بلدیاتی نظام ترقی کا راستہ
لندن، نیویارک اور ٹوکیو وغیرہ کی طرح کراچی میں ایک سپر میونسپل کارپوریشن قائم ہونی چاہیے۔
سندھ میں بلدیاتی اداروں نے اپنی چار سالہ آئینی مدت پوری کی اور گزشتہ ماہ کے اختتام پر منتخب نمایندوں کی معیاد ختم ہوگئی۔ تحریک انصاف کی حکومتوں نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بلدیاتی اداروں کو دو سال قبل ختم کردیاتھا، یوں پنجاب اورخیبر پختون خوا میں بیوروکریسی بلدیاتی اداروں کا نظام چلارہی ہے۔
اب الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا کام مکمل کیا ہے مگر وہاں بلدیاتی انتخابات کب منعقد ہونگے، اس بارے میں حکومتی حلقوں میں خاصی خاموشی ہے۔ سندھ پیپلز پارٹی کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری پر حکومت سندھ نے اعتراضات کیے تھے جس پر وفاقی حکومت نے مختصر سنسز کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس وعدہ پر عمل نہ ہوا اور نہ ہی مردم شماری کے مکمل اعداد و شمار اب تک جاری نہ ہوپائے، مردم شماری کے مکمل اعداد و شمار کی بناء پر بلدیاتی اداروں کی حلقہ بندی ہونی چاہیے، فی الوقت بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
وفاقی شماریات کی وزارت نامعلوم وجوہات کی بناء پر اب تک اعداد و شمار جاری نہیں کرسکی۔ جمہوری نظام میں منتخب پارلیمنٹ کے ساتھ نچلی سطح تک کے اختیارات کا بلدیاتی نظام لازمی جز ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر قبضہ کیا اور وظیفہ خوار مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کر کے رنگون میں نظربندکیا تو برطانیہ کی حکومت نے ہندوستان کا نظام اپنے نامزد کردہ گورنر جنرل کے سپرد کیا تھا۔
تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے لیے 1858ء کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت ایسٹ انڈیا کی حکومت ختم ہوئی۔ ہندوستان پر براہِ راست برطانیہ کے بادشاہ کی اجارہ داری قائم ہوئی، پھر برطانوی حکومت نے 1861ء میں انڈین کونسل ایکٹ نافذ کیا۔ اس ایکٹ کے تحت ہندوستان کے صوبوں اور Presidences ریاستوں میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے۔
پاکستان بننے کے بعد منتخب حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تو 1962ء کا صدارتی آئین نافذ ہوا جس میں سارے اختیارات صدر پاکستان کے گرد گھومتے تھے۔
اسی دور میں منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حیثیت ثانوی بنی۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کیا اور پاکستان کے دونوں صوبوں کے عوام کو 80ہزار بنیادی جمہوریت (BD Members) کے اراکین کو منتخب کرنے کا موقع ملا۔ ان بی ڈی ممبرز نے صدر کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کیا اور بلدیاتی نظام کو منظم کیا۔ یہ نظام شہر کی سطح سے یونین کونسل کی سطح تک مشتمل تھا۔ ایوب خان کا بلدیاتی نظام ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے تابع تھا۔ اگرچہ 1973ء کے آئین میں بلدیاتی نظام کے قیام کا ذکر ہے مگر پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو منتخب قیادت کے سپرد کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر اکتفاء کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ جنرل ضیاء الحق نے 90 دن میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا مگر اس وعدہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور 1979ء میں پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے گئے۔ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کا بلدیاتی نظام سیکریٹری بلدیات کے تحت کام کرتا تھا، میئر کے انتظامی اور مالیاتی اختیارات محدود تھے۔ ان کی بلدیہ کو روڈ ٹیکس تک وصول کرنے کا اختیار نہ تھا۔ پھر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔
فاروق ستار کے پیچھے ایم کیو ایم کی طاقت تھی یوں انھیں بیوروکریسی سے کام لینے کا موقع ملا۔ مگر 1988ء سے 1999ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں دو دو دفعہ اقتدار میں آئیں مگر بلدیاتی اداروں کو منتخب قیادت نہ مل سکی۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے پرانے ساتھی جنرل تنویر نقوی کی قیادت میں تعمیر نو کا بیورو قائم کیا۔ جنرل تنویر نقوی نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ کیا اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کیا۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بلدیاتی نظام تھا جس میں ناظم کو اختیارات حاصل تھے، اس نظام میں صوبائی حکومت کا کردار محدود تھا۔ سٹی گورنمنٹ براہ راست وفاقی حکومت سے منسلک تھی، یوں آئین میں دی گئی صوبائی خودمختاری پس پشت چلی گئی تھی۔ جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ انھوں نے کراچی شہر کو جدید خطوط پر ڈھالنے کے لیے کچھ منصوبے شروع کیے۔
کچھ بڑی سڑکیں اور اوورہیڈ برج تعمیر ہوئے مگر ایم کیو ایم کے ناظم مصطفی کمال جب ناظم منتخب ہوئے تو کراچی میں واقعی تبدیلی نظر آنے لگی۔ مصطفی کمال نے امراء اور متوسط طبقہ کے علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی، انھی دنوں میں چائنا کٹنگ کی اصطلاح رائج ہوئی۔ سرکاری زمینوں اور نالوں پر چائنا کٹنگ کے اصو ل کے تحت پلاٹ تعمیر ہوئے۔ لیاری، گوٹھوں اور غریبوں کی بستیوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ شہری امور کے ماہر عارف حسن نے ایک مجلس میں کہا کہ اس بلدیاتی نظام میں احتساب کا کوئی نظام نہیں تھا، یوں بدعنوانیاں بھی ہوئی۔
2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو فراموش کردیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کو تو اختیارات منتقل ہوئے مگر صوبوں نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہیں کیے۔ حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کو مسترد کیا۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جمالی نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملہ پر ازخود نوٹس لیا۔ حکومت نے ایک کمزور بلدیاتی قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کیا۔ پیپلز پارٹی کے وزراء نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ان کی جماعت نے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے بنائے ہوئے قانون کو منسوخ کیا مگر وہ اس حقیقت کو نہ چھپا سکے کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے تیار کردہ بلدیاتی قانون کی بیشتر شقوں کو نئے قانون میں شامل کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت سندھ بھر میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے مگر منتخب اراکین اختیارات سے محروم رہے۔ ایک پیچیدہ قانون کی بناء پر کئی ادارے بلدیاتی امور کے فرائض کی انجام دہی کے ذمے دار قرار پائے۔ کراچی میں ہر گلی میں کوڑ ے کے ڈھیر لگ گئے۔ ہر سڑک پر سیوریج کا پانی بہنے لگا۔
وسیم اختر ایم کیو ایم کی طرف سے میئر منتخب ہوئے مگر تاریخ میں انھیں ناکام ترین میئر لکھا جائے گا، وہ 4سال اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہے۔ سیاسی رہنما عبدالخالق جونیجو کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے اختیارات کو غصب کررہی ہے اور صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کو تیار نہیں۔ کراچی کے بلدیاتی مسائل شدید ہونے سے طالع آزما قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔
کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے اور مرکز کے کنٹرول میں دینے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بعض ایجنڈہ ٹی وی اینکرز نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کی آڑ میں سندھیوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی 40 سال تک کسی نہ کسی صورت وفاق کے کنٹرول میں رہا مگر اس دوران کراچی میں دنیا کے جدید شہروں کی طرح ترقی دینے کے لیے کچھ نہیں ہوا۔
27اگست کو کراچی میں تاریخ کی بدترین بارش ہوئی۔ بلدیہ کی حدود میں آبادیوں کے ساتھ کنٹونمنٹ کے علاقوں کی آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں اور گاؤں کی ترقی اور غربت کے خاتمہ کے لیے نچلی سطح تک بلدیاتی نظام انتہائی ضروری ہے۔
لندن، نیویارک اور ٹوکیو وغیرہ کی طرح کراچی میں ایک سپر میونسپل کارپوریشن قائم ہونی چاہیے۔ اس کارپوریشن کادائرہ اختیار پورے شہر پر ہو۔ اس کارپوریشن کا میئر رابطہ کار کا فریضہ انجام دے۔ سپر میونسپل کارپوریشن شہر بھر کے تمام علاقوں بشمول کنٹونمنٹ اور دیگر وفاقی علاقوں سے ٹیکس وصول کرے اور شہر کی ترقی کا ایجنڈا طے کرے، کارپوریشن باہر سے آنے والے کچھ لوگوں کو ریگولیٹ کرے، میونسپل کارپوریشن کے ماتحت واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے اور دیگر ادارے کام کریں۔ اس قانون کے تحت یونین کونسل انتظامی اور مالیاتی طور پر خودمختار ہو۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کا شاندار پیکیج عارضی حل ہے۔ بلدیاتی مسائل کا دائمی حل سپر میونسپل کارپوریشن کے قیام میں مضمر ہے۔ سپر میونسپل کارپوریشن کا نظام ملک کے تمام بڑے شہروں میں نافذ ہونا چاہیے۔
اب الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا کام مکمل کیا ہے مگر وہاں بلدیاتی انتخابات کب منعقد ہونگے، اس بارے میں حکومتی حلقوں میں خاصی خاموشی ہے۔ سندھ پیپلز پارٹی کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری پر حکومت سندھ نے اعتراضات کیے تھے جس پر وفاقی حکومت نے مختصر سنسز کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس وعدہ پر عمل نہ ہوا اور نہ ہی مردم شماری کے مکمل اعداد و شمار اب تک جاری نہ ہوپائے، مردم شماری کے مکمل اعداد و شمار کی بناء پر بلدیاتی اداروں کی حلقہ بندی ہونی چاہیے، فی الوقت بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
وفاقی شماریات کی وزارت نامعلوم وجوہات کی بناء پر اب تک اعداد و شمار جاری نہیں کرسکی۔ جمہوری نظام میں منتخب پارلیمنٹ کے ساتھ نچلی سطح تک کے اختیارات کا بلدیاتی نظام لازمی جز ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر قبضہ کیا اور وظیفہ خوار مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کر کے رنگون میں نظربندکیا تو برطانیہ کی حکومت نے ہندوستان کا نظام اپنے نامزد کردہ گورنر جنرل کے سپرد کیا تھا۔
تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے لیے 1858ء کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت ایسٹ انڈیا کی حکومت ختم ہوئی۔ ہندوستان پر براہِ راست برطانیہ کے بادشاہ کی اجارہ داری قائم ہوئی، پھر برطانوی حکومت نے 1861ء میں انڈین کونسل ایکٹ نافذ کیا۔ اس ایکٹ کے تحت ہندوستان کے صوبوں اور Presidences ریاستوں میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے۔
پاکستان بننے کے بعد منتخب حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تو 1962ء کا صدارتی آئین نافذ ہوا جس میں سارے اختیارات صدر پاکستان کے گرد گھومتے تھے۔
اسی دور میں منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حیثیت ثانوی بنی۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کیا اور پاکستان کے دونوں صوبوں کے عوام کو 80ہزار بنیادی جمہوریت (BD Members) کے اراکین کو منتخب کرنے کا موقع ملا۔ ان بی ڈی ممبرز نے صدر کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کیا اور بلدیاتی نظام کو منظم کیا۔ یہ نظام شہر کی سطح سے یونین کونسل کی سطح تک مشتمل تھا۔ ایوب خان کا بلدیاتی نظام ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے تابع تھا۔ اگرچہ 1973ء کے آئین میں بلدیاتی نظام کے قیام کا ذکر ہے مگر پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو منتخب قیادت کے سپرد کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر اکتفاء کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ جنرل ضیاء الحق نے 90 دن میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا مگر اس وعدہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور 1979ء میں پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے گئے۔ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کا بلدیاتی نظام سیکریٹری بلدیات کے تحت کام کرتا تھا، میئر کے انتظامی اور مالیاتی اختیارات محدود تھے۔ ان کی بلدیہ کو روڈ ٹیکس تک وصول کرنے کا اختیار نہ تھا۔ پھر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔
فاروق ستار کے پیچھے ایم کیو ایم کی طاقت تھی یوں انھیں بیوروکریسی سے کام لینے کا موقع ملا۔ مگر 1988ء سے 1999ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں دو دو دفعہ اقتدار میں آئیں مگر بلدیاتی اداروں کو منتخب قیادت نہ مل سکی۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے پرانے ساتھی جنرل تنویر نقوی کی قیادت میں تعمیر نو کا بیورو قائم کیا۔ جنرل تنویر نقوی نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ کیا اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کیا۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بلدیاتی نظام تھا جس میں ناظم کو اختیارات حاصل تھے، اس نظام میں صوبائی حکومت کا کردار محدود تھا۔ سٹی گورنمنٹ براہ راست وفاقی حکومت سے منسلک تھی، یوں آئین میں دی گئی صوبائی خودمختاری پس پشت چلی گئی تھی۔ جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ انھوں نے کراچی شہر کو جدید خطوط پر ڈھالنے کے لیے کچھ منصوبے شروع کیے۔
کچھ بڑی سڑکیں اور اوورہیڈ برج تعمیر ہوئے مگر ایم کیو ایم کے ناظم مصطفی کمال جب ناظم منتخب ہوئے تو کراچی میں واقعی تبدیلی نظر آنے لگی۔ مصطفی کمال نے امراء اور متوسط طبقہ کے علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی، انھی دنوں میں چائنا کٹنگ کی اصطلاح رائج ہوئی۔ سرکاری زمینوں اور نالوں پر چائنا کٹنگ کے اصو ل کے تحت پلاٹ تعمیر ہوئے۔ لیاری، گوٹھوں اور غریبوں کی بستیوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ شہری امور کے ماہر عارف حسن نے ایک مجلس میں کہا کہ اس بلدیاتی نظام میں احتساب کا کوئی نظام نہیں تھا، یوں بدعنوانیاں بھی ہوئی۔
2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو فراموش کردیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کو تو اختیارات منتقل ہوئے مگر صوبوں نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہیں کیے۔ حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کو مسترد کیا۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جمالی نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملہ پر ازخود نوٹس لیا۔ حکومت نے ایک کمزور بلدیاتی قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کیا۔ پیپلز پارٹی کے وزراء نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ان کی جماعت نے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے بنائے ہوئے قانون کو منسوخ کیا مگر وہ اس حقیقت کو نہ چھپا سکے کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے تیار کردہ بلدیاتی قانون کی بیشتر شقوں کو نئے قانون میں شامل کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت سندھ بھر میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے مگر منتخب اراکین اختیارات سے محروم رہے۔ ایک پیچیدہ قانون کی بناء پر کئی ادارے بلدیاتی امور کے فرائض کی انجام دہی کے ذمے دار قرار پائے۔ کراچی میں ہر گلی میں کوڑ ے کے ڈھیر لگ گئے۔ ہر سڑک پر سیوریج کا پانی بہنے لگا۔
وسیم اختر ایم کیو ایم کی طرف سے میئر منتخب ہوئے مگر تاریخ میں انھیں ناکام ترین میئر لکھا جائے گا، وہ 4سال اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہے۔ سیاسی رہنما عبدالخالق جونیجو کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے اختیارات کو غصب کررہی ہے اور صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کو تیار نہیں۔ کراچی کے بلدیاتی مسائل شدید ہونے سے طالع آزما قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔
کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے اور مرکز کے کنٹرول میں دینے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بعض ایجنڈہ ٹی وی اینکرز نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کی آڑ میں سندھیوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی 40 سال تک کسی نہ کسی صورت وفاق کے کنٹرول میں رہا مگر اس دوران کراچی میں دنیا کے جدید شہروں کی طرح ترقی دینے کے لیے کچھ نہیں ہوا۔
27اگست کو کراچی میں تاریخ کی بدترین بارش ہوئی۔ بلدیہ کی حدود میں آبادیوں کے ساتھ کنٹونمنٹ کے علاقوں کی آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں اور گاؤں کی ترقی اور غربت کے خاتمہ کے لیے نچلی سطح تک بلدیاتی نظام انتہائی ضروری ہے۔
لندن، نیویارک اور ٹوکیو وغیرہ کی طرح کراچی میں ایک سپر میونسپل کارپوریشن قائم ہونی چاہیے۔ اس کارپوریشن کادائرہ اختیار پورے شہر پر ہو۔ اس کارپوریشن کا میئر رابطہ کار کا فریضہ انجام دے۔ سپر میونسپل کارپوریشن شہر بھر کے تمام علاقوں بشمول کنٹونمنٹ اور دیگر وفاقی علاقوں سے ٹیکس وصول کرے اور شہر کی ترقی کا ایجنڈا طے کرے، کارپوریشن باہر سے آنے والے کچھ لوگوں کو ریگولیٹ کرے، میونسپل کارپوریشن کے ماتحت واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے اور دیگر ادارے کام کریں۔ اس قانون کے تحت یونین کونسل انتظامی اور مالیاتی طور پر خودمختار ہو۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کا شاندار پیکیج عارضی حل ہے۔ بلدیاتی مسائل کا دائمی حل سپر میونسپل کارپوریشن کے قیام میں مضمر ہے۔ سپر میونسپل کارپوریشن کا نظام ملک کے تمام بڑے شہروں میں نافذ ہونا چاہیے۔