تاریخ اپنا قرض اتارتی ہے
رنگ، نسل، مذہب، ملک،صنف، قومیت یا زبان کی بنیاد پر جس کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی ہے اس کو انصاف ملناچاہیے۔
کافی دنوں بعد ایک اچھی خبر یہ ملی ہے کہ برطانیہ کے کرنسی نوٹوں اور سکوں پر اب غیر سفید فام شخصیات کے چہروں کو پیش کرنے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔
اب تک صرف سفید فام برطانوی شخصیات کی خدمات کا اعتراف اس انداز سے کیا جاتا تھا۔ خاصے طویل عرصے سے برطانیہ میں یہ مہم چل رہی ہے کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں رنگ دار اور نسلی طور پر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذا ان کے چہروں کو بھی کرنسی نوٹوں اور سکوں پر نمایاں کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس مقصد کے لیے کئی نام زیر غور ہیں جن میں ایک رنگدار اور مخلوط نسل کی نرس میری سیکول اور نور عنایت خان کے نام نمایاں ہیں۔ نور عنایت خان میرے پسندیدہ کرداروں میں شامل ہے، اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ پہلے میری سیکول کے بارے میں کچھ بات ہوجائے ۔
سیکول کی والدہ کا تعلق جمیکا سے تھا۔ وہ کاروباری خاتون اور جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والی ''ڈاکٹر'' تھیں۔ ان کے والد سفید فام تھے جن کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا، وہ برطانوی فوج میں لیفٹیننٹ تھے۔ ان کی والدہ جمیکا کے شہر کنگسٹن میں ایک ہوٹل چلاتی تھیں جو اس شہر کا بہترین ہوٹل تھا۔ میری سیکول نے نرسنگ کی مہارت حاصل کی۔
جمیکا جزائر غرب الہند کا ایک جزیرہ ہے۔ ان جزائر کے راستے برطانیہ کی ایک تہائی بیرونی تجارت ہوا کرتی تھی لہٰذا وہاں برطانیہ کی بھاری فوجی موجودگی تھی۔ اس خطے کی آب و ہوا برطانوی فوجیوں کو راس نہیں آتی تھی اور ان کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجایا کرتی تھی۔ سیکول اور ان کی والدہ دیسی طریقوں سے انگریز فوجیوں کا علاج کرتی تھیںجن میں سے کافی مریض شفایاب ہوجاتے تھے۔ چونکہ میری سیکول ایک آزاد سیاہ فام ماں اور سفید فام والد کی بیٹی تھیں اس لیے انھیں اچھی تعلیم کے مواقع ملے۔
1944 اور 1946 کے دوسال سیکول پر بڑے بھاری گزے۔ پہلے ان کی والدہ اور پھر شوہر دنیا سے چل بسے اور ان کا خاندانی ہوٹل آتشزدگی میں تباہ ہوگیا۔ یہ ان کی زندگی کے بدترین دن تھے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب کریمیا کی خوفناک جنگ شروع ہوئی تو انھوںنے زخمیوں کی مدد کے لیے نرسنگ کے شعبے میں شامل ہونے کی درخواست دی لیکن ان کے رنگ دار ہونے کی وجہ سے انھیں فوجی نرسوں کے اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا، میری سیکول کو اس امتیازی برتائو سے بہت تکلیف ہوئی۔
انھوں نے ذاتی طور پر خود لندن سے کریمیا کے محاذ جنگ پر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ زخمیوں کا علاج اور انھیں کھانا فراہم کرسکیں۔ وہ اپنا سارا اثاثہ بیچ کر ایک اسٹیمر میں سوار ہوئیں اور بحر اسود کی اس بندرگاہ والے شہر پہنچ گئیں جس پر قبضے کے لیے روس اوراس کے مخالف اتحادی ملکوں، برطانیہ، فرانس اور ترکی کے درمیان خونی جنگ جاری تھی۔ اس جنگ میں دو لاکھ لوگ مارے گئے اور اسے تاریخ کی پہلی جدید جنگ کہا جاتا ہے۔
میری سیکول نے عمارتوں کے ملبوں سے چیزیں تلاش کرکے ایک ٹوٹا پھوٹا ہوٹل بنایا جس کا نام برٹش ہوٹل رکھا۔ یہاں زخمیوں کے رہنے کے لیے چند کمرے بھی بنائے گئے تھے۔ میری سیکول ہوٹل میں برطانوی اور اتحادی فوجیوں کو کھانا کھلاتیں۔ دستی چولہا اور کیتلی لے کر زخمیوں کے کیمپوں میں جاتیں، انھیں چائے پلاتیں، دم توڑتے فوجیوں سے سرہانے کھڑے ہوکر دعائیہ کلمات ادا کرتیں، مرنے کے بعد ان کی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کرتیں۔
اس جنگ میں روس کو شکست ہوئی، جنگ کا خاتمہ ہوا، تو میری سیکول کا ہوٹل بھی بند ہوگیا۔ وہ مقروض ہوگئیں اور قرض خواہ ان کے تعاقب میں تھے۔ قصہ مختصر وہ واپس جمیکا آگئیں، برطانیہ میں لوگوں نے ان کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا، وہ واپس لندن آئیں، اپنا قرض اتارا، زندگی کے بقیہ دن گزار کر 1805میں کنگسٹن میں پیدا ہونے والی میری سیکول 75 برس کی عمر پاکر لندن میں 1881میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ موت کے بعد ان کو وہ پذیرائی نہ ملی جس کی وہ حق دار تھیں لیکن ان کے چاہنے والوں نے انھیں یاد رکھا، برطانیہ کی 100 عظیم ترین خواتین کی فہرست میں ان کا نام شامل ہوگیا۔
میری سیکول کے بعد نور عنایت خان کا نام ان رنگ دار برطانوی شخصیات میں شامل ہے جن کے چہرے کو سکوں اور نوٹوں پر پیش کرنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے۔ نورالنساء کے والد عنایت خان کی والدہ ٹیپو سلطان کی سگڑ نواسی تھیں۔ عنایت خان نے تصوف کی راہ اختیار کی ان کے مرید اس وقت بھی یورپ، امریکا حتیٰ کہ روس میں بھی موجود ہیں۔
انھوں نے ایک امریکی خاتون سے شادی کی تھی۔ روس میں بالشویک انقلاب کے آنے میں محض تین برس تھے جب عنایت اللہ خان اور ان کی بیگم زار روس اور زارینہ کے مہمان تھے۔ ان کی بیٹی نور النساء ماسکو میں یکم جنوری 1914 کو پیدا ہوئی۔ روس سے یہ خاندان لندن گیا جہاں سے یہ تینوں افراد پیرس پہنچ کر وہیں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔ تاریخ کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے ، وہ لوگوں کی زندگی سے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد صوفی عنایت کو اپنے وطن کی یاد ستانے لگی۔ وہ ہندوستان آئے لیکن چند مہینوں بعد ہی اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے بچے فرانس میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1940 میں جرمن فوجیں فرانس میں داخل ہوئیں' پیرس پر نازیوں کا قبضہ ہوا تو نور اور اس کے بھائی ولایت خان نے طے کیا کہ وہ قابض فوجوں کے خلاف کام کریں گے۔
نور نے انگلینڈ کا رخ کیا اور وہاںWAAF (ویمن آکزیلری ائیرفورس) میں شامل ہو گئی جہاں اس نے سگنلز اور وائرلیس کی تربیت حاصل کی۔ وہ فرانسیسی اور انگریزی دونوں پر یکساں عبور رکھتی تھی وائرلیس میں اپنی اعلیٰ مہارت کی وجہ سے 1942 میں اسے سیکرٹ سروس میں بھرتی کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی لیومارکس کا کہنا تھا کہ وہ بہ یک وقت چھ ریڈیو آپریٹروں کاکام کرتی تھی اور اپنے کام میں اس کی مہارت بے مثال تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ WAAF میں کمیشن لینے کے لیے برطانوی افسران کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوئی تو یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ اس نے برطانوی افسران سے کہا کہ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہوسکتا ہے کہ وہ ہندوستان چلی جائے اور وہاں برطانیہ کے خلاف ہونے والی جدوجہد آزادی میں شریک ہوجائے۔ اس کا یہ بیان سن کر برطانوی افسران حیران ہوئے تھے ۔
پیرس کو نازی افواج سے آزاد کرانے کے لیے نور عنایت لندن سے آکر لڑ رہی تھی' لیکن اسی پیرس کی ایک عورت نے غداری کی' نور عنایت خان پکڑی گئی اور گسٹاپو نے اس پر تشدد کی انتہا کردی۔ وہ ایک عقوبت خانے سے دوسرے عقوبت خانے میں لے جائی گئی' آخر کار وہ جرمنی بھیج دی گئی۔ وہاں بھی اس کے زنداں بدلتے رہے لیکن عقوبت میں کمی نہ آئی' آخر کار 1944 میں وہ داخائو کنسنٹریشن کیمپ میں گولی مار کر ہلاک کی گئی۔
ہم اس کا نام بھی نہیں جانتے تھے' یہ کمال شربنی باسو کا ہے، وہ نور النساء عنایت خان کی تلاش میں نکلیں اور اس پر ایک تفصیلی کتاب تحریر کی۔ یہ تاریخ کا مذاق ہے کہ ٹیپو شہید کی سگڑپوتی نے دوسری جنگ عظیم میں پیرس کی آزادی کے لیے برطانوی خفیہ محکمے کے لیے کام کیا' نازیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور بدترین عقوبتوں کے بعد ختم ہوئی۔
بعد از مرگ برطانیہ نے اسے جارج کراس اور فرانس نے اسے کووادی گیر (طلائی ستارے کے ساتھ) دیا دونوں بڑے فوجی اعزاز ہیں۔شربنی کا کہنا ہے کہ لندن کے امپیریل وار میوزیم میں صرف دو برطانوی فوجی خواتین کی تصویر لگی ہوئی ہے جنھیں ان کی جنگی خدمات کے اعتراف میں جارج کراس دیا گیاتھا۔ جب کہ نور عنایت خان تیسری تھی جسے جارج کراس دیا گیا، لیکن اس کی تصویر امپیریل وار میوزیم میںموجود نہیں۔
آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کی کایا پلٹ کردی ہے۔ معلومات اور علم کی رسائی عام لوگوں تک ہورہی ہے اور بہت سے وہ کردار جنھیں دانستہ طور پر نظر انداز کردیا گیا تھا، اب لوگوں کی نظروں میں آکر جائز مقام پارہے ہیں۔ میری سیکول اور نور النساء عنایت خان کو بھی اب جائز مقام ملنے والا ہے۔ وہ تمام برطانوی جو دانستہ طور پر فراموش کردہ تاریخ کے عظیم کرداروں کو ان کا مقام دلانے کی مہم چلا رہے ہیں، وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہیں۔
رنگ، نسل، مذہب، ملک،صنف، قومیت یا زبان کی بنیاد پر جس کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی ہے اس کو انصاف ملناچاہیے۔ پاکستان میں بھی وہ وقت ضرور آئے گا جب ہماری تاریخ کی ان شخصیات کو جائز مقام دلوایا جائے گا جنھیں دانستہ طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ تاریخ اپنا قرض ضرور اتارتی ہے۔
اب تک صرف سفید فام برطانوی شخصیات کی خدمات کا اعتراف اس انداز سے کیا جاتا تھا۔ خاصے طویل عرصے سے برطانیہ میں یہ مہم چل رہی ہے کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں رنگ دار اور نسلی طور پر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذا ان کے چہروں کو بھی کرنسی نوٹوں اور سکوں پر نمایاں کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس مقصد کے لیے کئی نام زیر غور ہیں جن میں ایک رنگدار اور مخلوط نسل کی نرس میری سیکول اور نور عنایت خان کے نام نمایاں ہیں۔ نور عنایت خان میرے پسندیدہ کرداروں میں شامل ہے، اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ پہلے میری سیکول کے بارے میں کچھ بات ہوجائے ۔
سیکول کی والدہ کا تعلق جمیکا سے تھا۔ وہ کاروباری خاتون اور جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والی ''ڈاکٹر'' تھیں۔ ان کے والد سفید فام تھے جن کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا، وہ برطانوی فوج میں لیفٹیننٹ تھے۔ ان کی والدہ جمیکا کے شہر کنگسٹن میں ایک ہوٹل چلاتی تھیں جو اس شہر کا بہترین ہوٹل تھا۔ میری سیکول نے نرسنگ کی مہارت حاصل کی۔
جمیکا جزائر غرب الہند کا ایک جزیرہ ہے۔ ان جزائر کے راستے برطانیہ کی ایک تہائی بیرونی تجارت ہوا کرتی تھی لہٰذا وہاں برطانیہ کی بھاری فوجی موجودگی تھی۔ اس خطے کی آب و ہوا برطانوی فوجیوں کو راس نہیں آتی تھی اور ان کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجایا کرتی تھی۔ سیکول اور ان کی والدہ دیسی طریقوں سے انگریز فوجیوں کا علاج کرتی تھیںجن میں سے کافی مریض شفایاب ہوجاتے تھے۔ چونکہ میری سیکول ایک آزاد سیاہ فام ماں اور سفید فام والد کی بیٹی تھیں اس لیے انھیں اچھی تعلیم کے مواقع ملے۔
1944 اور 1946 کے دوسال سیکول پر بڑے بھاری گزے۔ پہلے ان کی والدہ اور پھر شوہر دنیا سے چل بسے اور ان کا خاندانی ہوٹل آتشزدگی میں تباہ ہوگیا۔ یہ ان کی زندگی کے بدترین دن تھے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب کریمیا کی خوفناک جنگ شروع ہوئی تو انھوںنے زخمیوں کی مدد کے لیے نرسنگ کے شعبے میں شامل ہونے کی درخواست دی لیکن ان کے رنگ دار ہونے کی وجہ سے انھیں فوجی نرسوں کے اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا، میری سیکول کو اس امتیازی برتائو سے بہت تکلیف ہوئی۔
انھوں نے ذاتی طور پر خود لندن سے کریمیا کے محاذ جنگ پر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ زخمیوں کا علاج اور انھیں کھانا فراہم کرسکیں۔ وہ اپنا سارا اثاثہ بیچ کر ایک اسٹیمر میں سوار ہوئیں اور بحر اسود کی اس بندرگاہ والے شہر پہنچ گئیں جس پر قبضے کے لیے روس اوراس کے مخالف اتحادی ملکوں، برطانیہ، فرانس اور ترکی کے درمیان خونی جنگ جاری تھی۔ اس جنگ میں دو لاکھ لوگ مارے گئے اور اسے تاریخ کی پہلی جدید جنگ کہا جاتا ہے۔
میری سیکول نے عمارتوں کے ملبوں سے چیزیں تلاش کرکے ایک ٹوٹا پھوٹا ہوٹل بنایا جس کا نام برٹش ہوٹل رکھا۔ یہاں زخمیوں کے رہنے کے لیے چند کمرے بھی بنائے گئے تھے۔ میری سیکول ہوٹل میں برطانوی اور اتحادی فوجیوں کو کھانا کھلاتیں۔ دستی چولہا اور کیتلی لے کر زخمیوں کے کیمپوں میں جاتیں، انھیں چائے پلاتیں، دم توڑتے فوجیوں سے سرہانے کھڑے ہوکر دعائیہ کلمات ادا کرتیں، مرنے کے بعد ان کی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کرتیں۔
اس جنگ میں روس کو شکست ہوئی، جنگ کا خاتمہ ہوا، تو میری سیکول کا ہوٹل بھی بند ہوگیا۔ وہ مقروض ہوگئیں اور قرض خواہ ان کے تعاقب میں تھے۔ قصہ مختصر وہ واپس جمیکا آگئیں، برطانیہ میں لوگوں نے ان کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا، وہ واپس لندن آئیں، اپنا قرض اتارا، زندگی کے بقیہ دن گزار کر 1805میں کنگسٹن میں پیدا ہونے والی میری سیکول 75 برس کی عمر پاکر لندن میں 1881میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ موت کے بعد ان کو وہ پذیرائی نہ ملی جس کی وہ حق دار تھیں لیکن ان کے چاہنے والوں نے انھیں یاد رکھا، برطانیہ کی 100 عظیم ترین خواتین کی فہرست میں ان کا نام شامل ہوگیا۔
میری سیکول کے بعد نور عنایت خان کا نام ان رنگ دار برطانوی شخصیات میں شامل ہے جن کے چہرے کو سکوں اور نوٹوں پر پیش کرنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے۔ نورالنساء کے والد عنایت خان کی والدہ ٹیپو سلطان کی سگڑ نواسی تھیں۔ عنایت خان نے تصوف کی راہ اختیار کی ان کے مرید اس وقت بھی یورپ، امریکا حتیٰ کہ روس میں بھی موجود ہیں۔
انھوں نے ایک امریکی خاتون سے شادی کی تھی۔ روس میں بالشویک انقلاب کے آنے میں محض تین برس تھے جب عنایت اللہ خان اور ان کی بیگم زار روس اور زارینہ کے مہمان تھے۔ ان کی بیٹی نور النساء ماسکو میں یکم جنوری 1914 کو پیدا ہوئی۔ روس سے یہ خاندان لندن گیا جہاں سے یہ تینوں افراد پیرس پہنچ کر وہیں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔ تاریخ کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے ، وہ لوگوں کی زندگی سے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد صوفی عنایت کو اپنے وطن کی یاد ستانے لگی۔ وہ ہندوستان آئے لیکن چند مہینوں بعد ہی اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے بچے فرانس میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1940 میں جرمن فوجیں فرانس میں داخل ہوئیں' پیرس پر نازیوں کا قبضہ ہوا تو نور اور اس کے بھائی ولایت خان نے طے کیا کہ وہ قابض فوجوں کے خلاف کام کریں گے۔
نور نے انگلینڈ کا رخ کیا اور وہاںWAAF (ویمن آکزیلری ائیرفورس) میں شامل ہو گئی جہاں اس نے سگنلز اور وائرلیس کی تربیت حاصل کی۔ وہ فرانسیسی اور انگریزی دونوں پر یکساں عبور رکھتی تھی وائرلیس میں اپنی اعلیٰ مہارت کی وجہ سے 1942 میں اسے سیکرٹ سروس میں بھرتی کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی لیومارکس کا کہنا تھا کہ وہ بہ یک وقت چھ ریڈیو آپریٹروں کاکام کرتی تھی اور اپنے کام میں اس کی مہارت بے مثال تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ WAAF میں کمیشن لینے کے لیے برطانوی افسران کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوئی تو یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ اس نے برطانوی افسران سے کہا کہ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہوسکتا ہے کہ وہ ہندوستان چلی جائے اور وہاں برطانیہ کے خلاف ہونے والی جدوجہد آزادی میں شریک ہوجائے۔ اس کا یہ بیان سن کر برطانوی افسران حیران ہوئے تھے ۔
پیرس کو نازی افواج سے آزاد کرانے کے لیے نور عنایت لندن سے آکر لڑ رہی تھی' لیکن اسی پیرس کی ایک عورت نے غداری کی' نور عنایت خان پکڑی گئی اور گسٹاپو نے اس پر تشدد کی انتہا کردی۔ وہ ایک عقوبت خانے سے دوسرے عقوبت خانے میں لے جائی گئی' آخر کار وہ جرمنی بھیج دی گئی۔ وہاں بھی اس کے زنداں بدلتے رہے لیکن عقوبت میں کمی نہ آئی' آخر کار 1944 میں وہ داخائو کنسنٹریشن کیمپ میں گولی مار کر ہلاک کی گئی۔
ہم اس کا نام بھی نہیں جانتے تھے' یہ کمال شربنی باسو کا ہے، وہ نور النساء عنایت خان کی تلاش میں نکلیں اور اس پر ایک تفصیلی کتاب تحریر کی۔ یہ تاریخ کا مذاق ہے کہ ٹیپو شہید کی سگڑپوتی نے دوسری جنگ عظیم میں پیرس کی آزادی کے لیے برطانوی خفیہ محکمے کے لیے کام کیا' نازیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور بدترین عقوبتوں کے بعد ختم ہوئی۔
بعد از مرگ برطانیہ نے اسے جارج کراس اور فرانس نے اسے کووادی گیر (طلائی ستارے کے ساتھ) دیا دونوں بڑے فوجی اعزاز ہیں۔شربنی کا کہنا ہے کہ لندن کے امپیریل وار میوزیم میں صرف دو برطانوی فوجی خواتین کی تصویر لگی ہوئی ہے جنھیں ان کی جنگی خدمات کے اعتراف میں جارج کراس دیا گیاتھا۔ جب کہ نور عنایت خان تیسری تھی جسے جارج کراس دیا گیا، لیکن اس کی تصویر امپیریل وار میوزیم میںموجود نہیں۔
آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کی کایا پلٹ کردی ہے۔ معلومات اور علم کی رسائی عام لوگوں تک ہورہی ہے اور بہت سے وہ کردار جنھیں دانستہ طور پر نظر انداز کردیا گیا تھا، اب لوگوں کی نظروں میں آکر جائز مقام پارہے ہیں۔ میری سیکول اور نور النساء عنایت خان کو بھی اب جائز مقام ملنے والا ہے۔ وہ تمام برطانوی جو دانستہ طور پر فراموش کردہ تاریخ کے عظیم کرداروں کو ان کا مقام دلانے کی مہم چلا رہے ہیں، وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہیں۔
رنگ، نسل، مذہب، ملک،صنف، قومیت یا زبان کی بنیاد پر جس کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی ہے اس کو انصاف ملناچاہیے۔ پاکستان میں بھی وہ وقت ضرور آئے گا جب ہماری تاریخ کی ان شخصیات کو جائز مقام دلوایا جائے گا جنھیں دانستہ طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ تاریخ اپنا قرض ضرور اتارتی ہے۔