اسے کہتے ہیں پاور گیم
بعض قوتیں سازش کررہی ہیں کہ پاکستان خاص طورپرپنجاب میں بڑے پیمانے پرفرقہ وارانہ فسادات کرواکراسےعراق اورشام بنایا جائے
KARACHI:
افتخار محمد چوہدری 8 سال 5 ماہ 11 دن چیف جسٹس رہنے کے بعد آخر کار ریٹائر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے الوداعی خطاب میں انھوں نے کہا کہ ماضی میں عدلیہ کو غیر فعال کیا گیا۔ لیکن ایک عظیم جدوجہد کے نتیجے میں بحال ہونے والی عدلیہ نے بہتر انداز میں کام کیا۔ یقین ہے کہ بعد کی عدلیہ بھی بہتر انداز میں کام کرے گی۔ دنیاوی منصب عارضی ہیں۔ جسٹس تصدق جیلانی بھی اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیں گے۔ اصل مضبوطی اداوں کی ہونی چاہیے۔ آئین کی طے کردہ منزل ابھی حاصل نہیں ہوئی۔ ادارے مستحکم ہوں گے تو کسی کی مجال نہیں کہ جمہوریت کو ڈی ریل کر سکے۔ وکلاء تحریک نے قوم کو نئی سوچ دی۔ پہلے حکومت کو دو ڈھائی سال میں رخصت کر دیا جاتا تھا۔ اب جمہوری ادارے پانچ سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی باگ ڈور مضبوط ہاتھوں میں دے کر جا رہا ہوں۔
جب کہ نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ از خود نوٹس کے معاملات پر نظرثانی کی ضرورت ہے یعنی انھوں نے ماضی کے چیف جسٹس سے متضاد موقف اختیار کیا ہے۔ سابق چیف جسٹس نے جوڈیشل ایکٹیو ازم کا بے تحاشا استعمال کیا جس پر بہت سے حلقوں سے تنقید کی گئی۔ اور تو اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے اکتوبر 2013ء میں اتنے سوموٹو لینے پر خدشات کا اظہار کیا۔ ایک طرف موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے روٹ پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی ہے کہ اس سے ٹریفک میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ دوسری طرف افتخار محمد چوہدری صاحب نے سابقہ سیکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ کیا ہے۔ جس نے عوام کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ عوام' وکلااور سیاسی پارٹیوں کی متحدہ طاقت ہی تھی جس نے آمریت کو شکست دی۔جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کا سب سے بڑا کارنامہ آزاد عدلیہ کا قیام ہے۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انتہائی افسوسناک صورت حال سامنے آئی کہ ان کے ناقدین نے ان پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔ان تنقید کرنے والوں میں اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور عاصمہ جہانگیر شامل ہیں جو ان کے دوست اور وکلا تحریک کے روح رواں تھے۔ ان کے ناقدین ان پر سب سے بڑا الزام یہ لگاتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے ارسلان کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکے۔ امید ہے موجودہ چیف جسٹس اس صورت حال کا ازالہ کریں گے۔ بہر حال انسان خامیوں کا پُتلا ہے۔ مسنگ پرسنز ہوں یا کرپشن کے حوالے سے سابق چیف کا کام ان کا بڑا کارنامہ ہے۔
اب میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ یہ جنوری 07ء کی بات ہے جب میری پہلی مرتبہ عدلیہ تحریک کے ایک ممتاز رہنما سے ملاقات ہوئی۔پھر یہ ملاقاتیں جاری رہیں یہاں تک کہ مشہور زمانہ 9 مارچ آ گیا۔ اس تاریخ کے بعد جب ہم ان صاحب سے ملے تو وہ ہمیں بتانے لگے کہ مجھے ایک ''گمنام ٹیلیفون'' آیا جس میں مجھ سے کہا گیا کہ آپ اسلام آباد سپریم کورٹ جائیں۔ جب میں نے ٹیلیفون کرنے والے سے اس کی شناخت پوچھی تواس نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ جب میں نے کہا کہ میں نے اسلام آباد میں کس سے ملنا ہے تو یہ بھی نہیں بتایا۔ پوچھنے پر صرف یہ کہا کہ آجکل اخبارات میں ان کا نام بہت آ رہا ہے۔ بہرحال وہ اسلام آباد سپریم کورٹ پہنچے تو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انھیں ہاتھ ہلا کر اپنے بلایا اور یوں وہ بھی اس جدوجہد کا حصہ بن گئے۔
2007ء مشرف آمریت کا نقطہ عروج تھا۔ ان کے ہٹانے کی تمام کوششیںجاری تھیں۔ لال مسجد آپریشن کے بعد مشرف مخالف قوتوں کا خیال تھا کہ عوام سڑکوں پر آ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب مشرف کو ہٹانے کی کوشش ہو رہی تھیں اس وقت ہمارے خطے کی صورت حال کیا تھی۔ 2006ء کے وسط میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا جسے حزب اللہ نے ناکام بنا دیا۔ اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو لبنان کے بعد شام کو فتح کر لیا جاتا۔ اس طرح ایران چاروں طرف سے گھیرے میں آ جاتا۔ اس طرح ایران سے من پسند شرائط جوہری حوالے سے منوائی جاتیں یہاں تک یہ سلسلہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک پہنچتا۔ بہر حال اس میں ناکامی ہوئی اور امریکا کا ری برتھ آف مڈل ایسٹ کا منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جس میں اب جا کر رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ لبنان پر اسرائیل کی شکست نے مشرف کے بھی مقدر کا فیصلہ کر دیا۔ اسرائیل کی کامیابی سے ان کا دور اقتدار مزید طویل ہو سکتا تھا لیکن مشرف دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کے اعتماد سے محروم ہو چکے تھے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرف پر لال مسجد میں آپریشن کے لیے بے پناہ دبائو تھا لیکن وہ انکار کرتے رہے' پھر مشرف جھانسے میں آ گئے پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اب یہ پاکستانی عوام کو جاننا ہے کہ وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے لال مسجد آپریشن کرایا ۔ اب بھی بعض قوتیں بھرپور سازش کر رہی ہیں کہ پاکستان، خاص طور پر پنجاب، میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات کروا کر اسے عراق اور شام بنایا جا سکے تا کہ پاک بھارت دوستی کا راستہ روکا جائے جس کے نتیجے میں امن اور خوش حالی آ سکتی۔ نواز شریف اس حوالے سے شدید دبائو میں ہیں... اسے پاور گیم کہتے ہیں جس میں عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ظالم حکمران طبقات اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے عوام کا خون پانی کی طرح بہاتے ہیں...پھر رات گئی بات گئی... اصل سازشی کا پتہ بھی نہیں چلتا... ہزاروں سال سے سادہ لوح عوام کے ساتھ ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن وہ بے چارے سازش کو پھر بھی نہیں سمجھ پاتے... اسے کہتے ہیں پاور گیم۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور ان کی پارٹی کے لیے فروری مارچ سے جون 2014ء احتیاط طلب وقت ہے۔
افتخار محمد چوہدری 8 سال 5 ماہ 11 دن چیف جسٹس رہنے کے بعد آخر کار ریٹائر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے الوداعی خطاب میں انھوں نے کہا کہ ماضی میں عدلیہ کو غیر فعال کیا گیا۔ لیکن ایک عظیم جدوجہد کے نتیجے میں بحال ہونے والی عدلیہ نے بہتر انداز میں کام کیا۔ یقین ہے کہ بعد کی عدلیہ بھی بہتر انداز میں کام کرے گی۔ دنیاوی منصب عارضی ہیں۔ جسٹس تصدق جیلانی بھی اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیں گے۔ اصل مضبوطی اداوں کی ہونی چاہیے۔ آئین کی طے کردہ منزل ابھی حاصل نہیں ہوئی۔ ادارے مستحکم ہوں گے تو کسی کی مجال نہیں کہ جمہوریت کو ڈی ریل کر سکے۔ وکلاء تحریک نے قوم کو نئی سوچ دی۔ پہلے حکومت کو دو ڈھائی سال میں رخصت کر دیا جاتا تھا۔ اب جمہوری ادارے پانچ سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی باگ ڈور مضبوط ہاتھوں میں دے کر جا رہا ہوں۔
جب کہ نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ از خود نوٹس کے معاملات پر نظرثانی کی ضرورت ہے یعنی انھوں نے ماضی کے چیف جسٹس سے متضاد موقف اختیار کیا ہے۔ سابق چیف جسٹس نے جوڈیشل ایکٹیو ازم کا بے تحاشا استعمال کیا جس پر بہت سے حلقوں سے تنقید کی گئی۔ اور تو اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے اکتوبر 2013ء میں اتنے سوموٹو لینے پر خدشات کا اظہار کیا۔ ایک طرف موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے روٹ پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی ہے کہ اس سے ٹریفک میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ دوسری طرف افتخار محمد چوہدری صاحب نے سابقہ سیکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ کیا ہے۔ جس نے عوام کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ عوام' وکلااور سیاسی پارٹیوں کی متحدہ طاقت ہی تھی جس نے آمریت کو شکست دی۔جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کا سب سے بڑا کارنامہ آزاد عدلیہ کا قیام ہے۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انتہائی افسوسناک صورت حال سامنے آئی کہ ان کے ناقدین نے ان پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔ان تنقید کرنے والوں میں اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور عاصمہ جہانگیر شامل ہیں جو ان کے دوست اور وکلا تحریک کے روح رواں تھے۔ ان کے ناقدین ان پر سب سے بڑا الزام یہ لگاتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے ارسلان کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکے۔ امید ہے موجودہ چیف جسٹس اس صورت حال کا ازالہ کریں گے۔ بہر حال انسان خامیوں کا پُتلا ہے۔ مسنگ پرسنز ہوں یا کرپشن کے حوالے سے سابق چیف کا کام ان کا بڑا کارنامہ ہے۔
اب میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ یہ جنوری 07ء کی بات ہے جب میری پہلی مرتبہ عدلیہ تحریک کے ایک ممتاز رہنما سے ملاقات ہوئی۔پھر یہ ملاقاتیں جاری رہیں یہاں تک کہ مشہور زمانہ 9 مارچ آ گیا۔ اس تاریخ کے بعد جب ہم ان صاحب سے ملے تو وہ ہمیں بتانے لگے کہ مجھے ایک ''گمنام ٹیلیفون'' آیا جس میں مجھ سے کہا گیا کہ آپ اسلام آباد سپریم کورٹ جائیں۔ جب میں نے ٹیلیفون کرنے والے سے اس کی شناخت پوچھی تواس نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ جب میں نے کہا کہ میں نے اسلام آباد میں کس سے ملنا ہے تو یہ بھی نہیں بتایا۔ پوچھنے پر صرف یہ کہا کہ آجکل اخبارات میں ان کا نام بہت آ رہا ہے۔ بہرحال وہ اسلام آباد سپریم کورٹ پہنچے تو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انھیں ہاتھ ہلا کر اپنے بلایا اور یوں وہ بھی اس جدوجہد کا حصہ بن گئے۔
2007ء مشرف آمریت کا نقطہ عروج تھا۔ ان کے ہٹانے کی تمام کوششیںجاری تھیں۔ لال مسجد آپریشن کے بعد مشرف مخالف قوتوں کا خیال تھا کہ عوام سڑکوں پر آ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب مشرف کو ہٹانے کی کوشش ہو رہی تھیں اس وقت ہمارے خطے کی صورت حال کیا تھی۔ 2006ء کے وسط میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا جسے حزب اللہ نے ناکام بنا دیا۔ اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو لبنان کے بعد شام کو فتح کر لیا جاتا۔ اس طرح ایران چاروں طرف سے گھیرے میں آ جاتا۔ اس طرح ایران سے من پسند شرائط جوہری حوالے سے منوائی جاتیں یہاں تک یہ سلسلہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک پہنچتا۔ بہر حال اس میں ناکامی ہوئی اور امریکا کا ری برتھ آف مڈل ایسٹ کا منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جس میں اب جا کر رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ لبنان پر اسرائیل کی شکست نے مشرف کے بھی مقدر کا فیصلہ کر دیا۔ اسرائیل کی کامیابی سے ان کا دور اقتدار مزید طویل ہو سکتا تھا لیکن مشرف دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کے اعتماد سے محروم ہو چکے تھے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرف پر لال مسجد میں آپریشن کے لیے بے پناہ دبائو تھا لیکن وہ انکار کرتے رہے' پھر مشرف جھانسے میں آ گئے پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اب یہ پاکستانی عوام کو جاننا ہے کہ وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے لال مسجد آپریشن کرایا ۔ اب بھی بعض قوتیں بھرپور سازش کر رہی ہیں کہ پاکستان، خاص طور پر پنجاب، میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات کروا کر اسے عراق اور شام بنایا جا سکے تا کہ پاک بھارت دوستی کا راستہ روکا جائے جس کے نتیجے میں امن اور خوش حالی آ سکتی۔ نواز شریف اس حوالے سے شدید دبائو میں ہیں... اسے پاور گیم کہتے ہیں جس میں عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ظالم حکمران طبقات اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے عوام کا خون پانی کی طرح بہاتے ہیں...پھر رات گئی بات گئی... اصل سازشی کا پتہ بھی نہیں چلتا... ہزاروں سال سے سادہ لوح عوام کے ساتھ ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن وہ بے چارے سازش کو پھر بھی نہیں سمجھ پاتے... اسے کہتے ہیں پاور گیم۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور ان کی پارٹی کے لیے فروری مارچ سے جون 2014ء احتیاط طلب وقت ہے۔