جمہوریت سے آگے
ہمارے ہاں ترقی اور جمہوریت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں
ہمیشہ سے دیکھتے سنتے آئے ہیں کہ مغرب کی ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ جمہوریت کا ہے۔ اگر 100 فیصد نہیں تو 90 فیصد یہ بات درست ہے۔ مغربی ترقی جمہوریت ہی کی مرہون منت ہے۔ اس ترقی کی بنا پر ایجادات اور دریافتوں کا وہ سلسلہ شرع ہوا جو کہ آج تک جاری ہے۔ 1798 میں فرانس میں جمہوریت آنا تھی کہ یورپ میں جمہوریت آگ کی طرح پھیل گئی اور دنیا کے ہر کونے میں اس کی تپش محسوس کی گئی۔
ہمارے ہاں ترقی اور جمہوریت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دنیا میں نہ ہی پہلے جمہوریت مکمل طور پر تھی اور نہ ہی اب ہے۔ مگر ترقی ہر دور میں جاری تھی۔ آج بھی کئی غیر جمہوری ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جن میں جمہوریت تو ہے مگر ترقی نہیں۔ اس لیے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ترقی کےلیے عوامی اقتدار لازم نہیں۔ جمہوریت کی عدم دستیابی ترقی کی راہ میں کوئی خاص رکاوٹ نہ ہی پہلے کبھی تھی اور نہ ہی اب ہے۔
مگر ایک طرف ہم ہیں جن کو نہ جانے کس نے یہ باور کروا دیا ہے کہ تمام تر ترقی، شائستگی اور کامرانی کے پیچھے جمہوریت کا ہونا لازم ہے۔ جمہوریت کے خلاف بات کرنے والوں کو دقیانوس اور انتہاپسند سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف جمہوریت کے خلاف سب سے زیادہ مصنفین مغربی ممالک نے ہی دیے ہیں۔ جیسے کہ بنجامن فرینکلن کہتا ہے ''جمہوریت بالکل ایسے ہی ہے کہ دو بھیڑیوں اور ایک بھیڑ کے بچے کے مابین اس بحث پر ووٹ ڈالا جائے کہ آج دوپہر کا کھانا کون بنے گا''۔ سر ونسٹن چرچل کا کہنا ہے ''جمہوریت کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ کسی متوسط ووٹر سے پانچ منٹ کےلیے بحث کرلی جائے۔''
جمہوریت کا سب سے بڑا داعی برطانیہ کو مانا جاتا ہے، مگر وہاں پر آج بھی ملکہ اپنی پوری شان سے جی رہی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ بادشاہت اور عوامی اقتدار اکٹھے چل رہے ہیں۔
جمہوریت ایک اچھا نظام ہوسکتا ہے لیکن حرف کُل نہیں۔ اور نہ ہی اس میں عالمگیریت کا عنصر موجود ہے۔ یہ نظام ہر قوم کےلیے تو ہرگز نہیں ہے۔ جیسے کہ ارسطو نے کہا تھا ''جمہوریت ایک سوچی سمجھی حماقت ہے''۔
میں نے آج تک جتنی بھی جگہوں پر جمہوریت کے لوازمات کو پڑھا ہے یہ چند باتیں ہر جگہ پائی ہیں کہ عوام تعلیم یافتہ ہوں، عوام میں سیاسی شعور کی موجودگی ہو، بنیادی حقوق کی پاسداری ہو، آئین کی بالادستی ہو، عدلیہ آزاد ہو۔
اب آپ خود بتائیے کہ کیا حقیقت میں یہ سب باتیں ہمارے ملک میں موجود ہیں؟ ہرگز نہیں۔
جس ملک کی آبادی کروڑوں کی تعداد میں غربت کی لکیر سے نیچے ہو۔ 40 فیصد سے زیادہ عوام ان پڑھ ہو اور بالکل سیاسی شعور نہ رکھتے ہوں، وہاں بھلا کیسے جمہوریت پنپ سکتی ہے؟ یورپ میں جمہوریت آئی تو ان کے آباؤ اجداد کی بیش بہا قربانیوں کے بعد۔ مگر ہمیں تو انگریز کی غلامی کے بعد یہ پلیٹ میں رکھی ہوئی ملی اور ہم سے کھائی بھی نہ گئی۔ آج تک میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر اور ایک ان پڑھ وڈیرے کا ووٹ کیسے برابر ہوگیا؟
کوئی بھی مشرقی یا اسلامی اسکالر یہ نہیں کہتا کہ جمہوریت مکمل اسلامی نظام ہے۔ اتنا لازم کہا جاتا ہے کہ اس کے بہت سے عناصر اسلامی تعلیمات سے مستعار ہیں۔ اب آپ خود بتائیے کہ ایک نظام جو کہ نہ ہی مکمل ہمارے دین میں فٹ آتا ہے اور نہ ہی ہمارے سماج میں ایک اچھا مقام رکھتا ہے، وہ نظام کیسے ہمارے گلے کا طوق بنا ہوا ہے؟
ایسا ہرگز نہیں کہ میں آمریت کا پرچار کررہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جمہوریت سے بھی کچھ آگے کا سوچیں۔ اگر نہیں تو کم از کم اس نظام میں کچھ ترامیم ہی کرلی جائیں کہ یہ نظام قابل نافذ ہوجائے۔ دیگر نظاموں کی طرح جمہوریت بھی اب بوسیدہ نظام کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہمیں اب جمہوریت سے آگے بڑھنا ہے اور حقیقی معنوں میں اپنی صدی کا آغاز کرنا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ جمہوریت اب کم از کم ہمارے لائق نہیں رہی۔ ویسے بھی اگر جمہوریت ہی سب کچھ ہوتی تو 313 کبھی بھی 1000 پر غالب نہ آتے۔ ایک بات اور کہ کبھی بھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ اکثریت حق پر ہو یا اکثریت ہی درست ہو۔ عجیب نظام ہے کہ ایک ملک کو تہذیب اور امن پسندی کے نام پر اس کی سرحدوں تک بالکل محدود کردیا جاتا ہے اور خود معاشی بالادستی کی بنا پر دوسرے ملکوں کو اپنا معاشی غلام بنالیا جاتا ہے۔ اردوان نے کہا تھا ناں کہ پانچ ممالک مل کر کیسے پوری دنیا کا نصیب طے کرسکتے ہیں؟
جمہوریت دیکھنے میں جتنا پرکشش نظام ہے، یہ اندر سے اتنا ہی فرسودہ ہوچکا ہے۔ ہمیں اب ایک نئے نظام کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ اپنے نقوش کو تاریخ میں زندہ رکھ پائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمارے ہاں ترقی اور جمہوریت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دنیا میں نہ ہی پہلے جمہوریت مکمل طور پر تھی اور نہ ہی اب ہے۔ مگر ترقی ہر دور میں جاری تھی۔ آج بھی کئی غیر جمہوری ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جن میں جمہوریت تو ہے مگر ترقی نہیں۔ اس لیے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ترقی کےلیے عوامی اقتدار لازم نہیں۔ جمہوریت کی عدم دستیابی ترقی کی راہ میں کوئی خاص رکاوٹ نہ ہی پہلے کبھی تھی اور نہ ہی اب ہے۔
مگر ایک طرف ہم ہیں جن کو نہ جانے کس نے یہ باور کروا دیا ہے کہ تمام تر ترقی، شائستگی اور کامرانی کے پیچھے جمہوریت کا ہونا لازم ہے۔ جمہوریت کے خلاف بات کرنے والوں کو دقیانوس اور انتہاپسند سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف جمہوریت کے خلاف سب سے زیادہ مصنفین مغربی ممالک نے ہی دیے ہیں۔ جیسے کہ بنجامن فرینکلن کہتا ہے ''جمہوریت بالکل ایسے ہی ہے کہ دو بھیڑیوں اور ایک بھیڑ کے بچے کے مابین اس بحث پر ووٹ ڈالا جائے کہ آج دوپہر کا کھانا کون بنے گا''۔ سر ونسٹن چرچل کا کہنا ہے ''جمہوریت کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ کسی متوسط ووٹر سے پانچ منٹ کےلیے بحث کرلی جائے۔''
جمہوریت کا سب سے بڑا داعی برطانیہ کو مانا جاتا ہے، مگر وہاں پر آج بھی ملکہ اپنی پوری شان سے جی رہی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ بادشاہت اور عوامی اقتدار اکٹھے چل رہے ہیں۔
جمہوریت ایک اچھا نظام ہوسکتا ہے لیکن حرف کُل نہیں۔ اور نہ ہی اس میں عالمگیریت کا عنصر موجود ہے۔ یہ نظام ہر قوم کےلیے تو ہرگز نہیں ہے۔ جیسے کہ ارسطو نے کہا تھا ''جمہوریت ایک سوچی سمجھی حماقت ہے''۔
میں نے آج تک جتنی بھی جگہوں پر جمہوریت کے لوازمات کو پڑھا ہے یہ چند باتیں ہر جگہ پائی ہیں کہ عوام تعلیم یافتہ ہوں، عوام میں سیاسی شعور کی موجودگی ہو، بنیادی حقوق کی پاسداری ہو، آئین کی بالادستی ہو، عدلیہ آزاد ہو۔
اب آپ خود بتائیے کہ کیا حقیقت میں یہ سب باتیں ہمارے ملک میں موجود ہیں؟ ہرگز نہیں۔
جس ملک کی آبادی کروڑوں کی تعداد میں غربت کی لکیر سے نیچے ہو۔ 40 فیصد سے زیادہ عوام ان پڑھ ہو اور بالکل سیاسی شعور نہ رکھتے ہوں، وہاں بھلا کیسے جمہوریت پنپ سکتی ہے؟ یورپ میں جمہوریت آئی تو ان کے آباؤ اجداد کی بیش بہا قربانیوں کے بعد۔ مگر ہمیں تو انگریز کی غلامی کے بعد یہ پلیٹ میں رکھی ہوئی ملی اور ہم سے کھائی بھی نہ گئی۔ آج تک میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر اور ایک ان پڑھ وڈیرے کا ووٹ کیسے برابر ہوگیا؟
کوئی بھی مشرقی یا اسلامی اسکالر یہ نہیں کہتا کہ جمہوریت مکمل اسلامی نظام ہے۔ اتنا لازم کہا جاتا ہے کہ اس کے بہت سے عناصر اسلامی تعلیمات سے مستعار ہیں۔ اب آپ خود بتائیے کہ ایک نظام جو کہ نہ ہی مکمل ہمارے دین میں فٹ آتا ہے اور نہ ہی ہمارے سماج میں ایک اچھا مقام رکھتا ہے، وہ نظام کیسے ہمارے گلے کا طوق بنا ہوا ہے؟
ایسا ہرگز نہیں کہ میں آمریت کا پرچار کررہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جمہوریت سے بھی کچھ آگے کا سوچیں۔ اگر نہیں تو کم از کم اس نظام میں کچھ ترامیم ہی کرلی جائیں کہ یہ نظام قابل نافذ ہوجائے۔ دیگر نظاموں کی طرح جمہوریت بھی اب بوسیدہ نظام کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہمیں اب جمہوریت سے آگے بڑھنا ہے اور حقیقی معنوں میں اپنی صدی کا آغاز کرنا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ جمہوریت اب کم از کم ہمارے لائق نہیں رہی۔ ویسے بھی اگر جمہوریت ہی سب کچھ ہوتی تو 313 کبھی بھی 1000 پر غالب نہ آتے۔ ایک بات اور کہ کبھی بھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ اکثریت حق پر ہو یا اکثریت ہی درست ہو۔ عجیب نظام ہے کہ ایک ملک کو تہذیب اور امن پسندی کے نام پر اس کی سرحدوں تک بالکل محدود کردیا جاتا ہے اور خود معاشی بالادستی کی بنا پر دوسرے ملکوں کو اپنا معاشی غلام بنالیا جاتا ہے۔ اردوان نے کہا تھا ناں کہ پانچ ممالک مل کر کیسے پوری دنیا کا نصیب طے کرسکتے ہیں؟
جمہوریت دیکھنے میں جتنا پرکشش نظام ہے، یہ اندر سے اتنا ہی فرسودہ ہوچکا ہے۔ ہمیں اب ایک نئے نظام کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ اپنے نقوش کو تاریخ میں زندہ رکھ پائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔