شیر کے 10 بچوں کو اپنے ہاتھوں دودھ پلانے والی بہادر پاکستانی لڑکی
ڈاکٹرمدیحہ اشرف ایک ماں کی طرح شیرکے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں
لاہور سفاری پارک میں تعینات ڈاکٹرمدیحہ اشرف وہ بہادرخاتون ہیں جس نے اپنوں ہاتھوں شیرکے 10 بچوں کو دودھ پلاکرجوان کیا ہے۔
ڈاکٹرمدیحہ کہتی ہیں وہ شیرکے بچوں سے ایسی ہی محبت کرتی ہیں جس طرح ماں اپنے بچوں سے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثردرست نہیں کہ شیروفادارہوتے ہیں اور بڑے ہونے پر یہ اپنے رکھوالے کو کچھ نہیں کہتے ، جن بچوں کو پیدائش کے بعد ان کے مائیں قبول نہیں کرتیں شیرکے ایسے بچوں کی مصنوعی خوراک پرپرورش کی جاتی ہے۔
سفاری میں پارک میں بطور ویٹرنری آفیسرتعینات ڈاکٹرمدیحہ اشرف نہ صرف سفاری پارک میں مختلف جانوروں اورپرندوں کی صحت کا خیال رکھتی ہیں بلکہ وہ افریقن نسل کی شیرنی کے ایک بچے کو اپنے ہاتھوں سے دودھ بھی پلاتی ہیں۔
شیرکا یہ ننھابچہ چندہفتوں کا ہے لیکن اپنی ماں کے ساتھ پنجرے میں رہنے کی بجائے ڈاکٹرمدیحہ کے دفترمیں زیادہ وقت گزارتا ہے۔
نوجوان ڈاکٹرمدیحہ نے بتایا کہ وہ ابتک شیرکے 10 نوزائیدہ بچوں کو اپنے ہاتھوں دودھ پلاکرجوان کرچکی ہیں۔ پیدائش کے بعد بعض اوقات ماں اپنے بچے کو قبول نہیں کرتی ، ہم چند گھنٹے اس چیزکی مانیٹرنگ کرتے ہیں کہ اگرماں اپنے نوزائیدہ بچے کو فیڈکروادے تو پھران بچوں کو ماں کے ساتھ ہی رہنے دیا جاتا ہے لیکن اگرکسی وجہ سے ماں بچے کوقبول نہ کرے توپھرایسے بچوں کو ہم الگ کرلیتے ہیں اوران کی مصنوعی خوراک پر پرورش کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جس طرح ماں اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے اسی طرح پھروہ شیرکے ان بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں ان وقت پر دودھ دینا، ان کے بال صاف کرنا ، گندگی صاف کرنا۔ وہ سب کرنا پڑتا ہے جو ماں بچوں کے لئے کرتی ہے ، اگریہ بچے بیمارہوجائیں توپھرہروقت ان کی فکرلگی رہتی ہے۔
ڈاکٹرمدیحہ کہتی ہیں مائیں عام طورپر قبل از وقت پیدائش اورکسی جسمانی نقص کا شکاربچوں کو قبول نہیں کرتی ہیں۔ مصنوعی خوراک پرپرورش پانیوالے 70 سے 80 فیصد فیصد بچے زندہ بچ پاتے ہیں ،سفاری پارک میں یہ شرح 90 فیصد تک ہے اورجو بچے جوان ہوتے ہیں ان میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی جسمانی نقص رہتا ہے یا پھران کی قوت مدافعلت عام جانوروں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
ڈاکٹرمدیحہ کہتی ہیں یہ تاثردرست نہیں ہے کہ شیرکے جن بچوں کو آپ پال کرجوان کریں وہ بڑے ہوکرآپ کو کچھ نہیں کہیں گے، ایسا صرف فلموں میں ہوتا ہے۔ شیرایک درندہ ہے وہ کسی وقت بھی حملہ کرسکتا ہے ، دنیا میں کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ شیراورٹائیگرنے اپنے کیپرزپر ہی حملہ کردیا اس سے کئی اموات بھی ہوچکی ہیں۔ چند ماہ تک ایسا ضرورہوتا ہے کہ یہ آپ کو پہچان لیتے ہیں۔ چار،پانچ ماہ کے بعد جب ان بچوں کے ناخن بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں تو پھران کوپاس رکھنا خطرناک ہوتا ہے۔
ڈاکٹرمدیحہ کہتی ہیں وہ شیرکے بچوں سے ایسی ہی محبت کرتی ہیں جس طرح ماں اپنے بچوں سے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثردرست نہیں کہ شیروفادارہوتے ہیں اور بڑے ہونے پر یہ اپنے رکھوالے کو کچھ نہیں کہتے ، جن بچوں کو پیدائش کے بعد ان کے مائیں قبول نہیں کرتیں شیرکے ایسے بچوں کی مصنوعی خوراک پرپرورش کی جاتی ہے۔
سفاری میں پارک میں بطور ویٹرنری آفیسرتعینات ڈاکٹرمدیحہ اشرف نہ صرف سفاری پارک میں مختلف جانوروں اورپرندوں کی صحت کا خیال رکھتی ہیں بلکہ وہ افریقن نسل کی شیرنی کے ایک بچے کو اپنے ہاتھوں سے دودھ بھی پلاتی ہیں۔
شیرکا یہ ننھابچہ چندہفتوں کا ہے لیکن اپنی ماں کے ساتھ پنجرے میں رہنے کی بجائے ڈاکٹرمدیحہ کے دفترمیں زیادہ وقت گزارتا ہے۔
نوجوان ڈاکٹرمدیحہ نے بتایا کہ وہ ابتک شیرکے 10 نوزائیدہ بچوں کو اپنے ہاتھوں دودھ پلاکرجوان کرچکی ہیں۔ پیدائش کے بعد بعض اوقات ماں اپنے بچے کو قبول نہیں کرتی ، ہم چند گھنٹے اس چیزکی مانیٹرنگ کرتے ہیں کہ اگرماں اپنے نوزائیدہ بچے کو فیڈکروادے تو پھران بچوں کو ماں کے ساتھ ہی رہنے دیا جاتا ہے لیکن اگرکسی وجہ سے ماں بچے کوقبول نہ کرے توپھرایسے بچوں کو ہم الگ کرلیتے ہیں اوران کی مصنوعی خوراک پر پرورش کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جس طرح ماں اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے اسی طرح پھروہ شیرکے ان بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں ان وقت پر دودھ دینا، ان کے بال صاف کرنا ، گندگی صاف کرنا۔ وہ سب کرنا پڑتا ہے جو ماں بچوں کے لئے کرتی ہے ، اگریہ بچے بیمارہوجائیں توپھرہروقت ان کی فکرلگی رہتی ہے۔
ڈاکٹرمدیحہ کہتی ہیں مائیں عام طورپر قبل از وقت پیدائش اورکسی جسمانی نقص کا شکاربچوں کو قبول نہیں کرتی ہیں۔ مصنوعی خوراک پرپرورش پانیوالے 70 سے 80 فیصد فیصد بچے زندہ بچ پاتے ہیں ،سفاری پارک میں یہ شرح 90 فیصد تک ہے اورجو بچے جوان ہوتے ہیں ان میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی جسمانی نقص رہتا ہے یا پھران کی قوت مدافعلت عام جانوروں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
ڈاکٹرمدیحہ کہتی ہیں یہ تاثردرست نہیں ہے کہ شیرکے جن بچوں کو آپ پال کرجوان کریں وہ بڑے ہوکرآپ کو کچھ نہیں کہیں گے، ایسا صرف فلموں میں ہوتا ہے۔ شیرایک درندہ ہے وہ کسی وقت بھی حملہ کرسکتا ہے ، دنیا میں کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ شیراورٹائیگرنے اپنے کیپرزپر ہی حملہ کردیا اس سے کئی اموات بھی ہوچکی ہیں۔ چند ماہ تک ایسا ضرورہوتا ہے کہ یہ آپ کو پہچان لیتے ہیں۔ چار،پانچ ماہ کے بعد جب ان بچوں کے ناخن بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں تو پھران کوپاس رکھنا خطرناک ہوتا ہے۔