سرمایہ داری کی تمام تدبیریں اکارت گئیں
دنیا میں بے روزگاری،صنعت کاری کے ذریعے دورہوئی ہے، قرضوں سےلوگوں کو سرمایہ دار یا بے روزگاری ختم نہیں کی جاسکتی۔۔۔
ISLAMABAD:
گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف نے 100 ارب روپے کی یوتھ قرضہ اسکیم شروع کردیا ہے۔ آج تک دنیا میں بے روزگاری، صنعت کاری کے ذریعے دور ہوئی ہے، قرضوں سے سارے لوگوں کو سرمایہ دار بنایا جاسکتا ہے اور نہ بے روزگاری ختم کی جاسکتی ہے۔ ایسا ہوتا تو ساری دنیا بے روزگاری کی لپیٹ میں نہ آتی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ بھٹو صاحب نے اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر بہت نقصان پہنچایا۔ اگر قومی ملکیت میں لینے سے معیشت کو نقصان ہوتا تو پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں سارا یورپ اپنے اداروں، اثاثوں اور فیکٹریوں کو قومی ملکیت میں کیوں لیتا؟ اس لیے کہ معیشت کو مرکزیت دے کر سرمایہ داری کو بچایا جاسکے۔ آج سے 15 سال قبل لندن کی ٹیوب (زیر زمین چلنے والی ٹرین) کو نجی ملکیت میں دے دیا گیا تھا لیکن 10 سال بعد اسے دوبارہ قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جب سیمنٹ فیکٹریاں سرکاری تحویل میں تھیں تو سیمنٹ 100 روپے بوری تھی اور اب اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ کھاد قومی ملکیت میں ہوتا تھا تو سستا تھا اور جب نجی ملکیت میں دیا گیا تو اب 600 روپے بوری ہوگیا۔ خوردنی تیل 18 روپے کلو تھا اور اب پرائیویٹائز کرنے کے بعد 200 روپے کلو ہوگیا ہے۔ سوڈا ایش، سندھ ایلکیز سے ہم 50 روپے فی ٹن خریدا کرتے تھے اور اب سوڈا ایش ہم ہزاروں روپے میں فی ٹن درآمد کرتے ہیں اور سندھ ایلکیز بھی بند پڑی ہے، بجلی جب سرکاری تھی تو 2 روپے فی یونٹ اور اب نہ صرف قیمتیں سیکڑوں گنا بڑھ گئی ہیں بلکہ بجلی ہی ندارد ہے۔ پی ٹی سی ایل میں نجکاری کے بعد فون کابل جہاں 100 روپے آتا تھا اب 1000 روپے آتا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
اداروں کی نجکاری کے بعد نہ صرف قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوئے ہیں۔ اگر بے روزگاری دور ہی کرنی ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ اور یوتھ قرضہ اسکیم کے بجائے کیمیائی دھات سازی اور الیکٹرونک شعبوں میں مل، کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے نوجوان محنت کش مستقل روزگار پر لگ جائیں نہ کہ قرضوں کی بھول بھلیوں میں۔ جہاں تک نواز شریف نے جنوبی کوریا کی مثال دی ہے تو جنوری کوریا میں اداروں اور کارخانوں کو قومی تحویل میں لینے کے لیے لاکھوں مزدور سڑکوں پہ نکل رہے ہیں، آئے دن قومی ملکیت میں لینے کے لیے اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یوکرائن، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے محنت کشوں کے مظاہرے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو ادارے خسارے میں جا رہے ہیں، ان کی نجکاری کی جائے گی جب کہ آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن سالانہ اربوں روپے کا منافع دے رہا ہے۔ اس کی نجکاری کیوں کی جا رہی ہے؟ بجلی، پٹرول اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد شاید کوئی کسر باقی رہ گئی تھی کہ اب دوا ساز کمپنیوں کی پرزور فرمائش پر ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے پہلے ہی باہر ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کر رہی ہے، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے منافع اور اثاثے تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب کہ محنت کشوں کی اجرتیں اور غریب عوام کی آمدن میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ حالیہ حکومت کے اپنے سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
اگر افراط زر کی بات کی جائے تو بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے پیش نظر بیلٹ پیپر چھاپنے سے پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کی معذرت صورت حال کو واضح کردیتی ہے۔ کم از کم اجرت کا قانون کسی بھی جمہوری یا آمرانہ دور حکومت میں عملی طور پر نافذ نہیں ہو پایا۔ 9,000 کی کم از کم اجرت مقرر ہے مگر میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق بعض فیکٹریوں میں سیکڑوں محنت کش خصوصاً خواتین، تین ہزار روپے ماہوار پر کام کر رہے ہیں۔ بڑے پیمانے کی بیروزگاری (پاکستان اکانومک واچ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 50 فیصد ہے) کے پیش نظر لاکھوں کروڑوں محنت کش روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کم ترین قیمت پر اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں اس نظام کے بحران سے پھیلنے والی غربت، بے روزگاری اور محرومی کا سلسلہ کبھی رکے گا؟ کبھی کوئی بہتری آئے گی؟ ان سماج کے عوام کبھی خوش حال ہو پائیں گے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی طور پر متروک ہوجانے والے اس نظام کے زیر اثر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے، جس نظام سے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں عوام کا معیار زندگی تیزی سے گرتا جارہا ہے اس سے پسماندہ ملکوں میں کسی بہتری کی امید محض خود فریبی ہے۔ سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے۔ معیشت کی طرح اس نظام کی سیاست بھی عالمگیر کردار اختیار کر چکی ہے۔ مختلف ریاستیں اس عالمگیر نظام میں چھوٹے چھوٹے معاشی سیاسی یونٹوں یا اکائیوں کا درجہ اختیار کرچکی ہیں چنانچہ ان یونٹوں کو عالمی منڈی میں یکجا کرنے والے نظام کا بحران بھی عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ 2008 میں امریکا اور یورپ سے شروع ہونے والے عالمی معیشت کے انہدام سے سرمایہ دارانہ نظام ابھی تک نکل نہیں پایا اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی موجود نہیں۔ سرمایہ داری کے دانشور اور معیشت دان اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ معیشت داں پال کروگیمن نے حال ہی میں انتہائی خوفناک تناظر پیش کیا ہے۔ 17 نومبر کے نیو یارک ٹائمز میں کروگیمن لکھتا ہے کہ ''یہ پچھلے پانچ سال میں نیا معمول اختیار کرچکی ہے۔ یہ معاشی و اقتصادی تنزلی ایک دو سال کے بجائے دہائیوں تک جاری رہے گی''۔
سرمایہ داری کی تنزلی کی وجہ اس کا بطور نظام تاریخی طور پر متروک ہوجانا ہے۔ منڈی کو مصنوعی طور پر سرگرم رکھنے کے لیے پچھلی تین دہائیوں میں قرضوں اور ادھار کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرح منافع میں اضافے کے لیے کم ازکم اجرت پر کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا لازمی ہے۔ تضاد یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرت ہی منڈی میں اپنا اظہار قوت خرید کی شکل میں کرتی ہے۔ کم اجرت کا مطلب قوت خرید اور آخری تجزیے میں شرح منافع میں کمی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس نامیاتی تضاد پر کبھی قابو نہیں پاسکتا چنانچہ مصنوعی طور پر منڈی میں کھپت کو برقرار رکھنے کے لیے قرضوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرض کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے لامتناہی طور پر بڑھایا نہیں جاسکتا اور واپس کرنا پڑتا ہے۔ جب قرضوں کا یہ بلبلا پھٹتا ہے تو 2008 جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ بینک دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ جنھیں بیل آؤٹ کرنے کے لیے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاستیں جب میدان میں آتی ہیں تو ان کا اپنا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔
اس عمل کو sovereign default کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ایسے بحرانوں میں سرمایہ دارانہ معیشت دان شرح سود کو کم رکھ کر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن اس بار یہ طریقہ بحران کو ٹالنے کے لیے پہلے ہی استعمال کیا جاچکا تھا، بحران سے پہلے ہی شرح سود صفر تھی۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایے کے پہاڑوں پر سانپ بن کے بیٹھی ہوئی ہیں۔ لیکن کم شرح منافع کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں 700 ارب پاؤنڈ، امریکا میں 2000 ارب ڈالر اور یورپی ممالک میں 2000 ارب یورو کا کارپوریٹ اجارہ داریوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ اتنی دولت ہے کہ اس سے چند سال میں کرہ ارض پر سے غربت اور بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے لیکن منافع اور شرح منافع کی ہوس راستے میں حائل ہے۔ بحران سے نکلنے کا دوسرا طریقہ سماج میں ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے سرمایے کا پھیلاؤ ہے جس سے نئے روزگار پیدا ہوتے ہیں، قوت خرید بڑھتی ہے اور سرمایہ داری کچھ عرصے کے لیے پھر سے سرگرم ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ آج ناقابل عمل ہے کیونکہ ریاستیں اپنے اثاثے اور وسائل کی قیمت سے کہیں زیادہ مقروض ہیں۔
اس قرضے میں کمی لانے کے لیے وہ فلاحی سہولیات میں کمی کے ذریعے اخراجات میں مسلسل کٹوتیاں کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی بحران سیاسی اور سماجی عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے۔ تیسرا طریقہ نوٹ چھاپنے کا ہے۔ لیکن نوٹ چھاپنے سے افراط زر بڑھتا ہے، قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، مہنگائی میں اضافے سے قوت خرید مزید کم ہوجاتی ہے، منڈی سکڑ جاتی ہے اور صنعتیں بند ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً بحران مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ یوں بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ سرمایہ داری کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام کی تاریخی متروکیت کے باعث کوئی نیا طریقہ ایجاد ہوسکتا ہے۔ برطانوی اخبار ''گارڈین'' کے مطابق یورپ میں ہر روز 1000 نوجوان بیروزگاری کی بھیڑ میں شامل ہو رہے ہیں، پچھلے چار سال میں یورپ میں ایک کروڑ مزید افراد بیروزگار ہوئے ہیں۔ بیروزگاری دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ خاندانی آمدن میں 40 فیصد کمی آئی ہے اور کٹوتیوں کی وجہ سے مزید کمی آتی جارہی ہے۔
فلاحی ریاست کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ریڈ کراس کے مطابق یورپ میں 12 کروڑ افراد انتہائی تلخ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یورپ کا سہانا سپنا ایک بھیانک خواب بن گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی اس صورتحال کے تناظر میں بھلا پاکستان جیسے ممالک میں کسی بہتری کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس ملک کی معیشت کا 67 سے 74 فیصد حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔ اس کالے دھن کی معیشت میں ریاست مفلوج ہے، عوام سسک رہے ہیں، جرائم، بدعنوانی، انتشار اور دہشت گردی کے کاروبار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نظام ایک نیم بوسیدہ مردہ لاش بن کر پورے سماج میں تعفن پھیلا رہا ہے۔ اس بوسیدہ سرمایہ داری میں ''کڑوی گولی'' کے ذریعے اصلاحات اور بہتری کی باتیں کرنے والے عوام کو صرف دھوکا دے رہے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار اور ہلچل پھیل رہی ہے۔ یہ ہلچل مختلف انداز، اشکال اور ہئیت میں مختلف خطوں سے لاوے کی طرح پھوٹتی نظر آرہی ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف نے 100 ارب روپے کی یوتھ قرضہ اسکیم شروع کردیا ہے۔ آج تک دنیا میں بے روزگاری، صنعت کاری کے ذریعے دور ہوئی ہے، قرضوں سے سارے لوگوں کو سرمایہ دار بنایا جاسکتا ہے اور نہ بے روزگاری ختم کی جاسکتی ہے۔ ایسا ہوتا تو ساری دنیا بے روزگاری کی لپیٹ میں نہ آتی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ بھٹو صاحب نے اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر بہت نقصان پہنچایا۔ اگر قومی ملکیت میں لینے سے معیشت کو نقصان ہوتا تو پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں سارا یورپ اپنے اداروں، اثاثوں اور فیکٹریوں کو قومی ملکیت میں کیوں لیتا؟ اس لیے کہ معیشت کو مرکزیت دے کر سرمایہ داری کو بچایا جاسکے۔ آج سے 15 سال قبل لندن کی ٹیوب (زیر زمین چلنے والی ٹرین) کو نجی ملکیت میں دے دیا گیا تھا لیکن 10 سال بعد اسے دوبارہ قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جب سیمنٹ فیکٹریاں سرکاری تحویل میں تھیں تو سیمنٹ 100 روپے بوری تھی اور اب اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ کھاد قومی ملکیت میں ہوتا تھا تو سستا تھا اور جب نجی ملکیت میں دیا گیا تو اب 600 روپے بوری ہوگیا۔ خوردنی تیل 18 روپے کلو تھا اور اب پرائیویٹائز کرنے کے بعد 200 روپے کلو ہوگیا ہے۔ سوڈا ایش، سندھ ایلکیز سے ہم 50 روپے فی ٹن خریدا کرتے تھے اور اب سوڈا ایش ہم ہزاروں روپے میں فی ٹن درآمد کرتے ہیں اور سندھ ایلکیز بھی بند پڑی ہے، بجلی جب سرکاری تھی تو 2 روپے فی یونٹ اور اب نہ صرف قیمتیں سیکڑوں گنا بڑھ گئی ہیں بلکہ بجلی ہی ندارد ہے۔ پی ٹی سی ایل میں نجکاری کے بعد فون کابل جہاں 100 روپے آتا تھا اب 1000 روپے آتا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
اداروں کی نجکاری کے بعد نہ صرف قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوئے ہیں۔ اگر بے روزگاری دور ہی کرنی ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ اور یوتھ قرضہ اسکیم کے بجائے کیمیائی دھات سازی اور الیکٹرونک شعبوں میں مل، کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے نوجوان محنت کش مستقل روزگار پر لگ جائیں نہ کہ قرضوں کی بھول بھلیوں میں۔ جہاں تک نواز شریف نے جنوبی کوریا کی مثال دی ہے تو جنوری کوریا میں اداروں اور کارخانوں کو قومی تحویل میں لینے کے لیے لاکھوں مزدور سڑکوں پہ نکل رہے ہیں، آئے دن قومی ملکیت میں لینے کے لیے اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یوکرائن، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے محنت کشوں کے مظاہرے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو ادارے خسارے میں جا رہے ہیں، ان کی نجکاری کی جائے گی جب کہ آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن سالانہ اربوں روپے کا منافع دے رہا ہے۔ اس کی نجکاری کیوں کی جا رہی ہے؟ بجلی، پٹرول اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد شاید کوئی کسر باقی رہ گئی تھی کہ اب دوا ساز کمپنیوں کی پرزور فرمائش پر ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے پہلے ہی باہر ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کر رہی ہے، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے منافع اور اثاثے تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب کہ محنت کشوں کی اجرتیں اور غریب عوام کی آمدن میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ حالیہ حکومت کے اپنے سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
اگر افراط زر کی بات کی جائے تو بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے پیش نظر بیلٹ پیپر چھاپنے سے پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کی معذرت صورت حال کو واضح کردیتی ہے۔ کم از کم اجرت کا قانون کسی بھی جمہوری یا آمرانہ دور حکومت میں عملی طور پر نافذ نہیں ہو پایا۔ 9,000 کی کم از کم اجرت مقرر ہے مگر میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق بعض فیکٹریوں میں سیکڑوں محنت کش خصوصاً خواتین، تین ہزار روپے ماہوار پر کام کر رہے ہیں۔ بڑے پیمانے کی بیروزگاری (پاکستان اکانومک واچ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 50 فیصد ہے) کے پیش نظر لاکھوں کروڑوں محنت کش روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کم ترین قیمت پر اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں اس نظام کے بحران سے پھیلنے والی غربت، بے روزگاری اور محرومی کا سلسلہ کبھی رکے گا؟ کبھی کوئی بہتری آئے گی؟ ان سماج کے عوام کبھی خوش حال ہو پائیں گے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی طور پر متروک ہوجانے والے اس نظام کے زیر اثر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے، جس نظام سے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں عوام کا معیار زندگی تیزی سے گرتا جارہا ہے اس سے پسماندہ ملکوں میں کسی بہتری کی امید محض خود فریبی ہے۔ سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے۔ معیشت کی طرح اس نظام کی سیاست بھی عالمگیر کردار اختیار کر چکی ہے۔ مختلف ریاستیں اس عالمگیر نظام میں چھوٹے چھوٹے معاشی سیاسی یونٹوں یا اکائیوں کا درجہ اختیار کرچکی ہیں چنانچہ ان یونٹوں کو عالمی منڈی میں یکجا کرنے والے نظام کا بحران بھی عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ 2008 میں امریکا اور یورپ سے شروع ہونے والے عالمی معیشت کے انہدام سے سرمایہ دارانہ نظام ابھی تک نکل نہیں پایا اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی موجود نہیں۔ سرمایہ داری کے دانشور اور معیشت دان اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ معیشت داں پال کروگیمن نے حال ہی میں انتہائی خوفناک تناظر پیش کیا ہے۔ 17 نومبر کے نیو یارک ٹائمز میں کروگیمن لکھتا ہے کہ ''یہ پچھلے پانچ سال میں نیا معمول اختیار کرچکی ہے۔ یہ معاشی و اقتصادی تنزلی ایک دو سال کے بجائے دہائیوں تک جاری رہے گی''۔
سرمایہ داری کی تنزلی کی وجہ اس کا بطور نظام تاریخی طور پر متروک ہوجانا ہے۔ منڈی کو مصنوعی طور پر سرگرم رکھنے کے لیے پچھلی تین دہائیوں میں قرضوں اور ادھار کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرح منافع میں اضافے کے لیے کم ازکم اجرت پر کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا لازمی ہے۔ تضاد یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرت ہی منڈی میں اپنا اظہار قوت خرید کی شکل میں کرتی ہے۔ کم اجرت کا مطلب قوت خرید اور آخری تجزیے میں شرح منافع میں کمی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس نامیاتی تضاد پر کبھی قابو نہیں پاسکتا چنانچہ مصنوعی طور پر منڈی میں کھپت کو برقرار رکھنے کے لیے قرضوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرض کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے لامتناہی طور پر بڑھایا نہیں جاسکتا اور واپس کرنا پڑتا ہے۔ جب قرضوں کا یہ بلبلا پھٹتا ہے تو 2008 جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ بینک دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ جنھیں بیل آؤٹ کرنے کے لیے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاستیں جب میدان میں آتی ہیں تو ان کا اپنا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔
اس عمل کو sovereign default کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ایسے بحرانوں میں سرمایہ دارانہ معیشت دان شرح سود کو کم رکھ کر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن اس بار یہ طریقہ بحران کو ٹالنے کے لیے پہلے ہی استعمال کیا جاچکا تھا، بحران سے پہلے ہی شرح سود صفر تھی۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایے کے پہاڑوں پر سانپ بن کے بیٹھی ہوئی ہیں۔ لیکن کم شرح منافع کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں 700 ارب پاؤنڈ، امریکا میں 2000 ارب ڈالر اور یورپی ممالک میں 2000 ارب یورو کا کارپوریٹ اجارہ داریوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ اتنی دولت ہے کہ اس سے چند سال میں کرہ ارض پر سے غربت اور بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے لیکن منافع اور شرح منافع کی ہوس راستے میں حائل ہے۔ بحران سے نکلنے کا دوسرا طریقہ سماج میں ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے سرمایے کا پھیلاؤ ہے جس سے نئے روزگار پیدا ہوتے ہیں، قوت خرید بڑھتی ہے اور سرمایہ داری کچھ عرصے کے لیے پھر سے سرگرم ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ آج ناقابل عمل ہے کیونکہ ریاستیں اپنے اثاثے اور وسائل کی قیمت سے کہیں زیادہ مقروض ہیں۔
اس قرضے میں کمی لانے کے لیے وہ فلاحی سہولیات میں کمی کے ذریعے اخراجات میں مسلسل کٹوتیاں کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی بحران سیاسی اور سماجی عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے۔ تیسرا طریقہ نوٹ چھاپنے کا ہے۔ لیکن نوٹ چھاپنے سے افراط زر بڑھتا ہے، قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، مہنگائی میں اضافے سے قوت خرید مزید کم ہوجاتی ہے، منڈی سکڑ جاتی ہے اور صنعتیں بند ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً بحران مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ یوں بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ سرمایہ داری کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام کی تاریخی متروکیت کے باعث کوئی نیا طریقہ ایجاد ہوسکتا ہے۔ برطانوی اخبار ''گارڈین'' کے مطابق یورپ میں ہر روز 1000 نوجوان بیروزگاری کی بھیڑ میں شامل ہو رہے ہیں، پچھلے چار سال میں یورپ میں ایک کروڑ مزید افراد بیروزگار ہوئے ہیں۔ بیروزگاری دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ خاندانی آمدن میں 40 فیصد کمی آئی ہے اور کٹوتیوں کی وجہ سے مزید کمی آتی جارہی ہے۔
فلاحی ریاست کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ریڈ کراس کے مطابق یورپ میں 12 کروڑ افراد انتہائی تلخ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یورپ کا سہانا سپنا ایک بھیانک خواب بن گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی اس صورتحال کے تناظر میں بھلا پاکستان جیسے ممالک میں کسی بہتری کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس ملک کی معیشت کا 67 سے 74 فیصد حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔ اس کالے دھن کی معیشت میں ریاست مفلوج ہے، عوام سسک رہے ہیں، جرائم، بدعنوانی، انتشار اور دہشت گردی کے کاروبار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نظام ایک نیم بوسیدہ مردہ لاش بن کر پورے سماج میں تعفن پھیلا رہا ہے۔ اس بوسیدہ سرمایہ داری میں ''کڑوی گولی'' کے ذریعے اصلاحات اور بہتری کی باتیں کرنے والے عوام کو صرف دھوکا دے رہے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار اور ہلچل پھیل رہی ہے۔ یہ ہلچل مختلف انداز، اشکال اور ہئیت میں مختلف خطوں سے لاوے کی طرح پھوٹتی نظر آرہی ہے۔