پنجاب خیبر پختونخوا میں بارش کی تباہ کاریاں
کراچی کی معروضی صورت حال کے آئینہ میں ایک فکر انگیز تقابل پنجاب اور خیبر پختونخوا انتظامیہ کے سامنے رکھ دیا ہے۔
ملک بھر میں مون سون کی موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، اب ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلاب بھی آ رہا ہے، جس سے تباہی کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔
کراچی میں بارش نے جو حشر برپا کیا، اس سے پورا ملک آگاہ ہے تاہم پنجاب اور خیبر پختونخو ا میں بھی مسلسل موسلادھار بارشوں اور سیلاب نے بہت زیادہ نقصان کیا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے کے واقعات میںمتعدد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ لاہور کے بعض پوش علاقوں میں بھی پانی جمع ہو گیا۔ ادھر خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی اور انسانی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ مدین، سوات، شانگلہ و دیگر میں صورت حال بدستور سنگین ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے کراچی کی معروضی صورت حال کے آئینہ میں ایک فکر انگیز تقابل پنجاب اور خیبر پختونخوا انتظامیہ کے سامنے رکھ دیا ہے، مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کی شدت بلاشبہ ایک جیسی رہی بلکہ سیلاب تو دریائے سندھ اور چناب میں بھی آیا، معمولات زندگی برباد ہوئے، دلچسپ امر ملاحظہ ہو کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کوبھی انتظامات مزید بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم سے خصوصی ریلیف یا امدادی پیکیج کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ پشاوراور خیبرپختونخوا کے دیگر شہروں کے بلدیاتی اداروں کے سربراہ اور سرکاری افسراور اہلکار کیا کررہے تھے، حالانکہ وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں سے اپنی تنخواہیں اور مراعات وصول کررہے ہیں۔ان کی جواب طلبی کس نے کرنی ہے؟
پنجاب کی سیاسی قیادت اور سرکاری انتظامیہ بھی مون سون سے غافل تو نہیں ہو گی، انھیں یقینا معلوم ہو گا کہ مون سون میں بارشیں، آندھی اور سیلاب آتے ہیں مگر کوئی رین ایمرجنسی کارگر کیوں ثابت نہیں ہوسکی،لاہور اور پنجاب کے دیگر شہری اداروں میں تعینات سرکاری افسراور اہلکار بھی قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی حالیہ مون سون کی بارشوں اور سیلاب میں سب کے سامنے کھل کر آ گئی ہے۔کیا وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی ٹیم کے ارکان مون سون کے سنگین نتائج سے واقف نہیں تھے؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں رین انفرااسٹرکچر کی فراہمی اور دونوں صوبوں میں بلدیاتی سطح پر شاندار پرفارمنس دکھانے میں ناکام کیوں رہیں؟
حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں اور اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جب کہ پاکستان کے عوام خواہ ان کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہے، غربت، بے روگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور رہی سہی کسر حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پوری کردی ہے۔
کراچی میں بارش نے جو حشر برپا کیا، اس سے پورا ملک آگاہ ہے تاہم پنجاب اور خیبر پختونخو ا میں بھی مسلسل موسلادھار بارشوں اور سیلاب نے بہت زیادہ نقصان کیا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے کے واقعات میںمتعدد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ لاہور کے بعض پوش علاقوں میں بھی پانی جمع ہو گیا۔ ادھر خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی اور انسانی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ مدین، سوات، شانگلہ و دیگر میں صورت حال بدستور سنگین ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے کراچی کی معروضی صورت حال کے آئینہ میں ایک فکر انگیز تقابل پنجاب اور خیبر پختونخوا انتظامیہ کے سامنے رکھ دیا ہے، مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کی شدت بلاشبہ ایک جیسی رہی بلکہ سیلاب تو دریائے سندھ اور چناب میں بھی آیا، معمولات زندگی برباد ہوئے، دلچسپ امر ملاحظہ ہو کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کوبھی انتظامات مزید بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم سے خصوصی ریلیف یا امدادی پیکیج کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ پشاوراور خیبرپختونخوا کے دیگر شہروں کے بلدیاتی اداروں کے سربراہ اور سرکاری افسراور اہلکار کیا کررہے تھے، حالانکہ وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں سے اپنی تنخواہیں اور مراعات وصول کررہے ہیں۔ان کی جواب طلبی کس نے کرنی ہے؟
پنجاب کی سیاسی قیادت اور سرکاری انتظامیہ بھی مون سون سے غافل تو نہیں ہو گی، انھیں یقینا معلوم ہو گا کہ مون سون میں بارشیں، آندھی اور سیلاب آتے ہیں مگر کوئی رین ایمرجنسی کارگر کیوں ثابت نہیں ہوسکی،لاہور اور پنجاب کے دیگر شہری اداروں میں تعینات سرکاری افسراور اہلکار بھی قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی حالیہ مون سون کی بارشوں اور سیلاب میں سب کے سامنے کھل کر آ گئی ہے۔کیا وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی ٹیم کے ارکان مون سون کے سنگین نتائج سے واقف نہیں تھے؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں رین انفرااسٹرکچر کی فراہمی اور دونوں صوبوں میں بلدیاتی سطح پر شاندار پرفارمنس دکھانے میں ناکام کیوں رہیں؟
حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں اور اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جب کہ پاکستان کے عوام خواہ ان کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہے، غربت، بے روگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور رہی سہی کسر حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پوری کردی ہے۔