بھارتی مصنوعات کی 3 روزہ سنگل کنٹری نمائش اختتام پذیر
آخری روز عوام کی بڑی تعداد کا ایکسپو سینٹر کا رخ، محدود اسٹالز کے باعث لوگوں کومایوسی کا سامنا
ایکسپو سینٹر میں جاری بھارتی مصنوعات کی تین روزہ سنگل کنٹری نمائش اختتام پذیر ہوگئی۔
نمائش کے آخری روز بھارتی مصنوعات کے دلدادہ عوام کی بڑی تعداد نے ایکسپو سینٹر کا رخ کیا تاہم عوامی دلچسپی کے اسٹالز کی انتہائی محدود تعداد کے سبب خاندان کے ہمراہ آنے والے شہریوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ نمائش کے بھارتی منتظمین کا کہنا ہے کہ نمائش میں عوام اور کاروباری حلقوں کی جانب سے غیرمتوقع بھرپور رسپانس حاصل ہوا ہے اور آئندہ سال کے لیے تیسری نمائش کی تیاریاں بھرپور طریقے سے کی جائیں گی۔ نمائش میں بھارتی مصنوعی زیورات، کاسمیٹکس اور پرفیومز کو خصوصی توجہ حاصل رہی تاہم بھارتی کمپنیوں کے نمائندوں کو یہ شکوہ کرتے بھی پایا گیا کہ تجارتی نمائش کو ریٹیل نمائش بنادیا گیا جس سے ممکنہ کاروباری رابطے مشکل ہوگئے۔
دروازے کھڑکیوں کے قبضے، چٹخنیاں، کٹنگ بلیڈ اور دیگر ہارڈویئر بنانے والی کمپنی Tarun انٹرپرائزز کے ڈائریکٹر بلدیو کمار گپتا نے ایکسپریس کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ تجارتی نمائش میں شرکت کی نمائش میں بے حد رسپانس حاصل ہوا اور کراچی میں ایک کاروباری گروپ نے ان کی مصنوعات کی ڈیلر شپ لینے کے لیے بات چیت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی مصنوعات چین اور یورپ کی مصنوعات سے قیمت اور معیار دونوں میں برتر ہیں جن سے پاکستانی صارفین کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ نمائش میں شریک پرفیومز اور باڈی اسپرے بنانے والی بھارتی کمپنی میسکو پرائیوٹ لمیٹڈ کے نمائندے بتایا کہ کراچی کی تین کمپنیوں نے ان سے ڈیلرشپ کے لیے بات چیت کی ہے تینوں پارٹیاں بہت سنجیدہ ہیں۔ جلد ہی ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا اور آئندہ دو سے تین ماہ میں ان کی مصنوعات پاکستان بھر میں دستیاب ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی مصنوعات پاکستانی عوام کی قوت خرید کے عین مطابق ہیں۔ نمائش کے دوران بھی صارفین نے ان کی مصنوعات میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ فوڈ آئٹمز کے لیے خوشبویات بنانے والی بھارتی کمپنی سونا روم کے نمائندے رتیش نے کہا کہ نمائش میں بڑے پیمانے پر عوام کی شرکت سے بھارتی کمپنیوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں تاہم عوام کے رش کی وجہ سے کاروباری رابطے کرنے میں دشواری رہی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مصنوعات فوڈ آئٹمز، کنفکیشنری، بیوریجز میں استعمال ہوتی ہیں اور پاکستانی انڈسٹری یورپ سے مہنگے داموں درآمد کرنے کے بجائے بھارت سے درآمد کرکے کاروباری لاگت میں نمایاں کمی کرسکتی ہے۔
نمائش کے آخری روز بھارتی مصنوعات کے دلدادہ عوام کی بڑی تعداد نے ایکسپو سینٹر کا رخ کیا تاہم عوامی دلچسپی کے اسٹالز کی انتہائی محدود تعداد کے سبب خاندان کے ہمراہ آنے والے شہریوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ نمائش کے بھارتی منتظمین کا کہنا ہے کہ نمائش میں عوام اور کاروباری حلقوں کی جانب سے غیرمتوقع بھرپور رسپانس حاصل ہوا ہے اور آئندہ سال کے لیے تیسری نمائش کی تیاریاں بھرپور طریقے سے کی جائیں گی۔ نمائش میں بھارتی مصنوعی زیورات، کاسمیٹکس اور پرفیومز کو خصوصی توجہ حاصل رہی تاہم بھارتی کمپنیوں کے نمائندوں کو یہ شکوہ کرتے بھی پایا گیا کہ تجارتی نمائش کو ریٹیل نمائش بنادیا گیا جس سے ممکنہ کاروباری رابطے مشکل ہوگئے۔
دروازے کھڑکیوں کے قبضے، چٹخنیاں، کٹنگ بلیڈ اور دیگر ہارڈویئر بنانے والی کمپنی Tarun انٹرپرائزز کے ڈائریکٹر بلدیو کمار گپتا نے ایکسپریس کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ تجارتی نمائش میں شرکت کی نمائش میں بے حد رسپانس حاصل ہوا اور کراچی میں ایک کاروباری گروپ نے ان کی مصنوعات کی ڈیلر شپ لینے کے لیے بات چیت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی مصنوعات چین اور یورپ کی مصنوعات سے قیمت اور معیار دونوں میں برتر ہیں جن سے پاکستانی صارفین کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ نمائش میں شریک پرفیومز اور باڈی اسپرے بنانے والی بھارتی کمپنی میسکو پرائیوٹ لمیٹڈ کے نمائندے بتایا کہ کراچی کی تین کمپنیوں نے ان سے ڈیلرشپ کے لیے بات چیت کی ہے تینوں پارٹیاں بہت سنجیدہ ہیں۔ جلد ہی ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا اور آئندہ دو سے تین ماہ میں ان کی مصنوعات پاکستان بھر میں دستیاب ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی مصنوعات پاکستانی عوام کی قوت خرید کے عین مطابق ہیں۔ نمائش کے دوران بھی صارفین نے ان کی مصنوعات میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ فوڈ آئٹمز کے لیے خوشبویات بنانے والی بھارتی کمپنی سونا روم کے نمائندے رتیش نے کہا کہ نمائش میں بڑے پیمانے پر عوام کی شرکت سے بھارتی کمپنیوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں تاہم عوام کے رش کی وجہ سے کاروباری رابطے کرنے میں دشواری رہی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مصنوعات فوڈ آئٹمز، کنفکیشنری، بیوریجز میں استعمال ہوتی ہیں اور پاکستانی انڈسٹری یورپ سے مہنگے داموں درآمد کرنے کے بجائے بھارت سے درآمد کرکے کاروباری لاگت میں نمایاں کمی کرسکتی ہے۔