کراچی کی اہم شاہراہیں تاحال زیر آب آئی آئی چندریگر اور ڈیفنس سے پانی نکالا نہ جاسکا
شہر میں تاحال کئی علاقے بجلی سے محروم، مواصلاتی نظام بھی بحال نہیں ہوسکا
ISLAMABAD:
کراچی کی اہم شاہراہوں سمیت متعدد علاقوں سے تین روز بعد بھی بارش کا پانی نہیں نکالا جاسکا، ملکی معاشی شہ رگ آئی آئی چندریگر روڈ، پوش علاقہ ڈیفنس سمیت کئی علاقے اور سڑکیں انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت بن گئیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شہر قائد میں ریکارڈ توڑ بارش اپنے پیچھے بربادی کی داستانیں چھوڑ گئی، تین روز گزرنے کے باوجود متعدد علاقوں سے پانی کی نکاسی نہ ہوسکی اور معمولات زندگی بحال نہ ہوسکے، شہر کے نشیبی علاقے بدستور زیر آب ہیں، اولڈ سٹی ایریا کے تجارتی مراکز میں پانی جمع ہونے سے بھاری مالیت کا تجارتی سامان خراب ہوگیا، اہم شاہراہیں بدستور زیر آب ہیں اور انڈر پاسز میں پانی جمع ہے جن سڑکوں سے پانی اتر گیا وہاں گہرے گڑھے پڑ چکے ہیں اور بیشتر سڑکیں کھنڈر ہوچکی ہیں۔
بارش کی تباہ کاریوں اور بلدیاتی اداروں کی غفلت کا شکار شہری گھروں میں پانی و بجلی کے بغیر محصور ہو کر رہ گئے۔ شہر میں نکاسی آب کے نظام کے نقائص وقت پر دور نہ کیے جانے سے شہریوں کی اذیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
شہری آبادیوں کے ساتھ قبرستانوں میں بھی پانی جمع ہوگیا، گذری کے قبرستان میں متعدد قبریں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے منہدم ہوگئیں۔ مسیحی افراد کے لی مختص گورا قبرستان میں بھی بارش کا پانی جمع ہوگیا۔
حکومت کی غفلت اور شہر کے مسائل پر سیاست نے شہریوں کو کہیں کا نہ چھوڑا، پانی جمع ہونے، بجلی کی بندش اور گھروں میں پانی داخل ہونے والے مسائل نے نشیبی اور کچی آبادیوں کے ساتھ شہر کے پوش علاقوں کو بھی یکساں متاثر کردیا اس طرح سرجانی کی غریب آبادی سے لے کر ڈیفنس کی پوش آبادی تک کے مکین ایک جیسی صورتحال کا شکار ہوگئے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حب کو لاوارث اور ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والے شہر کے مکینوں کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ کراچی میں دو روز بعد بھی کئی علاقوں سے پانی کی نکاسی کا کام نہیں شروع ہوسکا۔
پوش علاقے بھی نہ بچے، ڈیفنس دریا کا منظر پیش کرنے لگا
ڈیفنس کے متعدد علاقے اور شاہراہوں پر برساتی پانی جمع ہے۔ بارش رکے دو روز گزرگئے لیکن کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے برساتی پانی کے نکاس کا کام مکمل نہ ہوسکا۔ فیز فور اور فیز سکس کے متعدد علاقوں میں پانی کا راج ہے۔ علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی گھروں سے نکال لیا لیکن سڑکوں سے نکاسی نہ ہوسکی۔
ڈیفنس میں پانی کی بھی قلت
ڈیفنس کے مکینوں کو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے گھروں میں محصور پوش علاقے کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں انڈر گراؤنڈ ٹینکوں میں بارش اور سیوریج کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی قابل استعمال نہیں رہا۔ سڑکیں اور راستے زیر آب آنے کی وجہ سے ٹینکر سروس بھی معطل ہوگئی اور پانی سپلائی کرنے والوں نے ڈیفنس میں آنے سے انکار کردیا ہے۔
ڈیفنس کے علاقوں خیابان نشاط، بدر، محافظ، شہباز میں عوام بے یار و مددگار گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے، بجلی، پانی، گیس اور موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے عوام الناس کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ڈیفنس و دیگر کئی علاقوں کے مکین مکمل طور پر بے بس ہوکر رہ گئے ہیں۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی مکینوں کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن عوام کی مدد اور ریلیف مہیا کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا، گھروں میں محصور لوگوں کی فوری مدد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ہل پارک انڈر پاس، پنجاب چورنگی، ناظم آباد انڈر پاس، کے پی ٹی انڈر پاس بدستور زیر آب ہیں۔
ملکی معاشی شہ رگ آئی آئی چندریگر سڑک غرق
اسی طرح پاکستان کی معاشی شہ رگ آئی آئی چندریگر روڈ بھی بدستور پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مالیاتی اداروں اسٹیٹ بینک، پولیس ہیڈ آفس، نیشنل بینک ہیڈ آفس کے سامنے پانی جمع ہے۔ کھارادر، میٹھا در کی آبادیاں ڈھائی سے تین فٹ پانی میں گھری ہوئی ہیں، کھارادر کے علاقے میں تجارتی مراکز بھی پانی میں ڈوب گئے بجلی کے ساتھ گیس کی لائنوں میں بھی پانی بھر گیا ہے۔ بارش کا پانی ٹاور پر جمع ہے، دو سے ڈھائی فٹ پانی میں جمع ہونے سے بندرگاہ تک جانے کا راستہ بھی مسدود ہوگیا ہے۔
اولڈ سٹی ایریاز زیر آب
پاکستان چوک، برنس روڈ سمیت اولڈ سٹی ایریاز کے مکین بھی بجلی کی طویل بندش اور پانی کی نکاسی نہ ہونے پر سراپا احتجاج رہے۔ دیگر علاقوں کی طرح شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گلشن احمد میں بھی تباہی مچائی، آبادی سے بارش کا پانی تو نکل گیا لیکن انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور گلشن حمد میں سوریج کا نظام اور تمام بورنگ بیٹھ گئیں۔
اسکیم 33 ڈوب گئی
اسکیم 33 کے مختلف علاقوں بشمول کنیز فاطمہ سوسائٹی، ٹیچرز سوسائٹی، میمن نگر، مشرق سوسائٹی اور گرد و نواح کے مقامات سے نکاسی آب کا ابھی تک اہتمام نہیں کیا جاسکا،جمع شدہ پانی کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ چار سے ساڑھے چار فٹ تک جمع ہونے والے پانی کی وجہ سے سخت پریشانی کے شکاراہل علاقہ انتظامیہ کی جانب سے امداد کے منتظر ہیں تاہم ابھی تک کوئی شنوائی کرنے والا نہیں آیا۔
مذکورہ علاقوں میں 20 گھنٹے سے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جبکہ پینے کا پانی بھی میسر نہیں نہیں، سیلابی ریلے کی وجہ سے آنے والے پانی نے بہت زیادہ تباہی مچائی گھروں میں داخل ہونے والے پانی کی وجہ سے لوگوں کی قیمتی اشیاء پانی میں ڈوب گئی، لوگوں کو لاکھوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، جمع ہونے والے برساتی پانی میں میں گٹر کا کا پانی بھی شامل ہونے کی وجہ سے علاقے میں سخت تعفن بھی پھیل رہا ہے، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ کی جانب سے بروقت نکاسی آب کا اہتمام نہ کیا گیا تو مختلف قسم کے وبائی امراض پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ دور دور تک کہیں بھی نظر نہیں آرہی اپنی مدد آپ کے تحت اپنی حفاظت کرنے کے انتظامات کر رہے ہیں جبکہ منتخب نمائندوں کا بھی نام و نشان نہیں ہیں
ایدھی فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر بھی زیر آب
بارش کے سبب ایدھی فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر بھی زیر آب آگیا جس کی وجہ سے ایدھی کو ریسکیو سروس میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ٹاور کے فٹ پاتھ پر فرشی دفتر بنا کر ریسکیو سروس جاری رکھی ہوئی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان سعد ایدھی نے بتایا کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا ٹاور پر واقع مرکزی دفتر بارش کے پانی میں ڈوب گیا ہے دفتر میں تین فٹ پانی اب بھی جمع ہے جس کی وجہ سے تمام دفتری سامان ڈوب چکا ہے اور کمیونی کیشن کا نظام بھی خراب ہوگیا ہے مجبوراً فٹ پاتھ سے کام شروع کردیا ہے۔
کراچی کی اہم شاہراہوں سمیت متعدد علاقوں سے تین روز بعد بھی بارش کا پانی نہیں نکالا جاسکا، ملکی معاشی شہ رگ آئی آئی چندریگر روڈ، پوش علاقہ ڈیفنس سمیت کئی علاقے اور سڑکیں انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت بن گئیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شہر قائد میں ریکارڈ توڑ بارش اپنے پیچھے بربادی کی داستانیں چھوڑ گئی، تین روز گزرنے کے باوجود متعدد علاقوں سے پانی کی نکاسی نہ ہوسکی اور معمولات زندگی بحال نہ ہوسکے، شہر کے نشیبی علاقے بدستور زیر آب ہیں، اولڈ سٹی ایریا کے تجارتی مراکز میں پانی جمع ہونے سے بھاری مالیت کا تجارتی سامان خراب ہوگیا، اہم شاہراہیں بدستور زیر آب ہیں اور انڈر پاسز میں پانی جمع ہے جن سڑکوں سے پانی اتر گیا وہاں گہرے گڑھے پڑ چکے ہیں اور بیشتر سڑکیں کھنڈر ہوچکی ہیں۔
بارش کی تباہ کاریوں اور بلدیاتی اداروں کی غفلت کا شکار شہری گھروں میں پانی و بجلی کے بغیر محصور ہو کر رہ گئے۔ شہر میں نکاسی آب کے نظام کے نقائص وقت پر دور نہ کیے جانے سے شہریوں کی اذیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
شہری آبادیوں کے ساتھ قبرستانوں میں بھی پانی جمع ہوگیا، گذری کے قبرستان میں متعدد قبریں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے منہدم ہوگئیں۔ مسیحی افراد کے لی مختص گورا قبرستان میں بھی بارش کا پانی جمع ہوگیا۔
حکومت کی غفلت اور شہر کے مسائل پر سیاست نے شہریوں کو کہیں کا نہ چھوڑا، پانی جمع ہونے، بجلی کی بندش اور گھروں میں پانی داخل ہونے والے مسائل نے نشیبی اور کچی آبادیوں کے ساتھ شہر کے پوش علاقوں کو بھی یکساں متاثر کردیا اس طرح سرجانی کی غریب آبادی سے لے کر ڈیفنس کی پوش آبادی تک کے مکین ایک جیسی صورتحال کا شکار ہوگئے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حب کو لاوارث اور ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والے شہر کے مکینوں کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ کراچی میں دو روز بعد بھی کئی علاقوں سے پانی کی نکاسی کا کام نہیں شروع ہوسکا۔
پوش علاقے بھی نہ بچے، ڈیفنس دریا کا منظر پیش کرنے لگا
ڈیفنس کے متعدد علاقے اور شاہراہوں پر برساتی پانی جمع ہے۔ بارش رکے دو روز گزرگئے لیکن کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے برساتی پانی کے نکاس کا کام مکمل نہ ہوسکا۔ فیز فور اور فیز سکس کے متعدد علاقوں میں پانی کا راج ہے۔ علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی گھروں سے نکال لیا لیکن سڑکوں سے نکاسی نہ ہوسکی۔
ڈیفنس میں پانی کی بھی قلت
ڈیفنس کے مکینوں کو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے گھروں میں محصور پوش علاقے کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں انڈر گراؤنڈ ٹینکوں میں بارش اور سیوریج کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی قابل استعمال نہیں رہا۔ سڑکیں اور راستے زیر آب آنے کی وجہ سے ٹینکر سروس بھی معطل ہوگئی اور پانی سپلائی کرنے والوں نے ڈیفنس میں آنے سے انکار کردیا ہے۔
ڈیفنس کے علاقوں خیابان نشاط، بدر، محافظ، شہباز میں عوام بے یار و مددگار گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے، بجلی، پانی، گیس اور موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے عوام الناس کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ڈیفنس و دیگر کئی علاقوں کے مکین مکمل طور پر بے بس ہوکر رہ گئے ہیں۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی مکینوں کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن عوام کی مدد اور ریلیف مہیا کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا، گھروں میں محصور لوگوں کی فوری مدد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ہل پارک انڈر پاس، پنجاب چورنگی، ناظم آباد انڈر پاس، کے پی ٹی انڈر پاس بدستور زیر آب ہیں۔
ملکی معاشی شہ رگ آئی آئی چندریگر سڑک غرق
اسی طرح پاکستان کی معاشی شہ رگ آئی آئی چندریگر روڈ بھی بدستور پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مالیاتی اداروں اسٹیٹ بینک، پولیس ہیڈ آفس، نیشنل بینک ہیڈ آفس کے سامنے پانی جمع ہے۔ کھارادر، میٹھا در کی آبادیاں ڈھائی سے تین فٹ پانی میں گھری ہوئی ہیں، کھارادر کے علاقے میں تجارتی مراکز بھی پانی میں ڈوب گئے بجلی کے ساتھ گیس کی لائنوں میں بھی پانی بھر گیا ہے۔ بارش کا پانی ٹاور پر جمع ہے، دو سے ڈھائی فٹ پانی میں جمع ہونے سے بندرگاہ تک جانے کا راستہ بھی مسدود ہوگیا ہے۔
اولڈ سٹی ایریاز زیر آب
پاکستان چوک، برنس روڈ سمیت اولڈ سٹی ایریاز کے مکین بھی بجلی کی طویل بندش اور پانی کی نکاسی نہ ہونے پر سراپا احتجاج رہے۔ دیگر علاقوں کی طرح شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گلشن احمد میں بھی تباہی مچائی، آبادی سے بارش کا پانی تو نکل گیا لیکن انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور گلشن حمد میں سوریج کا نظام اور تمام بورنگ بیٹھ گئیں۔
اسکیم 33 ڈوب گئی
اسکیم 33 کے مختلف علاقوں بشمول کنیز فاطمہ سوسائٹی، ٹیچرز سوسائٹی، میمن نگر، مشرق سوسائٹی اور گرد و نواح کے مقامات سے نکاسی آب کا ابھی تک اہتمام نہیں کیا جاسکا،جمع شدہ پانی کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ چار سے ساڑھے چار فٹ تک جمع ہونے والے پانی کی وجہ سے سخت پریشانی کے شکاراہل علاقہ انتظامیہ کی جانب سے امداد کے منتظر ہیں تاہم ابھی تک کوئی شنوائی کرنے والا نہیں آیا۔
مذکورہ علاقوں میں 20 گھنٹے سے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جبکہ پینے کا پانی بھی میسر نہیں نہیں، سیلابی ریلے کی وجہ سے آنے والے پانی نے بہت زیادہ تباہی مچائی گھروں میں داخل ہونے والے پانی کی وجہ سے لوگوں کی قیمتی اشیاء پانی میں ڈوب گئی، لوگوں کو لاکھوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، جمع ہونے والے برساتی پانی میں میں گٹر کا کا پانی بھی شامل ہونے کی وجہ سے علاقے میں سخت تعفن بھی پھیل رہا ہے، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ کی جانب سے بروقت نکاسی آب کا اہتمام نہ کیا گیا تو مختلف قسم کے وبائی امراض پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ دور دور تک کہیں بھی نظر نہیں آرہی اپنی مدد آپ کے تحت اپنی حفاظت کرنے کے انتظامات کر رہے ہیں جبکہ منتخب نمائندوں کا بھی نام و نشان نہیں ہیں
ایدھی فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر بھی زیر آب
بارش کے سبب ایدھی فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر بھی زیر آب آگیا جس کی وجہ سے ایدھی کو ریسکیو سروس میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ٹاور کے فٹ پاتھ پر فرشی دفتر بنا کر ریسکیو سروس جاری رکھی ہوئی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان سعد ایدھی نے بتایا کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا ٹاور پر واقع مرکزی دفتر بارش کے پانی میں ڈوب گیا ہے دفتر میں تین فٹ پانی اب بھی جمع ہے جس کی وجہ سے تمام دفتری سامان ڈوب چکا ہے اور کمیونی کیشن کا نظام بھی خراب ہوگیا ہے مجبوراً فٹ پاتھ سے کام شروع کردیا ہے۔