ماضی کے جھروکوں سے
’’ماضی کے جھروکوں میں‘‘ لاہور کے ماڈل ٹاؤن کی کہانی بھی ہے۔
پچھلے وقتوں میں لکھی گئی اردو کی مقبول کتابوں کو جو اب دستیاب نہیں ہیں دوبارہ مرتب کرکے ''زندہ کتابیں'' کے عنوان سے شایع کرنے کا جو سلسلہ راشد اشرف نے شروع کیا ہے اس کے تحت اب تک 80 کے قریب کتابیں چھپ کر بازار میں آچکی ہیں۔
''ماضی کے جھروکوں سے'' اسی سلسلے کی کتاب ہے۔ یہ تقسیم سے پہلے سے ساٹھ کی دہائی تک کے ادبی رسائل سے منتخب دلچسپ مضامین کا مجموعہ ہے۔ راشد کہتے ہیں کہ مضامین کے انتخاب میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ منتخب کردہ تحریریں خشک نہ ہوں مبادا پڑھنے والا اکتا جائے۔ سچ پوچھیے تو رسائل اور جرائد میں ایسے ایسے موتی پنہاں ہیں کہ تلاش شروع کیجیے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کسے چھوڑیے اور کسے محفوظ کیجیے۔
حافظ محمد عالم ''میری کہانی میری زبانی'' کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ 1923 کی موسم بہار کی ایک گل بداماں صبح کو میں کبھی نہ بھولوں گا جب کہ بہار کی دیوی نے اپنا افسوں پھونک کر ہر چیز کو دامان باغباں بنا دیا تھا۔ حد نگاہ تک شباب بہار انگڑائیاں لیتا نظر آتا تھا اور ایسے میں اگر صفدر مرزا پوری کا یہ بہار آفریں شعر بے اختیار زبان پر آجائے تو تعجب کی کون سی بات ہے:
یہ قد بوٹا سا' گُل سے گال' آنکھیں نرگسِ شہلا
جوانی تم پہ کیا آئی بہار آئی گلستاں میں
ہاں تو اسی جاں فروز اور باصرہ نواز صبح کو میں اپنے کسی کام سے لاہور کے بڑے ڈاک خانے کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں معاً خیال آیا کہ کوئی ماہنامہ جاری کرنا چاہیے اس وقت رسائل کی یہ ہمہ ہمی اور اخبارات کی یہ گہما گہمی نہ تھی۔ اخبارات اور رسائل سے دلچسپی کا مذاق عوام میں ابھی عام نہ تھا۔ ایسے حوصلہ شکن حالات میں مجھ ایسے بے وسیلہ نوجوان کے لیے کسی رسالے کا اجرا بہت مشکل کام تھا۔ تھوڑی دیر تک دل و دماغ میں خیالات کی کشمکش کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر یہی فیصلہ ہوا کہ رسالہ ضرور جاری کرنا چاہیے اگرچہ دل کے کسی گوشے سے یہ آواز ضرور آ رہی تھی:
در رہِ منزل لیلیٰ کہ خطر یاست بے
شرطِ اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
رسالے کے اجرا کے فیصلے کے بعد رسالے کے نام کا مسئلہ پیش آیا۔ چند ہی منٹ میں جب انارکلی کی مشہور عمارت نقی بلڈنگ کے اس طرف چھوٹے لال مندر کے سامنے پہنچا تو اچانک میرے ذہن میں ایک نام آیا اور وہ نام تھا ''عالمگیر''۔ میں خوشی سے اچھل پڑا۔ دوسرے ہی دن اللہ کا نام لے کر ڈکلیریشن داخل کردیا جو منظور ہو گیا۔ ڈکلیریشن کی منظوری کے وقت انگریز مجسٹریٹ کے یہ الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں ''دیکھو! گورنمنٹ کے خلاف کچھ مت لکھنا۔'' منشی رفیق احمد رامپوری نے ''عالمگیر'' کے پہلے پرچے کی طباعت کی اور گلزار اسٹیم پریس سے چھپ کر جون 1924 میں شمارہ اول منظر عام پر آیا۔
خواجہ عبدالعزیز، اے حمید کے والد تھے۔ جب کبھی وہ اے حمید کو میز پر بیٹھے کچھ نہ کچھ لکھتے دیکھتے تو کہتے ''حمید یار! کبھی ہماری ڈائری بھی نوٹ کر لیا کرو'' ڈائری سے ان کی مراد جلیانوالہ باغ کے واقعات تھے۔ جس وقت جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دیا تھا، وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ خواجہ صاحب جب بھی اے حمید سے کہتے کہ وہ ان سے اس المناک واقعے کا حال سن لیں وہ ہنس کر ٹال جاتے۔ آخر ایک روز انھوں نے اپنے والد کی جوانی کی یادوں کے سمندر میں غوطہ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ اے حمید لکھتے ہیں ''یہ بحرہند کا تاریک سمندر تھا جس کی مہیب شوریدہ سر موجوں کو چیرتے ہوئے کبھی امرتسری محب وطن قیدیوں سے بھرے جہاز گزرتے تھے۔ ان جلا وطن عمر قیدیوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی اس لیے کہ امرتسری مسلمان سیاسی اعتبار سے زیادہ بیدار تھا اور اس میں آزادی کی زیادہ تڑپ تھی۔ بقول ابا جی جلیانوالہ باغ کی تاریخ امرتسری مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے۔''
خواجہ صاحب کا بیان اور اے حمید کی تحریر کمال کی چیز ہے۔
خدیجہ مستور کی ایک تحریر ناصر کاظمی کی یاد میں ہے۔ وہ لکھتی ہیں ''ناطر کاظمی سے میری کبھی کبھی ملاقات ہوتی تھی۔ وہ اپنا جھانکر جیسا نحیف و نزار جسم گھسیٹے میرے پاس آتے، سلام دعا کے بعد خیریت پوچھتے اور چلے جاتے۔ کتنی بار میرا جی چاہا کہ ان سے باتیں کروں، ان سے کہوں آپ کی صحت بہت خراب ہے۔ اس صحت پر کتنے دن جئیں گے۔ کیفیت اور خیال کو اشکال کی صورت دینے والا شاعر کہیں قبل از وقت مر ہی نہ جائے اور مجھے ان کا یہ شعر یاد آنے لگتا۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
''ماضی کے جھروکوں میں'' ایک تحریر جگن ناتھ آزاد کی ہے۔ عنوان ہے ''شیخ عبدالقادر سے چند یادگار ملاقاتیں''۔ آزاد لکھتے ہیں ''ایک بار لاہور میں ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو شیخ صاحب نے اپنے متعلق ایک بات کہی جس سے ان کی اقدار زندگی پر بہت اچھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ نے کہا کہ دنیوی اعتبار سے خدا نے مجھے بہت عزتیں دی ہیں۔ میں وزیر ہند کی ایڈوائزری کونسل تک پہنچا ہوں لیکن جب بھی دو چار احباب جمع ہو جاتے ہیں اور میرا ذکر ہوتا ہے تو اس کا تعلق نہ وائسرائے کی ایگزیکٹیو کی ممبری سے ہوتا ہے نہ ہائی کورٹ کی ججی سے بلکہ میری زندگی کے اس دور سے جب میں ''مخزن'' کو مرتب کرتا تھا۔ میں خود بھی اس دور کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی دور سمجھتا ہوں۔''
صوفی غلام مصطفی تبسم نے 1963 میں ''ادبِ لطیف'' میں اپنی ادبی زندگی پر ایک مضمون لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''میری ادبی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں میٹرک میں امتحان پاس کرکے خالصہ کالج، امرتسر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔ امرتسر یوں تو ایک تجارتی شہر تھا لیکن وہاں قدیم کشمیری گھرانوں اور دوسرے علمی خاندانوں کی علمی روایات قائم ہوچکی تھیں۔ اسی شہر سے روزنامہ ''وکیل'' شایع ہوتا تھا جس کا شمار اس زمانے کے مقتدر جریدوں میں ہوتا تھا اور جس کی ادارت مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبداللہ عمادی ایسے بزرگوں کے ہاتھوں میں رہی۔ شہر کے مختلف گوشوں میں مولوی عبدالجبار غزنوی، مفتی غلام رسول، مفتی عبدالصمد، مفتی غلام مرتضیٰ جیسی جلیل القدر ہستیاں اپنی اپنی مسند علم پر بیٹھی درس و تدریس میں محو تھیں۔ ادبی حلقوں میں علامہ شعری، حضرت حکیم الشعرا طغرائی، شمس مینائی، سردار جہانگیر سنگھ جہانگیر اور دیوان محسن جیسے بلند پایہ شاعروں کے نام گونج رہے تھے۔''
''ماضی کے جھروکوں میں'' لاہور کے ماڈل ٹاؤن کی کہانی بھی ہے۔ یہ کہانی داؤد رہبر نے لکھی ہے اور یہ ''ادبی دنیا'' کے مارچ 1949 کے شمارے میں چھپی تھی۔
داؤد رہبر لکھتے ہیں ''ہمارے کنبے کو اس بستی میں آباد ہوئے آج بائیس سال ہوئے ہیں۔ اب تو خیر پاکستان بننے کے بعد نقشہ ہی نیا ہے لیکن اس سے پہلے بھی ہم یہاں کے سب سے پرانے رہنے والے تھے۔ اس بات پر میں فخر کرتا ہوں، خدا جانے کیوں۔ میں تقریباً پیدا ہی ماڈل ٹاؤن میں ہوا ہوں یعنی 16 جولائی 1926 کو تین ماہ کی عمر میں یہاں آیا۔ ہوش کے زمانے سے پہلے کی باتیں بڑوں سے سنی ہیں۔ ہم جب یہاں آئے تھے تو کل چار پانچ بنگلے تھے۔ ادھر کلب گھر تھا جس کی عمارت اتنی پرانی ہونے کے باوجود بالکل نئی معلوم ہوتی ہے۔ تین بنگلے امداد باہمی کی انجمن نے خود نمونے کے طور پر تعمیر کیے تھے۔ ان ہی میں سے ایک بنگلہ اسکولوں کے لیے الگ کرلیا گیا تھا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جن دنوں اس بستی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی خود لاہور شہر کی آبادی پر گنجان ہونے کا گمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔''کتاب کے آخر میں ''شب گزیدہ'' کے عنوان سے راشد اشرف نے باذوق قارئین کے لیے ایک کہانی خصوصی طور پر شامل کی ہے۔ یہ امریکی تاریخ میں کالوں کے ساتھ ہونے والے ہتک آمیز رویوں کے موضوع پر ایک دل گداز تحریر ہے۔
''ماضی کے جھروکوں سے'' اسی سلسلے کی کتاب ہے۔ یہ تقسیم سے پہلے سے ساٹھ کی دہائی تک کے ادبی رسائل سے منتخب دلچسپ مضامین کا مجموعہ ہے۔ راشد کہتے ہیں کہ مضامین کے انتخاب میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ منتخب کردہ تحریریں خشک نہ ہوں مبادا پڑھنے والا اکتا جائے۔ سچ پوچھیے تو رسائل اور جرائد میں ایسے ایسے موتی پنہاں ہیں کہ تلاش شروع کیجیے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کسے چھوڑیے اور کسے محفوظ کیجیے۔
حافظ محمد عالم ''میری کہانی میری زبانی'' کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ 1923 کی موسم بہار کی ایک گل بداماں صبح کو میں کبھی نہ بھولوں گا جب کہ بہار کی دیوی نے اپنا افسوں پھونک کر ہر چیز کو دامان باغباں بنا دیا تھا۔ حد نگاہ تک شباب بہار انگڑائیاں لیتا نظر آتا تھا اور ایسے میں اگر صفدر مرزا پوری کا یہ بہار آفریں شعر بے اختیار زبان پر آجائے تو تعجب کی کون سی بات ہے:
یہ قد بوٹا سا' گُل سے گال' آنکھیں نرگسِ شہلا
جوانی تم پہ کیا آئی بہار آئی گلستاں میں
ہاں تو اسی جاں فروز اور باصرہ نواز صبح کو میں اپنے کسی کام سے لاہور کے بڑے ڈاک خانے کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں معاً خیال آیا کہ کوئی ماہنامہ جاری کرنا چاہیے اس وقت رسائل کی یہ ہمہ ہمی اور اخبارات کی یہ گہما گہمی نہ تھی۔ اخبارات اور رسائل سے دلچسپی کا مذاق عوام میں ابھی عام نہ تھا۔ ایسے حوصلہ شکن حالات میں مجھ ایسے بے وسیلہ نوجوان کے لیے کسی رسالے کا اجرا بہت مشکل کام تھا۔ تھوڑی دیر تک دل و دماغ میں خیالات کی کشمکش کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر یہی فیصلہ ہوا کہ رسالہ ضرور جاری کرنا چاہیے اگرچہ دل کے کسی گوشے سے یہ آواز ضرور آ رہی تھی:
در رہِ منزل لیلیٰ کہ خطر یاست بے
شرطِ اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
رسالے کے اجرا کے فیصلے کے بعد رسالے کے نام کا مسئلہ پیش آیا۔ چند ہی منٹ میں جب انارکلی کی مشہور عمارت نقی بلڈنگ کے اس طرف چھوٹے لال مندر کے سامنے پہنچا تو اچانک میرے ذہن میں ایک نام آیا اور وہ نام تھا ''عالمگیر''۔ میں خوشی سے اچھل پڑا۔ دوسرے ہی دن اللہ کا نام لے کر ڈکلیریشن داخل کردیا جو منظور ہو گیا۔ ڈکلیریشن کی منظوری کے وقت انگریز مجسٹریٹ کے یہ الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں ''دیکھو! گورنمنٹ کے خلاف کچھ مت لکھنا۔'' منشی رفیق احمد رامپوری نے ''عالمگیر'' کے پہلے پرچے کی طباعت کی اور گلزار اسٹیم پریس سے چھپ کر جون 1924 میں شمارہ اول منظر عام پر آیا۔
خواجہ عبدالعزیز، اے حمید کے والد تھے۔ جب کبھی وہ اے حمید کو میز پر بیٹھے کچھ نہ کچھ لکھتے دیکھتے تو کہتے ''حمید یار! کبھی ہماری ڈائری بھی نوٹ کر لیا کرو'' ڈائری سے ان کی مراد جلیانوالہ باغ کے واقعات تھے۔ جس وقت جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دیا تھا، وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ خواجہ صاحب جب بھی اے حمید سے کہتے کہ وہ ان سے اس المناک واقعے کا حال سن لیں وہ ہنس کر ٹال جاتے۔ آخر ایک روز انھوں نے اپنے والد کی جوانی کی یادوں کے سمندر میں غوطہ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ اے حمید لکھتے ہیں ''یہ بحرہند کا تاریک سمندر تھا جس کی مہیب شوریدہ سر موجوں کو چیرتے ہوئے کبھی امرتسری محب وطن قیدیوں سے بھرے جہاز گزرتے تھے۔ ان جلا وطن عمر قیدیوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی اس لیے کہ امرتسری مسلمان سیاسی اعتبار سے زیادہ بیدار تھا اور اس میں آزادی کی زیادہ تڑپ تھی۔ بقول ابا جی جلیانوالہ باغ کی تاریخ امرتسری مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے۔''
خواجہ صاحب کا بیان اور اے حمید کی تحریر کمال کی چیز ہے۔
خدیجہ مستور کی ایک تحریر ناصر کاظمی کی یاد میں ہے۔ وہ لکھتی ہیں ''ناطر کاظمی سے میری کبھی کبھی ملاقات ہوتی تھی۔ وہ اپنا جھانکر جیسا نحیف و نزار جسم گھسیٹے میرے پاس آتے، سلام دعا کے بعد خیریت پوچھتے اور چلے جاتے۔ کتنی بار میرا جی چاہا کہ ان سے باتیں کروں، ان سے کہوں آپ کی صحت بہت خراب ہے۔ اس صحت پر کتنے دن جئیں گے۔ کیفیت اور خیال کو اشکال کی صورت دینے والا شاعر کہیں قبل از وقت مر ہی نہ جائے اور مجھے ان کا یہ شعر یاد آنے لگتا۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
''ماضی کے جھروکوں میں'' ایک تحریر جگن ناتھ آزاد کی ہے۔ عنوان ہے ''شیخ عبدالقادر سے چند یادگار ملاقاتیں''۔ آزاد لکھتے ہیں ''ایک بار لاہور میں ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو شیخ صاحب نے اپنے متعلق ایک بات کہی جس سے ان کی اقدار زندگی پر بہت اچھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ نے کہا کہ دنیوی اعتبار سے خدا نے مجھے بہت عزتیں دی ہیں۔ میں وزیر ہند کی ایڈوائزری کونسل تک پہنچا ہوں لیکن جب بھی دو چار احباب جمع ہو جاتے ہیں اور میرا ذکر ہوتا ہے تو اس کا تعلق نہ وائسرائے کی ایگزیکٹیو کی ممبری سے ہوتا ہے نہ ہائی کورٹ کی ججی سے بلکہ میری زندگی کے اس دور سے جب میں ''مخزن'' کو مرتب کرتا تھا۔ میں خود بھی اس دور کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی دور سمجھتا ہوں۔''
صوفی غلام مصطفی تبسم نے 1963 میں ''ادبِ لطیف'' میں اپنی ادبی زندگی پر ایک مضمون لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''میری ادبی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں میٹرک میں امتحان پاس کرکے خالصہ کالج، امرتسر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔ امرتسر یوں تو ایک تجارتی شہر تھا لیکن وہاں قدیم کشمیری گھرانوں اور دوسرے علمی خاندانوں کی علمی روایات قائم ہوچکی تھیں۔ اسی شہر سے روزنامہ ''وکیل'' شایع ہوتا تھا جس کا شمار اس زمانے کے مقتدر جریدوں میں ہوتا تھا اور جس کی ادارت مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبداللہ عمادی ایسے بزرگوں کے ہاتھوں میں رہی۔ شہر کے مختلف گوشوں میں مولوی عبدالجبار غزنوی، مفتی غلام رسول، مفتی عبدالصمد، مفتی غلام مرتضیٰ جیسی جلیل القدر ہستیاں اپنی اپنی مسند علم پر بیٹھی درس و تدریس میں محو تھیں۔ ادبی حلقوں میں علامہ شعری، حضرت حکیم الشعرا طغرائی، شمس مینائی، سردار جہانگیر سنگھ جہانگیر اور دیوان محسن جیسے بلند پایہ شاعروں کے نام گونج رہے تھے۔''
''ماضی کے جھروکوں میں'' لاہور کے ماڈل ٹاؤن کی کہانی بھی ہے۔ یہ کہانی داؤد رہبر نے لکھی ہے اور یہ ''ادبی دنیا'' کے مارچ 1949 کے شمارے میں چھپی تھی۔
داؤد رہبر لکھتے ہیں ''ہمارے کنبے کو اس بستی میں آباد ہوئے آج بائیس سال ہوئے ہیں۔ اب تو خیر پاکستان بننے کے بعد نقشہ ہی نیا ہے لیکن اس سے پہلے بھی ہم یہاں کے سب سے پرانے رہنے والے تھے۔ اس بات پر میں فخر کرتا ہوں، خدا جانے کیوں۔ میں تقریباً پیدا ہی ماڈل ٹاؤن میں ہوا ہوں یعنی 16 جولائی 1926 کو تین ماہ کی عمر میں یہاں آیا۔ ہوش کے زمانے سے پہلے کی باتیں بڑوں سے سنی ہیں۔ ہم جب یہاں آئے تھے تو کل چار پانچ بنگلے تھے۔ ادھر کلب گھر تھا جس کی عمارت اتنی پرانی ہونے کے باوجود بالکل نئی معلوم ہوتی ہے۔ تین بنگلے امداد باہمی کی انجمن نے خود نمونے کے طور پر تعمیر کیے تھے۔ ان ہی میں سے ایک بنگلہ اسکولوں کے لیے الگ کرلیا گیا تھا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جن دنوں اس بستی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی خود لاہور شہر کی آبادی پر گنجان ہونے کا گمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔''کتاب کے آخر میں ''شب گزیدہ'' کے عنوان سے راشد اشرف نے باذوق قارئین کے لیے ایک کہانی خصوصی طور پر شامل کی ہے۔ یہ امریکی تاریخ میں کالوں کے ساتھ ہونے والے ہتک آمیز رویوں کے موضوع پر ایک دل گداز تحریر ہے۔