بہت شور سنتے تھے
صرف شور کرنے سے تبدیلی آسکتی تو کب کی آچکی ہوتی کہ شور تو آپ سالہا سال سے کر رہے ہیں
KARACHI:
سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ دعویٰ کرسکتے ہیں اور دعوے کرتے بھی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جب اختیار میں کچھ نہ ہو اور سامنے والے کو کام نہ کرنے دینا واحد ایجنڈا یا مقصد ہو تو پھر سوائے دعوؤں اور تنقید کے کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا۔ پاکستان میں اپوزیشن کا تعمیری کردار نجانے کب کا گردشِ زمانہ میں گم ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کا کردار تنقید برائے تنقید اور دعوے کرنا رہ گیا ہے۔ یہی اپوزیشن جب اقتدار میں آتی ہے اور ان کا کردار بدل جاتا ہے تو پھر حالات مختلف ہوجاتے ہیں۔ جو کل کو دعوے کرتے تھے وہ آج دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے لولی لنگڑی تاویلیں پیش کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب ان کو گزرا زمانہ یاد کروایا جائے تو دلیل سے جواب کے بجائے غصے میں آجاتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں سمجھ میں بہت دیر سے آتا ہے کہ دہائیوں پر محیط معاشرے کی برائیاں دعوؤں سے ختم نہیں ہوسکتیں بلکہ اس کےلیے کوششیں لازم ہیں۔ اور کوششیں حکومت میں آتے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف اقتدار حاصل کرنے کےلیے ہی کوششیں کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں صورتحال کچھ ایسی ہے کہ دعوؤں سے آگے کوئی بڑھنے کو تیار نہیں۔ اور کام کے دعوے بہت ہیں لیکن عملی سطح پر کام نظر نہیں آرہا۔ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے کافی وقت بیت چکا ہے اور اب تو کچھ عرصے بعد اگلے الیکشن کی تیاری شروع ہوجائے گی۔
انگریز کا بنایا گیا پولیس ایکٹ کب کا گزرے زمانے کا قصہ ہوچکا ہے۔ اور آج جسے ہم ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں تو اسی کی کوششوں سے نیا پولیس ایکٹ سامنے آیا۔ کے پی کے پولیس کو مثالی بنانے کے دعوے کے بعد پنجاب پولیس کو ہر طرح کی سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا عزم بارہا دہرایا جاچکا ہے۔ لیکن عملی طور پر پنجاب میں جو صورتحال ہے وہ حیران کن ہونے کے علاوہ خطرناک اس لیے ہے کہ دو سال میں پانچ آئی جیز تبدیل ہوچکے ہیں۔ اور یہ طرزِ عمل فورس کا مورال ڈاؤن کرنے کےلیے بہت ہے۔
ڈاکٹر سید کلیم امام سے لے کر شعیب دستگیر تک، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پانچ آئی جیز تبدیل کیے اور ان میں سے کوئی بھی وفاق و پنجاب میں قائم تحریک انصاف کی حکومت کو شائد اپنے کام سے مطمئن نہیں کرپایا کہ بہت کم وقفے میں یہ پانچوں آئی جیز تبدیل کردیے گئے اور اب چھٹے آئی جی پنجاب انعام غنی اپنی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔
دو سال کا عرصہ اتنے بڑے عہدے کےلیے ہرگز بھی ایسا نہیں جس کی توجیہہ پیش کی جاسکے کہ یہ تبدیلیاں مناسب وقت میں کی گئی ہیں۔ دو سال میں پانچ سربراہان کی تبدیلی دیکھنے والی فورس کی نفسیاتی حالت کیا ہوگی، اس کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ معاشرے میں امن و امان قائم کرنے کی بنیادی ذمے داری جس فورس کے پاس ہے اس کو یہ علم نہ ہو کہ کس شخصیت کے ہاتھوں میں اس کی کمان سونپی جائے گی اور کب تک یہ کمان برقرار رہے گی، تو اس کے کام پر فرق لامحالہ پڑے گا۔ اور کام پر فرق پڑے گا تو تبدیلی کے تمام کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ماڈل ٹاؤن واقعے کے ذمے دار پولیس افسران کو عبرت کا نشان بنانے کے دعوے کو حقیقت تب مانا جاتا جب آپ سانحہ ساہیوال کے ذمے داران کو الٹا لٹکا دیتے۔ بہتی گنگا تھی، ہاتھ دھونا شروع کردیے۔ اپنے کیے گئے وعدوں، دعوؤں، نعروں سے یوٹرن لے لینا جب کارکردگی شمار ہونے لگے تو پھر کچھ بعید نہیں۔ یاد ماضی واقعی عذاب ہوتی ہے۔ ایک پرانی ویڈیو نظر سے گزری جس میں وزیراعظم عمران خان جانے والے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی ایک مہینے کی مثالی کارکردگی کے اعتراف میں تعریفوں کے پل باندھتے نظر آئے۔ لیکن شاید پرانے گرو ان کی کارکردگی سے متاثر نہیں ہوئے، ان لوگوں کو ان کی کارکردگی پسند نہیں آئی جنہیں جے ٹی ون جہازوں میں بھر بھر کر لایا گیا تھا کہ جلد ہی وہ حاکم وقت کے دل سے اتر گئے۔ اور نتیجتاً ایک جونیئر افسر کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیے گئے۔ آپ اس ملک کا المیہ دیکھیے کہ ہم نعرے لگاتے رہے پولیس کو مثالی بنانے کے اور ایک صوبے کا پولیس سربراہ ایک شہر کے پولیس چیف سے ہار گیا۔ اور اب بھی ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ واقعی پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کا نعرہ سچ تھا؟
دیوانے کی بڑھک والا محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا؟ وہی حال ہے ہمارا بھی۔ اگر ہم اب بھی اُس نعرے پر یقین کرتے ہیں۔ افسران اپنے باس کے زیر سایہ کام کرنے کو تیار نہیں لیکن ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ''میں نہ مانوں''۔
کے پی کے ماڈل پنجاب میں نافذ کرنے کی کوششیں اس لیے کامیابی کا منہ نہیں دیکھ پارہیں کہ قباہلی رسوم و روایات کا امین معاشرہ نفسیاتی طور پر معاملات کو سادگی سے دیکھتا ہے اور ہاں یا نہ کی روش پر ہے۔ وہاں آپ اچھی چیز کریں اور عوام کو سمجھا پائے تو ہاں، نہیں سمجھا پائے تو نہ۔ اسی لیے وہاں کچھ تبدیلیاں مثبت اشارے دکھاتی نظر آئیں۔ لیکن ہم نے پنجاب کو سمجھے بنا یہاں صرف وسیم اکرم پلس سے گزارا کرنا چاہا۔ اور سونے پر سہاگہ کہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے انہی لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے امور طے کیے جنہوں نے اس پورے نظام کو کھوکھلا کردیا تھا۔ اور تاویل یہ دینے لگے کہ اگر ہم ایسے لوگوں کو ساتھ نہ ملائیں تو حکومت کیسے بنائیں۔ ارے صاحب بائیس سال انتظار کیا تھا، چند سال اور کرلیتے۔ لیکن کوششیں سچائی سے اگر تھیں تو حکومت بھی شفاف بناتے۔ وفاق میں حکومت سازی پنجاب پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ انحصار کرنے میں اگلا نمبر سندھ کا ہے۔ اور پنجاب جیسے بڑے صوبے کو ہم نے تجربہ گاہ بنالیا۔ صوبے کا انتطامی و سیاسی سربراہ ہر فیصلے کےلیے وفاق کی طرف دیکھتا نظر آتا ہے اور دعویٰ ہمارا سارا نظام تبدیل کردینے کا ہے۔
پولیس ریفارمز تو ایک بہت بڑا معرکہ شمار ہوگا۔ آپ پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کےلیے پولیس ڈپارٹمنٹ کو صرف گاڑی کا پٹرول ڈلوانے کے فنڈر روانی سے جاری کردیجیے، پولیس کلچر تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا۔ تھانے کی عمارت کا پینٹ اور تھانے میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری مہیا کرنا شروع کردیجیے، پولیس کلچر تبدیلی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ آپ اسلام آباد پولیس کے افسران کی دھرنے میں درگت بنائے جانے پر خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔ اور آج توقع کہ پولیس ٹھیک ہوجائے۔ یہ دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟
پولیس افسران کو اعتماد دیجیے کہ آپ ان پر نہ سیاسی دباؤ ڈالیں گے، نہ سیاسی طور پر تبادلہ ہوگا، نہ ہی سیاسی طور پر ان کے اختیارات غصب کرتے ہوئے صوبے کے سربراہ سے شہر کا پولیس چیف تک لگانے کا اختیار چھین لیا جائے تو پولیس کلچر کو تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
یہ تمام اقدامات کرکے کارکردگی نہ دکھانے والے افسران کو اٹھا باہر پٹخیں پولیس ڈپارٹمنٹ سے۔ لیکن اس کے لیے جرأت چاہیے۔ صرف شور کرنے سے تبدیلی آسکتی تو کب کی آچکی ہوتی کہ شور تو آپ سالہا سال سے کر رہے ہیں۔ عوام ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں، اب عملی سطح پر کام کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ دعویٰ کرسکتے ہیں اور دعوے کرتے بھی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جب اختیار میں کچھ نہ ہو اور سامنے والے کو کام نہ کرنے دینا واحد ایجنڈا یا مقصد ہو تو پھر سوائے دعوؤں اور تنقید کے کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا۔ پاکستان میں اپوزیشن کا تعمیری کردار نجانے کب کا گردشِ زمانہ میں گم ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کا کردار تنقید برائے تنقید اور دعوے کرنا رہ گیا ہے۔ یہی اپوزیشن جب اقتدار میں آتی ہے اور ان کا کردار بدل جاتا ہے تو پھر حالات مختلف ہوجاتے ہیں۔ جو کل کو دعوے کرتے تھے وہ آج دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے لولی لنگڑی تاویلیں پیش کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب ان کو گزرا زمانہ یاد کروایا جائے تو دلیل سے جواب کے بجائے غصے میں آجاتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں سمجھ میں بہت دیر سے آتا ہے کہ دہائیوں پر محیط معاشرے کی برائیاں دعوؤں سے ختم نہیں ہوسکتیں بلکہ اس کےلیے کوششیں لازم ہیں۔ اور کوششیں حکومت میں آتے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف اقتدار حاصل کرنے کےلیے ہی کوششیں کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں صورتحال کچھ ایسی ہے کہ دعوؤں سے آگے کوئی بڑھنے کو تیار نہیں۔ اور کام کے دعوے بہت ہیں لیکن عملی سطح پر کام نظر نہیں آرہا۔ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے کافی وقت بیت چکا ہے اور اب تو کچھ عرصے بعد اگلے الیکشن کی تیاری شروع ہوجائے گی۔
انگریز کا بنایا گیا پولیس ایکٹ کب کا گزرے زمانے کا قصہ ہوچکا ہے۔ اور آج جسے ہم ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں تو اسی کی کوششوں سے نیا پولیس ایکٹ سامنے آیا۔ کے پی کے پولیس کو مثالی بنانے کے دعوے کے بعد پنجاب پولیس کو ہر طرح کی سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا عزم بارہا دہرایا جاچکا ہے۔ لیکن عملی طور پر پنجاب میں جو صورتحال ہے وہ حیران کن ہونے کے علاوہ خطرناک اس لیے ہے کہ دو سال میں پانچ آئی جیز تبدیل ہوچکے ہیں۔ اور یہ طرزِ عمل فورس کا مورال ڈاؤن کرنے کےلیے بہت ہے۔
ڈاکٹر سید کلیم امام سے لے کر شعیب دستگیر تک، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پانچ آئی جیز تبدیل کیے اور ان میں سے کوئی بھی وفاق و پنجاب میں قائم تحریک انصاف کی حکومت کو شائد اپنے کام سے مطمئن نہیں کرپایا کہ بہت کم وقفے میں یہ پانچوں آئی جیز تبدیل کردیے گئے اور اب چھٹے آئی جی پنجاب انعام غنی اپنی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔
دو سال کا عرصہ اتنے بڑے عہدے کےلیے ہرگز بھی ایسا نہیں جس کی توجیہہ پیش کی جاسکے کہ یہ تبدیلیاں مناسب وقت میں کی گئی ہیں۔ دو سال میں پانچ سربراہان کی تبدیلی دیکھنے والی فورس کی نفسیاتی حالت کیا ہوگی، اس کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ معاشرے میں امن و امان قائم کرنے کی بنیادی ذمے داری جس فورس کے پاس ہے اس کو یہ علم نہ ہو کہ کس شخصیت کے ہاتھوں میں اس کی کمان سونپی جائے گی اور کب تک یہ کمان برقرار رہے گی، تو اس کے کام پر فرق لامحالہ پڑے گا۔ اور کام پر فرق پڑے گا تو تبدیلی کے تمام کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ماڈل ٹاؤن واقعے کے ذمے دار پولیس افسران کو عبرت کا نشان بنانے کے دعوے کو حقیقت تب مانا جاتا جب آپ سانحہ ساہیوال کے ذمے داران کو الٹا لٹکا دیتے۔ بہتی گنگا تھی، ہاتھ دھونا شروع کردیے۔ اپنے کیے گئے وعدوں، دعوؤں، نعروں سے یوٹرن لے لینا جب کارکردگی شمار ہونے لگے تو پھر کچھ بعید نہیں۔ یاد ماضی واقعی عذاب ہوتی ہے۔ ایک پرانی ویڈیو نظر سے گزری جس میں وزیراعظم عمران خان جانے والے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی ایک مہینے کی مثالی کارکردگی کے اعتراف میں تعریفوں کے پل باندھتے نظر آئے۔ لیکن شاید پرانے گرو ان کی کارکردگی سے متاثر نہیں ہوئے، ان لوگوں کو ان کی کارکردگی پسند نہیں آئی جنہیں جے ٹی ون جہازوں میں بھر بھر کر لایا گیا تھا کہ جلد ہی وہ حاکم وقت کے دل سے اتر گئے۔ اور نتیجتاً ایک جونیئر افسر کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیے گئے۔ آپ اس ملک کا المیہ دیکھیے کہ ہم نعرے لگاتے رہے پولیس کو مثالی بنانے کے اور ایک صوبے کا پولیس سربراہ ایک شہر کے پولیس چیف سے ہار گیا۔ اور اب بھی ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ واقعی پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کا نعرہ سچ تھا؟
دیوانے کی بڑھک والا محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا؟ وہی حال ہے ہمارا بھی۔ اگر ہم اب بھی اُس نعرے پر یقین کرتے ہیں۔ افسران اپنے باس کے زیر سایہ کام کرنے کو تیار نہیں لیکن ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ''میں نہ مانوں''۔
کے پی کے ماڈل پنجاب میں نافذ کرنے کی کوششیں اس لیے کامیابی کا منہ نہیں دیکھ پارہیں کہ قباہلی رسوم و روایات کا امین معاشرہ نفسیاتی طور پر معاملات کو سادگی سے دیکھتا ہے اور ہاں یا نہ کی روش پر ہے۔ وہاں آپ اچھی چیز کریں اور عوام کو سمجھا پائے تو ہاں، نہیں سمجھا پائے تو نہ۔ اسی لیے وہاں کچھ تبدیلیاں مثبت اشارے دکھاتی نظر آئیں۔ لیکن ہم نے پنجاب کو سمجھے بنا یہاں صرف وسیم اکرم پلس سے گزارا کرنا چاہا۔ اور سونے پر سہاگہ کہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے انہی لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے امور طے کیے جنہوں نے اس پورے نظام کو کھوکھلا کردیا تھا۔ اور تاویل یہ دینے لگے کہ اگر ہم ایسے لوگوں کو ساتھ نہ ملائیں تو حکومت کیسے بنائیں۔ ارے صاحب بائیس سال انتظار کیا تھا، چند سال اور کرلیتے۔ لیکن کوششیں سچائی سے اگر تھیں تو حکومت بھی شفاف بناتے۔ وفاق میں حکومت سازی پنجاب پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ انحصار کرنے میں اگلا نمبر سندھ کا ہے۔ اور پنجاب جیسے بڑے صوبے کو ہم نے تجربہ گاہ بنالیا۔ صوبے کا انتطامی و سیاسی سربراہ ہر فیصلے کےلیے وفاق کی طرف دیکھتا نظر آتا ہے اور دعویٰ ہمارا سارا نظام تبدیل کردینے کا ہے۔
پولیس ریفارمز تو ایک بہت بڑا معرکہ شمار ہوگا۔ آپ پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کےلیے پولیس ڈپارٹمنٹ کو صرف گاڑی کا پٹرول ڈلوانے کے فنڈر روانی سے جاری کردیجیے، پولیس کلچر تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا۔ تھانے کی عمارت کا پینٹ اور تھانے میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری مہیا کرنا شروع کردیجیے، پولیس کلچر تبدیلی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ آپ اسلام آباد پولیس کے افسران کی دھرنے میں درگت بنائے جانے پر خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔ اور آج توقع کہ پولیس ٹھیک ہوجائے۔ یہ دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟
پولیس افسران کو اعتماد دیجیے کہ آپ ان پر نہ سیاسی دباؤ ڈالیں گے، نہ سیاسی طور پر تبادلہ ہوگا، نہ ہی سیاسی طور پر ان کے اختیارات غصب کرتے ہوئے صوبے کے سربراہ سے شہر کا پولیس چیف تک لگانے کا اختیار چھین لیا جائے تو پولیس کلچر کو تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
یہ تمام اقدامات کرکے کارکردگی نہ دکھانے والے افسران کو اٹھا باہر پٹخیں پولیس ڈپارٹمنٹ سے۔ لیکن اس کے لیے جرأت چاہیے۔ صرف شور کرنے سے تبدیلی آسکتی تو کب کی آچکی ہوتی کہ شور تو آپ سالہا سال سے کر رہے ہیں۔ عوام ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں، اب عملی سطح پر کام کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔