تنہا کراچی کو گلے سے لگائیں
شہرقائد میں لوگ کورونا سے اتنے ہلاک نہیں ہوئے جتنے پیارے اسٹریٹ کرائم، روڈ حادثات اور بوری بند لاشوں کی صورت ملے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں کے خلاف مشترکہ مزاحمت کی جائے گی جب کہ دونوں جماعتوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو جمہوری و آئینی طریقے سے ہٹایا جائے گا، ماضی کے سیاسی حریفوں آصف زرداری اور شہباز شریف کی اہم ملاقات کراچی میں بارشوں کی تباہ کاریوں کے بعد ہوئی۔
سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے اس ملاقات کو شہر قائد کے دکھی دل عوام سے اظہار یکجہتی کا نام دیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر مملکت نے بلاول ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر کا استقبال کیا، اس موقع پر سیاسی صورتحال اور حکومت سے نمٹنے کی مشترکہ حکمت عملی سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، سیاسی ذرایع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں رہبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کریں گی۔
دونوں رہنماؤں کی معاونت کے لیے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، فرحت اللہ بابر، نوید قمر جب کہ (ن) لیگ کی جانب سے احسن اقبال، مریم اورنگزیب اور محمد زبیر وغیرہ موجود تھے۔ ملاقات میں میثاق جمہوریت کے اصولوں کی تجدید کی گئی۔
کراچی کی اندوہ ناک صورتحال کے وسیع تر تناظر میں رہنماؤں نے کہا کہ سب مشکل وقت میں زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے یہاں آئے کیونکہ سندھ سمیت دیگر صوبوں میں بھی سیلاب کا خطرہ ہے، یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نہیں مل کر کام کرنے کا ہے، مشترکہ لائحہ عمل بنانے کا وقت آگیا، ان کا کہنا تھا کہ اصولاً یہ اعلان وزیر اعظم کو کرنا چاہیے تھا، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بٹھا کر بات کرنی چاہیے تھی۔
سیاست دانوں نے کہا کہ جمہوری اصولوں اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے مل کر کام کریں گے، ملک میں یک طرفہ احتساب ہو رہا ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، انھیں فوری بازیاب کرایا جائے، پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آصف زرداری اور شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں آپسی اختلافات بالائے طاق رکھ دیں، قدرتی آفات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔
عوام خراب طرز حکمرانی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، واضح موقف سے عاری خارجہ پالیسی، قرضوں سے چھٹکارے اور بنیادی حقوق پانے کے منتظر ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئین و پارلیمان کی بالادستی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی، جمہوری عمل کی حفاظت اور عوام کے آئینی و جمہوری حقوق بچانے کے لیے مِل جل کر جدوجہد کی جائے گی۔ دونوں جماعتوں نے احتساب کی آڑ میں کارروائیوں کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔
سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل اور بین الاقوامی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا ہونا، اختلافات فراموش کرکے رابطے کرنا احسن پیش رفت ہے، جمہوریت میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے مشترکہ سیاسی جدوجہد، افہام و تفہیم کی کوشش سوچنے کے ایک نئے انداز کی طرف گرم سفر ہونے کا اک اشارہ ہے، یہ ایک پھلتی پھولتی سیاسی تہذیب کی گمشدہ منزلیں ہیں جہاں مون سون کی بارشیں اس مکالمہ کی بنیاد بنی ہیں، لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ ملاقات بارشوں سے بہت پہلے ہوجاتی، بعد از خرابیٔ بسیار شہر قائد کو سنبھلنے کا موقع ملتا، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کراچی میں موجود ہیں، گورنر پنجاب کراچی کا درد بانٹنے آئے ہیں، آرمی چیف اس سے پہلے کراچی کے حالات کا جائزہ لے چکے، تاجروں سے ملاقات کرچکے، انھوں نے اپنے تاثرات کراچی والوں کے سامنے رکھے اور کہا کہ پاکستان کا کوئی شہر ایسی آفت سے نہیں نمٹ سکتا۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ ملک کا، سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت تمام اختیارات صوبوں کو دیے گئے ہیں لیکن صوبوں نے یہ اختیارات لوکل گورنمنٹ کو منتقل نہیں کیے جس سے عوام کے مسائل میں بے پناہ ہوا۔ اب ہمیں شہر قائد کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔
کراچی شہر نے ماضی میں فسادات، لڑائیاں، جھگڑے دیکھے ہیں جس سے کراچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، اب کراچی کو سنوارنے کا بہترین موقع ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جمہوری دور میں لوکل گورنمنٹ کو اختیارات سے محروم رکھا گیا، کراچی والوں کو مسائل کا حل اور وسائل دینے ہوں گے، وزیر اعظم عمران خان آج کراچی کے لیے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کرنے جارہے ہیں تاہم کراچی کو وفاق کے ماتحت کیے جانے والے سوال پر گورنر پنجاب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ اہل کراچی کی استقامت، سخت جانی اور صبروتحمل کا فطرت نے خوب امتحان لیا ہے، تاہم سب سے بڑا واقعہ یہ ہوا کہ مون سون کی تباہ کاریوں کے بعد ''اہل درد'' کو کراچی کی یاد آئی، اب جب کہ مون سون کا ساتواں اسپیل بھی ختم ہوا، بارشوں نے شہر قائد کا حلیہ بگاڑ دیا، لاکھوں خانماں برباد اہل وطن امداد واعانت کے منتظر رہے، موسلا دھار بارشوں سے شہر جل تھل ہوگیا۔
ندی نالے سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرگئے، غریب آبادیاں تو ہمیشہ ڈوبتی رہی ہیں مگر پہلی بار غریبوں کے ساتھ ساتھ کراچی امرا کے در و دیوار بھی گھن گرج سے لرز گئے، کراچی کے پوش علاقوں کی شاہراہیں اور محلات نما گھر بھی زیر آب آگئے، اس سے پہلے پوش علاقے بارش کے بھیگے ہوئے موسم کا مزہ ہی لیتے تھے، لیکن اس بار وہ اپنے دلنشیں بینروں اور پر شور نعروں کے ساتھ احتجاج کرتے نظر آئے، انتظامیہ اب ان کے خلاف پرچے کٹوا رہی ہے کہ کار سرکار میں مداخلت کی گئی، لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ شہر میں محترم سیاستدانوں، فیصلہ کی طاقت رکھنے والی شخصیات کے شہر قائد میں جمع ہونے پر شہر قائد کے مکینوں کے سارے زخم ہرے ہو گئے۔
سیاسی مبصرین کا کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے شہر سے بچھڑے برسوں بعد کسی کی میت پر پرسہ دینے اور اجتماعی تعزیت کے لیے آئے ہیں، یہ تاثر حقیقت سے اس لیے قریب تر ہے کہ اسے فکشن کا رنگ دینا ممکن ہی نہیں، کہتے ہیں کہ برصغیر ہو یا عرب و عجم کے ذاتی غم کا سیاق و سباق ان تمام ملکوں میں مرنے والے پر بین کرنے کی روایت موجود ہے، پنجاب میں ایسی پیشہ ور خواتین کو جو نوحہ گری کرتی ہیں ''رودالیاں'' کہتے ہیں، بلوچستان میں خواتین میت کے گرد دائرہ بناتی ہیں اور اسے ''گردش مرثیہ'' کا نام دیا گیا، وہ مرنے والے کی یاد میں خود بھی روتی ہیں دوسروں کو بھی رلاتی ہیں، اس لیے کراچی کے دکھی ماحول کی استعاراتی حیثیت متاثرین بارش کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ
اب آئے ہیں مری تربت پہ فاتحہ پڑھنے
ثواب لوٹتے ہیں خاک میں ملا کے مجھے
سچ تو یہ ہے دردناک حقیقتیں اہل کراچی کے اداس چہروں پر لکھی ہیں، یہ دو کروڑ انسانوں کا شہر ہے جو اکیلا رہ گیا۔ اس کی بندہ نوازی ایک عالم میں مشہور تھی، اس کے بازو ہمیشہ کھلے ہوئے تھے، یہ ہم وطنوں کو زبان، عقیدہ، نسل اور رنگ یا کسی قسم کے تعصب سے بالاتر رہتے ہوئے خوش آمدید کہتا تھا، مگر اس کا وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں نے کیا صلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے تو صاف کہہ دیا کہ 70فی صد ریونیو دینے والے کراچی کے پاس اب دینے کو کچھ نہیں، تو وزیر اعظم شہر قائد کو کیا دینے آئے ہیں؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے، لوگ توقع رکھتے تھے کہ بارش کے پہلے اسپیل میں وزیر اعظم اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ کراچی آتے اور گورنر ہاؤس میں اپنا کیمپ لگاتے، پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں کافی سیٹیں لی ہیں، علی زیدی، فیصل واؤڈا، شکور شاد، خرم زماں اور وفاق و صوبوں کے نمایندے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی کے اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی لٹانے آجاتے تو اس بوڑھی ماں کی تالیف قلب ہو جاتی جو پانی نکالتے نکالتے ہلکان ہوگئی۔
اس پانی میں ڈوبے ہوئے فاقہ مست لوگ وزیر اعظم، سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور حکام کو اپنے درمیان پاتے تو اپنے غم بھول جاتے، یہی تو سیاست ہے، 1973میں کراچی کو سیلابی بارشوں کا سامنا تھا، بھٹو لیاری میں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑے ہوکر عوام سے ان کا دکھ شیئر کرتے رہے۔ اب بھی وقت حکمرانوں اور سیاستدانوں اور طبقہ امرا کو مہلت دے رہا ہے، وزیر اعظم کراچی کی قلب ماہئیت Transformation کے لیے ایسا پیکیج دیں کہ شہر قائد کی تقدیر بدل جائے، اسی طرح پی پی بھی اپنے وعدوں کے مطابق اتفاق رائے اور اشتراک عمل کے ذریعے غیر معمولی اقدام کرے، تاکہ مون سون کے یکے بعد دیگرے طمانچے کھانے والے اس لٹے پٹے شہر قائد کے مکینوں کو یہ بات بھی یاد نہ رہے کہ اس شہر کے ساتھ بے انصافی کس نے کی، کس نے کراچی کو نکاسی و فراہمی آب کے نظام سے محروم رکھا، کس نے شہر کو قبضہ مافیا، تجاوزات اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
حکومت صرف انفرااسٹرکچر کے فقدان کا رونا نہ روئے، اس شہر میں گڈ گورننس ناپید ہونے، لاقانونیت کی حکمرانی اور بدترین ٹرانسپورٹ سسٹم اور ماضی کی قتل و غارت نے ستم ڈھائے، اس شہر میں بلدیہ فیکٹری کے محنت کشوں کو زندہ جلا دیا گیا، جناح کے اس شہر قائد میں لوگ کورونا سے اتنے ہلاک نہیں ہوئے جتنے پیارے اسٹریٹ کرائم، روڈ حادثات، ذاتی انتقام اور بوری بند لاشوں کی صورت ملے۔ عوام کی زندگی کے خواب، جمع پونجی، گھر کا سامان بارش کے پانی میں غرق ہوگیا، اگر سیاست دان ذاتی اور گروہی اختلافات بھلا کر جمہوریت کے نام پر جاری نام نہاد سیاسی پوائنٹ اسکورنگ روک دیں، تو یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔
سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے اس ملاقات کو شہر قائد کے دکھی دل عوام سے اظہار یکجہتی کا نام دیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر مملکت نے بلاول ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر کا استقبال کیا، اس موقع پر سیاسی صورتحال اور حکومت سے نمٹنے کی مشترکہ حکمت عملی سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، سیاسی ذرایع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں رہبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کریں گی۔
دونوں رہنماؤں کی معاونت کے لیے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، فرحت اللہ بابر، نوید قمر جب کہ (ن) لیگ کی جانب سے احسن اقبال، مریم اورنگزیب اور محمد زبیر وغیرہ موجود تھے۔ ملاقات میں میثاق جمہوریت کے اصولوں کی تجدید کی گئی۔
کراچی کی اندوہ ناک صورتحال کے وسیع تر تناظر میں رہنماؤں نے کہا کہ سب مشکل وقت میں زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے یہاں آئے کیونکہ سندھ سمیت دیگر صوبوں میں بھی سیلاب کا خطرہ ہے، یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نہیں مل کر کام کرنے کا ہے، مشترکہ لائحہ عمل بنانے کا وقت آگیا، ان کا کہنا تھا کہ اصولاً یہ اعلان وزیر اعظم کو کرنا چاہیے تھا، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بٹھا کر بات کرنی چاہیے تھی۔
سیاست دانوں نے کہا کہ جمہوری اصولوں اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے مل کر کام کریں گے، ملک میں یک طرفہ احتساب ہو رہا ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، انھیں فوری بازیاب کرایا جائے، پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آصف زرداری اور شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں آپسی اختلافات بالائے طاق رکھ دیں، قدرتی آفات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔
عوام خراب طرز حکمرانی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، واضح موقف سے عاری خارجہ پالیسی، قرضوں سے چھٹکارے اور بنیادی حقوق پانے کے منتظر ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئین و پارلیمان کی بالادستی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی، جمہوری عمل کی حفاظت اور عوام کے آئینی و جمہوری حقوق بچانے کے لیے مِل جل کر جدوجہد کی جائے گی۔ دونوں جماعتوں نے احتساب کی آڑ میں کارروائیوں کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔
سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل اور بین الاقوامی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا ہونا، اختلافات فراموش کرکے رابطے کرنا احسن پیش رفت ہے، جمہوریت میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے مشترکہ سیاسی جدوجہد، افہام و تفہیم کی کوشش سوچنے کے ایک نئے انداز کی طرف گرم سفر ہونے کا اک اشارہ ہے، یہ ایک پھلتی پھولتی سیاسی تہذیب کی گمشدہ منزلیں ہیں جہاں مون سون کی بارشیں اس مکالمہ کی بنیاد بنی ہیں، لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ ملاقات بارشوں سے بہت پہلے ہوجاتی، بعد از خرابیٔ بسیار شہر قائد کو سنبھلنے کا موقع ملتا، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کراچی میں موجود ہیں، گورنر پنجاب کراچی کا درد بانٹنے آئے ہیں، آرمی چیف اس سے پہلے کراچی کے حالات کا جائزہ لے چکے، تاجروں سے ملاقات کرچکے، انھوں نے اپنے تاثرات کراچی والوں کے سامنے رکھے اور کہا کہ پاکستان کا کوئی شہر ایسی آفت سے نہیں نمٹ سکتا۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ ملک کا، سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت تمام اختیارات صوبوں کو دیے گئے ہیں لیکن صوبوں نے یہ اختیارات لوکل گورنمنٹ کو منتقل نہیں کیے جس سے عوام کے مسائل میں بے پناہ ہوا۔ اب ہمیں شہر قائد کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔
کراچی شہر نے ماضی میں فسادات، لڑائیاں، جھگڑے دیکھے ہیں جس سے کراچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، اب کراچی کو سنوارنے کا بہترین موقع ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جمہوری دور میں لوکل گورنمنٹ کو اختیارات سے محروم رکھا گیا، کراچی والوں کو مسائل کا حل اور وسائل دینے ہوں گے، وزیر اعظم عمران خان آج کراچی کے لیے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کرنے جارہے ہیں تاہم کراچی کو وفاق کے ماتحت کیے جانے والے سوال پر گورنر پنجاب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ اہل کراچی کی استقامت، سخت جانی اور صبروتحمل کا فطرت نے خوب امتحان لیا ہے، تاہم سب سے بڑا واقعہ یہ ہوا کہ مون سون کی تباہ کاریوں کے بعد ''اہل درد'' کو کراچی کی یاد آئی، اب جب کہ مون سون کا ساتواں اسپیل بھی ختم ہوا، بارشوں نے شہر قائد کا حلیہ بگاڑ دیا، لاکھوں خانماں برباد اہل وطن امداد واعانت کے منتظر رہے، موسلا دھار بارشوں سے شہر جل تھل ہوگیا۔
ندی نالے سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرگئے، غریب آبادیاں تو ہمیشہ ڈوبتی رہی ہیں مگر پہلی بار غریبوں کے ساتھ ساتھ کراچی امرا کے در و دیوار بھی گھن گرج سے لرز گئے، کراچی کے پوش علاقوں کی شاہراہیں اور محلات نما گھر بھی زیر آب آگئے، اس سے پہلے پوش علاقے بارش کے بھیگے ہوئے موسم کا مزہ ہی لیتے تھے، لیکن اس بار وہ اپنے دلنشیں بینروں اور پر شور نعروں کے ساتھ احتجاج کرتے نظر آئے، انتظامیہ اب ان کے خلاف پرچے کٹوا رہی ہے کہ کار سرکار میں مداخلت کی گئی، لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ شہر میں محترم سیاستدانوں، فیصلہ کی طاقت رکھنے والی شخصیات کے شہر قائد میں جمع ہونے پر شہر قائد کے مکینوں کے سارے زخم ہرے ہو گئے۔
سیاسی مبصرین کا کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے شہر سے بچھڑے برسوں بعد کسی کی میت پر پرسہ دینے اور اجتماعی تعزیت کے لیے آئے ہیں، یہ تاثر حقیقت سے اس لیے قریب تر ہے کہ اسے فکشن کا رنگ دینا ممکن ہی نہیں، کہتے ہیں کہ برصغیر ہو یا عرب و عجم کے ذاتی غم کا سیاق و سباق ان تمام ملکوں میں مرنے والے پر بین کرنے کی روایت موجود ہے، پنجاب میں ایسی پیشہ ور خواتین کو جو نوحہ گری کرتی ہیں ''رودالیاں'' کہتے ہیں، بلوچستان میں خواتین میت کے گرد دائرہ بناتی ہیں اور اسے ''گردش مرثیہ'' کا نام دیا گیا، وہ مرنے والے کی یاد میں خود بھی روتی ہیں دوسروں کو بھی رلاتی ہیں، اس لیے کراچی کے دکھی ماحول کی استعاراتی حیثیت متاثرین بارش کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ
اب آئے ہیں مری تربت پہ فاتحہ پڑھنے
ثواب لوٹتے ہیں خاک میں ملا کے مجھے
سچ تو یہ ہے دردناک حقیقتیں اہل کراچی کے اداس چہروں پر لکھی ہیں، یہ دو کروڑ انسانوں کا شہر ہے جو اکیلا رہ گیا۔ اس کی بندہ نوازی ایک عالم میں مشہور تھی، اس کے بازو ہمیشہ کھلے ہوئے تھے، یہ ہم وطنوں کو زبان، عقیدہ، نسل اور رنگ یا کسی قسم کے تعصب سے بالاتر رہتے ہوئے خوش آمدید کہتا تھا، مگر اس کا وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں نے کیا صلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے تو صاف کہہ دیا کہ 70فی صد ریونیو دینے والے کراچی کے پاس اب دینے کو کچھ نہیں، تو وزیر اعظم شہر قائد کو کیا دینے آئے ہیں؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے، لوگ توقع رکھتے تھے کہ بارش کے پہلے اسپیل میں وزیر اعظم اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ کراچی آتے اور گورنر ہاؤس میں اپنا کیمپ لگاتے، پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں کافی سیٹیں لی ہیں، علی زیدی، فیصل واؤڈا، شکور شاد، خرم زماں اور وفاق و صوبوں کے نمایندے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی کے اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی لٹانے آجاتے تو اس بوڑھی ماں کی تالیف قلب ہو جاتی جو پانی نکالتے نکالتے ہلکان ہوگئی۔
اس پانی میں ڈوبے ہوئے فاقہ مست لوگ وزیر اعظم، سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور حکام کو اپنے درمیان پاتے تو اپنے غم بھول جاتے، یہی تو سیاست ہے، 1973میں کراچی کو سیلابی بارشوں کا سامنا تھا، بھٹو لیاری میں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑے ہوکر عوام سے ان کا دکھ شیئر کرتے رہے۔ اب بھی وقت حکمرانوں اور سیاستدانوں اور طبقہ امرا کو مہلت دے رہا ہے، وزیر اعظم کراچی کی قلب ماہئیت Transformation کے لیے ایسا پیکیج دیں کہ شہر قائد کی تقدیر بدل جائے، اسی طرح پی پی بھی اپنے وعدوں کے مطابق اتفاق رائے اور اشتراک عمل کے ذریعے غیر معمولی اقدام کرے، تاکہ مون سون کے یکے بعد دیگرے طمانچے کھانے والے اس لٹے پٹے شہر قائد کے مکینوں کو یہ بات بھی یاد نہ رہے کہ اس شہر کے ساتھ بے انصافی کس نے کی، کس نے کراچی کو نکاسی و فراہمی آب کے نظام سے محروم رکھا، کس نے شہر کو قبضہ مافیا، تجاوزات اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
حکومت صرف انفرااسٹرکچر کے فقدان کا رونا نہ روئے، اس شہر میں گڈ گورننس ناپید ہونے، لاقانونیت کی حکمرانی اور بدترین ٹرانسپورٹ سسٹم اور ماضی کی قتل و غارت نے ستم ڈھائے، اس شہر میں بلدیہ فیکٹری کے محنت کشوں کو زندہ جلا دیا گیا، جناح کے اس شہر قائد میں لوگ کورونا سے اتنے ہلاک نہیں ہوئے جتنے پیارے اسٹریٹ کرائم، روڈ حادثات، ذاتی انتقام اور بوری بند لاشوں کی صورت ملے۔ عوام کی زندگی کے خواب، جمع پونجی، گھر کا سامان بارش کے پانی میں غرق ہوگیا، اگر سیاست دان ذاتی اور گروہی اختلافات بھلا کر جمہوریت کے نام پر جاری نام نہاد سیاسی پوائنٹ اسکورنگ روک دیں، تو یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔