معصوم بچے اور گھات میں بیٹھے بھیڑیے
کئی کم عمر بچے بچیاں اپنے چچا، انکل، کزن یا کسی محلے دار کی ’’جنسی درندگی‘‘ کا شکار ہوتے ہیں
DELHI:
پردیس میں معاش، فکرِ معاش، گھر، فیملی، دل و دماغ، ضمیر، دین و دنیا اور پھر دنیا والے... غرض بھاگتی دوڑتی زندگی قدم قدم پر آزمائشوں کا نام ہے۔ ایسے میں اگر ہم ''جلا وطنوں'' کو وطن سے کوئی اچھی حوصلہ فزا اور خوشی کی خبر سننے کو ملتی ہے تو وہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہوتی ہے۔ وطن اور ہم وطنوں کو خوش اور خوشحال دیکھ کر ہم بھی خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی افسوسناک خبر ملے تو ہمارے ضبط کا پیمانہ جو پہلے ہی اپنوں سے دوری کے دکھ سے لبالب بھرا ہوتا ہے، ایک لمحے میں چھلک جاتا ہے۔
کراچی میں عیسیٰ نگری کے علاقے سے ''ایک اور'' 5 سالہ مروہ کی پھولی ہوئی، کچلی ہوئی، مـسلی ہوئی مسخ شدہ لاش ملی ہے۔ میں نے ''ایک اور'' اس لیے کہا کہ ہم حال ہی میں زینب، سنبل اور پشاور کی کمسن فائزہ کو دفنا کر ہٹے ہیں۔ عوام کی اکثریت میڈیا کو گالیاں دیتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ یہی میڈیا ہے جس کے توسط سے یہ سب ہمارے علم میں آیا، ورنہ بدقسمتی سے ایسے کئی واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتا ہی نہیں۔ کئی کم عمر بچے بچیاں اپنے چچا، انکل، کزن یا کسی محلے دار کی ''مولیسٹیشن'' کا شکار ہوتے ہیں لیکن ڈر، خوف اور اپنی کم عمری کی وجہ سے ہمیں بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل ایک فیلو نے ویڈیو اِنباکس کی، جس میں سگا چچا اپنی کمسن بھتیجی کو موٹر سائیکل پر آگے بٹھائے اس کے نازک اعضا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھا۔ ایک باہمت نوجوان، جو اس کی ان حرکات کو کافی دیر سے نوٹ کر رہا تھا، نے روکا، چار لوگوں کو اکٹھا کیا اور تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا کہ وہ اس بچی کے ساتھ کیا کررہا تھا؟
گزشتہ ہفتے ہی تو یہ تکلیف دہ خبر بھی سنی جب ایک بچے کو زیادتی کے بعد اس کے نازک حصے میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔
قارئین یہ لکھتے وقت حقیقی معنوں میں میرا ہاتھ کانپ رہا ہے۔
ہم کہاں جارہے ہیں؟ اور اگر اسی طرح چلتے رہے تو منزل کیا ہوگی؟ ایسے رستوں کی منزل کیا ہوتی ہے؟ آخر کب تک ہماری اس ''فیوچر جنریشن'' کو اس کے بچپن میں ہی توڑا پھوڑا، مسلا اور کچلا جاتا رہے گا؟
اچھا ہوا زینب اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے بعد مرگئی، سنبل، فائزہ اور یہ مروہ بھی مرگئی، ورنہ اگر زندہ بچ جاتیں تو شاید روز مرتیں۔
آج سے دس سال قبل بھی ایسے ہی حالات تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے ایسے ہی کسی اندوہناک واقعے پر کالم لکھا تھا، ان واقعات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی اور سدباب کےلیے کچھ تجاویز دیں تھیں۔ وہ ساری وجوہات اور تجاویز لکھنے بیٹھ جاؤں تو بلاگ بہت طویل ہوجائے گا، لیکن مختصراً ذکر کروں تو گلی محلوں کے نکڑوں پر موجود موبائل شاپس پر چند روپوں میں گھٹیا ترین غیراخلاقی مواد کی فراہمی، گھر کا ماحول، موبائل اور انٹرنیٹ تک بنا اخلاقی تربیت سستی ترین رسائی، اسٹیج ڈراموں میں تفریح کے نام پر بے حیائی اور بے روزگاری، یہ وہ ٹائم بم ہیں جنہیں ہمارا معاشرہ خود تیار کرتا ہے اور وہ ٹِک ٹِک کرتے کرتے ایک دن پھٹ جاتے ہیں۔
سارے معاشرے کو بدلنا اتنا آسان نہیں۔ اتنی تبدیلیاں لانا آسان نہیں کہ حکومت اور بڑے اہم معرکوں سے نبرد آزما ہیں۔ لیکن چلو ہمارے بچوں کو ہی الرٹ کردو، انہیں ہی اتنی رہنمائی اور حوصلہ دے دو کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی غیر اخلاقی سلوک کو رپورٹ کرسکیں، بتانے کی ہمت کرسکیں۔
''اسکول سائیکالوجسٹس'' دس سال قبل بھی ایک آرٹیکل میں یہی تجویز دی تھی کہ ہر اسکول میں کم از کم ایک ''اسکول سائیکالوجسٹ'' ضرور ہونا چاہیے جو اسکول کے ہر بچے کو ہفتے میں کم از کم ایک بار 15 منٹ کا ایک سیشن دے۔ اس کے ساتھ کہیں کوئی غیر اخلاقی سلوک تو نہیں ہورہا؟ وہ کیا سوچتا ہے؟ کیا محسوس کرتا ہے؟ اگر چڑ چڑا ہے تو اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ وہ کن Complications کا شکار ہے؟ یہ سب جاننے اور اس سب سے نکلنے کی رہنمائی کےلیے ہر اسکول میں کم از کم ایک اسکول سائیکالوجسٹ ضرور ہونا چاہیے، جیسا کہ ہر اچھے ملک اور اچھی حکومتوں میں ہوتا ہے کہ وہ اپنی نئی پود کو دھوپ چھاؤں اور کملانے سے بچانے کےلیے شروع سے ہی عملی اقدامات کرتے ہیں۔
ہر اسکول میں ایک اسکول سائیکالوجسٹ مقرر کرنے سے جہاں ہمارے ان ننھے ذہنوں کی اچھی نشوونما اور رہنمائی ہوگی وہیں سیکڑوں ہزاروں نفسیات کی ڈگری رکھنے والے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔ یہ کوئی بہت زیادی مہنگا یا مشکل مشن نہیں ہے لیکن اگر وزیراعظم اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اسے تحقیقاتی بنیادوں پر اپنے اپنے صوبوں میں ہی پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کرکے دیکھیں تو نہ صرف ہمارے پڑھے لکھے بے روزگار سائیکالوجسٹ ٹھکانے لگ جائیں گے بلکہ سب سے اہم ہماری فیوچر جنریشن کی اچھی تعمیر بھی ممکن ہوسکے گی۔
اللہ ہم سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پردیس میں معاش، فکرِ معاش، گھر، فیملی، دل و دماغ، ضمیر، دین و دنیا اور پھر دنیا والے... غرض بھاگتی دوڑتی زندگی قدم قدم پر آزمائشوں کا نام ہے۔ ایسے میں اگر ہم ''جلا وطنوں'' کو وطن سے کوئی اچھی حوصلہ فزا اور خوشی کی خبر سننے کو ملتی ہے تو وہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہوتی ہے۔ وطن اور ہم وطنوں کو خوش اور خوشحال دیکھ کر ہم بھی خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی افسوسناک خبر ملے تو ہمارے ضبط کا پیمانہ جو پہلے ہی اپنوں سے دوری کے دکھ سے لبالب بھرا ہوتا ہے، ایک لمحے میں چھلک جاتا ہے۔
کراچی میں عیسیٰ نگری کے علاقے سے ''ایک اور'' 5 سالہ مروہ کی پھولی ہوئی، کچلی ہوئی، مـسلی ہوئی مسخ شدہ لاش ملی ہے۔ میں نے ''ایک اور'' اس لیے کہا کہ ہم حال ہی میں زینب، سنبل اور پشاور کی کمسن فائزہ کو دفنا کر ہٹے ہیں۔ عوام کی اکثریت میڈیا کو گالیاں دیتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ یہی میڈیا ہے جس کے توسط سے یہ سب ہمارے علم میں آیا، ورنہ بدقسمتی سے ایسے کئی واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتا ہی نہیں۔ کئی کم عمر بچے بچیاں اپنے چچا، انکل، کزن یا کسی محلے دار کی ''مولیسٹیشن'' کا شکار ہوتے ہیں لیکن ڈر، خوف اور اپنی کم عمری کی وجہ سے ہمیں بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل ایک فیلو نے ویڈیو اِنباکس کی، جس میں سگا چچا اپنی کمسن بھتیجی کو موٹر سائیکل پر آگے بٹھائے اس کے نازک اعضا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھا۔ ایک باہمت نوجوان، جو اس کی ان حرکات کو کافی دیر سے نوٹ کر رہا تھا، نے روکا، چار لوگوں کو اکٹھا کیا اور تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا کہ وہ اس بچی کے ساتھ کیا کررہا تھا؟
گزشتہ ہفتے ہی تو یہ تکلیف دہ خبر بھی سنی جب ایک بچے کو زیادتی کے بعد اس کے نازک حصے میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔
قارئین یہ لکھتے وقت حقیقی معنوں میں میرا ہاتھ کانپ رہا ہے۔
ہم کہاں جارہے ہیں؟ اور اگر اسی طرح چلتے رہے تو منزل کیا ہوگی؟ ایسے رستوں کی منزل کیا ہوتی ہے؟ آخر کب تک ہماری اس ''فیوچر جنریشن'' کو اس کے بچپن میں ہی توڑا پھوڑا، مسلا اور کچلا جاتا رہے گا؟
اچھا ہوا زینب اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے بعد مرگئی، سنبل، فائزہ اور یہ مروہ بھی مرگئی، ورنہ اگر زندہ بچ جاتیں تو شاید روز مرتیں۔
آج سے دس سال قبل بھی ایسے ہی حالات تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے ایسے ہی کسی اندوہناک واقعے پر کالم لکھا تھا، ان واقعات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی اور سدباب کےلیے کچھ تجاویز دیں تھیں۔ وہ ساری وجوہات اور تجاویز لکھنے بیٹھ جاؤں تو بلاگ بہت طویل ہوجائے گا، لیکن مختصراً ذکر کروں تو گلی محلوں کے نکڑوں پر موجود موبائل شاپس پر چند روپوں میں گھٹیا ترین غیراخلاقی مواد کی فراہمی، گھر کا ماحول، موبائل اور انٹرنیٹ تک بنا اخلاقی تربیت سستی ترین رسائی، اسٹیج ڈراموں میں تفریح کے نام پر بے حیائی اور بے روزگاری، یہ وہ ٹائم بم ہیں جنہیں ہمارا معاشرہ خود تیار کرتا ہے اور وہ ٹِک ٹِک کرتے کرتے ایک دن پھٹ جاتے ہیں۔
سارے معاشرے کو بدلنا اتنا آسان نہیں۔ اتنی تبدیلیاں لانا آسان نہیں کہ حکومت اور بڑے اہم معرکوں سے نبرد آزما ہیں۔ لیکن چلو ہمارے بچوں کو ہی الرٹ کردو، انہیں ہی اتنی رہنمائی اور حوصلہ دے دو کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی غیر اخلاقی سلوک کو رپورٹ کرسکیں، بتانے کی ہمت کرسکیں۔
''اسکول سائیکالوجسٹس'' دس سال قبل بھی ایک آرٹیکل میں یہی تجویز دی تھی کہ ہر اسکول میں کم از کم ایک ''اسکول سائیکالوجسٹ'' ضرور ہونا چاہیے جو اسکول کے ہر بچے کو ہفتے میں کم از کم ایک بار 15 منٹ کا ایک سیشن دے۔ اس کے ساتھ کہیں کوئی غیر اخلاقی سلوک تو نہیں ہورہا؟ وہ کیا سوچتا ہے؟ کیا محسوس کرتا ہے؟ اگر چڑ چڑا ہے تو اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ وہ کن Complications کا شکار ہے؟ یہ سب جاننے اور اس سب سے نکلنے کی رہنمائی کےلیے ہر اسکول میں کم از کم ایک اسکول سائیکالوجسٹ ضرور ہونا چاہیے، جیسا کہ ہر اچھے ملک اور اچھی حکومتوں میں ہوتا ہے کہ وہ اپنی نئی پود کو دھوپ چھاؤں اور کملانے سے بچانے کےلیے شروع سے ہی عملی اقدامات کرتے ہیں۔
ہر اسکول میں ایک اسکول سائیکالوجسٹ مقرر کرنے سے جہاں ہمارے ان ننھے ذہنوں کی اچھی نشوونما اور رہنمائی ہوگی وہیں سیکڑوں ہزاروں نفسیات کی ڈگری رکھنے والے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔ یہ کوئی بہت زیادی مہنگا یا مشکل مشن نہیں ہے لیکن اگر وزیراعظم اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اسے تحقیقاتی بنیادوں پر اپنے اپنے صوبوں میں ہی پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کرکے دیکھیں تو نہ صرف ہمارے پڑھے لکھے بے روزگار سائیکالوجسٹ ٹھکانے لگ جائیں گے بلکہ سب سے اہم ہماری فیوچر جنریشن کی اچھی تعمیر بھی ممکن ہوسکے گی۔
اللہ ہم سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔