ایک صائب اقدام
قرضہ اسکیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے تیز ہونے کے امکانات ہیں
ہفتہ7 دسمبر کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے نوجوانوں کے لیے کاروباری قرض کی ایک اسکیم کا اعلان کیا گیا۔ اس اسکیم کے تحت کل ایک لاکھ قرضے جاری کیے جائیں گے، جن میں سے50 فیصد قرضے خواتین کے لیے مختص ہوں گے۔ قرض کی واپسی کی مدت 8 برس ہو گی، جب کہ پہلے برس کوئی قسط وصول نہیں کی جائے گی۔ قرض تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ان شہریوں کو دیے جائیں گے جن کی عمریں21 سے45 برس کے درمیان ہوں گی۔اس مقصد کے لیے اس اسکیم میں حکومت نے موجودہ مالی سال میں100 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس اسکیم کا جائزہ لیا جائے تو کئی توصیفی و تنقیدی نکات سامنے آتے ہیں۔ ایک برزگ نثار آفندی ( سندھ مدرسۃ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی مرحوم کے پڑپوتے) کا کہنا ہے کہ کسی بھی جائزہ میں تنقید سے پہلے توصیفی نکات پیش کیے جانے سے پڑھنے والے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے توصیفی نکات پر بات کر لی جائے۔
اس اسکیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے تیز ہونے کے امکانات ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں سے بالخصوص سست روی کا شکار ہیں۔ دوئم، ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے عام آدمی کے مسائل میں جو بے پناہ اضافہ کیا ہے، اس سے نمٹنے کی کسی حد تک سبیل ہو سکے گی۔ سوئم، بیشمار باصلاحیت نوجوان ایسے ہیں، جن میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں، مگر وسائل کی کمیابی کے باعث کسی باعزت کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار شروع کرنے سے قاصر رہتے ہیں، انھیں اپنی صلاحیتیں منوانے اور اپنا روز گار خود پیدا کرنے کے مواقعے میسر آ سکیں گے۔ چہارم، ایک فیکٹری، کارخانہ یا کاروباری یونٹ شروع ہونے کی صورت میں فی یونٹ کم از کم 5 افراد کو روزگار ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مزید 5 لاکھ افراد کے برسر روزگار ہونے کا امکان پیدا ہو گا۔ پنجم، اگر یہ اسکیم میرٹ کے اصولوں کے مطابق شفافیت سے کامیابی کے ساتھ جاری رہتی ہے، تو اوسطاً 25 لاکھ افراد کے مستفیض ہونے کی صورت میں بیروزگاری اور غربت کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اب جہاں تک تنقیدی جائزے کا تعلق ہے تو اس منصوبے کے بارے میں کئی شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں، جن کا ازالہ ضروری ہے۔ پاکستان میں66 برسوں کے دوران اس قسم کے کئی منصوبے تیار کیے گئے، لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو۔ زیادہ دور کیوں جائیں پیلی ٹیکسی اسکیم کے تحت دیے جانے والے قرضوں کی بیشتر رقم کی وصولیابی نہیں ہو سکی اور قومی خزانے کو وسیع پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ اس اسکیم کو ناکام بنانے میں سب سے نمایاں کردار سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم نے ادا کیا، جو میاں نواز شریف کو زچ کرنا چاہتے تھے۔ بہر حال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، لیکن یہ طے ہے کہ اب تک شاید ہی کوئی ایسی اسکیم ہو جو کامیابی سے ہمکنار ہو سکی ہو اور اس سے قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ اسکیموں کی ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کی منصوبہ بندی کرتے وقت آپریشنل (Operational) ایشوز کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ جس کی وجہ سے ان کے طریقۂ کار یا Modus Opperandi میں نقائص اور کمزوریاں رہ جاتی ہیں، جو پالیسی کے اجراء کے بعد سامنے آنا شروع ہوتی ہیں۔
مگر اس میں پیدا ہونے والی کمزوریوں اور نقائص کا وقتاً فوقتاً جائزہ لے کر اس میں مناسب ترمیم و تبدیلی پر توجہ نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے اسکیم ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے۔ دوئم، اس قسم کی پالیسیاں تیار کرتے وقت چونکہ شفافیت اور میرٹ کے اصولوں کو بعض سیاسی مفادات کی خاطر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اس لیے ان کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے جن کی عمومی طور پر توقع کی جاتی ہے۔ سوئم، عوام کے فکری طور پر پسماندگی کا شکار ہونے کی وجہ سے ان میں قومی وسائل کے صحیح استعمال کا رجحان ناپید ہے۔ اس رجحان کو پیدا کرنے میں سیاسی قیادتوں نے بھی کوئی واضح کردار ادا نہیں کیا ہے۔ نتیجتاً احساس ذمے داری کے فقدان کے باعث قرض لینے والوں کی اکثریت قرض کی رقم کو ریاست کی جانب سے تعاون سمجھنے کے بجائے مال غنیمت سمجھتی ہے اور اس کی عدم واپسی کو فعلِ مجرمانہ نہیں سمجھتی۔ چہارم، اقساط کی عدم وصولیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر اس قسم کی پالیسی کو شروع کرنے والی حکومتیں وقت سے پہلے ختم ہوتی رہی ہیں اور بعد میں آنے والی حکومتیں اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر رقوم کی واپسی میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ اب چونکہ سیاسی ماحول تبدیل ہو چکا ہے اور یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی، اس لیے اس قسم کی اسکیموں کے بارے میں بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمواریت کے ساتھ جاری رہ سکیں گی۔
اب یہاں چند دیگر سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ قرض لینے والوں کے لیے عمروں کا تعین کرتے ہوئے اس کی اوپری حد45 برس رکھنے کا کیا منطقی جواز ہے؟ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس بارے میں یہ دلیل دیتی ہے کہ دو دہائیوں سے معاشی نمو کی شرح سست روی کا شکار ہے اور بیروزگاری میں تیزی آئی ہے، اس لیے عمر کی حد کو45 برس تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس جواب میں گو کہ وزن ہے، لیکن، حقیقت خاصی مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کی Demography کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے زیادہ تعداد 21 سے35 برس کے نوجوانوں کی ملتی ہے۔ دوسرے پاکستان تیسری دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت میں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ جب کہ دیگر ممالک میں ناخواندہ اور بے ہنر افراد میں بیروزگاری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے عمر کی حد کا تعین کرتے ہوئے 21 سے35 سال کے گروپ کو ترجیح دی جاتی تو اس کے زیادہ مثبت نتائج آنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ کیونکہ تعلیمیافتہ اور ہنر مند نوجوان زیادہ تندہی کے ساتھ کام کرتے ہوئے معاشی نمو کی رفتار کو تیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ نے بھی پاکستان میں تیزی سے سر اٹھایا ہے، وہ Under-Job کا معاملہ ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری کارپوریشنز کی نجکاری اور توانائی کے بحران کے سبب صنعتوں کی بندش کے نتیجے میں جہاں ایک طرف بیروز گاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، وہیں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ہنر مند افراد اپنی قابلیت اور اہلیت سے کمتر پوزیشن پر کام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال بھی بعض حساس نوعیت کے نفسیاتی مسائل کو جنم دینے کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے کہ عمروں کی حدود کے تعین میں احتیاط برتنے اور صرف اصل نوجوانوں ہی کو اس اسکیم سے مستفیض ہونے کا موقع فراہم کرنے دینا چاہیے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت دیے جانے والے قرضوں کے اجراء اور اقساط کی واپسی کا کوئی واضح فارمولہ یا طریقہ کار نظر نہیں آ رہا۔ جس کی وجہ سے قرض کی اقساط کی بروقت واپسی ہنوز ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اگر اقساط کی بروقت واپسی ممکن نہ ہو سکی تو ''مفلسی میں آٹا گیلا'' کے مصداق یہ قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ثابت ہو گا۔ لہٰذا قرض کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے علاوہ بھی کوئی فعال طریقہ کار ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ اس بات پر بھی نظر رکھی جائے کہ کسی بھی سطح پر سیاسی بنیادوں پر قرض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ہونے پائے اور میرٹ اور شفافیت متاثر نہ ہو۔ اب تک کے تجربات یہی بتاتے ہیں کہ بہت سی عمدہ اور قابل ذکر اسکیمیں صرف اس لیے ناکام ہو گئیں کہ کہیں ان پر سیاسی مفادات حاوی آ گئے تو کہیں شفافیت اور میرٹ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے عوام کو ان اسکیموں کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے کاروباری قرض کا اجراء ایک صائب اور مثبت اقدام ہے بشرطیکہ اس پر بیان کردہ اصولوں کے مطابق عمل ہو سکے اور اسے واقعتاً شفافیت کے ساتھ چلایا جا سکے۔ اگر حکومت شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر کوئی واضح Modus Opperandi تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس اسکیم سے عام آدمی کو پہنچنے کو فائدہ پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بصورت دیگر اس کا حشر بھی ماضی میں پیش کی گئی بیشتر اسکیموں جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہمیں یہ امید ہے کہ حکومت ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو دہرانے سے گریز کرے گی، جو اُن اسکیموں کی ناکامی کا سبب بنے اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس اسکیم کے ذریعہ عوام آدمی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے گی۔
اس اسکیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے تیز ہونے کے امکانات ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں سے بالخصوص سست روی کا شکار ہیں۔ دوئم، ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے عام آدمی کے مسائل میں جو بے پناہ اضافہ کیا ہے، اس سے نمٹنے کی کسی حد تک سبیل ہو سکے گی۔ سوئم، بیشمار باصلاحیت نوجوان ایسے ہیں، جن میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں، مگر وسائل کی کمیابی کے باعث کسی باعزت کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار شروع کرنے سے قاصر رہتے ہیں، انھیں اپنی صلاحیتیں منوانے اور اپنا روز گار خود پیدا کرنے کے مواقعے میسر آ سکیں گے۔ چہارم، ایک فیکٹری، کارخانہ یا کاروباری یونٹ شروع ہونے کی صورت میں فی یونٹ کم از کم 5 افراد کو روزگار ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مزید 5 لاکھ افراد کے برسر روزگار ہونے کا امکان پیدا ہو گا۔ پنجم، اگر یہ اسکیم میرٹ کے اصولوں کے مطابق شفافیت سے کامیابی کے ساتھ جاری رہتی ہے، تو اوسطاً 25 لاکھ افراد کے مستفیض ہونے کی صورت میں بیروزگاری اور غربت کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اب جہاں تک تنقیدی جائزے کا تعلق ہے تو اس منصوبے کے بارے میں کئی شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں، جن کا ازالہ ضروری ہے۔ پاکستان میں66 برسوں کے دوران اس قسم کے کئی منصوبے تیار کیے گئے، لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو۔ زیادہ دور کیوں جائیں پیلی ٹیکسی اسکیم کے تحت دیے جانے والے قرضوں کی بیشتر رقم کی وصولیابی نہیں ہو سکی اور قومی خزانے کو وسیع پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ اس اسکیم کو ناکام بنانے میں سب سے نمایاں کردار سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم نے ادا کیا، جو میاں نواز شریف کو زچ کرنا چاہتے تھے۔ بہر حال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، لیکن یہ طے ہے کہ اب تک شاید ہی کوئی ایسی اسکیم ہو جو کامیابی سے ہمکنار ہو سکی ہو اور اس سے قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ اسکیموں کی ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کی منصوبہ بندی کرتے وقت آپریشنل (Operational) ایشوز کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ جس کی وجہ سے ان کے طریقۂ کار یا Modus Opperandi میں نقائص اور کمزوریاں رہ جاتی ہیں، جو پالیسی کے اجراء کے بعد سامنے آنا شروع ہوتی ہیں۔
مگر اس میں پیدا ہونے والی کمزوریوں اور نقائص کا وقتاً فوقتاً جائزہ لے کر اس میں مناسب ترمیم و تبدیلی پر توجہ نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے اسکیم ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے۔ دوئم، اس قسم کی پالیسیاں تیار کرتے وقت چونکہ شفافیت اور میرٹ کے اصولوں کو بعض سیاسی مفادات کی خاطر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اس لیے ان کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے جن کی عمومی طور پر توقع کی جاتی ہے۔ سوئم، عوام کے فکری طور پر پسماندگی کا شکار ہونے کی وجہ سے ان میں قومی وسائل کے صحیح استعمال کا رجحان ناپید ہے۔ اس رجحان کو پیدا کرنے میں سیاسی قیادتوں نے بھی کوئی واضح کردار ادا نہیں کیا ہے۔ نتیجتاً احساس ذمے داری کے فقدان کے باعث قرض لینے والوں کی اکثریت قرض کی رقم کو ریاست کی جانب سے تعاون سمجھنے کے بجائے مال غنیمت سمجھتی ہے اور اس کی عدم واپسی کو فعلِ مجرمانہ نہیں سمجھتی۔ چہارم، اقساط کی عدم وصولیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر اس قسم کی پالیسی کو شروع کرنے والی حکومتیں وقت سے پہلے ختم ہوتی رہی ہیں اور بعد میں آنے والی حکومتیں اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر رقوم کی واپسی میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ اب چونکہ سیاسی ماحول تبدیل ہو چکا ہے اور یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی، اس لیے اس قسم کی اسکیموں کے بارے میں بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمواریت کے ساتھ جاری رہ سکیں گی۔
اب یہاں چند دیگر سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ قرض لینے والوں کے لیے عمروں کا تعین کرتے ہوئے اس کی اوپری حد45 برس رکھنے کا کیا منطقی جواز ہے؟ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس بارے میں یہ دلیل دیتی ہے کہ دو دہائیوں سے معاشی نمو کی شرح سست روی کا شکار ہے اور بیروزگاری میں تیزی آئی ہے، اس لیے عمر کی حد کو45 برس تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس جواب میں گو کہ وزن ہے، لیکن، حقیقت خاصی مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کی Demography کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے زیادہ تعداد 21 سے35 برس کے نوجوانوں کی ملتی ہے۔ دوسرے پاکستان تیسری دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت میں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ جب کہ دیگر ممالک میں ناخواندہ اور بے ہنر افراد میں بیروزگاری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے عمر کی حد کا تعین کرتے ہوئے 21 سے35 سال کے گروپ کو ترجیح دی جاتی تو اس کے زیادہ مثبت نتائج آنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ کیونکہ تعلیمیافتہ اور ہنر مند نوجوان زیادہ تندہی کے ساتھ کام کرتے ہوئے معاشی نمو کی رفتار کو تیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ نے بھی پاکستان میں تیزی سے سر اٹھایا ہے، وہ Under-Job کا معاملہ ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری کارپوریشنز کی نجکاری اور توانائی کے بحران کے سبب صنعتوں کی بندش کے نتیجے میں جہاں ایک طرف بیروز گاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، وہیں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ہنر مند افراد اپنی قابلیت اور اہلیت سے کمتر پوزیشن پر کام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال بھی بعض حساس نوعیت کے نفسیاتی مسائل کو جنم دینے کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے کہ عمروں کی حدود کے تعین میں احتیاط برتنے اور صرف اصل نوجوانوں ہی کو اس اسکیم سے مستفیض ہونے کا موقع فراہم کرنے دینا چاہیے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت دیے جانے والے قرضوں کے اجراء اور اقساط کی واپسی کا کوئی واضح فارمولہ یا طریقہ کار نظر نہیں آ رہا۔ جس کی وجہ سے قرض کی اقساط کی بروقت واپسی ہنوز ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اگر اقساط کی بروقت واپسی ممکن نہ ہو سکی تو ''مفلسی میں آٹا گیلا'' کے مصداق یہ قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ثابت ہو گا۔ لہٰذا قرض کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے علاوہ بھی کوئی فعال طریقہ کار ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ اس بات پر بھی نظر رکھی جائے کہ کسی بھی سطح پر سیاسی بنیادوں پر قرض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ہونے پائے اور میرٹ اور شفافیت متاثر نہ ہو۔ اب تک کے تجربات یہی بتاتے ہیں کہ بہت سی عمدہ اور قابل ذکر اسکیمیں صرف اس لیے ناکام ہو گئیں کہ کہیں ان پر سیاسی مفادات حاوی آ گئے تو کہیں شفافیت اور میرٹ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے عوام کو ان اسکیموں کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے کاروباری قرض کا اجراء ایک صائب اور مثبت اقدام ہے بشرطیکہ اس پر بیان کردہ اصولوں کے مطابق عمل ہو سکے اور اسے واقعتاً شفافیت کے ساتھ چلایا جا سکے۔ اگر حکومت شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر کوئی واضح Modus Opperandi تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس اسکیم سے عام آدمی کو پہنچنے کو فائدہ پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بصورت دیگر اس کا حشر بھی ماضی میں پیش کی گئی بیشتر اسکیموں جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہمیں یہ امید ہے کہ حکومت ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو دہرانے سے گریز کرے گی، جو اُن اسکیموں کی ناکامی کا سبب بنے اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس اسکیم کے ذریعہ عوام آدمی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے گی۔