سقوط ڈھاکا ہم بھلا نہیں سکتے…

حصول وطن کی تحریکیں حصول مقصد تک زندہ رہتی ہیں۔۔۔

حصول وطن کی تحریکیں حصول مقصد تک زندہ رہتی ہیں۔ ریاستی ظلم و جبر ہو یا اپنوں کی ریشہ دوانیاں، سازشیں لاکھ کی جائیں مٹانے کے ہزاروں حربے ہوں، تحریک مٹ کر بھی نہیں مٹتی۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے ایسی تحریکیں راکھ بن کر بھی چنگاری کو اپنے آغوش میں چھپائے رکھتی ہے جب کہ ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا اسے شعلہ بنا دیتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک ہو یا فلسطین کی تحریک آزادی، وقت کی قید میں نہیں، وقت برسوں پر محیط ہو یا صدیوں تک، زندہ قوموں کے عزائم سرد نہیں ہوتے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم میں پختگی اور ارادہ مصمم ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں تین لاکھ محصور پاکستانی حصول وطن میں کیمپ کی اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں اور انسانیت سوز مظالم و مصائب برداشت کررہے ہیں۔

پاکستان آنے کی جدوجہد اور پاکستان سے محبت کا علم تھامے ہوئے ہیں۔ محصورین بنگلہ دیش 23 مارچ کو یوم پاکستان کی تقریب ہو یا 14 اگست کو جشن آزادی، ہر سال اپنی بدترین پناہ گاہوں میں پاکستانی پرچم بے خوف و خطر لگاکر مناتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ وطن سے محبت اس طرح کی جاتی ہے اور وطن سے محبت اس کو کہتے ہیں۔ جذبات کا یہ اظہار ایک ایسے ملک میں جہاں پاکستانی کہلانا ظلم و نفرت کی علامت ہو، جہاں پاکستانیوں کو عبرت کا نشان بنادیا گیا ہو، وہاں پاکستان سے دیوانہ وار محبت یہ بتاتا ہے کہ 42 سال گزرنے کے باوجود جن کی دو نسلیں بدل چکی ہوں، پاکستان سے محبت اور اس کی جستجو ایسا ہی ہے کہ پاکستان ان کے خون میں سرائیت کرگیا ہے اور یہ مصیبتیں کتنی ہی نسلوں میں منتقل کیوں نہ ہوجائیں پاکستان پوری آب و تاب سے ان کے دل میں رہے گا۔

لواحقین محصورین بنگلہ دیش جب شملہ معاہدے کے تحت منقسم خاندانوں کے زمرے میں پاکستان آرہے تھے تو محصورین بنگلہ دیش نے ہمیں الوداع کہتے ہوئے ایک سوال کیا تھا کہ آپ تو پاکستان جارہے ہیں ہمارا کیا ہوگا؟ تو ہم نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان جاکر آپ کو پاکستان لانے کی جد وجہد کریںگے۔ یقیناً ہم سب نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نتیجے میں محصورین کی کچھ تعداد کو لایا گیا پھر ہم نے اپنی جدوجہد اور اس تحریک کو جلد موثر اور زور آور بنانے کے لیے قریب ترین ہمدردوں کے کھوکھلے نعروں میں آکر اسے اپنا سہارا بنالیا۔ سہارا ہی نہیں بلکہ رفتہ رفتہ اپنی پوری قوت سونپ کر ان پر انحصار کر بیٹھے، افسوس ہم لفظی ہمدردی کے بہلاوے میں آگئے، عملاً ایک دن ایک پہر ایسا نہیں جو انھوں نے اظہار کیا ہو، ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں، دیگر مسائل پر ایوانوں میں صدائیں بلند ہوتی رہیں لیکن لاکھوں محب وطن سے بدترین زندگی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں گزار رہے ہیں، انھیں وطن لانے کے لیے نہ تو ایوانوں میں اور نہ ہی ہڑتالوں کے ذریعے عملاً مظاہرہ کیا گیا۔


ہم نے انتہائی نیک نیتی سے مکمل اختیار کے ساتھ انھیں بااختیار بنایا اور خود بے اختیار ہوگئے لیکن انھوں نے اس انسانی، قانونی، اخلاقی و پاکستانی مسئلے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا۔ اس مسئلے کا سیاسی سودا ہوا اور ہمارے ساتھ انتہائی گھنائونی سازشیں، یقیناً ہم ان سازشوں کا شکار ہوئے۔ دراصل ہم محب وطن ہیں، ہماری حب الوطنی ضرب المثل رہی ہے۔ ہم نے متحدہ پاکستان کی جدوجہد میں قربانیوں کی ایک ایسا داستان رقم کی ہے کہ اگر کوئی منصف ہوتا تو یقیناً شہدائے مشرقی پاکستان کو اجتماعی طور پر اعلی اعزاز سے سرفراز کرتا۔ اگرچہ ہم وہ لوگ ہیں جو پاکستانی افواج کو اسلام کے سپاہی کہتے ہیں اور افواج پاکستان اور پاکستان کی سالمیت کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے اس نظریہ کردار کو مشکوک بنانے کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔

صد افسوس کہ پاکستان کے سرکردہ لوگ بااختیار ہوتے ہوئے بھی انتہائی اہم پاکستانی مسئلے کو حل کرنے میں تاحال سرد مہری برت رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یقین کریں ہم فریب میں ضرور آئے، راہوں سے بھٹکائے گئے، منزل سے دور بھی ہوئے لیکن ہم محب وطن ہیں، محب وطن تھے اور کبھی بھی وطن پاک کو ہماری ضرورت پڑی تو خون کا آخری قطرہ بہانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارے خلاف سازش اس لیے ہے کہ ہم پاکستان دشمن قوتوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جذبہ حب الوطنی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محب وطن پاکستانیوں کی سالمیت کو بے یار و مددگار دیار غیر میں نہ چھوڑا جائے بلکہ انھیں پاکستان لانے کی سبیل کی جائے۔

محصورین محب وطن پاکستانیوں کو پاکستان لانا پاکستان کی یکجہتی بقا و سالمیت سے تجدید عہد وفا ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور جب کبھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو ہم سر بکف ہیں اور سینہ سپر ہوں گے، ہم سازشوں کے سبب راہوں سے بھٹکے ضرور ہیں لیکن منزل ہماری پیش نظر ہے۔

اس عزم و حوصلے کے ساتھ کہ بنگلہ دیش کے 70 کیمپوں میں محصور محب وطن پاکستانیوں کو پاکستان لایاجائے، 16 دسمبر کو مقام عبرت کے طور پر منایا جائے تاکہ ہماری کوتاہیوں کی اصلاح ہوتی رہے۔ ہم آپس میں دست و گریباں ہیں لیکن پھر بھی یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم لواحقین بنگلہ دیش اتنی بڑی تعداد میں یہاں جمع ہیں۔ تحریک محصورین جس مقصد کے لیے کوشاں ہے وہ سچائی اور حقیقت پر مبنی خالصتاً پاکستانی تحریک ہے۔
Load Next Story