گڈ گورننس کیلئے مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا
خواتین سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کی نمائندگی کو موثر بنایا جائے اور فوری بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جائے
BELGRADE:
مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کا ستون تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو اس وقت کسی صوبے میں مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیں ہے بلکہ صوبائی حکومتوں کے ذریعے ہی معاملات چلانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کروانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر ''ایکسپریس فورم'' میں ''مقامی حکومتوں کا نظام اور حکومتی ترجیحات'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ملک احمد خان بھچر
( پارلیمانی سیکرٹری برائے لوکل باڈیز وکمیونٹی ڈویلپمنٹ پنجاب)
ملکی تاریخ کے سب سے بڑے بلدیاتی انتخابات نومبر میں ہونے جارہے ہیں۔ اگر کورونا نہ آتا تو ویلیج کونسل کے انتخابات اپریل میں ہوچکے ہوتے۔ مقامی حکومتوں کا نظام حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ ایسا نظام لایا جارہا ہے جو صحیح معنوں میں عوامی مفاد میں ہوگا۔ آرٹیکل 140(A) کے تحت مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جارہا ہے۔
تمام اتھارٹیز ختم کر دی جائیں گی جبکہ ایل ڈی اے، واسا، پی ایچ اے و دیگر محکمے بھی مقامی حکومتوں کے زیر انتظام ہوں گے تاکہ وہ موثر طریقے سے کام کر سکیں۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ مقامی حکومتوں کا ایسا مضبوط اور بااختیار نظام آئے گا۔ ویلیج کونسل کو بجلی کے کاموں کا اختیار بھی ہوگا جبکہ 30فیصد ترقیاتی بجٹ لوکل گورنمنٹ کے ذریعے خرچ کیا جائے گا۔
لوکل کونسل کوفی کس کے حساب سے فنڈز ملیں گے جو وہ اپنی مرضی سے لوگوں کی فلاح کیلئے خرچ کر سکے گی اور متعلقہ ٹاؤن کمیٹی مقامی سطح پر ترقیاتی و دیگر کام بھی کرسکے گی۔جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں بہترین بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا۔ اس میں کچھ خرابیاں تھیں لیکن اگر اس کا تسلسل جاری رہتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ پنجاب حکومت عرصہ دراز تک مسلم لیگ (ن) کے پاس رہی ہے مگر انہوں نے بلدیاتی نظام نہیں دیا اور جب بلدیاتی نظام لائے تو وہ انتہائی کمزور تھا جس سے مزید خرابیاں پیدا ہوئیں۔
تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام دیا اور اب پنجاب میں بھی بہترین نظام لایا جارہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء میں ویلیج کونسل اور نیبر ہڈ کونسل بنائی گئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک یونین کونسل 3ریونیو سٹیٹ میں ہوتی تھی، آبادی 20 ہزار سے 25 ہزار ہوتی تھی جو صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے شروع ہوکر دوسرے حلقے تک چلی جاتی تھی۔ اب ریونیو سٹیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ویلیج کونسل قائم کی جائے گی، یہ ریونیو سٹیٹ 500 سے شروع ہوکر 15 ہزار آبادی تک ہوگی۔اس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گاا ور مقامی سطح پر ہی اس کے مسائل حل ہوسکیں گے، خواتین کو بھی پیدائشی سرٹیفکیٹ و دیگر کاموں کیلئے زیادہ دور جانا نہیں پڑے گا۔
بلدیہ آن لائن اور نقشہ آن لائن سروس متعارف کر دی گئی ہے، اب لوگ گھر بیٹھے سروسز حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا اچھا رسپانس آیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ سے 455 شعبے منسلک ہیں جو انتہائی اہم ہیں اور لوگوں کی ضرورت ہیں۔ میرے نزدیک مقامی حکومتوں کا نظام لوگوں کی بہتری اور گڈ گورننس کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ویلیج کونسل اور نیبر ہڈ کونسل میں ڈائریکٹ الیکشن نہیں ہوگا، اس میںشرح کے حساب سے نشستیں رکھی گئی ہیں، یہ ملٹی سسٹم ہوگا اور اس سے مسائل پیدا نہیں ہوں گے تاہم بڑے شہروں میں اب بھی الیکشن مشکل ہوگا۔
سلمان عابد
(دانشور)
18 ویں ترمیم کے بعد خیال یہ تھا کہ جس طرح وفاق نے صوبوں کو اختیارات منتقل کیے ہیں، اسی طرح صوبے مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل کریں گے مگر بدقسمتی سے ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے آج تک لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوسکے۔
مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی سے مراد یہ تھا کہ آرٹیکل 140(A) کے تحت لوکل گورنمنٹ کو سیاسی، انتظامی اور مالی بنیادوں پر خود مختاری دی جائے گی تاکہ 'سیلف گورنمنٹ' کا ماڈل بنے اور حکومت کا تیسرا زینہ بن سکے۔ صوبائی خودمختاری اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اضلاع کو خودمختاری نہ ملے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماضی میں مرکزی ماڈل کے تحت حکومت چلائی گئی اور ہماری جمہوری طاقتوں نے بھی وہی غلطی کی جو غیر جمہوری طاقتوں نے کی۔ جب بھی سیاسی حکومت آئی تو اس کا سب سے بڑا شکار مقامی حکومتوں کا نظام تھا۔
کبھی سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اور کبھی ویسے ہی کروائے گئے مگر مقامی حکومتوں کو بااختیار اور مضبوط نہیں بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتیں موثر کام کرتے ہوئے نظر نہیں آئی۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو بات سب سے زیادہ زیر بحث آتی ہے وہ گورننس کا بحران ہے اور اس کا براہ راست تعلق مقامی حکومتوں سے ہے کیونکہ اختیارات کی جتنی زیادہ تقسیم ہوگی اور نچلی سطح تک منتقلی ہوگی، گورننس کا نظام اتنا زیادہ موثر ہوگا۔ آج کراچی کے تناظر میں وزیراعظم ا ور آرمی چیف سے لے کر نچلی سطح تک، سب لوکل باڈیز کا ذکر کر رہے ہیں اور ان کی اہمیت پر بات کی جارہی ہے۔
افسوس ہے کہ چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام نہیں ہے جو گورننس کے مسائل کی بڑی وجہ ہے لہٰذا صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کا موثر نظام لائیں اور اس میں کاسمیٹک اقدامات سے باز رہیں۔ صوبائی حکومتوں کو اس تاثر کی بھی نفی کرنی چاہیے کہ وہ مقامی حکومتوں کے ڈویلپمنٹ فنڈز کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
ہمارے چاروں صوبوں کے نظام میں بیوروکرسی کافی مضبوط ہوچکی ہے جبکہ منتخب نمائندے بے بس ہیں لہٰذا غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے سسٹم چلانے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ڈویلپمنٹ فنڈز بھی مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی خرچ کیے جائیں تاکہ وہ موثر طریقے سے کام کر سکیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بڑے شہروں کوعام شہروں کی طرح نہیں چلایا جاسکتا۔ اگر ان شہروں میں گورننس کے مسائل کو حل کرنا ہے تو 'میگا سٹیز پلان' بنانا ہوگا جس کے لیے 'سیلف گورنمنٹ' کے تحت زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوں گے۔ افسوس ہے کہ ماضی و موجودہ حکومت کے پاس ڈویلپمنٹ کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے جو گورننس کا بہت بڑا کرائسس ہے۔
اس کے لیے وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کو چاہیے صوبہ، میگا سٹی اور ڈسٹرکٹ سطح کا پلان بناکر مسائل کا حل نکالیں۔ تعلیم، صحت، ڈویلپمنٹ و دیگر حوالے سے روڈ میپ بناکر کام کیا جائے۔پنجاب کے بلدیاتی نظام میں دو سسٹم ہیں۔ ایک غیر جماعتی سسٹم ہے جو گراس روٹ لیول پر ہے جبکہ دوسرااوپر والا نظام ہے۔ یہ دونوں نظام الگ الگ ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیچے والا نظام بھی لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ہوتا مگر ایسا نہیں ہے بلکہ صوبائی حکومت کو جوابدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس نظام میں ڈسٹرکٹ کونسل ہی ختم کر دی گئی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب حکومت کے تیسرے درجے کہ بات کی جاتی ہے تو اس کی مطلب ہوتا ہے کہ اضلاع بطور حکومت کام کرتے ہیں۔ اگر ڈسٹرکٹ ہی ختم کردیں گے تو یہ نظام تحصیل، ٹاؤن اور یونین کونسل کے پاس چلا جائے گا۔ یہ اس بلدیاتی نظام کی خرابیاں ہیں مگر اب چونکہ یہ قانون پاس ہوچکا ہے اور اسی کے تحت ہی مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہونا ہے تو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے روایتی طریقوں سے نظام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں سیاسی کارکن اپنے سیاسی حق سے محروم ہیں، وفاق کو چاہیے کہ قانون سازی کے ذریعے صوبوں کو بروقت بلدیاتی انتخابات کا پابند کرے۔
اس کے علاوہ اگر کسی صوبے کا بلدیاتی نظام آرٹیکل 140(A) کی نفی کرتا ہے تو وفاق وزیراعلیٰ سے جواب طلب کرے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 32کے تحت محروم اور پسے ہوئے طبقات جن میں خواتین، اقلیتیں، مزدور و دیگر شامل ہیں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگوں کو ان کا سیاسی حق مل سکے اور وہ ملکی سیاست میں موثر کردار ادا کرسکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے ۔ مقامی حکومتوں کے دونوں درجات کے انتخابات میں زیادہ وقت نہ دیا جائے کیونکہ اگر ان میں تاخیر کی گئی تو نظام کی موثریت میں کمی آئے گی۔
حکومت کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کو آرٹیکل 140(A) کے تحت بااختیار بنائے ، صوبائی و مقامی حکومتوں کے درمیان معاملات کو بہتر کیا جائے اور وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داریاں اور حدود وقیود طے کی جائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک مسائل رہیں گے اور مقامی حکومتوں کا موثر نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
ملک میں خواتین، اقلیتیں، کسان اور مزدور پسے ہوئے ہیں، جبر اوستحصال کا شکار ہیں جن کی موثر آواز اور نمائندگی کیلئے مقامی حکومتوں کا نظام بہت ضروری ہے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوری تقاضوں اور عالمی معاہدوں کے ہوتے ہوئے پاکستان تنہائی میں نہیں رہ سکتا، ہم نے عالمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور ان کے حوالے سے کام کرنے کے پابند ہیں۔ دنیا انسانی حقوق کے حوالے سے بہت آگے جا چکی ہے مگر بدقسمتی سے ہم بہتر پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں جن طبقات کے حقوق ، اختیارات اور وسائل کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، ان کی کہیں آواز ہی نہیں بلکہ طاقتور طبقات ہی ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں ۔
گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک، ہمارے پورے نظام میں تقسیم اور تفریق نظر آتی ہے اور ابھی بھی برابر حقوق کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔آئین اور قانون میں جہاں شخص کا ذکر آیا وہاں صنفی تفریق کی گنجائش نہیں رہتی لیکن ہمارے ہاں تفریق موجود ہے۔
1947ء سے لے کر 2018ء تک ایسا دور بھی آیا جب قومی اسمبلی میں صرف ایک خاتون موجود تھی۔ آزادی کو70 برس سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہم نے اس سے نہیں سیکھا۔ ہم نے دنیا کے تجربے اور مثالوں سے بھی نہیں سیکھا کہ کس طرح ہم اپنی نصف آبادی کو شامل کرکے ملک کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آرٹیکل 140(A) اور 32 پسے ہوئے طبقات کی موثر سیاسی نمائندگی کی حمایت کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی ایگزیکٹیو اور فیصلہ ساز کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صنفی تفریق ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ 2017 ء کے الیکشن ایکٹ کے مطابق عام انتخابات میں 5 فیصد خواتین کو ٹکٹ دینا لازمی تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لگ (ن) نے یہ ٹارگٹ پورا کیا مگر تحریک انصاف نہیں کرسکی۔
اس میں ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خواتین کو ان حلقوں میں ٹکٹ دیے گئے جہاں جیتنے کے امکانات انتہائی کم تھے یا بالکل نہیں تھے۔ وفاقی و صوبائی کابینہ میں بھی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ نیبر ہڈ اور پنچائت کونسل کے افسران میں ایک بھی خاتون نہیں ہے۔یونین کونسلز کی کوئی خاتون سیکرٹری نہیں ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی نظام میں سٹرکچرل ریفارمز لانا ہوگی۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین کو 33 فیصد نمائندگی کا حق ملا، 40ہزار سے زائد خواتین کونسلرز آئیں جنہوں بہت اچھا پرفارم کیا۔افسوس ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلے گئے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی 60 فیصد تک بھی رہی ہے، اس کے علاوہ مختلف ممالک کی سربراہ خواتین، اہم عہدوں پر خواتین تعینات ہیں، امن کمیٹیوں کی سربراہ خواتین رہی ہیں جنہوں نے جنگوں اور پرانی دشمنیوں کو بھی ختم کیا ہے۔ دنیا میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ تحریک انصاف سے توقع کی جارہی تھی کہ اس کے دور حکومت میں خواتین کو پروموٹ کی جائے گا مگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت کے بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمائندگی 10 سے 18 فیصد کے درمیان رہ گئی ہے جبکہ کسانوں اور مزدوروں کیلئے کوئی نشست ہی نہیں رکھی گئی۔
پاکستان نے پائیدار ترقی کے اہداف پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اگر خواتین کو موثر آواز نہ دی گئی اورسیاست اور فیصلہ سازی کے حق سے محروم رکھا گیا تو یہ اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ خواتین کی33 فیصد نمائندگی کا ہدف پورا کرنے کا مطالبہ ہم عرصہ دراز سے کر رہے ہیں تاکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوسکے اورانہیںموثر نمائندگی دے کر ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔ بلدیاتی نظام میں نوجوانوں کی شمولیت کیلئے سول سائٹی کی جانب سے آواز اٹھانے پر پی ایل جی میں عمر کی حد 25 سے کم کرکے 21 برس کر دی گئی ہے جبکہ دوسری سطح کی حکومت میں عمر کی حد 25 برس برقرار ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔
ڈیڑھ کروڑ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے وہ بیشمار بنیادی حقوق سے محروم ہیں، یونین کونسل کے خاتمے سے خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں بے روزگاری ہے، گلی محلوں میں کچڑے کے ڈھیر ہیں، لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے لہٰذا اس افراتفری کو اب ختم ہونا چاہیے، حکومت کو چاہیے کی فی الفور بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے۔ آرٹیکل 140(A) میں ترمیم کرکے صوبوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بروقت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں۔
ڈاکٹر امدادحسین
(اسسٹنٹ پروزیسر شعبہ پبلک پالیسی و گورننس ایف سی کالج یونیورسٹی)
دنیا بھر میں مقامی حکومتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کے دور حکومت اور اس کے بعد سے مقامی حکومتوں سے بے شمار اختیارات واپس لیے گئے جن میں لینڈ پلاننگ اور ٹیکسیشن کا اختیار شامل ہے۔ اس کے بعد وہاں مختلف کمپنیاں بنائی گئی اور اسی طرز پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بیوروکریسی کے کہنے پر یہاں کمپنیاں بنائیں جو آج بھی چل رہی ہیں۔ امریکا میں سٹی گورنمنٹ کرائسس میں ہیں۔ ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کو گلیمرائز کیا جاتا ہے کہ جب یہ نظام آئے گا تو تقدیر بدل جائے گی۔
میں اس نظام کے خلاف نہیں ہوں مگر حقائق کو نظر انداز کرنا بھی درست نہیں۔ ہمارے ہاں قومی سیاست، بیوروکریسی و دیگر کا جو کلچر ہے، یہی کلچر مقامی سیاست میں بھی جھلکتا ہے۔ ایک کونسلر الیکشن کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے اور اس طرح قومی سیاست سے لے کر مقامی سیاست تک ایک تفریق نظر آتی ہے اور عام آدمی اس سے باہر رہتا ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے جس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ میرے نزدیک مقامی حکومتوں کا لفط درست نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ بااختیار نہیں ہوتی بلکہ انہیں بلدیاتی حکومتیں کہنا درست ہے کیونکہ انہیں چند ایک کام کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
موجودہ بلدیاتی قانون میں بھی مقامی حکومت کے فیصلے کو ختم کرنے کی ویٹو پاور لوکل گورنمنٹ کمیشن کے پاس ہے، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے پاس بھی بے حد اختیارات ہیں اور وہ عوامی نمائندوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ کراچی کے حوالے سے بہت زیادہ شور ہے مگر اس سے اگلے علاقوں اور اندورن سندھ پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ کراچی میں تو مقامی حکومت موجود تھی مگر اس کا حال سب کے سامنے ہے، اس حوالے سے جائزہ لینا ہوگا کہ اختیارات و دیگر معاملات میںکیا مسائل تھے اور پھر ان کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
لوکل کونسل کے فیصلوں میں بیوروکریسی کی رائے معنی رکھتی ہے، ان کی ٹریننگ مقامی مقامی سطح پر ڈیلور کرنے کے حوالے سے نہیں ہوتی لہٰذا بیوروکریسی میں بھی سٹرکچرل ریفارمز لانا ہوں گے، اس کے بعد ہی مقامی حکومتوں کا نظام موثر ہوسکے گا۔ ابتدائی طور پر مقامی حکومتوں کو پانی، سیوریج، ویسٹ مینجمنٹ و دیگر کام سونپے جائیں اور جیسے جیسے ان کی کارکردگی بہترہوتی جائے تو آنے والے برسوں میں ان میں اضافہ کردیا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سیاسی نظام کی مضبوطی اور مقامی حکومتوں کا موثرنظام صبر آزما کام ہے، یہ جلد ممکن نہیں ہے، اس کے کیلئے سول سروسز کو ری سٹرکچر کرنا ہوگا۔
مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کا ستون تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو اس وقت کسی صوبے میں مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیں ہے بلکہ صوبائی حکومتوں کے ذریعے ہی معاملات چلانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کروانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر ''ایکسپریس فورم'' میں ''مقامی حکومتوں کا نظام اور حکومتی ترجیحات'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ملک احمد خان بھچر
( پارلیمانی سیکرٹری برائے لوکل باڈیز وکمیونٹی ڈویلپمنٹ پنجاب)
ملکی تاریخ کے سب سے بڑے بلدیاتی انتخابات نومبر میں ہونے جارہے ہیں۔ اگر کورونا نہ آتا تو ویلیج کونسل کے انتخابات اپریل میں ہوچکے ہوتے۔ مقامی حکومتوں کا نظام حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ ایسا نظام لایا جارہا ہے جو صحیح معنوں میں عوامی مفاد میں ہوگا۔ آرٹیکل 140(A) کے تحت مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جارہا ہے۔
تمام اتھارٹیز ختم کر دی جائیں گی جبکہ ایل ڈی اے، واسا، پی ایچ اے و دیگر محکمے بھی مقامی حکومتوں کے زیر انتظام ہوں گے تاکہ وہ موثر طریقے سے کام کر سکیں۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ مقامی حکومتوں کا ایسا مضبوط اور بااختیار نظام آئے گا۔ ویلیج کونسل کو بجلی کے کاموں کا اختیار بھی ہوگا جبکہ 30فیصد ترقیاتی بجٹ لوکل گورنمنٹ کے ذریعے خرچ کیا جائے گا۔
لوکل کونسل کوفی کس کے حساب سے فنڈز ملیں گے جو وہ اپنی مرضی سے لوگوں کی فلاح کیلئے خرچ کر سکے گی اور متعلقہ ٹاؤن کمیٹی مقامی سطح پر ترقیاتی و دیگر کام بھی کرسکے گی۔جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں بہترین بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا۔ اس میں کچھ خرابیاں تھیں لیکن اگر اس کا تسلسل جاری رہتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ پنجاب حکومت عرصہ دراز تک مسلم لیگ (ن) کے پاس رہی ہے مگر انہوں نے بلدیاتی نظام نہیں دیا اور جب بلدیاتی نظام لائے تو وہ انتہائی کمزور تھا جس سے مزید خرابیاں پیدا ہوئیں۔
تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام دیا اور اب پنجاب میں بھی بہترین نظام لایا جارہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء میں ویلیج کونسل اور نیبر ہڈ کونسل بنائی گئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک یونین کونسل 3ریونیو سٹیٹ میں ہوتی تھی، آبادی 20 ہزار سے 25 ہزار ہوتی تھی جو صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے شروع ہوکر دوسرے حلقے تک چلی جاتی تھی۔ اب ریونیو سٹیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ویلیج کونسل قائم کی جائے گی، یہ ریونیو سٹیٹ 500 سے شروع ہوکر 15 ہزار آبادی تک ہوگی۔اس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گاا ور مقامی سطح پر ہی اس کے مسائل حل ہوسکیں گے، خواتین کو بھی پیدائشی سرٹیفکیٹ و دیگر کاموں کیلئے زیادہ دور جانا نہیں پڑے گا۔
بلدیہ آن لائن اور نقشہ آن لائن سروس متعارف کر دی گئی ہے، اب لوگ گھر بیٹھے سروسز حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا اچھا رسپانس آیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ سے 455 شعبے منسلک ہیں جو انتہائی اہم ہیں اور لوگوں کی ضرورت ہیں۔ میرے نزدیک مقامی حکومتوں کا نظام لوگوں کی بہتری اور گڈ گورننس کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ویلیج کونسل اور نیبر ہڈ کونسل میں ڈائریکٹ الیکشن نہیں ہوگا، اس میںشرح کے حساب سے نشستیں رکھی گئی ہیں، یہ ملٹی سسٹم ہوگا اور اس سے مسائل پیدا نہیں ہوں گے تاہم بڑے شہروں میں اب بھی الیکشن مشکل ہوگا۔
سلمان عابد
(دانشور)
18 ویں ترمیم کے بعد خیال یہ تھا کہ جس طرح وفاق نے صوبوں کو اختیارات منتقل کیے ہیں، اسی طرح صوبے مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل کریں گے مگر بدقسمتی سے ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے آج تک لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوسکے۔
مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی سے مراد یہ تھا کہ آرٹیکل 140(A) کے تحت لوکل گورنمنٹ کو سیاسی، انتظامی اور مالی بنیادوں پر خود مختاری دی جائے گی تاکہ 'سیلف گورنمنٹ' کا ماڈل بنے اور حکومت کا تیسرا زینہ بن سکے۔ صوبائی خودمختاری اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اضلاع کو خودمختاری نہ ملے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماضی میں مرکزی ماڈل کے تحت حکومت چلائی گئی اور ہماری جمہوری طاقتوں نے بھی وہی غلطی کی جو غیر جمہوری طاقتوں نے کی۔ جب بھی سیاسی حکومت آئی تو اس کا سب سے بڑا شکار مقامی حکومتوں کا نظام تھا۔
کبھی سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اور کبھی ویسے ہی کروائے گئے مگر مقامی حکومتوں کو بااختیار اور مضبوط نہیں بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتیں موثر کام کرتے ہوئے نظر نہیں آئی۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو بات سب سے زیادہ زیر بحث آتی ہے وہ گورننس کا بحران ہے اور اس کا براہ راست تعلق مقامی حکومتوں سے ہے کیونکہ اختیارات کی جتنی زیادہ تقسیم ہوگی اور نچلی سطح تک منتقلی ہوگی، گورننس کا نظام اتنا زیادہ موثر ہوگا۔ آج کراچی کے تناظر میں وزیراعظم ا ور آرمی چیف سے لے کر نچلی سطح تک، سب لوکل باڈیز کا ذکر کر رہے ہیں اور ان کی اہمیت پر بات کی جارہی ہے۔
افسوس ہے کہ چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام نہیں ہے جو گورننس کے مسائل کی بڑی وجہ ہے لہٰذا صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کا موثر نظام لائیں اور اس میں کاسمیٹک اقدامات سے باز رہیں۔ صوبائی حکومتوں کو اس تاثر کی بھی نفی کرنی چاہیے کہ وہ مقامی حکومتوں کے ڈویلپمنٹ فنڈز کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
ہمارے چاروں صوبوں کے نظام میں بیوروکرسی کافی مضبوط ہوچکی ہے جبکہ منتخب نمائندے بے بس ہیں لہٰذا غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے سسٹم چلانے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ڈویلپمنٹ فنڈز بھی مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی خرچ کیے جائیں تاکہ وہ موثر طریقے سے کام کر سکیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بڑے شہروں کوعام شہروں کی طرح نہیں چلایا جاسکتا۔ اگر ان شہروں میں گورننس کے مسائل کو حل کرنا ہے تو 'میگا سٹیز پلان' بنانا ہوگا جس کے لیے 'سیلف گورنمنٹ' کے تحت زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوں گے۔ افسوس ہے کہ ماضی و موجودہ حکومت کے پاس ڈویلپمنٹ کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے جو گورننس کا بہت بڑا کرائسس ہے۔
اس کے لیے وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کو چاہیے صوبہ، میگا سٹی اور ڈسٹرکٹ سطح کا پلان بناکر مسائل کا حل نکالیں۔ تعلیم، صحت، ڈویلپمنٹ و دیگر حوالے سے روڈ میپ بناکر کام کیا جائے۔پنجاب کے بلدیاتی نظام میں دو سسٹم ہیں۔ ایک غیر جماعتی سسٹم ہے جو گراس روٹ لیول پر ہے جبکہ دوسرااوپر والا نظام ہے۔ یہ دونوں نظام الگ الگ ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیچے والا نظام بھی لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ہوتا مگر ایسا نہیں ہے بلکہ صوبائی حکومت کو جوابدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس نظام میں ڈسٹرکٹ کونسل ہی ختم کر دی گئی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب حکومت کے تیسرے درجے کہ بات کی جاتی ہے تو اس کی مطلب ہوتا ہے کہ اضلاع بطور حکومت کام کرتے ہیں۔ اگر ڈسٹرکٹ ہی ختم کردیں گے تو یہ نظام تحصیل، ٹاؤن اور یونین کونسل کے پاس چلا جائے گا۔ یہ اس بلدیاتی نظام کی خرابیاں ہیں مگر اب چونکہ یہ قانون پاس ہوچکا ہے اور اسی کے تحت ہی مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہونا ہے تو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے روایتی طریقوں سے نظام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں سیاسی کارکن اپنے سیاسی حق سے محروم ہیں، وفاق کو چاہیے کہ قانون سازی کے ذریعے صوبوں کو بروقت بلدیاتی انتخابات کا پابند کرے۔
اس کے علاوہ اگر کسی صوبے کا بلدیاتی نظام آرٹیکل 140(A) کی نفی کرتا ہے تو وفاق وزیراعلیٰ سے جواب طلب کرے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 32کے تحت محروم اور پسے ہوئے طبقات جن میں خواتین، اقلیتیں، مزدور و دیگر شامل ہیں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگوں کو ان کا سیاسی حق مل سکے اور وہ ملکی سیاست میں موثر کردار ادا کرسکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے ۔ مقامی حکومتوں کے دونوں درجات کے انتخابات میں زیادہ وقت نہ دیا جائے کیونکہ اگر ان میں تاخیر کی گئی تو نظام کی موثریت میں کمی آئے گی۔
حکومت کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کو آرٹیکل 140(A) کے تحت بااختیار بنائے ، صوبائی و مقامی حکومتوں کے درمیان معاملات کو بہتر کیا جائے اور وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داریاں اور حدود وقیود طے کی جائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک مسائل رہیں گے اور مقامی حکومتوں کا موثر نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
ملک میں خواتین، اقلیتیں، کسان اور مزدور پسے ہوئے ہیں، جبر اوستحصال کا شکار ہیں جن کی موثر آواز اور نمائندگی کیلئے مقامی حکومتوں کا نظام بہت ضروری ہے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوری تقاضوں اور عالمی معاہدوں کے ہوتے ہوئے پاکستان تنہائی میں نہیں رہ سکتا، ہم نے عالمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور ان کے حوالے سے کام کرنے کے پابند ہیں۔ دنیا انسانی حقوق کے حوالے سے بہت آگے جا چکی ہے مگر بدقسمتی سے ہم بہتر پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں جن طبقات کے حقوق ، اختیارات اور وسائل کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، ان کی کہیں آواز ہی نہیں بلکہ طاقتور طبقات ہی ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں ۔
گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک، ہمارے پورے نظام میں تقسیم اور تفریق نظر آتی ہے اور ابھی بھی برابر حقوق کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔آئین اور قانون میں جہاں شخص کا ذکر آیا وہاں صنفی تفریق کی گنجائش نہیں رہتی لیکن ہمارے ہاں تفریق موجود ہے۔
1947ء سے لے کر 2018ء تک ایسا دور بھی آیا جب قومی اسمبلی میں صرف ایک خاتون موجود تھی۔ آزادی کو70 برس سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہم نے اس سے نہیں سیکھا۔ ہم نے دنیا کے تجربے اور مثالوں سے بھی نہیں سیکھا کہ کس طرح ہم اپنی نصف آبادی کو شامل کرکے ملک کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آرٹیکل 140(A) اور 32 پسے ہوئے طبقات کی موثر سیاسی نمائندگی کی حمایت کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی ایگزیکٹیو اور فیصلہ ساز کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صنفی تفریق ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ 2017 ء کے الیکشن ایکٹ کے مطابق عام انتخابات میں 5 فیصد خواتین کو ٹکٹ دینا لازمی تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لگ (ن) نے یہ ٹارگٹ پورا کیا مگر تحریک انصاف نہیں کرسکی۔
اس میں ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خواتین کو ان حلقوں میں ٹکٹ دیے گئے جہاں جیتنے کے امکانات انتہائی کم تھے یا بالکل نہیں تھے۔ وفاقی و صوبائی کابینہ میں بھی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ نیبر ہڈ اور پنچائت کونسل کے افسران میں ایک بھی خاتون نہیں ہے۔یونین کونسلز کی کوئی خاتون سیکرٹری نہیں ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی نظام میں سٹرکچرل ریفارمز لانا ہوگی۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین کو 33 فیصد نمائندگی کا حق ملا، 40ہزار سے زائد خواتین کونسلرز آئیں جنہوں بہت اچھا پرفارم کیا۔افسوس ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلے گئے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی 60 فیصد تک بھی رہی ہے، اس کے علاوہ مختلف ممالک کی سربراہ خواتین، اہم عہدوں پر خواتین تعینات ہیں، امن کمیٹیوں کی سربراہ خواتین رہی ہیں جنہوں نے جنگوں اور پرانی دشمنیوں کو بھی ختم کیا ہے۔ دنیا میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ تحریک انصاف سے توقع کی جارہی تھی کہ اس کے دور حکومت میں خواتین کو پروموٹ کی جائے گا مگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت کے بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمائندگی 10 سے 18 فیصد کے درمیان رہ گئی ہے جبکہ کسانوں اور مزدوروں کیلئے کوئی نشست ہی نہیں رکھی گئی۔
پاکستان نے پائیدار ترقی کے اہداف پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اگر خواتین کو موثر آواز نہ دی گئی اورسیاست اور فیصلہ سازی کے حق سے محروم رکھا گیا تو یہ اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ خواتین کی33 فیصد نمائندگی کا ہدف پورا کرنے کا مطالبہ ہم عرصہ دراز سے کر رہے ہیں تاکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوسکے اورانہیںموثر نمائندگی دے کر ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔ بلدیاتی نظام میں نوجوانوں کی شمولیت کیلئے سول سائٹی کی جانب سے آواز اٹھانے پر پی ایل جی میں عمر کی حد 25 سے کم کرکے 21 برس کر دی گئی ہے جبکہ دوسری سطح کی حکومت میں عمر کی حد 25 برس برقرار ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔
ڈیڑھ کروڑ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے وہ بیشمار بنیادی حقوق سے محروم ہیں، یونین کونسل کے خاتمے سے خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں بے روزگاری ہے، گلی محلوں میں کچڑے کے ڈھیر ہیں، لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے لہٰذا اس افراتفری کو اب ختم ہونا چاہیے، حکومت کو چاہیے کی فی الفور بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے۔ آرٹیکل 140(A) میں ترمیم کرکے صوبوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بروقت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں۔
ڈاکٹر امدادحسین
(اسسٹنٹ پروزیسر شعبہ پبلک پالیسی و گورننس ایف سی کالج یونیورسٹی)
دنیا بھر میں مقامی حکومتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کے دور حکومت اور اس کے بعد سے مقامی حکومتوں سے بے شمار اختیارات واپس لیے گئے جن میں لینڈ پلاننگ اور ٹیکسیشن کا اختیار شامل ہے۔ اس کے بعد وہاں مختلف کمپنیاں بنائی گئی اور اسی طرز پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بیوروکریسی کے کہنے پر یہاں کمپنیاں بنائیں جو آج بھی چل رہی ہیں۔ امریکا میں سٹی گورنمنٹ کرائسس میں ہیں۔ ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کو گلیمرائز کیا جاتا ہے کہ جب یہ نظام آئے گا تو تقدیر بدل جائے گی۔
میں اس نظام کے خلاف نہیں ہوں مگر حقائق کو نظر انداز کرنا بھی درست نہیں۔ ہمارے ہاں قومی سیاست، بیوروکریسی و دیگر کا جو کلچر ہے، یہی کلچر مقامی سیاست میں بھی جھلکتا ہے۔ ایک کونسلر الیکشن کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے اور اس طرح قومی سیاست سے لے کر مقامی سیاست تک ایک تفریق نظر آتی ہے اور عام آدمی اس سے باہر رہتا ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے جس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ میرے نزدیک مقامی حکومتوں کا لفط درست نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ بااختیار نہیں ہوتی بلکہ انہیں بلدیاتی حکومتیں کہنا درست ہے کیونکہ انہیں چند ایک کام کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
موجودہ بلدیاتی قانون میں بھی مقامی حکومت کے فیصلے کو ختم کرنے کی ویٹو پاور لوکل گورنمنٹ کمیشن کے پاس ہے، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے پاس بھی بے حد اختیارات ہیں اور وہ عوامی نمائندوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ کراچی کے حوالے سے بہت زیادہ شور ہے مگر اس سے اگلے علاقوں اور اندورن سندھ پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ کراچی میں تو مقامی حکومت موجود تھی مگر اس کا حال سب کے سامنے ہے، اس حوالے سے جائزہ لینا ہوگا کہ اختیارات و دیگر معاملات میںکیا مسائل تھے اور پھر ان کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
لوکل کونسل کے فیصلوں میں بیوروکریسی کی رائے معنی رکھتی ہے، ان کی ٹریننگ مقامی مقامی سطح پر ڈیلور کرنے کے حوالے سے نہیں ہوتی لہٰذا بیوروکریسی میں بھی سٹرکچرل ریفارمز لانا ہوں گے، اس کے بعد ہی مقامی حکومتوں کا نظام موثر ہوسکے گا۔ ابتدائی طور پر مقامی حکومتوں کو پانی، سیوریج، ویسٹ مینجمنٹ و دیگر کام سونپے جائیں اور جیسے جیسے ان کی کارکردگی بہترہوتی جائے تو آنے والے برسوں میں ان میں اضافہ کردیا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سیاسی نظام کی مضبوطی اور مقامی حکومتوں کا موثرنظام صبر آزما کام ہے، یہ جلد ممکن نہیں ہے، اس کے کیلئے سول سروسز کو ری سٹرکچر کرنا ہوگا۔