اُردو کی ماں گوجری

’’بیسویں صدی میں گوجری ادب کا جدید دور شروع ہوا تو اولین نام نون پونچھی کا سامنے آیا

فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر63

اردو، دنیا کی واحد زبان ہے جس کی جنم بھومی، جائے پیدائش یا اصل وطن کے متعلق اہل قلم اور اہل تحقیق میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اردو کہاں پیدا ہوئی، اس بابت متعدد علاقوں کے قدیم واَصیل(Old & genuine) باشندوں کا دعویٰ، ایک مدت سے موضوع ِ تحقیق ہے اور ساتھ ہی یہ بحث بھی تحقیق اور رَدّتحقیق (Counter research)کا مستقل باب ہے کہ درحقیقت یہ زبان کس بڑی یا قدیم زبان کی بیٹی ہے۔

اردو کے مآخذ کے ضمن میں اَب تک جو دعاوی (دعویٰ کی جمع) سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق یہ زبان پنجاب، دہلی و اطراف، دکن (بشمول گجرات و نواحی علاقہ جات)، سندھ اور سرحدی صوبے خیبرپختون خوا میں پیدا ہوئی، جن زبانوں نے اس پر اپنا حق تبنیت (یعنی اس کی ماں ہونے کا حق) جتایا ہے۔

ان میں پنجابی، گجراتی، مراٹھی، سرائیکی، سندھی، دکھنی /دکنی (اردو کی قدیم، مگر زندہ بولی) اور ہندکو شامل ہیں۔ مرحوم پروفیسر خاطر غزنوی نے اپنے اخیر دور ِ حیات میں (یہ 'آخر' نہیں) بیماری سے لڑتے ہوئے ''اردو کا ماخذ: ہندکو'' جیسی کتاب بالتحقیق لکھ کر یہ سلسلہ آگے بڑھایا۔ یہ کتاب بجائے خود بہت اہم ہے۔

یہ الگ بات کہ خاکسار کی معلومات کے مطابق ، شاید ابھی تک کسی بھی ماہر، محقق لسانیات نے اس کا تجزیہ۔یا۔ ردّتحقیق رقم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہاں اپنے قارئین، خصوصاً لسانیات میں دل چسپی لینے والے حضرات سے یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ جب ہم ان تمام دعاوی پر مبنی کتب یکے بعد دیگرے پڑھتے ہیں تو خودبخود مصنف/مؤلف کی تحقیق کے قائل ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیںکہ ہاں لگتا تو یہی ہے کہ اردو اِسی زبان سے نکلی ہے، خواہ وہ پنجابی ہو، سرائیکی ہو، گجراتی ہو ، مراٹھی ہو یا ہندکو...... (سندھی سے اردو کا تعلق یقیناً دیرینہ ہے، مگر ایسا نہیں کہ اسے مادرِاردو ثابت کیا جاسکے)۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان تمام زبانوں (نیز اردو کی ہمشیرہ زبانوں بشمول بنگلہ ، دیگر بنگلہ دیشی زبانوں، پشتو، بلوچی، براہوی اور دیگر پاکستانی علاقائی زبانوں) سے اردو کی نسبت کی حتمی تحقیق اور اس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کرنا کیوں محال ہے کہ یک طرفہ، متفق اعلان کردیا جائے؟ جواب یہ ہے کہ دلائل سبھی کے پاس ہیں اور اچھے خاصے وزنی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی بعید میں علامہ آئی آئی قاضی اور ڈاکٹر سہیل بخاری کی تحقیق (کہ اردو بطور لفظ نہایت قدیم ہے) اور اس پر مستزاد، ماضی قریب میں منظر عام پر آنے والی،]ماہر سنسکرت و ہندی، ادیب و شاعر ِ اردو، ہمارے فاضل فیس بک دوست[ ، ڈاکٹر اَجے مالوی (الہ آباد، ہندوستان)، کی مفصل تحقیق (کہ لفظ اردو، ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتب، ویدوں سے بھی قدیم عہد کی یادگار ہے، یعنی سنسکِرِت سے بھی پہلے کی، ویدک بولیوں میں شامل رہا ہے) نظرانداز کرکے کوئی بھی محقق یہ فیصلہ بہ آسانی نہیں کرسکتا کہ درحقیقت اردو جنوبی ایشیا کے کس حصے کی پیداوار ہے۔

پہلے یہ نکتہ دُہرادوں کہ ڈاکٹر اَجے مالوی کی تحقیق کے مطابق، لفظ اردو کے کثیر مفاہیم کا خلاصہ یوں ہے: معرفت کی زبان، پہچان کی زبان، دل کی زبان، محبت کی زبان..........کثرتِ مقدار/تعداد اور اس سے متعلق دیگر اصطلاحات یعنی انبوہ، ڈھیر، چھاؤنی، لشکر وغیرہ بھی اس میں شامل، مگر، یہ ثانوی درجے پر ہیں۔

(ویدک ادب اور اردواز ڈاکٹراجے مالوی)۔ {ترکی زبان میں یہی لفظ صدیوں کے سفر کے بعد شامل ہوا تو اس کی ایک الگ کہانی شروع ہوگئی جو پچھلے دنوں کسی نے واٹس ایپ پر ارسال کی، نیز ایک ویب سائٹ پر منقول ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ٹوئیٹرپر ایک ترک مؤرخ نے آرمینیہ/آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین، نگورنو قرہ باغ کے قبضے پر مدتوں سے جاری رہنے والے تنازُع کے حوالے سے ایک خبر مع تصویر پیش کی تو معلوم ہواکہ فوج کو 'اردوسو' کہتے ہیں، جبکہ مؤرخ کو 'تاریخ چی' یعنی تاریخ والا }۔ اس اجمال کی تفصیل میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ اردو اس خطے کی واحد زبان ہے جس کی تخم ریزی سے آبیاری اور پھلنے پھولنے تک کا عمل ہزاروں سال پر محیط ہے۔

یہ کہنا آسان، مگر تاریخی لحاظ سے غلط ہے کہ یہ زبان فقط چند سو سال میں، اور وہ بھی، ہنگامی طور پر معرض وجود میں آئی یا اس کی تشکیل کسی (مثلاً متعصب اردودشمن افراد کے بقول فرنگیوں) کے شعوری اقدامات کا نتیجہ تھی۔ اب آتے ہیں اس بات پر کہ جہاں دیگر نے دعویٰ کیا، وہیں گوجر ۔یا۔گْجر بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ درحقیقت اُن کی زبان، گوجری (گُجری نہیں، کہ وہ گوجری عورت کے لیے مخصوص ہے) ہی اردو کی ماں ہے۔

اس بڑے دعوے کا جائزہ لینے کے لیے شاید یہ صفحات کم پڑجائیں، بہرحال ہم اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ دستیاب تحقیقی مواد کا خلاصہ یہ ہے کہ گوجر جو کبھی گُرجر تھے، آریا /آریہ قوم کی سب سے نمایاں شاخ ہیں۔ اشوک ہرسن کی کتاب ''گُرجر: آریا میراث کے امین'' (The Gurjars: Forbearers of the Aryan Legacy by Ashok Harsana ) میں درج عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ سب سے نمایاں آریا تھے اور ان کا یہ قبائلی نام سب سے طاقت ور آریا حکم راں دَش رَت سُوریا وَنش کے لقب 'گُرجر' سے ماخوذ ہے جو کم وبیش دوہزار آٹھ سو سال قبل از مسیح (علیہ السلام) میں ہوگزرا ہے۔

سُوریا وَنش سلطنت کا حکم راں، دَش رَت، مہاتما بُدھ کا باپ تھا، مگر اس کے عرصہ حیات کے بارے میں بہرحال اتفاق رائے نہیں۔پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ''تاریخ گُرجر'' (یعنی گوجر) ]مطبوعہ ۱۹۶۰ء، بازیافت و آن لائن پیشکش: ۲۰۱۵ء ، مِن جانب گوجر ڈیجیٹل لائبریری، گوجر فاؤنڈیشن پاکستان[، کے مؤرخ، ''مؤرخ ِ گوجراں''، رانا علی حسن چوہان کی تحقیق کے مطابق، آریا (بشمول مہاتما بدھ) توحید پرست تھے ]یہ وہ نکتہ ہے جس کی تصدیق خاکسار اپنے ایک روحانی عامل دوست سے بھی متعدد بار کراچکا ہے[، نیز اُن کے یہاں تعددِازواج (یعنی کئی شادیاں کرنا) اور گوشت خوری عام تھی۔ ]خاکسار کے پاس اس نکتے کی سند میں ایک قدیم کتاب بعنوان ''کُفرتوڑ''، مصنفہ غازی محمود دھرم پال، بی۔اے، لدھیانہ، پنجاب، مطبوعہ ۱۹۲۳ء موجود ہے جو ہندوستان کے قدیم مذہب کی سچی تصویر پیش کرتی ہے۔

مصنف اسلام قبول کرنے سے پہلے ہندو پنڈت اور پھر ایک زمانے میں آریہ سماجی رہنما تھے[۔ (یہ الگ بات ہے کہ تاریخ، عُمرانیات، بشریات اور لسانیات کی مختلف کتب میں آریا اور دراوڑ دونوں کے مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق بہت کچھ اختلافی مواد موجود ہے)۔

اسی مؤرخ کی تحقیق کے مطابق آریا کے معنی 'شریف اور نیکوکار'' ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دیوتا اصل میں خاکی انسان تھے جو خدارسیدہ تھے۔ اُن کے الفاظ یہ ہیں: ''آریوں (نہ کہ آریاؤں) میں ملکی انتظام ہر بستی کے افراد خود کرتے تھے۔ مجموعی طور سے وہی شخص اعلیٰ ترین سمجھا جاتا تھا جس کے اخلاق وعادات اور علوم وفنون (پردسترس) سب پر حاوی ہوں۔


ایسے اشخاص کو آریہ، راجہ ۔یا۔مہاراجہ نہیں کہتے تھے، بلکہ ایشوریا دیوتا کہتے تھے۔ ایشوریا دیوتا کے معنی 'پاک روح' کے ہیں۔ آج کل جُہَلاء اِس سے مراد مافَوق الفطرت ہستی (Super human being) لیتے ہیں جو صحیح نہیں۔'' جس طرح بعدازآں، پیشوں کی بنیاد پر برادری کی تخصیص کو (غالباًبرہمنوں نے) ذات پات کا درجہ دیا، گائے کو مقدس قراردے کر اس کے ذبیحے پر پابندی عائد کی ، جین مَت کے طفیل تقریباً تمام اقسام کے جانوروں کا گوشت ممنوع قرار پایا، اسی طرح یہ معاملہ بھی ہوگا کہ دیوتا اور اوتار کی اصطلاحات، لوگوں کو معاشرتی اعتبار سے تقسیم کرنے اور اپنا اقتدار مستحکم وپائیدار کرنے کے لیے مختلف معانی میں استعمال کی اور کرائی جانے لگیں۔ ''تاریخ گُرجر'' کے مؤرخ سنسکِرِت سے واقف تھے ، جبھی ایسی باریک بینی سے انکشافات کرنے کے قابل ہوئے۔

راقم کی اس قیاس آرائی کی تصدیق، کتاب ''کُفر توڑ'' سے ہوتی ہے۔ ''مؤرخ ِگوجراں'' کا مؤقف یہ تھا کہ آریا (مغربی مؤرخین کی تحقیق کے برعکس) کہیں باہر سے (بیرونِ ہندسے) ہندوستان میں وارد نہیں ہوئے، بلکہ وہ یہاں کے قدیم باشندے تھے جو شمال میں جھیل مان سرووَر (دریائے سندھ کا منبع) سے لے کر جنوب میں لنکا (سری لنکا) تک، مغرب میں افغانستان تک اور مشرق میں اراکان تک (قدیم مسلم ریاست جسے برمانے ہڑپ کرلیا) پھیلے ہوئے تھے۔

آریا وَرت یعنی آریوں کا علاقہ اس قدر طویل تھا۔ ان کا مذہب بھی ذات پات سے پاک اور اِس کے پیروکار شریف، مہذب اور ماہر علوم وفنون تھے۔ گجر پلیٹ فارم کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آریائی میراث کے حقیقی اور اصل وارث گوجر ہیں اور گوجری زبان ہی دراصل آریائی زبان کی اصل اور حقیقی وارث ہے۔

گوجر قوم کی زبان، گوجری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہند آریائی (Indo-European) زبانوں کے گروہ میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور کبھی خطۂ ہند کے متعدد علاقوں بشمول گجرات، کاٹھیاواڑ، دکن، راجستھان اور گنگا جمنا وغیرہ کے درمیانی علاقوں، پنجاب، سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے شمالی علاقوں، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، ہماچل پردیش، کانگڑہ، آسام میں بولی جاتی تھی، جبکہ یہ زبان افغانستان اور روس کے کچھ علاقوں میں اور چین کے مسلم اکثریتی صوبے شِن جی یانگ (سنکیانگ) میں بھی گوجری بولنے والے موجود ہیں۔

بقول ہمارے فیس بک / واٹس ایپ دوست، فاضل گوجری و اردو شاعر، معلم محترم حق نوازاحمد چودھری کے ''آزاد کشمیر میں عباس پور (موصوف کا اپنا علاقہ)، سہنسہ، نکیال، کوٹلی کے چند مضافات، باغ کے چند نواحات (یعنی چند نواحی علاقے)، حویلی (اکثریت گوجری بشمول پڑھے لکھے، چند کو چھوڑ کر) پھر چکوٹھی، لیپہ، مظفر آباد میں نیاز پورہ، کھاوڑہ، کہوڑی، پٹہکہ، نیلم میں چوگلی، سرگن ساوناڑ۔۔۔۔۔ان علاقوں میں گوجری بولی جاتی ہے مگر ان علاقوں میں (ناصرف) متوسط طبقہ گوجری بولتا ہے بلکہ بازار اور ہسپتال میں بھی۔۔۔۔یہ مشاہدہ ہے۔ مگر ان علاقوں کا پڑھا لکھا طبقہ اسی بیماری کا شکار ہے جو آپ نے ذکر کی۔۔۔استثنا بھی ہے۔

(یعنی خاکسار کے بقول اپنی مادری زبان چھوڑکر، اردو ، انگریزی اور دیسی زبانوں کی کھچڑی بنانا)، ہزارہ ڈویژن، خصوصاً ضلع مانسہرہ، بٹگرام، او ان کے ملحقہ علاقے۔۔۔ سوات کے علاقہ جات، پوشمال اور دیگر، چترال میں دروش اور اس سے ملحق علاقے، گلگت میں گوپس، پھنڈر، نلتر اور چند محدود علاقے۔۔۔۔ان میں گوجری بولی جاتی ہے، بازاروں میں بھی۔۔۔ گوجری بولنے میں سب زیادہ ہزارہ ڈویژن آگے ہے۔

جہاں بازار مساجد اور اجتماعات میں بھی گوجری بولی جاتی ہے۔'' اس سے قطع نظر کہ گوجری بولنے والوں میں اپنی زبان کے احیاء کا جذبہ بیدار ہوچکا ہے اور متعدد تنظیمیں اور چند ویب سائٹس اس ضمن میں سرگرم عمل ہیں، یہ حقیقت بھی لائق توجہ ہے کہ آزاد جموں وکشمیر اور گردونواح میں گوجری باقاعدہ زبان کا درجہ رکھتی ہے، مگر گلگت بلتستان میں گوجری محض بول چال کی حد تک محدود ہے۔

شمالی علاقہ جات کی گوجری میں ایسے سیکڑوں اردو الفاظ بعینہ شامل ہیں: زندگی، گھاس، سڑک، دریا، پہاڑ، ذہن، ہاتھ، گھر، پھل، ناک، دانت، ماں، باپ، نانی، دَری، خیر، کاغذ، طبیعت، نوکری، قسمت، مرضی، جیت، بادشاہ، امانت، شرط، کہانی اور بکری وغیرہ (گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ مع تقابلی لغت از ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، ناشر اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: ۲۰۱۷ء)۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے برعکس، ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ بقول ایک گوجری ادیب کے،''پنجاب (پاکستان) کے (تمام) گوجر تقریباً ایک صدی پہلے گوجری زبان بولتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ زبان پنجابی میں بدل گئی۔

(یعنی پنجابی سے بدل گئی۔ لوگ گوجری چھوڑکر پنجابی بولنے لگے۔ س ا ص)۔ اس کے باوجود پنجاب کے عمررسیدہ لوگ اس زبان کو جانتے ہیں۔'' انھوں نے مزید انکشاف کیا کہ ''شاہانِ گوجر کتاب میں مشہور مؤرخ اور عالِم مولانا عبدالمالک نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مجھے خود بڑے بزرگوں نے یہ بات بتائی کہ پنجاب کے گوجر ہمارے ساتھ گوجری بولا کرتے تھے۔ اس زبان کے ابتدائی دور کا پتہ نہیں ملتا۔ لیکن چودھویں صدی عیسوی میں جنوبی ایشیا کے ممتاز شاعر امیر خسرو نے گوجری میں کچھ شعر لکھے ہیں۔

اسی طرح سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں گوجری نظم میں لکھی ہوئی کئی کتابوں کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔'' امیر خسرو نے کہا تھا: گُجری کہ دَرحُسن ولطافت چومہی/آں دیگِ دہی بَرسرِتوچترشہی/ازہر دولت قندوشکر ریزد/ہرگاہ بگوئی 'دیہی لیو، دیہی'۔ (گوجری ادب کی سنہری تاریخ)۔ کس قدر صاف زبان ہے 'دیہی لیویعنی دہی لو، یا، لے لو'۔ اب آپ اسے گوجری کہیں، قدیم اردو کہیں یا ہندوی، بہرحال اپنے وقت کے عظیم سخنور نے ایک عام گوجری عورت کی شان بیان کرکے لسانیات کا ایک فن پارہ ہمارے لیے چھوڑا۔ امیر خسرو کی ہمہ جہت شخصیت اور ادبی مقام سے متعلق اردو میں تحقیق تشنہ ہے۔

ان سے ماقبل ہندوی (یعنی قدیم اردو) کے اولین صاحب دیوان شاعر مسعود سعد سلمان کے دو میں سے ایک بھی دیوان باقی نہیں، ورنہ ہم اپنی زبان کی قدامت، کوئی ایک ہزار سال قبل، غزنوی عہد میں بہ آسانی ثابت کرسکتے تھے۔ امیرخسرو کے بعد ، شاہ میراں جی، شاہ باجن، جانم چشتی، سنت کبیر اور اَمین گجراتی کے گوجری کلام پر تحقیق ہنو ز تشنہ ہے۔ (یہ تمام اسماء عموماً گجراتی اور قدیم اردو شاعری کے باب میں زیر بحث آتے ہیں۔ اس بابت آگے چل کر بات ہوگی)۔

''بیسویں صدی میں گوجری ادب کا جدید دور شروع ہوا تو اولین نام نون پونچھی کا سامنے آیا، پھر سائیں قادربخش، علم دین بَن باسی، میاں فتح محمد درہالوی، مولانا مہرالدین قمرؔ، میاں نظام الدین لاروی، خدابخش زارؔ اور سَروَری کسانہ نے نمایاں مقام حاصل کیا۔'' یہ عبارت اس ہیچ مدآں اردو قلم کار نے خود، گوجری میں لکھی گئی کتاب ''گوجری ادب کی سنہری تاریخ'' از ڈاکٹر رفیق انجم اعوان، ماہر معالج ِ اطفال، بامِ ثریا چنڈک، پونچھ (مقبوضہ کشمیر)، ناشر جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگوئجز، لال منڈی، سری نگر۔ کشمیر (مقبوضہ) و کنال روڈ، جموں (مقبوضہ)، مطبوعہ ۲۰۰۱ء سے، بغیر کسی کی مدد کے ترجمہ وتلخیص کرکے لکھی ہے۔

اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گوجری، اردو سے کس قدر قریب ہے۔ گوجری کے دیگر مشہور شعرا میں اسرائیل اثر، اقبال عظیم، اسماعیل ذبیح راجوروی، اسرائیل مہجور، رانا فضل حسین (بابائے گوجری)، صابر آفاقی، مخلص وجدانی، غلام یٰسین غلام، غلام احمد رضا اور حق نواز احمد (عرف حق نواز چودھری) بھی شامل ہیں، جن کی نظم ونثر عوام وخواص میں مقبول ہوچکی ہے۔ خاکسار کے کثیرلسانی ادبی جریدے 'ہم رِکاب' [The Fellow Rider] میں بھی مؤخرالذکر اور اُن کے والد ماجد کا گوجری کلام شایع ہوچکا ہے۔

ہندآریائی زبانوں کے تقابل کے بعد مرتب ہونے والی تحقیق کا خلاصہ نکتہ وار پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت تو روزاول سے مُسلّم ہے کہ دنیا کی اکثر زبانوں میں بنیادی الفاظ خصوصاً خونی رشتوں کے لیے مستعمل الفاظ یکساں یا مماثل ہیں۔ گوجری زبان کے ایسے بنیادی الفاظ، حیران کن طور پر اکثر ہندآریائی زبانوں کے ایسے الفاظ سے غیرمعمولی مشابہت کے حامل ہیں۔

گوجری زبان کا قدیم لفظ 'ماتر' بمعنی ماں، لاطینی اطالوی اور ہِسپانوی میں ''مادر''ہوگیا (دال اور رے دونوں ساکن)، یونانی میں مِتیرا، فرینچ میں میغ، چیک اور سلوواک میں ماتکا، سلووینی اور یوکرینی میں ماتی، لیٹوئین میں ماتے، بلغاری، مقدونی، بوسنیئن، سربئین اور کروشیئن میں مائکا، ولندیزی یعنی ڈَچ میں مُودَر، المانوی یعنی جرمن میں مُوٹَر (رے تقریباً معدولہ)، جبکہ انگریزی میں یہ لفظ ''مدر'' بن گیا۔ بیلوروسی میں ماسی، روسی، رومانوی اور پولستانی یعنی پولش میں ماما، ویلش میں مام، باسک میں اَما، کیٹیلن میں مارے، آئرستانی یعنی آئرش میں ماثیر......................یہ فہرست ابھی ناتمام ہے، ایشیائی ودیگر کا نمبر اگلی قسط میں آئے گا۔ (جاری)۔
Load Next Story