مایہ ناز لیگ اسپنر عبدالقادر کی باتیں اور یادیں

شین وارن نے کہا، ’’عبدالقادر کے سامنے سگریٹ نوشی نہیں کرنا چاہتا‘‘

عظیم کرکٹرکے ساتھ وہ ایک بڑے انسان بھی تھے، پہلی برسی پر خصوصی تحریر ۔ فوٹو : فائل

18 جون 2017ء۔ اس دن کو آپ بھول نہیں سکتے، کیونکہ یہ وہی دن تھا جب بھارت کو شکست دے کر پاکستان چمپئنز ٹرافی کا فاتح بنا۔

رمضان کے بابرکت مہینے میں حاصل ہونے والی اس یادگار کامیابی کی وجہ سے ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ کافی عرصے سے میری خواہش تھی کہ روزنامہ ایکسپریس کے 'شخصیت' ایڈیشن کے لیے مایہ ناز کرکٹر عبدالقادر کا انٹرویو کیا جائے۔ اس سے موزوں وقت اورکون سا ہوسکتا تھا۔ چنانچہ انہیں فون کیا اور چمپئنز ٹرافی کی جیت کی مبارک باد دینے کے بعد انٹرویو کے لیے درخواست کی۔

انہوں نے بہت خوشی سے آمادگی ظاہر کی، لیکن فوری طور پر وقت دینے سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ ماہ رمضان میں معمول کی تبدیلی کی وجہ سے وہ لوگوں سے نہیں مل سکتے۔ جس پر میں نے کہا، ''سر! میں آپ کا ہمسایہ ہوں، آپ مجھے جو بھی وقت دیں گے، میں آسانی سے آ سکتا ہوں۔'' انہوں نے جواب دیا: ''ٹھیک ہے، پھر آپ کل تراویح کے بعد دس، ساڑھے دس بجے آ جائیں۔''

ان دنوں میں دھرمپورہ میں انفنٹری روڈ پر میاں میر دربار کے ساتھ رہتا تھا۔ جبکہ سٹرک کی دوسری طرف پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر ان کا گھر واقع تھا۔ چنانچہ اگلی رات وقت مقررہ پر میں گھر کے ابتدائی حصے میں بنے ہوئے ان کے دفتر میں موجود تھا۔ وہ نماز تراویح کے بعد قرآن مجید کے ترجمے کا مطالعہ کر رہے تھے۔ میری طرف متوجہ ہوئے اور انٹرویو کا آغاز ہوا۔

کچھ دیر بعد دو پیالوں میں چائے لے آئے۔ گفتگو میں جہاں موقع ملتا وہ مذہبی تعلیمات اور اخلاقیات پر بھی تفصیل سے بات کرتے اور مجھے یوں تسلی دی کہ ''میں آپ کے سب سوالوں کے جواب دوں گا، لیکن یہ باتیں بھی ضروری ہیں۔'' وہ چاہتے تھے کہ کرکٹ کے علاوہ یہ باتیں بھی قارئین تک پہنچائی جائیں۔ انہوں نے اپنے کہے کا یوں پاس رکھا کہ دو، ڈھائی گھنٹے تک ہونے والے اس طویل انٹرویو میں مجھے احساس بھی نہ ہونے دیا کہ بہت وقت گزر چکا ہے۔

اس پوری گفتگو میں ایک بھی جملہ 'آف دا ریکارڈ' نہ تھا، بلکہ کئی موضوعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے سامنے میز پر رکھے ہوئے وائس ریکارڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھا: ''دیکھیں یہ بات میں آپ کو ریکارڈ کرا رہا ہوں، یہ میں 'آن ریکارڈ' کہہ رہا ہوں۔'' جب سب سوال پوچھ لیے تو ان سے اجازت لی۔ میں اس تاثر کے ساتھ واپس لوٹا کہ صرف ایک عظیم کرکٹر ہی نہیں، بلکہ ایک بڑے انسان سے بھی مل کر جا رہا ہوں، جو ایک منکسر المزاج، راست گو، اصول پسند اور درویش آدمی ہے۔ جب انٹرویو تحریر کیا تو جگہ کی کمی کے باعث بہت سی باتیں اس میں شامل ہونے سے رہ گئیں۔ عبدالقادر گزشتہ برس چھ ستمبر کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ خدا ان کے درجات بلند کرے۔ پہلی برسی پر ان کو یاد کرنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا کہ قارئین کو ممتاز کرکٹر کی اس گفتگو میں شریک کیا جائے جو پہلے خواہش کے باوجود ان تک نہیں پہنچ سکی۔

''جو بھی کھیل کھیلتا، اس کا چمپئن ہوتا''

کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹر بنوں گا۔ گلی محلے میں بچے جو کھیل کھیلتے تھے، میں ان کا چمپئن ہوا کرتا تھا۔ بنٹے کھیلنے، سٹاپو، پٹھوگرام وغیرہ۔ جس طرح گیری سوبرز نے ایک بات کہی جو مجھے بہت بڑھیا لگی۔ گیری سوبرز نے کہا کہ میں کوئی بھی کھیل کھیلتا اس میں چمپئن بنتا۔ پتا نہیں کچھ اس طرح کے خدشات میرے من کے اندر بھی ہیں۔ کیونکہ میں نے شطرنج بابوں کے ساتھ کھیلی تو بابوں سے بھی جیتنا شروع کر دیا۔ ہاکی کھیلنا شروع کی تو اس میں بھی چار پانچ گول کر دیتا، فٹ بال میں بھی اکیلے جا کر گول کر دیتا۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ پاک کی عطا ہوتی ہے، کوئی تعلیم میں بہت نام کما لیتا ہے، کوئی بندہ ہاکی بہت زبردست کھیلتا ہے، کوئی فٹ بال کھیلتا ہے، کوئی بزنس میں ترقی کر جاتا ہے۔

یہ سب اللہ کی عطائیں ہیں کہ وہ جس کو چاہے عزتوں سے نواز دیتا ہے۔ تو اپنے معاملے میں بھی، میں رب کی ایک شان ہی دیکھ رہا ہوں کیونکہ ہمارے خاندان میں کسی کو پتا نہیں تھا کہ کرکٹ کیا ہوتی ہے۔ میں ایک مذہبی گھر میں پیدا ہوا۔ والد صاحب جو امام مسجد اور خطیب تھے، بڑے عاشق رسول ﷺ تھے۔ اس زمانے میں صرف پی ٹی وی آتا تھا، اگر پی ٹی وی پر کہیں ذرا سا حضور پاک ﷺ کا ذکر ہو جائے تو ان کے اندر ہنڈیا پک جاتی تھی، اس طرح دھاڑیں مار کر روتے تھے۔ جس کی اب کمی ہے، اللہ پاک سب کے دلوں کے اندر اپنی اور حضور ﷺ کی محبت ڈال دے، آخرت کی فکر ڈال دے اور سب کا ذہن بھلائی اور خیر کے رستے پر ڈال دے۔ کرکٹ کھیلنا تو دور کی بات ہمارے گھر میں تو کوئی ٹراؤزر بھی نہیں پہن سکتا تھا۔

''رب کے علاوہ کسی سے امید نہیں لگاتا''

میرے پاس کوئی سفارش نہیں تھی، پاکستان میں اگر سفارش نہ ہو توپھر بس یہی رہ جاتا ہے کہ اللہ پر مکمل یقین رکھا جائے، جیسے میں نے رکھا ہے۔ میں عزت سب کی کرتا ہوں، چاہے کوئی چھوٹا آدمی ہے یا بڑا، لیکن میں اپنے رب کے علاوہ کسی سے امید نہیں لگاتا۔ اور میں سو فیصد نہیں بلکہ ایک ہزار فیصد ایمانداری پر یقین رکھنے والا شخص ہوں۔ اور ایک ہزار فیصد ہی انصاف پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ انصاف اور سچائی کی بات ہونی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں سچ گناہ بن گیا ہے اور جھوٹ کی تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ جھوٹ گناہ کبیرہ ہے لیکن لوگوں کو نہیں پتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نزلہ، زکام کی طرح چھوٹی سی بیماری ہے۔ نہیں، یہ بہت بڑا کینسر ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ خیر اللہ پاک نے میرے لیے راستے آسان کر دیئے اور مجھے کرکٹ کا علم دے دیا۔

''اللہ پاک نے میری حیثیت سے بڑھ کر نوازا''

عبدالقادر لاہور کے علاقے دھرمپورہ میں پیدا ہوئے اور یہاں ہی میاں میر دربار کے سامنے بارہ دری میں کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ اس سوال پر کہ کرکٹ میں عروج ملنے کے بعد کسی پوش علاقے میں رہنے کا خیال نہیں آیا؟ ان کا جواب تھا: اس کا اوریجنل جواب یہ ہے کہ میں بھی تھوڑی دیر کے لیے ڈیفنس گیا تھا، لیکن اس لیے گیا تھا کہ بچوں کی تعلیم اچھی ہو جائے، وہ اچھے اداروں سے پڑھ لکھ جائیں، ہم نے تو ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔ لیکن میرا اپنا موقف بڑا واضح ہے، میں کہتا ہوں کہ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، آپ نے سات فٹ نیچے تو جانا ہی ہے۔

اور وہاں پہ آپ کا سروائیول صرف ایک ہی چیز پر ہے یعنی آپ کے اعمال۔ آپ نے اعمال اچھے کیے ہوں تو آپ ڈیفنس میں نیچے چلے جاؤ، یا میاں میر صاحب کے قدموں میں نیچے چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ کی ذات آپ پر رحمتیں کر دے گی۔

اور میں اجتناب کرتا ہوں ایسی باتوں سے جس میں دکھاوا ہو، میں خالصتاً اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں کو ماننے والا آدمی ہوں۔ اور اللہ پاک سب کو توفیق دے کہ ہم آپ ﷺ کی تعلیمات پرچلیں نہ کہ بیچ میں اپنے راستے نکالنا شروع کر دیں۔ مجھے کبھی ان چیزوں نے اپنی طرف نہیں کھینچا۔ ہاں مجھے فارم ہاؤس پسند بہت ہیں، مجھے جانور، پھول، سبزیاں اور پھل لگے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں۔ مجھے فطرت سے بہت پیار ہے لیکن مجھے یہ پتا ہے کہ دنیا میں اگر آدمی کی کوئی بھی خواہش پوری ہونے سے رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس سے بھی بڑھ کر اسے عطا کریں گے جو وہ چاہتا تھا۔ اب یہ آپ کی اپنی مرضی ہے کہ دنیا میں اس کے لیے کوشش کر لیں، اس میں دکھاوے سے بہت ڈرنا چاہیے۔ دکھاوا صرف رب کا ہے۔ وہ جو چیز کہتا ہے، وہ فوراً ہو جاتی ہے۔

میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ اس نے میری حیثیت سے بڑھ کر مجھے نوازا۔ جتنا شکر ادا کروں، کم ہے۔ اتنا دیا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ زندگی میں اتنی آسانی دی۔ اور پھر اتنی عزت دی، جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میں تو ایک چھوٹا موٹا بندہ بننا چاہتا تھا کہ اپنے والدین کی خدمت کر سکوں۔ بس یہ میری خواہش تھی۔

بننا بیٹسمین چاہتا تھا، رب نے بالر بنا دیا، اتنے مشکل فن میں ڈال دیا۔ مجھ سے اچھا کھیلنے والے کئی لوگ تھے، لیکن اللہ نے پلیئر مجھے بنا دیا۔ یہ میں جب قرآن پاک اور حدیث رسول ﷺ پڑھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت اچھی ہونی چاہیے اور آپ جو کچھ کرتے ہیں وہ ذات جانتی ہے۔ میں قرآن مجید سال میں دو دفعہ ترجمے کے ساتھ ضرور پڑھتا ہوں، آپ بھی پڑھا کریں اور جو بھی اس انٹرویوکو پڑھے، وہ بھی پڑھا کرے۔ بڑی ہدایت ملتی ہے۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ ترجمہ پڑھتے ہو، آپ کو سمجھ نہیں آتی تو بھئی آپ عالموں کے پاس ضرور جاؤ، آپ کوکون منع کرتا ہے، لیکن یار پڑھو تو سہی۔ کچھ تو سمجھ آئے گی۔ اللہ پاک نے تو قرآن مجید میں خود کہہ دیا ہے کہ ہے کوئی پڑھنے والا، میں نے تو اسے آپ کے پڑھنے کے لیے آسان کر دیا ہے۔

''شین وارن ہی نمبر ون ہے''

عبدالقادر نے ایک ایسے دور میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا، جب دنیا میں فاسٹ بولرز چھائے ہوئے تھے اور تیز وکٹوں کا رواج عام تھا۔ انہوں نے لیگ اسپن بولنگ کا فن نہ صرف زندہ کیا بلکہ اسے کھلاڑیوں کی اگلی نسل کو بھی منتقل کیا۔ نامور کھلاڑیوں اور کرکٹ تجزیہ نگاروں نے ہمیشہ کشادہ دلی سے ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں محبت دی۔ انٹرویو کے دوران ایک موقع پر عبدالقادر نے اپنے پہلو میں رکھی ہوئی ڈیوڈ فرتھ کی کتاب "The Slow Men" کا ایک ایڈیشن دکھایا۔ اسپن بولرز کے بارے میں یہ کتاب 1984ء میں شائع ہوئی جس کے سرورق پر عبدالقادر کی تصویر دی گئی تھی۔

اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ''گبز کے ہوتے ہوئے بھی ٹائٹل پر میری تصویر دی گئی، کیا میرا یہ حق بنتا تھا؟ حالانکہ جب گوروں نے مجھے یہ ٹائٹل دیا، اس وقت میرے پاس سو ٹیسٹ وکٹیں بھی نہیں تھیں۔'' یاد رہے کہ ویسٹ انڈیز کے لانس گبز، جنہوں نے 1976ء میں اپنا آخری ٹیسٹ کھیلا، تین سو ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے والے دوسرے بالر اور پہلے اسپنر تھے۔ 1983ء کے دورہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کے دوران بولنگ اچھی نہ ہو سکی تو ڈینس للی نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان سے کہا: ''عبدل، ہم تمھیں پسند کرتے ہیں، تمھارے جیسا بالر نہیں دیکھا، تم ایک عظیم بالر ہو۔''

عبدالقادر نے بطور بلے باز بھی کچھ عمدہ اننگز کھیلیں۔ انہوں نے بتایا، ''جب ٹیم کو ضرورت ہوتی اور میں دیکھتا کہ عمران خان پیڈ کیے بیٹھے ہیں تو ان کی جگہ خود چلاجاتا تھا۔ سینئرپلیئر کا یہی کام ہونا چاہیے۔ وہ کہتے کہ تم پیڈ کر کے آ گئے ہو؟ میں کہتا کہ آٹھ کی اوسط چاہیے، آپ نے نہیں جانا ابھی۔ میں صفر پر آؤٹ ہو بھی گیا تو خیر ہے۔'' ون ڈے میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 75 ہے۔ اس سوال پر کہ ''عمران خان کہتے ہیں کہ اگر اس دور میں فرنٹ فٹ پر ایل بی ڈبلیو ملتا تو آپ کی وکٹیں کہیں زیادہ ہوتیں''، ان کا کہنا تھا: ''یہ بات درست ہے کہ اس وقت میں اپیلیں کرتا کرتا مر جاتا لیکن آؤٹ نہیں ملتا تھا۔

اس کے علاوہ عمران خان نے یہ بات مجھے خود بتائی کہ وہ انڈیا گئے جہاں ورلڈکپ جیتنے والے سارے کپتان آئے ہوئے تھے۔ ویو رچرڈز، سٹیووا، کیپل دیو، رانا ٹنگا، ایلن بارڈر۔ ان سب نے متفقہ طور پر کہا کہ عبدالقادر، شین وارن سے زیادہ اچھا بولر تھا۔ یہ گریٹ عمران خان نے مجھ سے کہا۔ اس سے بڑا کمپلیمنٹ مجھے کیا چاہیے۔ شین وارن نے اپنی 'آل ٹائم گریٹ ٹیسٹ الیون' میں بھی مجھے شامل کیا ہے۔ لیکن آپ مجھ سے پوچھیں تو میرا کوئی موازنہ نہیں ہے شین وارن کے ساتھ۔ اس نے سات سو آؤٹ کیے ہیں۔ ایک ہزار فیصد وہی نمبرون بولر ہے۔ وہی تاریخ کا سب سے بڑا اسپنر ہے۔ میرے لیے تو یہی بڑا اعزاز ہے کہ آپ میرا اس کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔ اگر رب نے مجھے بڑا بولربنایا ہوتا تو مجھ سے ہی سات سو آؤٹ کرا دیتا، تو جہاں مجھے اس نے رکھا ہے، اس پر میں بڑا مطمئن ہوں۔ جتنا عرصہ پاکستان کے لیے کھیلا، اس پر فخرکرتا ہوں۔

بطور چیف سلیکٹر استعفیٰ کیوں دیا؟

میں نے اصولوں پر زندگی گزاری، رب نے میرے اندر بڑی انا رکھی۔ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے پاکستان ٹیم کا چیف سلیکٹربنایا۔ میں نے ٹیم سلیکٹ کرنے کے بعد استعفیٰ دیا، ٹیم تو چلی گئی تھی اور میچ کھیل رہی تھی۔ میں نے شعیب اختر کے معاملے پراستعفیٰ دیا تھا کہ آپ نے نہ سلیکشن کمیٹی سے پوچھا، نہ سلیکٹر سے پوچھا اور شعیب اختر کو ٹیم سے نکال کے راؤ افتخار کو شامل کر دیا۔ اس بات پر میں نے استعفیٰ دیا۔ لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے جو ٹیلی ویژن پر غلط باتیں کرتے ہیں۔

میں پی ٹی وی پر سن رہا تھا تو ایک دن راشد لطیف یہ بات کر رہا تھا کہ اس سلیکشن کمیٹی نے اس لیے استعفیٰ دیا کہ انہوں نے جو لڑکے مانگے بورڈ نے وہ لڑکے نہیں دیئے۔ یہ بات بالکل غلط ہے، بھئی یا تو آپ پہلے کنفرم کرو۔ میں نے اسے فون بھی کیا کہ اس کے سامنے تاریخ کی درستی کر دوں، لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔

یا تو یہ حقائق ٹوئسٹ کرتے ہیں، اینگل بازی کرتے ہیں تو وہ جانیں، رب جانے، مجھے اس میں کیا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ میں چیف سلیکٹر ہوں اور اتنا طاقتور کوئی چیئرمین بورڈ نہیں آ سکتا کہ میں اس سے بندہ مانگوں اور مجھے وہ پلیئر نہ دے۔ میری دلیل تو یہ ہے کہ اللہ کا شکر ہے اس وقت کے چیئرمین بورڈ اعجازبٹ زندہ ہیں، میرے ساتھ سلیکشن کمیٹی میں شعیب محمد اور سلیم جعفر تھے، اللہ ان کو زندگی دے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کریڈٹ کسی کو دینا ہی نہیں چاہتے، آخری ٹیم جو رب نے میرے ہاتھ سے لکھوائی، وہ ٹی ٹوئنٹی کی چمپئن ہو گئی لیکن کیونکہ آپ یہ کریڈٹ دینا ہی نہیں چاہتے۔ بھئی میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر میں دو سال رہ جاتا تو آپ اللہ کے کرم سے ون ڈے کے بھی چمپئن ہوتے اور ٹیسٹ کے بھی۔

جس طریقے سے اللہ نے مجھ سے کام کرایا، وہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ میں ریکارڈ کرا رہا ہوں۔ میرے پاس لیٹر ابھی بھی پڑا ہوا ہے۔ یوسف رضا گیلانی پرائم منسٹر ہوتے تھے اور مجھے لیٹر آتے تھے۔ میں ان سفارشی خطوں کو کبھی چیئرمین بورڈ کے پاس نہیں لے گیا۔ بہت کم لوگوں میں یہ ہمت ہو گی، ورنہ وہ چیئرمین بورڈ کے پاس جاتے کہ سر، یہ وزیراعظم کا خط آ گیا تھا، میں کیا کروں۔ میں اس پر خود لکھتا تھا کہ ''ڈیئر سر، میں معذرت چاہتا ہوں۔ اس کھلاڑی کو پہلے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنی چاہیے اور اس میں پرفارم کرنا چاہیے۔


اگر وہ پرفارم کرے گا تو میں اسے زیرغور لاؤں گا۔'' تو اس طرح سے میں لکھ دیتا تھا۔ کیونکہ مجھے اپنے رب پر بڑا مان ہے۔ یوسف رضا گیلانی بالکل چیئرمین بورڈ کو فون کر سکتے ہیں کہ اس کو فارغ کرو۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہی کر سکتے ہیں۔ وہ تو میری اپنی طبیعت ایسی ہے کہ جہاں میں کام کرتا ہوں، وہاں دیکھوں کہ یہاں دن رات جھوٹ کی تسبیح پڑھی جاتی ہے تو خود ہی استعفیٰ دے کر پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔

ذکاء اشرف نے سینئر کھلاڑیوں سے بدسلوکی کی

اسی طرح جب میںکرکٹ بورڈ میں بطور ڈائریکٹر کام کر رہا تھا، میں نے وہاں بھی ذکاء اشرف صاحب کے منہ پر استعفیٰ مارا کہ آپ کرکٹروں کے ساتھ کیا سکوک کر رہے ہیں۔ میرے اوپر کوئی بات نہیں تھی۔ صرف یہ کہ کرکٹرز کو بلا کے کئی گھنٹے باہر بٹھا دیتے اور انتظار کراتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے بھی انتخاب صاحب نے کہا کہ ذکاء اشرف صاحب آ رہے ہیں آپ پانچ بجے چھٹی نہ کرنا۔ میں بیٹھ گیا، چھ، سات بج گئے۔ ذکاء اشرف کہیں آٹھ بجے آئے۔ تو جب میں گیا ادھر، نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بندے ہی بندے تھے۔

عظمت رانا، خدا اسے جنت میں جگہ دے، اس نے مجھے کہا،سر دیکھیں آپ کی بادشاہت میں کیا ہو رہا ہے۔ میں نے پوچھا، کیا ہو رہا ہے؟ اس نے کہا ذکاء اشرف صاحب نے ہمیں کل بھی بلایا تھا۔ اب دیکھو کس کو بلایا ہے، سفید داڑھیوں والے بندے شفقت رانا، عظمت رانا، احتشام ، شفیق پاپا، یہ ہمارے بزرگ کرکٹرز۔ اس نے کہا کہ کل ہمیں بلایا ہے اور پھر رات دس بجے تک بٹھایا۔

اس کے بعد ایک شخص نے ہمیں کہا کہ اب چیئرمین صاحب جا رہے ہیں اور کل آپ کو بلائیں گے۔ میں نے پوچھا کس لیے بلایا تھا، تو انہوں نے بتایا کنٹریکٹ کا معاملہ ہے۔ اب دیکھو کرکٹ بورڈ جن کرکٹرز کی وجہ سے ہے ان کے ساتھ ایک ایک ماہ، ایک ایک سال کا کنٹریکٹ کیا جاتا ہے۔ میں نے صرف اتنا پوچھا کہ واقعی ایسا ہوا ہے؟ کہتا ہے، ہاں۔ میں واپس اپنے کمرے میں گیا اور استعفیٰ لکھا کہ آپ کا رویہ پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ ایسا ہے، جن کی وجہ سے یہ بورڈ اور آپ لوگ ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس انگریز کھلاڑیوں سے آپ کا رویہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ تو یہ استعفیٰ لے کر میں وہاں گیا جہاں میٹنگ ہو رہی تھی اور پی سی بی کے سب لوگ بیٹھے تھے اور ادھر چیئرمین کے سامنے میز پر استعفیٰ رکھ دیا۔ تو بات یہ کر رہا تھا کہ ایک طرف اصول پسند لوگ ہوتے ہیں اور دوسرے خوشامدی۔ اصول پسند وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔

''غیرملکی کھلاڑیوں کے حسن اخلاق سے بہت متاثر ہوا''

اس ذکر پر کہ غیرملکی گریٹ اسپنرز شین وارن، مرلی دھرن اور انیل کمبلے وغیرہ ان سے سیکھنے کے لیے آئے اور ان کا اعتراف کرتے ہیں، عبدالقادر کا کہنا تھا کہ یہ گریٹ پلئیرز بھی ہیں اور بڑے انسان بھی ہیں۔ مجھے شین وارن کا پیغام ملاکہ ملنا چاہتا ہے، اس وقت میں باغ جناح میں پریکٹس کر رہا تھا۔ ان دنوں میں ڈیفنس میں رہتا تھا۔ میں نے اپنے دوست کا فون نمبر دے دیا۔ پھر وہ میرے گھر آیا اپنی آدھی ٹیم کو لے کر۔ کچھ دیر کے لیے میں کمرے سے اٹھ کر گیا تو اس نے میرے دوست کوکہا کہ وہ سگریٹ پینا چاہتا ہے۔

میرے دوست نے اسے کہا کہ تم یہاں سگریٹ نوشی کر سکتے ہو۔اس نے جواب دیا، ''نہیں، ادھر نہیں، یہاں عبدالقادر بیٹھا ہے۔'' اسی طرح مرلی دھرن پاکستان آیا تو کئی لوگوں کو میرے پاس بھیجا۔ پھر میں اس کے ساتھ نیٹ پرگیا۔ اسی طرح انیل کمبلے، سچن ٹنڈولکراور اظہرالدین کے ساتھ آیا۔ یار کیا انسان ہے کمبلے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ میرے سامنے مودب ہو کے کھڑا رہا۔ کرسی ساتھ پڑی تھی لیکن وہ بیٹھا نہیں، جب تک میں نے اسے بیٹھنے کا نہیں کہا۔

''بڑے کھلاڑیوں سے سیکھنے کاموقع ضائع نہ کریں''

دانش کنیریا کو میں نے نیٹ پرایک مہینے ٹریننگ دی اور اسے بڑی بنیادی بات بتائی کہ اگر تم نے آف سٹمپ پر لائن اور لینتھ کے ساتھ بال کرنا سیکھ لیا تو سمجھو تمھیں ساٹھ فیصد بولنگ آ گئی ہے۔ دانش کنیریا کے لیے میں نے جنرل توقیر ضیاء کو خط لکھا کہ اسے پاکستان ٹیم میں کھیلنا چاہیے اور انہوں نے میری بات مانی۔ توقیر ضیاء ، خالد محمود جیسے لوگوں کا رویہ کھلاڑیوں کے ساتھ اچھا ہے، ایسے لوگ کرکٹ بورڈ کو چلا سکتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے شہریار صاحب کو کہا کہ جو بچے کھچے آپ کے پاس بڑے کرکٹرز رہ گئے ہیں۔

ان کے حالات کو ایک کتاب اور سی ڈی کی شکل دے دیں۔ حنیف محمد صاحب، ظہیر عباس ہیں۔ اور کھلاڑی ہیں۔انہوں نے پوچھا یہ کیسے ہو گا؟ میں نے کہا ان کے لیے کرکٹ بورڈ میں ایک کمرہ بنائیں۔ انہیں کہیں جب آپ نے آنا ہو، ایک گاڑی آپ کو گھرسے لے آئے گی۔ یہاں آپ کو سارا دن چائے ، کافی ، کھانا ملے گا اور ایک صحافی آپ کے ساتھ بیٹھ جائے گا اور مختلف موضوعات چھیڑ کر آپ سے سوال پوچھے گا۔ وہ ان کی کتاب بناتا رہے گا۔ اور ایک بندہ ویڈیو بناتا رہے گا۔ اس کی مدد سے سی ڈی تیار ہو جائے گی۔ اب یہ کھلاڑی ہوں یا نہ ہوں آپ کے پاس ان کا کرکٹ کا علم آ جائے گا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ اب کیا ہوا، حنیف صاحب بھی چھوڑ کر چلے گئے، امتیاز صاحب بھی چلے گئے۔اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہمیں بھی زنگ لگا رہے ہو، سکھانے کا موقع نہیں دیتے کہ ہم اپنا کرکٹ کا علم نوجوان کھلاڑیوں کو دے سکیں۔

''پاکستانی کھلاڑی نا شکرے ہیں''

میرے سوال پر کہ شاہد آفریدی آپ کا نام نہیں لیتے، ان کا کہنا تھا: شاہد آفریدی کو جتنا میں نے پروجیکٹ کیا، ہر جگہ اسے کھلانے کی بات کی۔ لیکن اس کا اپنا ایک مزاج ہے۔ میں تو اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے۔ حضرت علیؓ کا قول بھی آپ کو سنایا۔ شاہد آفریدی کی تو کرکٹ ہی ختم ہو جاتی اگر میں اسے سکھانے نیٹ پرنہ لے جاتا۔ 2009ء میں جب میں چیف سلیکٹر تھا، اس کو میں فنگر کی گگلی نہ سکھاتا تو وہ کیا کرتا۔ اس کے بعد تو وہ چلا بھی اس پر ہے۔ شاہد آفریدی میرا نام نہ لے تو مجھے فرق نہیں پڑتا، نہ ہی اس سے میری پگڑی پر کوئی اضافی پر لگ جائے گا، لیکن حق کی بات کرتا ہوں کہ جس کا کریڈٹ ہے اسے ملنا چاہیے۔

میں تو کسی سے امید نہیں لگاتا بس یہ کہتا ہوں کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور ریکارڈ کو سیدھارکھو۔ میں نے آفریدی کو بتایا کہ آسٹریلیا میں جا کر یہ فیلڈنگ رکھو گے اور اس طرح بال کرو گے تو پانچ آؤٹ کر دو گے۔ اس نے چھ آؤٹ کردیئے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی کئی آؤٹ کیے۔ لیکن مجھے کسی بندے نے بتایا کہ اس نے تو کہا ہے کہ اس نے اپنی ویڈیوزسے سیکھا۔ میں نے کہا کہ اس نے کہا ہے توٹھیک ہی ہو گا۔ لیکن اب یہ بولنگ بھول جائے گا کیونکہ یہ کنجوسی سے کام لے رہا ہے۔ ارے بھائی تم شین وارن، انیل کمبلے سے بڑے بولر تو نہیں ہوجو اپنی کتابوں میں میرا ذکر کر رہے ہیں۔تو بات یہ ہے کہ پاکستانی پلئیر ناشکرے ہیں وہ آپ کو سیڑھی کی طرح استعمال کرتے ہیں، باہر کے کھلاڑی آپ کی چھوٹی سی بات کوبھی یاد رکھتے ہیں اور ادب و احترام سے پیش آتے ہیں۔ بہرحال ہمیں کسی سے امید نہیں رکھنی چاہیے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار سے پیش آنا چاہیے۔

''شہرت سے اپنا دماغ خراب نہیں ہونے دیا''

میرے ساتھ موجود ایکسپریس کے فوٹوگرافر طارق حسن نے بھی موقع دیکھ کر سوال کیاکہ آپ جب کھیلتے تھے، تب بھی صحافیوں کے ساتھ بہت اخلاق سے پیش آتے اور تصویر کھنچوانے یا بات کرنے کے لیے تیار ہوتے۔ عبدالقادر کا کہنا تھا: مجھے پتا ہے کئی کھلاڑی بدتمیزی کرتے تھے۔ لیکن یہ وہ بات ہے جو ہمارا مذہب سکھاتا ہے۔

میں آپ کو بتاتا ہوں، پڑھنے والوں کو بھی پتا چلے تاکہ وہ اس سے سیکھیں۔ حضورﷺ کا فرمان ہے سب سے اچھی بات بلند اخلاق اور مہمان نوازی ہے، جبکہ سب سے بری بات ہے بداخلاقی اور کنجوسی۔تو اخلاق آپ کا ہمیشہ بلند ہونا چاہیے۔ آپ کو اللہ نے بلا پکڑنا سکھا دیا ہے تو بس یہی فرق ہے آپ میں اور عام آدمی میں۔ عزت اللہ نے دی ہے، آپ کو رب کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ اپنا دماغ خراب کر لیں۔ آپ جلدی میں ہیں یا کوئی بات بھی ہے تو بہت آرام سے اپنی بات ان کے سامنے رکھیں۔ عمران خان کئی دفعہ غصے میں ہوں تو آگے سے ری ایکٹ کر دیتے تھے۔ لیکن میں نے کم از کم اس سے ہمیشہ اجتناب کیا، اور دوسروں کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ خود تکلیف سہہ کر دوسرے کا بھلا کر سکتے ہو تو دوسرے کا سوچو۔ تو میں نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستانیوں کے لیے نصیحت

میں دعا کرتا ہوں کہ ہماری آئندہ نسل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرے اور ان سے رہنمائی لے۔ ماں باپ اور معاشرے کے ساتھ بہترین سلوک کرنا چاہیے، سب کے ساتھ بھلائی کرنی ہے، برائی کا سوچنا ہی نہیں۔ دیکھیں دوسرے ممالک ناجائز منافع نہیں لیتے لیکن اس کے باوجود کرسمس کے موقع پر قیمتیں آدھی کر دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں رمضان اور عید پر قیمتیں دگنی کر دیتے ہیں، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع لیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھر رہا ہے۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ آخرت بنانے کے لیے اس مہینے میں چیزیں سستی کر کے کم منافع پر اکتفا کر لیا جائے۔ دوسری بات ملاوٹ کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں، اگر ایک بھی بندے کو یہ بات سمجھ آ جائے اور وہ ہدایت پکڑ لے۔ ملاوٹ کرنے والے کے بارے میں بھی حضور ﷺ کی حدیث پڑھ لیں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ پھر لوگ زیادہ منافع لینے کے لیے مرچوں میں اینٹیں، دودھ میں پانی کیوں ملاتے ہیں۔مردہ جانور کا گوشت کیوں کھلاتے ہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ یہاں بچ بھی گئے تو آخرت میں نہیں بچیں گے۔ اپنے آپ کوجہنم کے کنارے پرمت لے جاؤ۔ توبہ کر لو اور سیدھے رستے پر آ جاؤ۔ کم منافع لے لو۔ اور قرآن مجید کا حکم ہے کہ ناپ تول پورا دو۔ تو یہ باتیں بھی ضروری تھیں، اس لیے میں نے اس گفتگو میں شامل کر دیں۔

تین بلے باز، تین کہانیاں

ٹنڈولکر، برائن لارا اور مارٹن کرو ایسے تین عظیم بلے بازہیں، جب یہ نئے آئے تھے اور عظیم نہیں بنے تھے، میں نے ان کاکھیل دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ عظیم کھلاڑی بنیں گے۔ میری عادت ہے کہ باصلاحیت کھلاڑی جہاں بھی ہو، چاہے پاکستان میں یا دوسرے ممالک میں، کبھی ان کا مذہب، ملک نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ میں آپ کو تینوں کی کہانیاں سناتا ہوں۔

سچن ٹنڈولکر: کراچی ٹیسٹ میں وقار یونس بہت تیزگیند کر رہا تھا۔ لیکن سچن جوابھی لڑکا تھا وہ اعتماد سے اس کا سامنا کر رہا تھا۔ تو مجھے پتا چل گیا کہ یہ عام کھلاڑی نہیں ہے۔ پھر سچن مجھے ہوٹل یا گراؤنڈ میں ملتا، میں جا کے اسے گلے ملتا، اس کی تعریف کرتا، شاباشی دیتا۔ کرتے کرتے ہمارا پشاورمیں میچ تھا، بڑا کراؤڈ آیا لیکن بارش کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ انتظامیہ نے شائقین کی خاطر تیس اووز کا دوستانہ میچ رکھ لیا۔ شری کانت میرا سامنا کر رہا تھا اور سچن دوسرے اینڈ پر کھڑا تھا۔ میں نے تیس اوورز کے میچ میں اسے میڈن اوور کر دیا۔ لیکن ٹنڈولکر کو کہا کہ اگلے اوور میں اگرتم سامنے آ گئے تو مجھے آگے نکل کر چھکا مارنے کی کوشش کرنی ہے۔



لو بھئی اس نے بھی اس حوصلہ افزائی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پہلی دونوں گیندوں پر نکل کے چھکے مار دیئے۔تیسری گیند پر اس کا کیچ ڈراپ ہو گیا۔ اور اسی اوور میں وہ ایک اور چھکا لگانے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے جان بوجھ کر چھکے کھائے، ایسا نہیں ہے۔ میں نے تو اپنی پوری صلاحیت سے گیندیں کیں، یہ اس کا ٹیلنٹ تھا کہ مجھے چھکے لگائے۔ لیکن اس وقت چھکے لگانے کاکہنا چیلنج نہیں تھا، بلکہ ایک طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ ہاں تین چار سال بعد جب وہ سچن ٹنڈولکر بن گیا تب ڈبل وکٹ ٹورنامنٹ میں اس کو چیلنج دیا۔ وہ ہنسنے لگا۔ اس میچ میں وہ مجھے کھل کر نہ کھیل سکا اور آؤٹ ہو گیا۔ وہ ٹورنامنٹ سلیم ملک اور میں جیت گئے۔

برائن لارا: ویسٹ انڈیز کے دورے میں مجھے کسی نے بتایا کہ ایک نیا لڑکا آیا ہے جو گیری سوبرزسے بھی بڑا پلیئر بنے گا۔ میں نے وہاں اسے کھیلتے ہوئے دیکھا اور آؤٹ بھی کیا۔ پھر وہ پاکستان آیاتو میں اسے نیٹ پر لے کر گیا اور کہا کہ تمھیں پریکٹس کراتا ہوں۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اسے یہ پیشکش کر رہا ہوں۔ پھر ہم نیٹ میں گئے اور پریکٹس کی۔ اسے کہا کہ تم گریٹ پلیئر بنو گے۔ یہی بات سچن کو بھی کی تھی۔ اس نے یہ بات یاد رکھی، میں 1996ء میں بریڈ مین کا چیریٹی میچ کھیلنے گیا۔ جیسے ہی لفٹ سے اترا، دیکھا کہ برائن لارا اپنے دو دوستوں کے ساتھ جلدی میں جا رہا ہے۔ اس کی نظر مجھ پر پڑی تودوستوں کو چھوڑ کر سلوموشن میں بھاگتا ہوا میرے پاس آیا، گڈ آفٹر نون کہا اور ادب سے کھڑا ہو گیا۔ کیا خوبصورت لوگ ہیں وہ، چھوٹی سی بات کو بھی یاد رکھتے ہیں۔

مارٹن کرو: یہی معاملہ مارٹن کرو کا بھی ہے۔ شروع میں وہ آؤٹ ہو جاتا تھا لیکن میں نے اسے کہا کہ ابھی تم کامیاب نہیں ہوئے، لیکن آگے چل کر گریٹ پلیئر بنو گے۔ دو سال بعد ہم نے ٹور کیا، میری بولنگ پرایج ہوکر یہ آؤٹ ہوگیا۔ ایمپائر نے آؤٹ نہیں دیا اور یہ بھی واپس نہیں گیا۔

بعد میں اس نے سنچری کر لی۔ دوسرے دن میں ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو یہ ڈریسنگ روم میں جا رہا تھا۔ کٹ بیگ رکھا اور کہا سر گڈمارننگ ٹو یو۔ میں نے کہا گڈمارننگ۔تمھیں یاد ہے کہ میں نے تم سے ایک بات کی تھی۔ اس نے کہا،جی ہاں۔ میں نے بتایا کہ میں نے کہا تھا کہ تم ایک گریٹ پلیئر بنو گے لیکن یہ صرف گریٹ پلیئر بننا کافی نہیں، بلکہ کھلاڑی کے رویے سے بھی پتا چلنا چاہیے کہ وہ بڑا کھلاڑی ہے۔ کل تمھیں بھی پتا تھا کہ تم آؤٹ ہو، پھر بھی واپس نہیں گئے۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سر معذرت کرتا ہوں، آئندہ خیال رکھوں گا۔ تو یہ چیزیں ہیں جو میں نے ان کھلاڑیوں میں دیکھی ہیں۔
Load Next Story