سفاک شخص نے بیوی بچوں سمیت گھر کے 11 افراد کو مار ڈالا
اپنوں کو مار کر مخالفین پر قتل کا الزام لگانا چاہتے تھے، ملزمان کا اعتراف جرم
یوں تو سلگتی ہوئی سرخیاں صبح و شام ہمارے گرد رقصاں ہیں اور ہم عام طور پر سب کچھ بھول کر سو جاتے ہیں، لیکن گھر کے سربراہ کی جانب سے اپنے چار بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنی بیوی، 4 معصوم بیٹیوں، ایک بہو، ایک پوتی، ایک پوتے اور 3 بیٹوں سمیت 11 افراد کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹ دینے کے واقعہ نے ہر ذی شعور کے احساس کو جھلسا دیا ہے۔
اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز حضرت انسان جب شیطانیت کا پیروکار بن جاتا ہے تو پھر شیطان خود اس سے پناہ مانگنے لگتا ہے۔ سکھر کے علاقے پنوعاقل میں پیش آنیوالے المناک و غمناک واقعہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ افسوسناک واقعہ کی خبر ملتے ہی ہر شخص حیران رہ گیا کہ کیا کوئی باپ اپنے ہی بچوں کے گلے اس بے رحمی سے کاٹ سکتا ہے؟
ٹیلی ویژن کی خبریں جس طرح ہمارے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہیں، اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ گلی گلی اور گھر گھر اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر بہت ممکن ہے کہ چند دن گزریں گے اور ہم یہ واقعہ بھول جائیں گے۔
سفاک ملزم وہاب اللہ انڈھڑ اپنے ہی گھر کے 11 افراد کو موت کی نیند سلا کر باقی بچنے والے بیٹوں کے ساتھ فرار ہوگیا۔ مقتولین میں ملزم کی بیوی رقیہ، بیٹی اقراء ، اسراء ، ثریا، نازیہ، بہو سلیمہ، ایک پوتی، ایک پوتا، 3 معصوم بیٹے سمیت 11 افراد شامل ہیں۔ گھروں میں نعشوں کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے پہنچ کر گھر سے ضروری شواہد اکٹھے کئے اور نعشوں کو تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کر دیا، پولیس نے جائے وقوعہ سے آلہ قتل بھی برآمد کیا۔ ڈی آئی جی سکھر فدا حسین مستوئی نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کے احکامات دیئے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی فدا حسین مستوئی نے میڈیا کو بتایا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس میں گیارہ افراد قتل ہوگئے ہیں۔ قتل ہونے والے والوں میں ڈیڑھ سال سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک شامل ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ رات میں سوتے ہوئے ان کا گلہ کاٹا گیا ہے۔ ملزم کوئی اور نہیں ان کا باپ اور سربراہ ہے۔
بعد ازاں پولیس متحرک ہوئی اور چند گھنٹوں کے دوران ہی سفاک ملزم وہاب اللہ کو 4 بیٹوں سمیت گھوٹکی سے گرفتار کرلیا۔ ابتدائی تحقیق میں ملزم وہاب اللہ نے بیان دیا کہ بھائیوں کی جانب سے دیئے گئے صدموں کے ردعمل میں اپنے بچوں کو قتل کیا۔
اپنی بیوی رقیہ اور بیٹی اقراء سمیت دیگر افراد کو قتل کیا ہے، ملزم کے گرفتار چار بیٹوں میں سے تین ملزمان حبیب اللہ، کلیم اللہ اور حزب اللہ نے بھی اعتراف جرم کرلیا اور بیان دیا کہ ہم نے زمین ہتھیانے کے لئے خاندان کے لوگوں کو مارا، چچا والوں سے زمین کا تنازع تھا، اپنوں کو مار کر الزام مخالفین پر دینے کا پلان تھا، ماجد نے بیان دیا کہ مجھے بھی بابا نے کہا کہ تمہیں بھی اللہ کی طرف بھیجوں کیا؟ میں نے کہا نہیں میں آپ کے ساتھ چلوں گا، پھر چھوڑ دیا اور ہم نکل آئے، راستے میں بابا نے رو کر بتایا کہ اللہ کا حکم تھا اس لیے مارا، اگر نہیں مارتا تو اللہ کا عذاب آتا اور یہ پاکیزہ بچے اور خواتین ناپاک ہوجاتیں۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا اور 14روزہ ریمانڈ حاصل کرلیا۔
اس واقعہ کے چند دن بعد یہ انکشاف سامنے آیا کہ خواتین و بچوں سمیت 11افراد کو قتل کئے جانے سے قبل ایک ہفتے تک یرغمال بناکر رکھا گیا تھا۔ اپنے ہی گھر والوں کے گلے کاٹنے والے ملزم کے بھائی اسد اللہ انڈھڑ نے اپنے ویڈیو بیان میں بتایا ہے کہ عیدالاضحی کے بعد ملزم نے اپنے 2بیٹوں کو گھر سے نکال دیا تھا اور انہیں بولا تھا کہ وہ اپنی بیویوں کو طلاق دیں۔
بیٹوں نے آکر سب کو بتایا کہ والد نے گھر کا دروازہ بند کردیا ہے، اندر جانے اور باہر آنے کے راستے بند ہیں، میں فیصل آباد گیا ہواتھا، جب واپس آیا تو یہ میرے گھر بیٹھے ہوئے تھے، جو بھی گھر پر جاتا تھا ملزم اسے پستول دکھاکر ڈراتا تھا، پولیس کو اطلاع دی، 4بار پولیس بھی گھر گئی، ایس ایچ او خود بھی مذکورہ گھر میں گیا، ملزم نے پولیس اہلکار کو بھی اینٹیں مارکر زخمی کیا۔
بعد ازاں پنوعاقل میں ایک ہی گھر کے قتل ہونیوالے 11افراد کو مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، بیک وقت گیارہ جنازے اٹھنے پر کہرام مچ گیا، جبکہ علاقے میں سوگ کی فضاء چھائی رہی۔ لوگوں کی بڑی تعداد غمگین دکھائی دی۔ واقعہ کے متعلق جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ملزم وہاب اللہ کی جانب سے اپنے چار بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی گھر کے 11افراد کو قتل کرنے کی وجہ اپنے بھائی کے ساتھ جاری زمین کا تنازع تھا۔
ملزمان کی یہ کوشش تھی کہ گھر کے تمام افراد کو قتل کرکے ان کا الزام بھائی پر عائد کیا جائے تاکہ اس کی زمین پر قبضہ کیا جاسکے مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ درندہ صفت، بے رحم و سفاک ملزمان کو پولیس نے گرفتار تو کرلیا ہے اور عدالت سے ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے لیکن لوگ بالخصوص باشعور افراد یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک انسان اس حد تک کس طرح گر سکتا ہے؟ کوئی باپ اپنے ہی بچوں کے گلے پر چھری کیسے پھیر سکتا ہے؟ کیا یہ شیطان کے پیروکار نہیں؟ جن کے ہاتھ اپنے ہی پیاروں کی گردنوں پر چھری چلاتے ہوئے ذرہ برابر بھی نہیں کانپے، اس قسم کے افسوسناک و دل دہلادینے والے واقعات سے زمین بھی کانپ اٹھتی ہے۔
شہری و عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ انسانیت کو شرمسار کرنے اور انسانیت کے چہرے کو مکروہ وداغدار بنانے والے سفاک و بے رحم ملزمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ایسی سزا دی جائے کہ یہ لوگ معاشرے میں عبرت کا نشانہ بن جائے۔
اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز حضرت انسان جب شیطانیت کا پیروکار بن جاتا ہے تو پھر شیطان خود اس سے پناہ مانگنے لگتا ہے۔ سکھر کے علاقے پنوعاقل میں پیش آنیوالے المناک و غمناک واقعہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ افسوسناک واقعہ کی خبر ملتے ہی ہر شخص حیران رہ گیا کہ کیا کوئی باپ اپنے ہی بچوں کے گلے اس بے رحمی سے کاٹ سکتا ہے؟
ٹیلی ویژن کی خبریں جس طرح ہمارے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہیں، اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ گلی گلی اور گھر گھر اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر بہت ممکن ہے کہ چند دن گزریں گے اور ہم یہ واقعہ بھول جائیں گے۔
سفاک ملزم وہاب اللہ انڈھڑ اپنے ہی گھر کے 11 افراد کو موت کی نیند سلا کر باقی بچنے والے بیٹوں کے ساتھ فرار ہوگیا۔ مقتولین میں ملزم کی بیوی رقیہ، بیٹی اقراء ، اسراء ، ثریا، نازیہ، بہو سلیمہ، ایک پوتی، ایک پوتا، 3 معصوم بیٹے سمیت 11 افراد شامل ہیں۔ گھروں میں نعشوں کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے پہنچ کر گھر سے ضروری شواہد اکٹھے کئے اور نعشوں کو تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کر دیا، پولیس نے جائے وقوعہ سے آلہ قتل بھی برآمد کیا۔ ڈی آئی جی سکھر فدا حسین مستوئی نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کے احکامات دیئے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی فدا حسین مستوئی نے میڈیا کو بتایا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس میں گیارہ افراد قتل ہوگئے ہیں۔ قتل ہونے والے والوں میں ڈیڑھ سال سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک شامل ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ رات میں سوتے ہوئے ان کا گلہ کاٹا گیا ہے۔ ملزم کوئی اور نہیں ان کا باپ اور سربراہ ہے۔
بعد ازاں پولیس متحرک ہوئی اور چند گھنٹوں کے دوران ہی سفاک ملزم وہاب اللہ کو 4 بیٹوں سمیت گھوٹکی سے گرفتار کرلیا۔ ابتدائی تحقیق میں ملزم وہاب اللہ نے بیان دیا کہ بھائیوں کی جانب سے دیئے گئے صدموں کے ردعمل میں اپنے بچوں کو قتل کیا۔
اپنی بیوی رقیہ اور بیٹی اقراء سمیت دیگر افراد کو قتل کیا ہے، ملزم کے گرفتار چار بیٹوں میں سے تین ملزمان حبیب اللہ، کلیم اللہ اور حزب اللہ نے بھی اعتراف جرم کرلیا اور بیان دیا کہ ہم نے زمین ہتھیانے کے لئے خاندان کے لوگوں کو مارا، چچا والوں سے زمین کا تنازع تھا، اپنوں کو مار کر الزام مخالفین پر دینے کا پلان تھا، ماجد نے بیان دیا کہ مجھے بھی بابا نے کہا کہ تمہیں بھی اللہ کی طرف بھیجوں کیا؟ میں نے کہا نہیں میں آپ کے ساتھ چلوں گا، پھر چھوڑ دیا اور ہم نکل آئے، راستے میں بابا نے رو کر بتایا کہ اللہ کا حکم تھا اس لیے مارا، اگر نہیں مارتا تو اللہ کا عذاب آتا اور یہ پاکیزہ بچے اور خواتین ناپاک ہوجاتیں۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا اور 14روزہ ریمانڈ حاصل کرلیا۔
اس واقعہ کے چند دن بعد یہ انکشاف سامنے آیا کہ خواتین و بچوں سمیت 11افراد کو قتل کئے جانے سے قبل ایک ہفتے تک یرغمال بناکر رکھا گیا تھا۔ اپنے ہی گھر والوں کے گلے کاٹنے والے ملزم کے بھائی اسد اللہ انڈھڑ نے اپنے ویڈیو بیان میں بتایا ہے کہ عیدالاضحی کے بعد ملزم نے اپنے 2بیٹوں کو گھر سے نکال دیا تھا اور انہیں بولا تھا کہ وہ اپنی بیویوں کو طلاق دیں۔
بیٹوں نے آکر سب کو بتایا کہ والد نے گھر کا دروازہ بند کردیا ہے، اندر جانے اور باہر آنے کے راستے بند ہیں، میں فیصل آباد گیا ہواتھا، جب واپس آیا تو یہ میرے گھر بیٹھے ہوئے تھے، جو بھی گھر پر جاتا تھا ملزم اسے پستول دکھاکر ڈراتا تھا، پولیس کو اطلاع دی، 4بار پولیس بھی گھر گئی، ایس ایچ او خود بھی مذکورہ گھر میں گیا، ملزم نے پولیس اہلکار کو بھی اینٹیں مارکر زخمی کیا۔
بعد ازاں پنوعاقل میں ایک ہی گھر کے قتل ہونیوالے 11افراد کو مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، بیک وقت گیارہ جنازے اٹھنے پر کہرام مچ گیا، جبکہ علاقے میں سوگ کی فضاء چھائی رہی۔ لوگوں کی بڑی تعداد غمگین دکھائی دی۔ واقعہ کے متعلق جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ملزم وہاب اللہ کی جانب سے اپنے چار بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی گھر کے 11افراد کو قتل کرنے کی وجہ اپنے بھائی کے ساتھ جاری زمین کا تنازع تھا۔
ملزمان کی یہ کوشش تھی کہ گھر کے تمام افراد کو قتل کرکے ان کا الزام بھائی پر عائد کیا جائے تاکہ اس کی زمین پر قبضہ کیا جاسکے مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ درندہ صفت، بے رحم و سفاک ملزمان کو پولیس نے گرفتار تو کرلیا ہے اور عدالت سے ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے لیکن لوگ بالخصوص باشعور افراد یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک انسان اس حد تک کس طرح گر سکتا ہے؟ کوئی باپ اپنے ہی بچوں کے گلے پر چھری کیسے پھیر سکتا ہے؟ کیا یہ شیطان کے پیروکار نہیں؟ جن کے ہاتھ اپنے ہی پیاروں کی گردنوں پر چھری چلاتے ہوئے ذرہ برابر بھی نہیں کانپے، اس قسم کے افسوسناک و دل دہلادینے والے واقعات سے زمین بھی کانپ اٹھتی ہے۔
شہری و عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ انسانیت کو شرمسار کرنے اور انسانیت کے چہرے کو مکروہ وداغدار بنانے والے سفاک و بے رحم ملزمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ایسی سزا دی جائے کہ یہ لوگ معاشرے میں عبرت کا نشانہ بن جائے۔