سدھر جائیے اس سے پہلے کہ وقت نکل جائے
اس سے پہلے کہ ہم پر وہ وقت آجائے کہ ہم اپنی غلطیوں کی درستی نہ کرسکیں، سدھر جائیے
بیربل تیسرے مغل بادشاہ اکبر کا خاص وزیر تھا۔ ایک دن وزیروں کی خواہش پر بادشاہ نے اس کے سامنے تین سوال رکھے۔ جن کے جواب نہ دینے کی صورت میں اس سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔
پہلا سوال تھا کہ آسمان پر کتنے تارے ہیں؟ دوسرا سوال تھا کہ اس زمین کا مرکز کیا ہے؟ اور تیسرا سوال یہ کہ اس دنیا میں کتنے مرد اور عورتیں ہیں؟
بیربل کو اپنے مخالفین کی کم عقلی پر پورا یقین تھا۔ اس لیے وہ پہلے سوال کے جواب میں ایک بھیڑ لے آیا اور بولا کہ اس کے جسم پر جتنے بال ہیں، اتنے ہی آسمان پر تارے ہیں۔ شک ہو تو گن لو۔ پھر بیربل نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور درمیان میں لوہے کا سریا ڈال کر کہا کہ یہی زمین کا مرکز ہے، شک ہو تو ناپ کے دیکھ لو۔ تیسرے سوال کے جواب میں دوسرے وزیروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جب تک دنیا میں سے مخنثین کو ختم نہ کیا جائے مردوں اور عورتوں کی سہی تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اور یوں بیربل نے سب کو لاجواب کردیا۔
آج کل ہم میں سے اکثر لوگوں کی حالت اکبر بادشاہ کے دربار میں موجود وزیروں کی طرح ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکا میں بیٹھے صحافی کے ایک غیر معروف ویب سائٹ کے ذریعے الزامات ہیں۔ الزامات لگانے والے نے سات سمندر پار سے الزامات لگائے اور ہم نے یقین کرلیا۔ نہ صرف یقین کرلیا بلکہ ہم بجائے ان صاحب سے ثبوت مانگنے کے، اپنے ہی محافظوں کے خلاف مہم شروع کردی۔ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اس طرح کی حرکتوں سے ملک مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو پاک فوج پر دن رات تنقید کرکے اپنے تئیں ملک کی خدمت کرتے ہیں، ان کےلیے چند حقائق پیش خدمت ہیں۔
دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک پاک فوج اپنے ایک سپاہی پر سب سے کم 8077 ڈالر سالانہ جبکہ بھارت ایک سپاہی پر 17554 ڈالر یعنی ہم سے ڈبل رقم خرچ کرتا ہے۔ مارچ 2018 کو ''دی اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ'' نے ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق بھارت 2013 سے 2017 کے درمیان ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ عالمی مارکیٹ میں اس کا حصہ 12 فیصد تھا، 2008 سے 2017 کے دوران بھارت کی دفاعی درآمدت میں 24 فیصد اضافہ جبکہ اسی عرصے کے دوران ہماری دفاعی درآمدات میں 36 فیصد کمی آئی۔ اس سب کے باوجود پاک فوج بھارت جیسے ازلی دشمن کو دھول چٹانے کے علاوہ، افغانستان میں موجود ہمارے دشمن نما دوستوں کی پیش قدمی کو بھی روکے ہوئے ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم الزامات لگانے والوں کا ساتھ دینے کے بجائے الزامات لگانے والوں کو عدالت کا راستہ دکھائیں۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب یہ ایک ٹرینڈ بنتا جارہا ہے کہ جو چاہے ہمارے سیاستدانوں پر، ہمارے اداروں پر الزامات لگادے اور ہم بجائے الزامات لگانے والے سے ثبوت مانگنے کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہوجاتے ہیں، اپنے ہی اداروں کے خلاف شک میں پڑجاتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک غیر معروف امریکی سیاح نے ملک کے سابق وزیراعظم، وزیر داخلہ پر الزامات لگائے اور ہم نے نہ صرف ان الزامات کو اپنے میڈیا پر جگہ دی بلکہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اس کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ اگر ہم نے اس روش کو ختم نہ کیا تو بہت جلد سیاہ، سفید سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
میری حکومت وقت سے بھی گزارش ہے کہ اس سے پہلے کہ ہمارا میڈیا مادر پدر آزاد ہوجائے، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کےلیے آزادی اظہار رائے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ قانون سازی کرلی جائے۔ اگر آج پی ٹی آئی سرکار نے ایسا نہ کیا تو جیسے آج ماضی کے حکمران نیب قوانین میں بروقت ترامیم نہ کرنے پر افسوس کررہے ہیں، کل کو جب پی ٹی آئی کے وزیروں کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہوں گی، ان کے خلاف سوشل میڈیا، نجی یوٹیوب چینلز، گمنام صفحات سے نامناسب مواد شائع کیا جارہا ہوگا تو وہ گزرے وقت پر افسوس کررہے ہوں گے۔
اور آخر میں سوشل میڈیا پر موجود اپنی قوم سے بھی گزارش ہے کہ خدارا اغیار کے آلہ کار نہ بنیے۔ بغیر تصدیق کے کچھ بھی مت پھیلائیے۔ کیونکہ شاید اس دنیا میں تو حکومت وقت کی سستی کی بدولت آپ بچ جائیں لیکن خدائے بزرگ و برتر کے حضور آپ نہیں بچ سکیں گے۔ یاد رکھیے کہ آپ کو بہرحال اس دنیا سے جانا اور اپنی ہر ایک حرکت کا، ہر ایک پوسٹ کا، ہر ایک تبصرے کا جواب دینا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم پر وہ وقت آجائے کہ ہم اپنی غلطیوں کی درستی نہ کرسکیں، ہم سدھر جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پہلا سوال تھا کہ آسمان پر کتنے تارے ہیں؟ دوسرا سوال تھا کہ اس زمین کا مرکز کیا ہے؟ اور تیسرا سوال یہ کہ اس دنیا میں کتنے مرد اور عورتیں ہیں؟
بیربل کو اپنے مخالفین کی کم عقلی پر پورا یقین تھا۔ اس لیے وہ پہلے سوال کے جواب میں ایک بھیڑ لے آیا اور بولا کہ اس کے جسم پر جتنے بال ہیں، اتنے ہی آسمان پر تارے ہیں۔ شک ہو تو گن لو۔ پھر بیربل نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور درمیان میں لوہے کا سریا ڈال کر کہا کہ یہی زمین کا مرکز ہے، شک ہو تو ناپ کے دیکھ لو۔ تیسرے سوال کے جواب میں دوسرے وزیروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جب تک دنیا میں سے مخنثین کو ختم نہ کیا جائے مردوں اور عورتوں کی سہی تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اور یوں بیربل نے سب کو لاجواب کردیا۔
آج کل ہم میں سے اکثر لوگوں کی حالت اکبر بادشاہ کے دربار میں موجود وزیروں کی طرح ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکا میں بیٹھے صحافی کے ایک غیر معروف ویب سائٹ کے ذریعے الزامات ہیں۔ الزامات لگانے والے نے سات سمندر پار سے الزامات لگائے اور ہم نے یقین کرلیا۔ نہ صرف یقین کرلیا بلکہ ہم بجائے ان صاحب سے ثبوت مانگنے کے، اپنے ہی محافظوں کے خلاف مہم شروع کردی۔ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اس طرح کی حرکتوں سے ملک مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو پاک فوج پر دن رات تنقید کرکے اپنے تئیں ملک کی خدمت کرتے ہیں، ان کےلیے چند حقائق پیش خدمت ہیں۔
دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک پاک فوج اپنے ایک سپاہی پر سب سے کم 8077 ڈالر سالانہ جبکہ بھارت ایک سپاہی پر 17554 ڈالر یعنی ہم سے ڈبل رقم خرچ کرتا ہے۔ مارچ 2018 کو ''دی اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ'' نے ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق بھارت 2013 سے 2017 کے درمیان ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ عالمی مارکیٹ میں اس کا حصہ 12 فیصد تھا، 2008 سے 2017 کے دوران بھارت کی دفاعی درآمدت میں 24 فیصد اضافہ جبکہ اسی عرصے کے دوران ہماری دفاعی درآمدات میں 36 فیصد کمی آئی۔ اس سب کے باوجود پاک فوج بھارت جیسے ازلی دشمن کو دھول چٹانے کے علاوہ، افغانستان میں موجود ہمارے دشمن نما دوستوں کی پیش قدمی کو بھی روکے ہوئے ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم الزامات لگانے والوں کا ساتھ دینے کے بجائے الزامات لگانے والوں کو عدالت کا راستہ دکھائیں۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب یہ ایک ٹرینڈ بنتا جارہا ہے کہ جو چاہے ہمارے سیاستدانوں پر، ہمارے اداروں پر الزامات لگادے اور ہم بجائے الزامات لگانے والے سے ثبوت مانگنے کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہوجاتے ہیں، اپنے ہی اداروں کے خلاف شک میں پڑجاتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک غیر معروف امریکی سیاح نے ملک کے سابق وزیراعظم، وزیر داخلہ پر الزامات لگائے اور ہم نے نہ صرف ان الزامات کو اپنے میڈیا پر جگہ دی بلکہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اس کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ اگر ہم نے اس روش کو ختم نہ کیا تو بہت جلد سیاہ، سفید سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
میری حکومت وقت سے بھی گزارش ہے کہ اس سے پہلے کہ ہمارا میڈیا مادر پدر آزاد ہوجائے، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کےلیے آزادی اظہار رائے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ قانون سازی کرلی جائے۔ اگر آج پی ٹی آئی سرکار نے ایسا نہ کیا تو جیسے آج ماضی کے حکمران نیب قوانین میں بروقت ترامیم نہ کرنے پر افسوس کررہے ہیں، کل کو جب پی ٹی آئی کے وزیروں کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہوں گی، ان کے خلاف سوشل میڈیا، نجی یوٹیوب چینلز، گمنام صفحات سے نامناسب مواد شائع کیا جارہا ہوگا تو وہ گزرے وقت پر افسوس کررہے ہوں گے۔
اور آخر میں سوشل میڈیا پر موجود اپنی قوم سے بھی گزارش ہے کہ خدارا اغیار کے آلہ کار نہ بنیے۔ بغیر تصدیق کے کچھ بھی مت پھیلائیے۔ کیونکہ شاید اس دنیا میں تو حکومت وقت کی سستی کی بدولت آپ بچ جائیں لیکن خدائے بزرگ و برتر کے حضور آپ نہیں بچ سکیں گے۔ یاد رکھیے کہ آپ کو بہرحال اس دنیا سے جانا اور اپنی ہر ایک حرکت کا، ہر ایک پوسٹ کا، ہر ایک تبصرے کا جواب دینا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم پر وہ وقت آجائے کہ ہم اپنی غلطیوں کی درستی نہ کرسکیں، ہم سدھر جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔