بلیدہ کے نوجوان اور منشیات کے خلاف جہاد

منشیات کے خاتمے کے ساتھ نشے کے عادی افراد کو نارمل زندگی کی طرف لانا ایک اور چیلنج تھا

بلیدہ اور زعمران کے نوجوانوں نے منشیات کی لعنت کو اپنے علاقے سے ختم کردیا۔ (تصاویر: بلاگر)

اپنی مدد آپ کے تحت بلوچ نوجوانوں کی منشیات کے خلاف جہاد کا ایک روشن باب شہر بلیدہ سے شروع ہوا اور اب یہ دیگر علاقوں تک پھیل رہا ہے۔

بلیدہ، ضلع کیچ کے ضلعی صدر مقام تربت سے 40 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ ایک سرسبز پہاڑی اور میدانی علاقہ ہے۔ بلیدہ اور زعمران کے علاقے ایرانی سرحد سے متصل ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کا زیادہ تر انحصار سرحد سے ہی ہے۔ سڑک کچی اور دشورا گزار ہونے کی وجہ سے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ بلیدہ سے چند کلومیٹر آگے جانے پر زعمران آتا ہے، جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک جنت نظیر علاقہ ہے اور حالیہ بارشوں کے بعد یہ مزید حسین ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت کی کاوش سے تربت سے بلیدہ ایک نئی شاہراہ تکمیل کے مراحل میں ہے جس سے وہاں کے مکینوں کو آسان سفری سہولیات میسر آسکیں گی۔



بلیدہ اور زعمران میں ترقی کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ علاقے میں روزانہ چار سے چھ گھنٹے بمشکل بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ تعلیم اور صحت کا برا حال ہے اور بنیادی انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔

مکران کے دیگر علاقوں کی طرح بلیدہ زعمران میں بھی قبائلی نظام موجود نہیں۔ مگر ماضی میں یہ علاقہ قبائلی نظام کے زیر تسلط رہا ہے۔ میر محراب خان نوشیروانی اس علاقے کے آخری سردار رہ چکے ہیں اور یہاں طویل عرصے تک نوشیروانی قبیلہ کے لوگ حکمران رہے ہیں۔



مکران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلیدہ زعمران میں بھی منشیات فروشوں نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے تھے اور علاقہ پوری طرح منشیات کی لپیٹ میں رہا۔ کئی گھروں میں نوجوانوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے منشیات کے عادی بن چکے تھے۔ کئی خاندان نشے کی بری لت کا شکار ہوکر اجڑ چکے تھے اور کئی ماؤں کے لخت جگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے قلم اور کتاب کی جگہ کرسٹل اور شیشے کو اپنا جیون ساتھی بناچکے تھے۔ اس سے دیگر جرائم پیدا ہوئے اور علاقے میں بدامنی اور چوری ڈکیتیوں سے کوئی گھر محفوظ نہیں تھا۔

بلیدہ زعمران کے نوجوان وقتاً فوقتاً سماجی برائی منشیات کے خلاف مہم چلاتے رہے مگر نوجونواں کی مہم کو تحریک کی شکل ملی اور نہ ہی کامیابی مقدر ٹھہری۔ اس کے باوجود علاقے کے پرعزم نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت مہم چلاتے رہے، اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ بلیدہ اور زعمران کا ہر طبقہ اس مہم کی آواز بن گیا۔



الندور: تحریک کا مرکز

حالیہ کامیاب مہم کی ابتدا آج سے ڈھائی ماہ قبل بلیدہ کے " الندور" نامی گاؤں سے چند نوجوانوں نے کی، جو الندور سے نکل کر پورے بلیدہ تک پھیل گئی۔ اس مہم نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ مقامی لوگوں کے مطابق الندور کے نوجوانوں نے اپنے علاقے میں منشیات کے اڈوں کو جلا دیا اور منشیات کے خلاف مہم کی کامیابی کےلیے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے ملاقات کرکے مہم کا حصہ بننے پر آمادہ کیا۔ جس سے علاقے کے لوگ اس مہم کا جصہ بنتے گئے اور چند نوجوانوں پر مشتمل یہ قافلہ ایک کاروان بنتا گیا۔

اس مہم کے حوالے سے بلیدہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن الطاف بلوچ کہتے ہیں کہ آج بلیدہ زعمران کا ہر فرد اس مہم کا حصہ بن کر اس مہم کو اپنی ذمے داری سمجھ رہا ہے۔ کیونکہ علاقے کا ہر گھر منشیات کی وبا سے متاثر ہے اور نوجوان نسل منشیات کی عادی ہونے کی وجہ سے سماجی برائیوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس طرح کوئی گھر یا خاندان محفوظ نہیں رہا۔ لیکن نوجوانوں کی مہم سے لوگوں میں ایک جذبہ ابھرا ہے کہ ہر طرح سے منشیات کو اپنے علاقے سے ختم کرنا ہوگا۔




علاقے کے ایک اور سماجی کارکن سلام بلیدئی کا کہنا تھا کہ اس مہم سے پہلے بلیدہ اور زعمران میں منشیات ٹماٹر اور پیاز کی طرح فروخت ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ سڑک کنارے اور گلیوں میں منشیات کے اڈے چل رہے تھے۔ مگر اب یہاں آسانی کے ساتھ منشیات نہیں مل سکتی اور علاقے کی رونقیں بحال ہورہی ہیں۔

بلیدہ اور زعمران میں منشیات کے خلاف بڑا قدم 10 اگست 2020 کو سامنے آیا جب بلیدہ زعمران کے لوگوں نے منشیات کے خاتمے کےلیے ایک گرینڈ جرگہ بلایا۔ (بلوچی روایت میں کسی بڑے مسئلے کے حل کےلیے اور خونیں تصفیوں کے حل کےلیے جرگہ بلایا جاتا ہے، جس میں سیاسی و سماجی اور مذہبی قائدین کی موجودگی میں دونوں خاندانوں کو شیر و شکر کیا جاتا ہے اور فریقین روایت کے مطابق جرگے کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں)۔

اس جرگے میں بلیدہ زعمران کے سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین نے بھرپور طریقے سے شرکت کرکے اس مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کیا۔ اس جرگے میں علاقے کا ایم پی اے اور صوبائی وزیر خزانہ بلوچستان ظہور بلیدئی، سابق ایم پی اے میر فتح بلیدئی، سابق سینیٹر میر اسلم بلیدئی، منشیات کے خلاف مہم چلانے والے کمیٹی کے سربراہ حاجی برکت سمیت علاقہ عمائدین، علما کرام، سیاسی و سماجی شخصیت سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگ شریک ہوئے۔

اور کارواں بنتا گیا!

منشیات کے خاتمے کے ساتھ نشے کے عادی افراد کو نارمل زندگی کی طرف لانا ایک اور چیلنج تھا۔ کیونکہ بلیدہ اور زعمران میں منشیات بحالی مرکز تو الگ صحت عامہ کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ اس حوالے سے بلیدہ زعمران سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور لکھاری یلان زعمرانی کا کہنا تھا کہ منشیات کے عادی افراد کے علاج کےلیے آر ایچ سی بلیدہ کو عارضی بنیادوں پر فعال کرکے منشیات بحالی سینٹر قائم کیا گیا اور جرگہ کے دن اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا۔

بلیدہ زعمران میں منشیات کے خلاف کامیاب مہم کے بعد اس وقت 95 فیصد منشیات کے اڈے بند ہیں اور علاقے کے لوگ پرعزم ہیں کہ بلیدہ زعمران میں منشیات کا اب مکمل خاتمہ بہت قریب ہے۔



سلام بلیدئی کا کہنا تھا کہ اس وقت بلیدہ میں منشیات بحالی مرکز فعال ہے اور پچاس کے قریب افراد زیر علاج ہیں، جبکہ 21 افراد کو تربت میں علاج کےلیے بھیجا گیا۔ دوسری جانب 32 افراد کو کراچی میں علاج کےلیے بھیجا گیا۔ نوجوان رضاکار ہر وقت منشیات بحالی کے مرکز میں موجود ہیں۔ الطاف بلوچ اس مہم کے کامیابی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس مہم میں ہر فرد نے بلاتفریق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یکجہتی کا ثبوت دیا۔ جب لوگوں میں اتحاد اور یکجہتی ہوگی تو کوئی بھی مسلئہ حل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اس کے علاوہ ہر پارٹی، ہر فرد اور خاندان نے اس مہم کو اپنا سمجھ کر منشیات کے خاتمے کےلیے کام کیا۔



اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ منشیات فروش کافی مضبوط اور طاقتور ہیں، کیونکہ ان کے نیٹ ورک پاکستان اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے منشیات فروشوں کی لابی کو دنیا کی مضبوط لابی تصور کیا جاتا ہے۔ مگر دوسری جانب بلیدہ زعمران کے عوام نے یہ ثابت کردیا کہ عوام کی طاقت سب سے بڑھ کر ہے اور عوام کی طاقت کے سامنے بڑی بڑی مافیاز گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

بلیدہ زعمران میں منشیات کے خلاف مہم کے مثبت اثرات کا ذکر کرتے ہوئے الطاف بلوچ کا کہنا تھا کہ بلیدہ کے نوجوانوں کی کامیاب مہم کے بعد آج پنجگور، دشت اور تربت کے کچھ دیہی علاقوں میں نوجوان منشیات کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ بلیدہ کے نوجوانوں کی جدوجہد عارضی نہیں۔ یہ جنگ منشیات کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story