دہشت گردی کی حالیہ لہر سی ٹی ڈی کے لئے چیلنج بن گئی
دستی بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں پولیس ملازمین و عام شہری بھی شہید ہوئے
شہر قائد میں دہشت گردوں کی جانب سے پولیس کو نشانہ بنانے کے ساتھ تھانوں پر دستی بم حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تمام مقدمات کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ میں درج کیے گئے ہیں لیکن تمام مراعات کی وصولی کے باوجود سی ٹی ڈی پولیس تاحال دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ دہشت گرد موقع ملتے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلا کر کمین گاہوں میں جا کر روپوش ہو جاتے ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کہ شہر قائد میں امن و امن کے قیام میں پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے نہ صرف شہر کو دہشت گردی کے بڑے واقعات سے بچایا بلکہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک بھی پہنچا دیا۔
شہر قائد میں چند ماہ کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے 9 دستی بم حملوں میں رینجرز کے ریٹائڑد افسر سمیت 3 شہری زندگی سے محروم ہوئے جبکہ پولیس کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں 2 پولیس افسروں سمیت 5 اہلکار شہید ہوئے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی (را) اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کالعدم بی ایل اے سمیت دیگر ضمیر فروشوں کا سہارا لے کر انھیں استعمال کر رہی ہے جبکہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے رینجرز اور پولیس کے اعلیٰ افسران سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے کہ اس نیٹ ورک سے جڑے دہشت گردوں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
دہشت گردوں نے رواں سال یکم جون سے 31 اگست کے دوران 9 دستی بم حملے کیے، جن میں 8 حملوں میں روسی ساختہ RGD1جبکہ ایک حملے میں امریکی ساختہ دستی بم استعمال کیا گیا۔ حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں میں 10 جون کی شام دہشت گردوں نے گلستان جوہر میں رینجرز کی موبائل پر دستی بم سے حملہ کیا جس میں ایک جوان زخمی ہوا اور اس واقعے کے چند گھنٹوں کے بعد رات کو شاہ لطیف ٹاؤن میں واقع رینجرز کی چوکی کے قریب دستی بم سے حملہ کیا گیا جس میں ایک راہگیر زخمی ہوا۔
19 جولائی کو لیاقت آباد میں احساس پروگرام کے دفتر کے قریب دہشت گردوں نے رینجرز کی موبائل کے قریب دستی بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک راہگیر جاں بحق جبکہ 6 افراد زخمی ہوئے۔ 8جولائی کو گلستان جوہر میں ایک بیکری پر موٹر سائیکل سوار دہشت گرد دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے جس کے نتیجے میں دکان پر موجود رینجرز کا ریٹائرڈ سب انسپکٹر شہید ہوگیا۔ 25 جولائی کو سپر مارکیٹ تھانے میں بنے ہوئے ڈی ایس پی گلبہار کے دفتر پر دہشت گردوں نے دستی بم سے حملہ کیا تاہم خوش قسمتی سے وہ پھٹ نہیں سکا۔
5 اگست کو کورنگی میں اسٹیٹ ایجنسی کی دکان پر دستی بم حملے میں 3 افراد زخمی ہوئے جبکہ اسی روز گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر جماعت اسلامی کی کشمیر ریلی پر دستی بم سے حملہ کر کے 39 افراد کو زخمی کر دیا گیا، جن میں سے جماعت اسلامی کا علاقائی عہدیدار رفیق تنولی دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔
11 اگست کو دہشت گردوں نے اسٹیل ٹاؤن کے علاقے گلشن حدید میں جشن آزادی اسٹال پر دستی بم سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 7 افراد زخمی ہوئے جبکہ 31 اگست کی رات دہشت گردوں نے نواں دستی بم حملہ مومن آباد تھانے پر کیا جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں دہشت گردوں کی جانب سے دستی بم حملوں کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا جس میں 3 جولائی کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے پولیس اہلکار نعمان کو بلوچ کالونی کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا اور اس کا اسلحہ بھی چھین کر لے گئے۔
11 جولائی کو عوامی کالونی میں پولیس اہلکار اصغر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس کا بھی اسلحہ چھین لیا گیا۔ 23 جولائی کو دہشت گردوں نے جٹ لائن میں اے ایس آئی غلام محمد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا اور اس پولیس افسر کا اسلحہ بھی چھین کر فرار ہوگئے ، 30 جولائی کو گلشن معمار کے علاقے عباس کٹ کے قریب دہشت گردوں نے سب انسپکٹر یار محمد کو جبکہ 13 اگست کو کریم آباد فلائی اوور کے قریب ٹریفک پولیس کے ہیڈ کانسٹبل محمد علی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ جو کہ محکمہ پولیس کا انتہائی اہم شعبہ ہے اور جس کا کام دہشت گردوں کا سراغ لگا کر کسی بھی غیر معمولی واردات کو قبل از وقت ناکام بنانا ہے، لیکن دہشتگردی کی موجودہ لہر محکمے کو اپنی ذمہ داریوں پر بھرپور توجہ دلاتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سی ٹی ڈی نہ صرف اپنے خفیہ سراغ رسانی کے نظام میں مزید بہتری لائے بلکہ ایسی حکمت عملی بھی مرتب کرنا ہوگی کہ دستی بموں کے حملوں اور پولیس افسران و اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے والے ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا سراغ لگا کر انھیں منطقی انجام تک پہنچا دیا جائے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تمام مقدمات کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ میں درج کیے گئے ہیں لیکن تمام مراعات کی وصولی کے باوجود سی ٹی ڈی پولیس تاحال دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ دہشت گرد موقع ملتے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلا کر کمین گاہوں میں جا کر روپوش ہو جاتے ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کہ شہر قائد میں امن و امن کے قیام میں پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے نہ صرف شہر کو دہشت گردی کے بڑے واقعات سے بچایا بلکہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک بھی پہنچا دیا۔
شہر قائد میں چند ماہ کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے 9 دستی بم حملوں میں رینجرز کے ریٹائڑد افسر سمیت 3 شہری زندگی سے محروم ہوئے جبکہ پولیس کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں 2 پولیس افسروں سمیت 5 اہلکار شہید ہوئے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی (را) اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کالعدم بی ایل اے سمیت دیگر ضمیر فروشوں کا سہارا لے کر انھیں استعمال کر رہی ہے جبکہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے رینجرز اور پولیس کے اعلیٰ افسران سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے کہ اس نیٹ ورک سے جڑے دہشت گردوں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
دہشت گردوں نے رواں سال یکم جون سے 31 اگست کے دوران 9 دستی بم حملے کیے، جن میں 8 حملوں میں روسی ساختہ RGD1جبکہ ایک حملے میں امریکی ساختہ دستی بم استعمال کیا گیا۔ حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں میں 10 جون کی شام دہشت گردوں نے گلستان جوہر میں رینجرز کی موبائل پر دستی بم سے حملہ کیا جس میں ایک جوان زخمی ہوا اور اس واقعے کے چند گھنٹوں کے بعد رات کو شاہ لطیف ٹاؤن میں واقع رینجرز کی چوکی کے قریب دستی بم سے حملہ کیا گیا جس میں ایک راہگیر زخمی ہوا۔
19 جولائی کو لیاقت آباد میں احساس پروگرام کے دفتر کے قریب دہشت گردوں نے رینجرز کی موبائل کے قریب دستی بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک راہگیر جاں بحق جبکہ 6 افراد زخمی ہوئے۔ 8جولائی کو گلستان جوہر میں ایک بیکری پر موٹر سائیکل سوار دہشت گرد دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے جس کے نتیجے میں دکان پر موجود رینجرز کا ریٹائرڈ سب انسپکٹر شہید ہوگیا۔ 25 جولائی کو سپر مارکیٹ تھانے میں بنے ہوئے ڈی ایس پی گلبہار کے دفتر پر دہشت گردوں نے دستی بم سے حملہ کیا تاہم خوش قسمتی سے وہ پھٹ نہیں سکا۔
5 اگست کو کورنگی میں اسٹیٹ ایجنسی کی دکان پر دستی بم حملے میں 3 افراد زخمی ہوئے جبکہ اسی روز گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر جماعت اسلامی کی کشمیر ریلی پر دستی بم سے حملہ کر کے 39 افراد کو زخمی کر دیا گیا، جن میں سے جماعت اسلامی کا علاقائی عہدیدار رفیق تنولی دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔
11 اگست کو دہشت گردوں نے اسٹیل ٹاؤن کے علاقے گلشن حدید میں جشن آزادی اسٹال پر دستی بم سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 7 افراد زخمی ہوئے جبکہ 31 اگست کی رات دہشت گردوں نے نواں دستی بم حملہ مومن آباد تھانے پر کیا جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں دہشت گردوں کی جانب سے دستی بم حملوں کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا جس میں 3 جولائی کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے پولیس اہلکار نعمان کو بلوچ کالونی کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا اور اس کا اسلحہ بھی چھین کر لے گئے۔
11 جولائی کو عوامی کالونی میں پولیس اہلکار اصغر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس کا بھی اسلحہ چھین لیا گیا۔ 23 جولائی کو دہشت گردوں نے جٹ لائن میں اے ایس آئی غلام محمد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا اور اس پولیس افسر کا اسلحہ بھی چھین کر فرار ہوگئے ، 30 جولائی کو گلشن معمار کے علاقے عباس کٹ کے قریب دہشت گردوں نے سب انسپکٹر یار محمد کو جبکہ 13 اگست کو کریم آباد فلائی اوور کے قریب ٹریفک پولیس کے ہیڈ کانسٹبل محمد علی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ جو کہ محکمہ پولیس کا انتہائی اہم شعبہ ہے اور جس کا کام دہشت گردوں کا سراغ لگا کر کسی بھی غیر معمولی واردات کو قبل از وقت ناکام بنانا ہے، لیکن دہشتگردی کی موجودہ لہر محکمے کو اپنی ذمہ داریوں پر بھرپور توجہ دلاتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سی ٹی ڈی نہ صرف اپنے خفیہ سراغ رسانی کے نظام میں مزید بہتری لائے بلکہ ایسی حکمت عملی بھی مرتب کرنا ہوگی کہ دستی بموں کے حملوں اور پولیس افسران و اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے والے ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا سراغ لگا کر انھیں منطقی انجام تک پہنچا دیا جائے۔