میانی صاحب قبرستان کا 60 سالہ گورکن جو اب تک ہزاروں قبریں کھود چکا ہے

محمد یوسف اپنے خاندان کی ساتویں پشت کے نمائندے ہیں جو میانی صاحب قبرستان میں گورکن کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

میرے بیٹے میری قبر تیارکریں گے اوریہ سلسلہ چلتا رہیگا، محمد یوسف فوٹو: ظہور احمد

میانی صاحب قبرستان ایک ماں کی طرح ہے جو ہرنیک وبد کو اپنی گود میں چھپالیتی ہے،یہ کہنا ہے 60 سالہ محمد یوسف کا جو لاہورکے قدیم ترین اور سب سے بڑے میانی صاحب قبرستان کے سب سے پرانے گورگن ہیں۔

محمد یوسف اپنے خاندان کی ساتویں پشت کے نمائندے ہیں جو میانی صاحب قبرستان میں گورکن کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، حاجی محمد یوسف حضرت بابا نظام شاہؒ کے خاندان سے ہیں اور یہاں میانی صاحب میں موجود ان کی درگاہ کے گدی نشین بھی ہیں۔

محمد یوسف نے بتایا کہ بابا نظام شاہ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں یہاں ڈیرہ لگاتے تھے، جس جگہ آج ان کا مزار ہے یہاں انہوں نے سیکڑوں ہندوؤں کو مسلمان کیا اور ان کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے تھے۔ بابا نظام شاہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کی وردیاں بھی سلائی کرتے تھے وہاں سے جو اجرت ملتی اس سے ان کے ڈیرے کا لنگرچلتا تھا۔

محمد یوسف نے کہا کہ وہ بارہ، تیرہ سال کے تھے جب ان کے والد اللہ بخش نے انہیں اپنے ساتھ قبروں کی کھدائی کی ذمہ داری سونپی آج وہ ساٹھ برس کے ہوچکے ہیں، گزشتہ پینتالیس برسوں میں ہزاروں میتوں کے لئے قبریں کھود چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے والد اورکئی عزیزدوستوں کی قبریں بھی انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تیارکی تھیں، 1986 میں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو لوگ کہتے تھے کہاوت ہے کہ قبریں کھودنے والے کبھی نہیں مرتے لیکن آج اللہ بخش مرگیا، اب ہمارے لئے قبریں کون کھودے گا، میں اس وقت جوان تھا میں نے کہا اب یہ کام میں کروں گا، پھر حکومت نے گورگن کا لائسنس میرے نام منتقل کردیا، وہ ہزاروں قبریں کھود چکے ہیں لیکن جب کسی اپنے کی قبرکھودتے ہیں تو پھرجذبات اور ہوتے ہیں ، لیکن انسان کیا کرسکتا ہے ، کیونکہ ایک دن سب کو مرنا ہے، کل کو ممکن ہے میرے بیٹے میری قبر تیارکریں گے اوریہ سلسلہ چلتا رہیگا۔




ایک سوال کےجواب میں محمدیوسف نے بتایا یہ حقیقت ہے کہ یہاں جگہ کی تنگی کے باعث قبروں کے اوپرقبریں بنتی ہیں، آج سے چالیس سے پہلے سات، آٹھ فٹ گہری قبرکھودی جاتی تھی جسے لحد کہتے تھے ،آج صرف ڈھائی فٹ گہری قبر کھودتے ہیں، اس قبرمیں جو پہلے دفن تھا وہ نیچے ہی رہتا ہے اس تک پہنچتے ہی نہیں ،اوپر نئی قبربنادی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی زندگی اس قبرستان میں گزارچکے ہیں ،دن رات یہاں رہتے ہیں انہیں کوئی ڈرنہیں لگتا اوریہ بھی درست نہیں کہ قبرستانوں میں کوئی غیرمرئی مخلوق یا جن بھوت رہتے ہیں، آج تک انہوں نے ایسی کوئی چیزنہیں دیکھی ، انہوں نے کہا یہاں توغازی علم دین شہید اورحضرت طاہربندگی جیسی ہستیوں کے مزارہیں، یہاں سینکڑوں اللہ کے ولی اورنیک لوگ سوئے ہوئے ہیں، یہاں سے کیا ڈرنا اورپھرقبروں میں کلمہ طیبہ اورآیات لکھی ہیں۔میراتوایمان ہے کہ قبرستان جنت کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے

 



محمدیوسف نے بتایا کہ یہاں جو نامعلوم افراد کی میتیں لائی جاتی ہیں ان کے لئے الگ احاطہ بنا ہوا ہے، جہاں ان کی تدفین ہوتی ہے، کوئی مسافر، کوئی لاوارث لاش ملتی ہے تواسے علیحدہ احاطے میں دفنا دیتے ہیں ، جہاں کئی میتیں امانتا بھی دفنائی جاتی ہیں۔ گزشتہ پینتالیس برسوں میں انہوں نے یہاں کسی کو قبر کے اندر اتر کرکے چلہ کرتے یا پھر قبر کھود کر کفن اتارتے کسی کونہیں دیکھا اورنہ ہی ایسا واقعہ ہوا ہے، چلے کرنیوالے راوی کنارے اورویرانوں میں جاکرایسا کرتے ہیں یا پھرکسی اورقبرستان میں ایسا ہوتا ہوگا۔

محمدیوسف نےکہا کہ انہیں آج تک کوئی ڈر اورخوف محسوس نہیں ہوا لیکن کچھ واقعات ایسے دیکھے ہیں جو زندگی بھرانہیں یاد رہیں گے، کچھ برس قبل ایک فیملی نے ان سے رابطہ کیا اوربتایا کہ وہ اپنے والد صاحب کی قبرپختہ کروانا چاہتے ہیں، ہمارا ریٹ طے ہوگیا، وہ فیملی بھی قریب بیٹھ گئی جب ہم نے قبرکا جائزہ لیا تواس کے اطراف کی مٹی بہت نرم تھی جہاں اینٹوں سے دیوار بنانا ممکن نظرنہیں آرہا تھا، ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ کہ قبرکھود کر نیچے سے دیوار بناتے ہیں اور چھت اونچی کردیتے ہیں،ان کی اجازت سے جب ہم نے قبرکی کھدائی کی اوراندرپڑی پتھرکی سلیں ہٹائیں تو یقین کریں میت کی حالت دیکھ کرسب سنگ رہ گئے، کفن صیح سلامت تھا اورجب کفن کھول کردیکھا توایک ہنستامسکراتا چہرہ نظرآیا جب کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔ محمدیوسف کہتے ہیں میں ان فیملی کو بتایا کہ آپ کے والد صاحب کب فوت ہوئےتھے ،انہون نےبتایا کہ سات برس ہوچکے ہیں۔ ہم نے دوبارہ نیا کفن ڈالا،گلاب کی پتیاں ڈالیں اور قبرپختہ کردی جو آج بھی موجودہے.

محمد یوسف نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں قریب ہی ایک قبرہے ، برسات کا موسم تھا بارشیں بہت زیادہ ہورہی تھیں، جس احاطے میں ہم لوگ موجود ہیں یہاں ڈیڑھ سے دو فٹ تک پانی تھا، قبروں کے پانی میں ڈوبنے کا خطرہ بڑھتا جارہا تھا۔ بارش کا پانی بڑی تیزی سے ایک طرف جارہا تھا میں نےوہاں جاکردیکھا تھا پانی ایک قبرکے اندرجارہا تھا جہاں ایک گڑھا بن چکا تھا اورپانی تیزی سے اس کے اندر گررہا تھا، میں جب اس قبرکے قریب پہنچا اور اندر جھانکا تویقین کریں جو منظردیکھا اوہ آج تک نہیں بھول سکا، بارش کا پانی قبرمیں دفن میت کے پاؤں پر گررہا تھا، دونوں پاؤں ننگے تھے اورصیح سلامت تھے۔ میں بھاگتا ہوا اپنے والد صاحب کے پاس آیا اورانہیں بتایا ،میرے والد صاحب نے جاکر وہ قبر دیکھی اور مجھے بتایا کہ یہ جس شخص کی قبرہے وہ ان کا دوست تھا ، ریلوے میں ملازم تھا لیکن اس کا معمول تھا کہ پرندوں کو روزانہ دانہ ڈالتا اور پانی کا انتظام کرتا تھا، اس شخص کو فوت ہوئے 30 برس بیت چکے تھے۔ میانی صاحب قبرستان ایک مہربان ماں کی طرح ہے جس نے اپنی گود میں نیک اوربد ہرطرح کے لوگوں کو چھپا رکھا ہے۔
Load Next Story