دہشت زدہ آنکھوں سے لاشعوری طور پر کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آئی۔ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ یہ سمجھنے کےلیے میں نے بار بار ویڈیو کو دیکھا تو پتا چلا کہ اس نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں شاید دو ہی جملے بولے۔ ایک یہ کہ میں وکیل ہوں اور دوسرا میرے سر پر دوپٹہ اوڑھا دیں۔

جی ہاں خواتین و حضرات! یہ کھلا ظلم اور ناانصافی ایک ایسی خاتون کے ساتھ تھی جو دوسروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کےلیے ریاست کی طرف سے لائسنس یافتہ ہے۔ جو دوسروں کو انصاف دلانے کےلیے کورٹ کچہری کی تنگ و تاریک اور پان کی پیک زدہ سگریٹ کے دھوئیں میں اٹی راہداریوں میں روز اپنی جوتیاں چٹخاتی ہے۔

کہتے ہیں آنکھیں دماغ کی کھڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس خاتون کی آنکھوں میں جو دہشت، جو خوف، جو ڈر تھا، وہ ابھی تک میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ نجانے اس پر کیا کچھ بیتی ہوگی۔

اگر ایک وکیل، ایک قانون دان اس ملک میں محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہے؟

دوسروں کے حق کےلیے لڑنے والے کو اگر اس طرح نشانِ عبرت بنایا جاسکتا ہے تو پھر عام آدمی کی کیا اوقات ہے؟


اور پھر ایک عورت، جس کے قدموں تلے جنت ہے، جو ایک ماں بھی ہے، ایک بیٹی بھی، ایک بیوی اور اس ملک کی آزاد شہری بھی۔

کیا ہمیں اپنی بیٹیوں کو اسکول، کالج، یونیورسٹی نہیں بھیجنا چاہیے؟

اس مہنگائی اور مشکل حالات میں اگر وہ گھر کا بوجھ کم کرنے کےلیے مجبوراً باہر نوکری کےلیے نکلیں تو ہمیں نہیں بھیجنا چاہیے کہ باہر شاید درندے کھلے عام پھر رہے ہیں؟

مجھے بتائیے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کون سے والدین اپنی بیٹیوں کو وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں گے؟

لکھنے کو بہت کچھ ہے، لیکن آخر میں کچھ سال پہلے سیالکوٹ کے دو معصوم بھائیوں منیب اور مغیث کےلیے لکھی گئی اپنی نظم کی آخری کچھ سطریں یاد آرہی ہیں، وہ لکھ رہی ہوں۔

اُن درندوں کا کچھ پتا کیجیے
اُن کی روحیں تلک سسکتی رہیں
اُنہیں ایسی کڑی سزا دیجیے
یا پھر انصاف کی کتابوں سے
لفظ انسانیت
مٹا دیجیے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story