وفاق اور سندھ کی جانب سے کراچی کیلئے بڑے پیکج کا اعلان خوش آئند
وزیراعظم کے کراچی پیکج اعلان کے بعد وفاق اور سندھ حکومتوں کی سیاسی محاذآرائی کے سبب متنازع بنناشروع ہوگیا ہے۔
کراچی میں حالیہ بارشوں نے شہر قائد کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا ہے۔ اس قدرتی آفت کے سبب شہر کا انفراسٹرکچر تباہی کا شکار ہوا اور عوام کے معمولات زندگی شدید متاثر ہوئے۔
بارش کے دوران ہونے والے مشکلات میں شہر قائد کسی مسیحا کا منتظر رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آفت زدہ کراچی میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ شہر میں بلدیاتی ادارے غائب نظر آئے۔ ریسکو کا کام صرف افواج پاکستان اور فلاحی ادارے کرتے نظر آئے۔ تاحال شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔آخر اس شہر کی تباہ شدہ حالت پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو رحم آگیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اپنی مصروفیات میں وقت نکال کر ایک روزہ دورے پر کراچی آئے ۔ گورنر ہاؤس میں کراچی کی صورتحال پر اجلاس ہوا۔ وزیراعظم نے اتحادیوں اور تاجروں سے ملاقاتیں کیں۔ سب نے اپنے دکھ اور شہر کی بربادی کی داستان سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ بالآخر ایک پریس بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل کے مستقل حل کیلئے 1100 ارب روپے کے تاریخی پیکج کا اعلان کیا ہے، یہ پیکج وفاقی اور صوبائی حکومت نے مل کر مرتب کیا ہے، کراچی کے مسائل کے حل کیلئے صوبائی کوآرڈینیشن عمل درآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ مختلف علاقوں میں مختلف اداروں یا محکموں کی حدود تھیں جس کی وجہ سے اس پر عمل درآمد مشکل تھا، اب پی سی آئی سی میں سارے فریق ایک جگہ پر آ گئے ہیں ان میں وفاقی، صوبائی حکومتیں اور پاک فوج شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کا اصل کام منصوبوں پر عمل درآمد کا ہے، امید ہے کہ کراچی کے لوگوں نے جو مشکل وقت گزارا ہے اب انہیں اس سے نجات ملے گی۔ ہم کوشش کریں گے کہ تین سال میں کراچی میں پانی کا مسئلہ مستقل حل ہو جائے، نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے کے سپرد کیا گیا ہے جس نے اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے، یہاں پر آباد غریب لوگ بے گھر ہوں گے جنہیں دوبارہ بسانے کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیوریج سسٹم کے حوالہ سے بھی فیصلہ کیا گیا ہے، اسی پیکج میں اس مسئلہ کو بھی مکمل حل کیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ سالڈ ویسٹ کا مسئلہ بھی اس پیکج کے تحت ہی حل کیا جائے گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے سرکلر ریلوے بھی اسی پیکج کے تحت مکمل ہو گا، کراچی میں گرین لائن منصوبہ بھی مکمل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے لوگوں کو مشکل حالات سے گزرنا پڑا ہے تاہم یہ مسائل اس کمیٹی کے تعاون سے حل کریں گے۔ اس حوالے سے جو اسٹرکچر تشکیل دیا گیا ہے وہ وزیراعلیٰ سندھ کے ماتحت کام کرے گا۔
اس پریس کانفرنس سے قبل وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مختلف منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہم شہر میں 802.39 ارب روپے کے منصوبوں پر کام شروع کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دورے کے روز ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے ماڑی پور کے دورے میں کہا کہ کراچی کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 300 ارب روپے اور حکومتِ سندھ کی جانب سے 800 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔
انہوں نے شہرِ قائد کی ڈویلپمنٹ کے لیے اس عمل کو ایک اچھا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن کے لیئے ضروریات بہت زیادہ ہیں، سندھ وفاق کی جانب دیکھ رہا ہے۔
اس بیان کے بعد وفاقی اور سندھ حکومتوں میں کراچی پیکج پر سیاسی جنگ شروع ہوگئی۔ اس بیان کے جواب میں وفاقی وزراء اسد عمر، علی زیدی اور امین الحق نے ایک پریس کانفرنس میں بلاول بھٹوزرداری اور سندھ حکومت کے کراچی پیکج میں صوبائی حکومت کی جانب سے 800 ارب روپے دینے کے دعویٰ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وزیراعظم کے کراچی کے لیے 1100ارب روپے کے پیکج میں 62 فیصد فنڈنگ وفاق اور 38 فیصد فنڈنگ سندھ حکومت کرے گی۔ اس کے جواب میں سندھ حکومت کے ترجمان مرتضٰی وہاب نے کہا کہ اس پیکج میں سندھ حکومت کا حصہ 750ارب روپے کا ہے۔کراچی پیکج پر سیاست نہ کی جائے۔ اس پر وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ کراچی پیکج پر سندھ حکومت کو براہ راست پیسے نہیں دے سکتے، ان پر اعتبار نہیں ہے۔
وزیراعظم کے کراچی پیکج اعلان کے بعد وفاق اور سندھ حکومتوں کی سیاسی محاذآرائی کے سبب متنازع بنناشروع ہوگیا ہے۔اس پیکج میں کافی منصوبے پرانے ہیں ، جن پر کام جاری ہے۔ صرف نیا اور بڑا منصوبہ نالوں اور ندیوں کی توسیع ہے۔کراچی پیکج کے منصوبوں پر سیاست کے بجائے اگر عملی کام ہوں گے تو اس سے شہر کے مسائل ہوں گے۔اس پیکج پر وفاق اور سندھ حکومت بازی لینے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے۔ اس کے مسائل حل ہوں۔
اگر دونوں حکمراں جماعتوں نے اب بھی سنجیدگی نہیں دکھائی تو پھر شہر قائد کے باسی جمہوریت کے بجائے کسی اور جانب توقع رکھیں گے۔ یہ بات تو درست کہی جا سکتی ہے کہ فوجی دور حکومتوں میں کراچی کے مسائل تیزی سے حل ہوتے ہیں۔
سندھ کے کئی اضلاع اس وقت سیلاب کی زد میں ہیں۔ سندھ حکومت کے مطابق25 لاکھ افراد اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں امدادی کام جاری ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ نے متاثرہ اضلاع کے دورے کیے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں اس حوالے سے فوری امداد کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے تعاون مانگ لیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بارشوں اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والے افراد کے 5 لا کھ روپے اور زخمیوں کے لیے 2 لاکھ روپے فی کس امداد ی رقم دے۔ قدرتی آفت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وفاق و سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر غیرضروری اخراجات روک کر ان متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرے۔ اس معاملے پر سیاست سے گریز کیا جائے ۔
سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کردیے ہیں۔ زیادہ تر اضلاع کے ڈسٹرکٹ کونسلز میں ڈپٹی کمشنرز، ٹاؤن اور میونسپل کمیٹیز میں ایڈیشنل ڈپٹی واسسٹنٹ کمشنرز کو بطور ایڈمنسٹریٹرز اضافی ذمے داریاں دی گئیں ہیں ۔ اس کے علاوہ میونسپل کارپوریشنز میں مختلف افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایڈمنسٹریٹرگریڈ21 کے افسر افتخار شالوانی کو تعینات کیا گیا ہے جو کمشنر کراچی بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا کام جلد شروع کرے۔ وفاق کو چاہیے کہ وہ حالیہ مردم شماری پر مختلف طبقوں کے اعتراضات کو دور کرے۔ سندھ حکومت بااختیار بلدیاتی نظام ازسرنو بنانے کے لیے مشاورت سے اقدام کرے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات جلد ازجلد کرائے جائیں تاکہ مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل ہو سکیں ۔ سندھ حکومت کو چاہیے جب تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے وہ ان ایڈمنسٹریٹرز کو مزید اختیارات دے۔
6 ستمبر کو یوم دفاع پاکستان ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی جوش وخروش سے منایا گیا۔ بانی پاکستان قائداعظم کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کے ساتھ مختلف تقریبات منعقد ہوئیں جن میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ پاکستان لازوال قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے جس میں افواج پاکستان کے ساتھ عوام کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ شہداء وطن عزیز کا فخر ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اتحاد و محنت سے ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔
بارش کے دوران ہونے والے مشکلات میں شہر قائد کسی مسیحا کا منتظر رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آفت زدہ کراچی میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ شہر میں بلدیاتی ادارے غائب نظر آئے۔ ریسکو کا کام صرف افواج پاکستان اور فلاحی ادارے کرتے نظر آئے۔ تاحال شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔آخر اس شہر کی تباہ شدہ حالت پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو رحم آگیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اپنی مصروفیات میں وقت نکال کر ایک روزہ دورے پر کراچی آئے ۔ گورنر ہاؤس میں کراچی کی صورتحال پر اجلاس ہوا۔ وزیراعظم نے اتحادیوں اور تاجروں سے ملاقاتیں کیں۔ سب نے اپنے دکھ اور شہر کی بربادی کی داستان سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ بالآخر ایک پریس بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل کے مستقل حل کیلئے 1100 ارب روپے کے تاریخی پیکج کا اعلان کیا ہے، یہ پیکج وفاقی اور صوبائی حکومت نے مل کر مرتب کیا ہے، کراچی کے مسائل کے حل کیلئے صوبائی کوآرڈینیشن عمل درآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ مختلف علاقوں میں مختلف اداروں یا محکموں کی حدود تھیں جس کی وجہ سے اس پر عمل درآمد مشکل تھا، اب پی سی آئی سی میں سارے فریق ایک جگہ پر آ گئے ہیں ان میں وفاقی، صوبائی حکومتیں اور پاک فوج شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کا اصل کام منصوبوں پر عمل درآمد کا ہے، امید ہے کہ کراچی کے لوگوں نے جو مشکل وقت گزارا ہے اب انہیں اس سے نجات ملے گی۔ ہم کوشش کریں گے کہ تین سال میں کراچی میں پانی کا مسئلہ مستقل حل ہو جائے، نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے کے سپرد کیا گیا ہے جس نے اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے، یہاں پر آباد غریب لوگ بے گھر ہوں گے جنہیں دوبارہ بسانے کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیوریج سسٹم کے حوالہ سے بھی فیصلہ کیا گیا ہے، اسی پیکج میں اس مسئلہ کو بھی مکمل حل کیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ سالڈ ویسٹ کا مسئلہ بھی اس پیکج کے تحت ہی حل کیا جائے گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے سرکلر ریلوے بھی اسی پیکج کے تحت مکمل ہو گا، کراچی میں گرین لائن منصوبہ بھی مکمل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے لوگوں کو مشکل حالات سے گزرنا پڑا ہے تاہم یہ مسائل اس کمیٹی کے تعاون سے حل کریں گے۔ اس حوالے سے جو اسٹرکچر تشکیل دیا گیا ہے وہ وزیراعلیٰ سندھ کے ماتحت کام کرے گا۔
اس پریس کانفرنس سے قبل وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مختلف منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہم شہر میں 802.39 ارب روپے کے منصوبوں پر کام شروع کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دورے کے روز ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے ماڑی پور کے دورے میں کہا کہ کراچی کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 300 ارب روپے اور حکومتِ سندھ کی جانب سے 800 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔
انہوں نے شہرِ قائد کی ڈویلپمنٹ کے لیے اس عمل کو ایک اچھا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن کے لیئے ضروریات بہت زیادہ ہیں، سندھ وفاق کی جانب دیکھ رہا ہے۔
اس بیان کے بعد وفاقی اور سندھ حکومتوں میں کراچی پیکج پر سیاسی جنگ شروع ہوگئی۔ اس بیان کے جواب میں وفاقی وزراء اسد عمر، علی زیدی اور امین الحق نے ایک پریس کانفرنس میں بلاول بھٹوزرداری اور سندھ حکومت کے کراچی پیکج میں صوبائی حکومت کی جانب سے 800 ارب روپے دینے کے دعویٰ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وزیراعظم کے کراچی کے لیے 1100ارب روپے کے پیکج میں 62 فیصد فنڈنگ وفاق اور 38 فیصد فنڈنگ سندھ حکومت کرے گی۔ اس کے جواب میں سندھ حکومت کے ترجمان مرتضٰی وہاب نے کہا کہ اس پیکج میں سندھ حکومت کا حصہ 750ارب روپے کا ہے۔کراچی پیکج پر سیاست نہ کی جائے۔ اس پر وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ کراچی پیکج پر سندھ حکومت کو براہ راست پیسے نہیں دے سکتے، ان پر اعتبار نہیں ہے۔
وزیراعظم کے کراچی پیکج اعلان کے بعد وفاق اور سندھ حکومتوں کی سیاسی محاذآرائی کے سبب متنازع بنناشروع ہوگیا ہے۔اس پیکج میں کافی منصوبے پرانے ہیں ، جن پر کام جاری ہے۔ صرف نیا اور بڑا منصوبہ نالوں اور ندیوں کی توسیع ہے۔کراچی پیکج کے منصوبوں پر سیاست کے بجائے اگر عملی کام ہوں گے تو اس سے شہر کے مسائل ہوں گے۔اس پیکج پر وفاق اور سندھ حکومت بازی لینے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے۔ اس کے مسائل حل ہوں۔
اگر دونوں حکمراں جماعتوں نے اب بھی سنجیدگی نہیں دکھائی تو پھر شہر قائد کے باسی جمہوریت کے بجائے کسی اور جانب توقع رکھیں گے۔ یہ بات تو درست کہی جا سکتی ہے کہ فوجی دور حکومتوں میں کراچی کے مسائل تیزی سے حل ہوتے ہیں۔
سندھ کے کئی اضلاع اس وقت سیلاب کی زد میں ہیں۔ سندھ حکومت کے مطابق25 لاکھ افراد اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں امدادی کام جاری ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ نے متاثرہ اضلاع کے دورے کیے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں اس حوالے سے فوری امداد کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے تعاون مانگ لیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بارشوں اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والے افراد کے 5 لا کھ روپے اور زخمیوں کے لیے 2 لاکھ روپے فی کس امداد ی رقم دے۔ قدرتی آفت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وفاق و سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر غیرضروری اخراجات روک کر ان متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرے۔ اس معاملے پر سیاست سے گریز کیا جائے ۔
سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کردیے ہیں۔ زیادہ تر اضلاع کے ڈسٹرکٹ کونسلز میں ڈپٹی کمشنرز، ٹاؤن اور میونسپل کمیٹیز میں ایڈیشنل ڈپٹی واسسٹنٹ کمشنرز کو بطور ایڈمنسٹریٹرز اضافی ذمے داریاں دی گئیں ہیں ۔ اس کے علاوہ میونسپل کارپوریشنز میں مختلف افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایڈمنسٹریٹرگریڈ21 کے افسر افتخار شالوانی کو تعینات کیا گیا ہے جو کمشنر کراچی بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا کام جلد شروع کرے۔ وفاق کو چاہیے کہ وہ حالیہ مردم شماری پر مختلف طبقوں کے اعتراضات کو دور کرے۔ سندھ حکومت بااختیار بلدیاتی نظام ازسرنو بنانے کے لیے مشاورت سے اقدام کرے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات جلد ازجلد کرائے جائیں تاکہ مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل ہو سکیں ۔ سندھ حکومت کو چاہیے جب تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے وہ ان ایڈمنسٹریٹرز کو مزید اختیارات دے۔
6 ستمبر کو یوم دفاع پاکستان ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی جوش وخروش سے منایا گیا۔ بانی پاکستان قائداعظم کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کے ساتھ مختلف تقریبات منعقد ہوئیں جن میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ پاکستان لازوال قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے جس میں افواج پاکستان کے ساتھ عوام کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ شہداء وطن عزیز کا فخر ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اتحاد و محنت سے ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔