گھر کو ٹھیک کرنے کی شرائط

موروثی سیاست اور موروثی حکمرانی کے کلچر کا خاتمہ کرنا گھر کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے اہم قدم ہو گا

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

نواز شریف نے اپنے دورہ امریکا میں امریکی صدر اوباما سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بات یہ بھی کی کہ ''پہلے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا'' اوباما سے بات چیت میں ڈرون حملوں کے حوالے سے بھی خصوصی گفتگو ہوئی ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف ہیں۔ امریکا کی تاریخ کا بڑا حصہ آزاد اور خود مختار ملکوں کے خلاف جارحیت پر مبنی ہے، کوریا، ویتنام، عراق، افغانستان میں امریکی مداخلت بلا شبہ بین الاقوامی قوانین کی توہین ہے لیکن وزیرستان میں ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے زیادہ خلاف ہیں یا وہ عفریت زیادہ بڑا خطرہ ہے جسے ہم مذہبی انتہا پسندی یا دہشت گردی کے نام سے جانتے ہیں؟

شمالی اور جنوبی وزیرستان پچھلے دس سال سے دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ میں بدل گئے ہیں۔ امریکا بھی دہشت گردی سے بچا ہوا نہیں، اس بلائے بے درماں کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کا رخ امریکا یا نیٹو سے زیادہ خود پاکستان کے بے گناہ عوام کی طرف ہے جس کا شکار اب تک 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی بن چکے ہیں اور دہشت گرد ہر قتل عام کے بعد اس کی ذمے داری بھی قبول کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا موقف یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت، پاکستان کے قانون اور انصاف کے اداروں، پاکستان کے آئین، پاکستان کی جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتے! وہاںپاکستان کا نہیں دہشت گردوں کا قانون چلتا ہے، یقیناً اوباما کے اس جواب نما سوال کو سن کر نواز شریف کا سر ندامت سے جھک گیا ہو گا اور انھیں احساس ہوا ہو گا کہ ڈرون حملوں کو رکوانے سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔

گھر کو ٹھیک کرنے سے پہلے نواز شریف کو یہ دیکھنا ہو گا کہ گھر کے اندر کیا کیا خرابیاں، کیا کیا گندگیاں ہیں، ان کی ذمے داری کس کس پر آتی ہے اور انھیں کس طرح ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟ سب سے بڑی بلکہ خطرناک خرابی وہی ہے جس نے پاکستان کے 50 ہزار بے گناہ انسانوں کو نگل لیا ہے۔ پاکستان میں یہ خرابی روس کو افغانستان سے نکالنے کی جنگ سے شروع ہوئی اور اس خرابی بلکہ تباہی کی ذمے داری اس دور کے حکمرانوں پر آتی ہے اور اس تباہی کی ذمے داری امریکا پر بھی آتی ہے جس نے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی خاطر روس کو افغانستان سے نکالنے کی اپنی مفاداتی جنگ کو جہاد بنا کر اور ڈالروں سے سجا کر ضیاء الحق کے حوالے کیا اور ضیاء الحق نے ناعاقبت اندیشی سے اس جہاد کے لیے ملک کے اندر سے اور باہر سے وہ مجاہدین بھرتی کیے جو آج میاں صاحب کے سامنے سر اٹھائے کھڑے ہیں اور اپنے حکم ڈکٹیٹ کرا رہے ہیں۔

میاں صاحب کو سب سے پہلے اس ہولناک خطرے سے نجات حاصل کرنا ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو گھر کو ٹھیک کرنے کے اس بڑے کام کے لیے ذہنی اور نظریاتی طور پر یکسو ہونا پڑے گا، اس کے لیے دو کشتیوں سے پیر نکال کر ایک کشتی میں پیر رکھنا ہو گا۔ میاں صاحب کو اس سنگین خطرے کا پورا پورا احساس ہو گا کہ دس سال کی نیم دلانہ غیر منصوبہ بند کوششوں سے اس خرابی کو دور نہیں کیا جا سکا جو اب پاکستان کے جسم میں کینسر کی طرح پھیل گئی ہے۔ اگر میاں صاحب نے یہ پیچیدہ اور خطرناک آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے اور نئے چیف آف اسٹاف اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی تقرری اسی سلسلے کی کڑی ہے تو ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں میاں صاحب کے ساتھ ہیں اور اگر اس خرابی کو دور کیے بغیر میاں صاحب گھر کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو گھر تو ٹھیک نہیں ہو گا میاں صاحب خود ٹھیک ہو جائیں گے۔


میاں صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ جمہوری راستوں سے اقتدار کی منزل تک پہنچنے کی 66 سالہ کوششوں کے بعد مایوس طاقتیں اب دہشت گردوں کی حمایت سے اقتدار شیئرنگ کرنا چاہ رہی ہیں اور بد قسمتی سے میاں صاحب پر بھی یہ الزام ہے کہ میاں صاحب کے دل میں ان طاقتوں کے لیے نرم گوشہ رہا ہے۔ یہ طاقتیں میاں صاحب کی راہ میں اسلام کا پرچم لہراتی ہوئی حائل ہوں گی جن کا مقابلہ کرنے کے لیے میاں صاحب کو ان تمام طاقتوں کو اپنے نزدیک لانا ہو گا جو نظریاتی طور پر مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور ہر پھر اس ہتھیار کو استعمال کرنا ہو گا اور ہر اس بین الاقوامی طاقت کو ساتھ ملانا یا اس کی مدد لینا ہو گا جو نیک نیتی سے انسانیت کو لاحق اس خطرے سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

اگر میاں صاحب اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتے ہیں تو پھر دوسرا اہم مرحلہ سامنے آئے گا اور یہ مرحلہ گھر کے 18کروڑ مکینوں کو ان سماجی اور معاشی عذابوں سے نکالنے کا ہو گا جو لوٹ مار، طبقاتی استحصال، موروثی سیاست، موروثی حکمرانی کی وجہ سے عوام کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ یہ مرحلہ پہلے مرحلے سے کم کٹھن نہیں ہیں۔ کیوںکہ اس مرحلے کی کامیابی کے لیے میاں صاحب کو خود بھی قربانیاں دینی ہوں گی، عوام کو ان معاشی عذابوں سے نکالنے کے لیے پہلا کام زرعی اصلاحات کر کرنا ہو گا جو پاکستانی عوام پر نازل عذابوں کو ختم کرنے میں پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک میں ہیضے اور طاعون کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن کو روکنا اس حوالے سے دوسرا قدم ہو گا۔ بینک نا دہندگان سے دو کھرب سے زیادہ قرضے بہ جبر وصول کر کے عوام کی معاشی بہتری میں انھیں استعمال کرنا اس حوالے سے تیسرا قدم ہو گا جو سیاست دان لوٹ مار کے ذریعے اربوں روپے کی جائیدادیں ہتھیائے بیٹھے ہیں ان سے عوام کی محنت سے حاصل ہونے والی یہ دولت اور جائیداد چھین لینا گھر کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے یہ چوتھا قدم ہو گا۔

موروثی سیاست اور موروثی حکمرانی کے کلچر کا خاتمہ کرنا گھر کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے پانچواں قدم ہو گا۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت اور ایماندار لوگوں کو قانون ساز اداروں میں لانے کے لیے انتخابی اصلاحات کرنا اس حوالے سے چھٹا قدم ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانا اس حوالے سے ساتواں قدم ہو گا۔ بے لگام منافع خوری جو مہنگائی کا ایک بڑا سبب بنی ہوئی ہے اسے روکنے کے لیے سخت ترین قانون بنانا اس حوالے سے آٹھواں قدم ہو گا۔ ملک میں اسلحے کی بھرمار اس کی تجارت کو کنٹرول کرنا گھر کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے نواں قدم ہو گا۔ منشیات، اغواء برائے تاوان کی سخت سے سخت سزائیں متعارف کرانا اس حوالے سے دسواں قدم ہو گا۔ تعلیمی اصلاحات اور نصاب تعلیم کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اس حوالے سے گیارہواں قدم ہو گا۔ دہرے نظام تعلیم کو ختم کر کے عوام کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانا بارہواں قدم ہو گا۔ دینی مدرسوں میں جدید علوم کو متعارف کرانا اس حوالے سے تیرہواں قدم ہو گا۔ پڑوسی ملکوں سے تنازعات کو پر امن طور پر حل کر کے دفاعی بجٹ میں کمی کرنا اس حوالے سے چودہواں قدم ہو گا۔

لسانی اور مذہبی سیاست کی حوصلہ شکنی کرنا اس حوالے سے پندرہواں قدم ہو گا۔ میرٹ کو زندگی کے ہر شعبے میں معیار بنانا اس حوالے سے سوالہواں قدم ہو گا۔گھر کو مکمل طور پر ٹھیک کرنے کے لیے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ان کا مختصراً ذکر ہم نے کر دیا ہے یہ وہ اقدامات ہیں جو گھر کو ٹھیک کرنے کے لیے شرط اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور Status Quo کے اندر رہتے ہوئے بھی کیے جا سکتے ہیں بعض جماعتیں ایسے نعروں اور مطالبوں پر سیاست کر رہی ہیں جو بالواسطہ طور پر ہی سہی دہشت گردوں کے حق میں جاتے ہیں اور ہماری انتہائی کمزور معیشت اور سیاسی صورت حال کو اور زیادہ گمبھیر بنا دیتے ہیں، ان طاقتوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اگر میاں صاحب خلوص نیت سے گھر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریںگے تو امریکی وزیر دفاع کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور اہلیت پیدا ہو جائے گی۔
Load Next Story