زینب الرٹ
اگر یہ ایپ عوام میں مقبول ہوجائے تو پاکستان میں بچوں کے اغوا جیسے گھناؤنے واقعات میں فوری کمی لانا ممکن ہے
پاکستان کے معاشرے کےلیے یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ قصور سے زینب نام کی ایک بچی اغوا ہوئی۔ ماں باپ پاکستان میں نہیں تھے۔ وہ بچی مل نہ سکی۔ اغوا کا مقدمہ درج ہوا اور چند دن کے بعد کچرے کے ڈھیر سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ یہ خبر سوشل میڈیا سے مین اسٹریم میڈیا پر آئی اور اِس نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ پولیس نے سائنسی بنیادوں پر تفتیش شروع کی اور ملزم تک پہنچ گئی۔ جرم ثابت ہوا، کیس عدالت میں گیا اور عدالت نے مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی۔ مجرم کو پھانسی ہوئی۔ ہمیں لگا کہ اب پاکستان میں کوئی بھی کسی بچے یا بچی سے زیادتی نہیں کرے گا۔ اس کو خوف ہوگا کہ میں گرفتار بھی ہوں گا، میرا جرم بھی ثابت ہوگا، میں عدالت میں مجرم ثابت ہوکر پھانسی کے پھندے پر جھول جاؤں گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان میں آج بھی بچوں سے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کے واقعات ہورہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 3 ہزار سے زائد بچے ہر سال پاکستان سے اغوا ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو تاوان لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ کو زیادتی کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔ ہر دو صورت میں اس بچے کے گھر والے اور والدین سولی پر ہی ہوتے ہیں۔ جب زینب کا واقعہ ہوا تو معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے زینب الرٹ کی تجویز پیش کی تھی۔ 18 جنوری 2018 کو اپنے کالم میں انہوں نے ٹیکساس شہر کے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ پاکستان میں بھی ایسا کوئی سسٹم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی بچہ گم ہوجاتا ہے تو فوری طور پر سسٹم کو الرٹ کیا جاسکے۔ ٹیکساس کے اس سسٹم کو اغوا کے بعد قتل ہونے والی بچی امبر کے نام پر 'امبر الرٹ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ زینب کا کیس زبان زد عام تھا، لہٰذا تجویز تھی کہ اس کو زینب الرٹ کا نام دیا جائے۔
اس سلسلے میں چند دن پہلے مجھے میری دفتر کی کولیگ نے ایک ایپ دکھائی۔ یہ ''زینب الرٹ'' ایپ تھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اگر یہ ایپ عوام میں مقبول ہوجائے تو پاکستان میں ایسے گھناؤنے واقعات میں فوری کمی لانا ممکن ہے۔ اس ایپ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو، سی پی ایل سی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل ہے۔ اس کا استعمال پاکستان کے کسی بھی صوبے یا شہر سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے گمشدہ بچے کی رپورٹ باآسانی آن لائن درج کروائی جاسکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تھانے وغیرہ میں رپورٹ درج ہونے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے، اگر اس کو ہی بچا لیا جائے تو بچوں کی تلاش آسان ہوجاتی ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اور معاشرہ ان کی حفاظت کی سو فیصد ذمے داری والدین کے ساتھ ہم لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس ایپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فراہم کردہ تمام تر معلومات کو خفیہ رکھا جائے گا۔ اس ایپ کو کسی بھی فون میں ایپ اسٹور یا گوگل پلے سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ رجسٹریشن اور زبان کے انتخاب کے بعد ایپ میں موجود 12 خدمات آپ کی اسکرین پر ظاہر ہوں گی۔ اس میں فی الحال دو اہم خدمات کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ملے ہوئے بچے کی اطلاع اور لاپتہ بچے کا الرٹ مکمل کام کررہی ہیں، باقی خدمات بھی جلد ہی آن لائن دستیاب ہوں گی۔ رپورٹ درج کروانے کے 3 آسان مراحل ہیں اور اس میں بمشکل چند منٹ صرف ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی خداترس کو کوئی گمشدہ بچہ ملتا ہے تو وہ اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا الرٹ بھی جاری کرسکتا ہے۔ رپورٹ کے اندراج کے بعد قانونی کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کےلیے یہ پہلا قدم ہے۔ میرا دعویٰ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس ایپ سے واقعات بالکل ختم ہوجائیں گے، لیکن اگر اس کا استعمال مقبول عام ہوجاتا ہے تو اطلاعات کی بروقت فراہمی کے باعث بچوں کے اغوا اور قتل کے واقعات میں کمی لانا ممکن ہے۔ میری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ سرکاری سطح پر اس مفت ایپ کی تشہیر کروائے۔ تمام وزرا اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اس ایپ کے بارے میں اور اس کو استعمال کرنے کے بارے میں آگہی فراہم کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کے جگر گوشوں کی حفاظت فرمائیں۔ آمین
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان میں آج بھی بچوں سے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کے واقعات ہورہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 3 ہزار سے زائد بچے ہر سال پاکستان سے اغوا ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو تاوان لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ کو زیادتی کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔ ہر دو صورت میں اس بچے کے گھر والے اور والدین سولی پر ہی ہوتے ہیں۔ جب زینب کا واقعہ ہوا تو معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے زینب الرٹ کی تجویز پیش کی تھی۔ 18 جنوری 2018 کو اپنے کالم میں انہوں نے ٹیکساس شہر کے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ پاکستان میں بھی ایسا کوئی سسٹم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی بچہ گم ہوجاتا ہے تو فوری طور پر سسٹم کو الرٹ کیا جاسکے۔ ٹیکساس کے اس سسٹم کو اغوا کے بعد قتل ہونے والی بچی امبر کے نام پر 'امبر الرٹ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ زینب کا کیس زبان زد عام تھا، لہٰذا تجویز تھی کہ اس کو زینب الرٹ کا نام دیا جائے۔
اس سلسلے میں چند دن پہلے مجھے میری دفتر کی کولیگ نے ایک ایپ دکھائی۔ یہ ''زینب الرٹ'' ایپ تھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اگر یہ ایپ عوام میں مقبول ہوجائے تو پاکستان میں ایسے گھناؤنے واقعات میں فوری کمی لانا ممکن ہے۔ اس ایپ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو، سی پی ایل سی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل ہے۔ اس کا استعمال پاکستان کے کسی بھی صوبے یا شہر سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے گمشدہ بچے کی رپورٹ باآسانی آن لائن درج کروائی جاسکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تھانے وغیرہ میں رپورٹ درج ہونے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے، اگر اس کو ہی بچا لیا جائے تو بچوں کی تلاش آسان ہوجاتی ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اور معاشرہ ان کی حفاظت کی سو فیصد ذمے داری والدین کے ساتھ ہم لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس ایپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فراہم کردہ تمام تر معلومات کو خفیہ رکھا جائے گا۔ اس ایپ کو کسی بھی فون میں ایپ اسٹور یا گوگل پلے سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ رجسٹریشن اور زبان کے انتخاب کے بعد ایپ میں موجود 12 خدمات آپ کی اسکرین پر ظاہر ہوں گی۔ اس میں فی الحال دو اہم خدمات کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ملے ہوئے بچے کی اطلاع اور لاپتہ بچے کا الرٹ مکمل کام کررہی ہیں، باقی خدمات بھی جلد ہی آن لائن دستیاب ہوں گی۔ رپورٹ درج کروانے کے 3 آسان مراحل ہیں اور اس میں بمشکل چند منٹ صرف ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی خداترس کو کوئی گمشدہ بچہ ملتا ہے تو وہ اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا الرٹ بھی جاری کرسکتا ہے۔ رپورٹ کے اندراج کے بعد قانونی کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کےلیے یہ پہلا قدم ہے۔ میرا دعویٰ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس ایپ سے واقعات بالکل ختم ہوجائیں گے، لیکن اگر اس کا استعمال مقبول عام ہوجاتا ہے تو اطلاعات کی بروقت فراہمی کے باعث بچوں کے اغوا اور قتل کے واقعات میں کمی لانا ممکن ہے۔ میری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ سرکاری سطح پر اس مفت ایپ کی تشہیر کروائے۔ تمام وزرا اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اس ایپ کے بارے میں اور اس کو استعمال کرنے کے بارے میں آگہی فراہم کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کے جگر گوشوں کی حفاظت فرمائیں۔ آمین
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔