برآمدات میں اضافے کیلیے جدید طریقے اپنانا ناگزیر
ایکسپورٹ انسپکشن اور ٹیکس ریفنڈ کا طریقہ کار عالمی معیار تک لایا جائے
ملکی معیشت میں بحالی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ جولائی 2020ء میں ملکی برآمدات 2001 ملین ڈالر رہیں۔
جولائی 2019 کے مقابلے میں یہ برآمدات حجم 6 فیصد زائد ہے۔ نئے مالی سال کا یہ مثبت آغاز ہے، تاہم مالی سال 2018 کی برآمداتی سطح 23 ارب ڈالر تک پہنچنے کے لیے نمو کا دہرے ہندسوں میں ہونا ضروری ہے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر اور ورلڈ بینک کی حالیہ اسٹڈی کے مطابق ریگولیٹری فریم ورک کو برآمدات کے لیے موزوں بناکر ایکسپورٹ کے حجم میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2024ء تک برآمداتی حجم میں 12ارب ڈالر ( 50فیصد) اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر صرف دو معاملات، ایکسپورٹ انسپکشن اور ٹیکس ریفنڈ کے طریقہ کار کو دیگر ممالک کے مساوی معیار تک لے آیا جائے تو برآمدات کی راہ میں حائل دو تہائی مقامی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ مختلف ایجنسیاں برآمدی کنسائنمنٹ کا کچھ حصہ کھول کر چیک کرتی ہیں جسے برآمدکنندگان کو دوبارہ پیک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس سے برآمد میں تاخیر ہوتی ہے اور برآمداتی اشیاء کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ دیگر ممالک میں مینوئل چیکنگ کے بجائے جدیدٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔ اسی طرح ٹیکس ریفنڈ کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب بھی برآمدکنندگان کے کئی برس پہلے کے ٹیکس ریفنڈز کلیمز ادا نہیں کیے گئے اور یہ حجم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ جب تک ہم جدیدطریقے نہیں اپناتے اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ پاکستانی برآمدات اور غیرملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہو۔
جولائی 2019 کے مقابلے میں یہ برآمدات حجم 6 فیصد زائد ہے۔ نئے مالی سال کا یہ مثبت آغاز ہے، تاہم مالی سال 2018 کی برآمداتی سطح 23 ارب ڈالر تک پہنچنے کے لیے نمو کا دہرے ہندسوں میں ہونا ضروری ہے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر اور ورلڈ بینک کی حالیہ اسٹڈی کے مطابق ریگولیٹری فریم ورک کو برآمدات کے لیے موزوں بناکر ایکسپورٹ کے حجم میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2024ء تک برآمداتی حجم میں 12ارب ڈالر ( 50فیصد) اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر صرف دو معاملات، ایکسپورٹ انسپکشن اور ٹیکس ریفنڈ کے طریقہ کار کو دیگر ممالک کے مساوی معیار تک لے آیا جائے تو برآمدات کی راہ میں حائل دو تہائی مقامی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ مختلف ایجنسیاں برآمدی کنسائنمنٹ کا کچھ حصہ کھول کر چیک کرتی ہیں جسے برآمدکنندگان کو دوبارہ پیک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس سے برآمد میں تاخیر ہوتی ہے اور برآمداتی اشیاء کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ دیگر ممالک میں مینوئل چیکنگ کے بجائے جدیدٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔ اسی طرح ٹیکس ریفنڈ کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب بھی برآمدکنندگان کے کئی برس پہلے کے ٹیکس ریفنڈز کلیمز ادا نہیں کیے گئے اور یہ حجم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ جب تک ہم جدیدطریقے نہیں اپناتے اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ پاکستانی برآمدات اور غیرملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہو۔