الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت
چوہدری نثار نے بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا اختیار تین ماہ کے لیے الیکشن کمیشن کو دینےکا اعلان کیا ہے۔
WASHINGTON:
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا اختیار نادرا سے لے کر تین ماہ کے لیے الیکشن کمیشن کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وزیراعظم نے منظوری دے دی ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بعض سیٹوں پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تاہم انھوں نے انتخابی نتائج تسلیم کر لیے' یہ ایک مثبت جمہوری رویہ ہے۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کرنے کے بعد مرکز میں حکومت بنائی مگر اس کی مخالف جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات بدستور عائد کیے جاتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان الزامات کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا' خصوصاً تحریک انصاف کے قائد عمران خان مسلسل انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے آرہے ہیں' مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے ان الزامات کی بارہا تردید کی اور انتخابات کو منصفانہ قرار دیا مگر مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے لیے کیے جانے والا پروپیگنڈا اپنے بھر پور تاثر کے ساتھ موجود رہا۔
اس کے بعد چیئرمین نادرا کی معطلی کا معاملہ سامنے آ گیا جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگ گیا۔ بعدازاں چیئرمین نادرا طارق ملک کو ہائیکورٹ نے بحال کر دیا۔الزامات کے سائے میں چلنے والی موجودہ سیاسی صورتحال میں چوہدری نثار کو وضاحت کرنا پڑی ہے کہ چیئرمین نادرا کی برطرفی کا انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق سے کوئی تعلق نہیں۔انھوں نے کہا کہ کسی الیکشن میں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں ہوئی بلکہ ان مٹ سیاسی استعمال کی گئی۔ ادھر سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ملک بھر میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہوئی' مقناطیسی سیاہی ہر ضلع میں پہنچانے کا ریکارڈ بھی موجود ہے، مقناطیسی سیاہی نادرا کے دیے گئے معیار کے مطابق تیار کی گئی۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد نیا الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے ، عام انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہوئی یا نہیں اس کا فیصلہ جلد ہونا چاہیے تاکہ اصل صورتحال سامنے آ سکے۔ دھاندلی کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان کی حقیقت بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے۔اگر انتخابات میں یونہی دھاندلی کے الزامات لگتے رہے تو عوام کا حکومت سمیت الیکشن کمیشن پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا اور بے یقینی کی یہ صورتحال جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب وزیر داخلہ نے چونکہ نادرا کے انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیے ہیں اس لیے الیکشن کمیشن پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اصل صورت حال سامنے لائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی گومگو کی یہ کیفیت ختم ہو سکے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا ہے' وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ قومی سلامتی سب سے اہم امر ہے حکومت کو سب سے زیادہ اس پر ہی توجہ دینا ہو گی۔ گو حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد انتہا پسندوں کی جانب سے کارروائیوں میں کافی کمی آئی ہے مگر اس کے خطرات اب بھی اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ موجود ہیں اور انتہا پسند کسی بھی وقت بڑی کارروائی کرکے شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے اس معاملے سے حکومت کو غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ وزیر داخلہ نے انتہا پسندوں سے معاملات کے حوالے سے کہا کہ قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات آج بھی پہلا آپشن ہے۔
امریکا پر یہ الزام مسلسل دہرایا جا رہا ہے کہ اس نے حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں ہلاک کر کے طالبان سے مذاکرات میں پیشرفت ہونے سے قبل ہی اسے سبوتاژ کر دیا۔ اگر انتہا پسندوں سے مذاکرات حکومت کی پہلی ترجیح ہے تو حکیم اللہ محسود کو ہلاک ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اس کے بعد حکومت نے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کیا پیشرفت کی ہے اس کے بارے میں اس کی جانب سے کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ ادھر سرکاری اداروں میں کرپشن کے باعث پاکستان کا امیج متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ انھوں نے دو ہزار سے زائد غیر قانونی پاسپورٹ منسوخ کیے جن کا غلط استعمال ہو رہا تھا' بعض ملکوں نے پاکستانی سرکاری پاسپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا' سرکاری پاسپورٹوں پر انسانی اسمگلنگ ہوتی رہی۔
یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ حکومتی سطح پر بااثر افراد سرکاری پاسپورٹوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ جیسے گھناؤنے اور مکروہ دھندے میں ملوث رہے۔ ایسے افراد کے پاسپورٹ منسوخ کرنا ہی کافی نہیں، حکومت کو ان افراد کے نام قوم کے سامنے لا کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے معاون سرکاری عملے کو بھی قانونی گرفت میں لانا چاہیے تاکہ اس مکروہ دھندے کا خاتمہ ہو سکے۔حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک جانب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ہیں تو دوسری جانب دہشت گردی کا عفریت ہے اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں کرپشن کے باعث عوام کا ان اداروں پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔
اب حکومت نے نادرا کے انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کے حوالے کر کے دھاندلی کا شور مچانے والی جماعتوں کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ہر عام انتخابات کے بعد ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگانے لگتی ہیں۔ حکومت کو بھارتی عام انتخابات کے انتظامات کے لیے اپنائی جانے والی پالیسی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے جس میں الیکشن کمیشن کو مکمل بااختیار بنایا جاتا اور ووٹنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس سے انتخابی نتائج کا اعلان جلد ازجلد ہو جاتا ہے اور دھاندلی کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کو ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ دھاندلی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا اختیار نادرا سے لے کر تین ماہ کے لیے الیکشن کمیشن کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وزیراعظم نے منظوری دے دی ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بعض سیٹوں پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تاہم انھوں نے انتخابی نتائج تسلیم کر لیے' یہ ایک مثبت جمہوری رویہ ہے۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کرنے کے بعد مرکز میں حکومت بنائی مگر اس کی مخالف جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات بدستور عائد کیے جاتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان الزامات کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا' خصوصاً تحریک انصاف کے قائد عمران خان مسلسل انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے آرہے ہیں' مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے ان الزامات کی بارہا تردید کی اور انتخابات کو منصفانہ قرار دیا مگر مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے لیے کیے جانے والا پروپیگنڈا اپنے بھر پور تاثر کے ساتھ موجود رہا۔
اس کے بعد چیئرمین نادرا کی معطلی کا معاملہ سامنے آ گیا جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگ گیا۔ بعدازاں چیئرمین نادرا طارق ملک کو ہائیکورٹ نے بحال کر دیا۔الزامات کے سائے میں چلنے والی موجودہ سیاسی صورتحال میں چوہدری نثار کو وضاحت کرنا پڑی ہے کہ چیئرمین نادرا کی برطرفی کا انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق سے کوئی تعلق نہیں۔انھوں نے کہا کہ کسی الیکشن میں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں ہوئی بلکہ ان مٹ سیاسی استعمال کی گئی۔ ادھر سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ملک بھر میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہوئی' مقناطیسی سیاہی ہر ضلع میں پہنچانے کا ریکارڈ بھی موجود ہے، مقناطیسی سیاہی نادرا کے دیے گئے معیار کے مطابق تیار کی گئی۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد نیا الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے ، عام انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہوئی یا نہیں اس کا فیصلہ جلد ہونا چاہیے تاکہ اصل صورتحال سامنے آ سکے۔ دھاندلی کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان کی حقیقت بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے۔اگر انتخابات میں یونہی دھاندلی کے الزامات لگتے رہے تو عوام کا حکومت سمیت الیکشن کمیشن پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا اور بے یقینی کی یہ صورتحال جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب وزیر داخلہ نے چونکہ نادرا کے انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیے ہیں اس لیے الیکشن کمیشن پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اصل صورت حال سامنے لائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی گومگو کی یہ کیفیت ختم ہو سکے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا ہے' وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ قومی سلامتی سب سے اہم امر ہے حکومت کو سب سے زیادہ اس پر ہی توجہ دینا ہو گی۔ گو حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد انتہا پسندوں کی جانب سے کارروائیوں میں کافی کمی آئی ہے مگر اس کے خطرات اب بھی اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ موجود ہیں اور انتہا پسند کسی بھی وقت بڑی کارروائی کرکے شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے اس معاملے سے حکومت کو غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ وزیر داخلہ نے انتہا پسندوں سے معاملات کے حوالے سے کہا کہ قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات آج بھی پہلا آپشن ہے۔
امریکا پر یہ الزام مسلسل دہرایا جا رہا ہے کہ اس نے حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں ہلاک کر کے طالبان سے مذاکرات میں پیشرفت ہونے سے قبل ہی اسے سبوتاژ کر دیا۔ اگر انتہا پسندوں سے مذاکرات حکومت کی پہلی ترجیح ہے تو حکیم اللہ محسود کو ہلاک ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اس کے بعد حکومت نے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کیا پیشرفت کی ہے اس کے بارے میں اس کی جانب سے کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ ادھر سرکاری اداروں میں کرپشن کے باعث پاکستان کا امیج متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ انھوں نے دو ہزار سے زائد غیر قانونی پاسپورٹ منسوخ کیے جن کا غلط استعمال ہو رہا تھا' بعض ملکوں نے پاکستانی سرکاری پاسپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا' سرکاری پاسپورٹوں پر انسانی اسمگلنگ ہوتی رہی۔
یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ حکومتی سطح پر بااثر افراد سرکاری پاسپورٹوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ جیسے گھناؤنے اور مکروہ دھندے میں ملوث رہے۔ ایسے افراد کے پاسپورٹ منسوخ کرنا ہی کافی نہیں، حکومت کو ان افراد کے نام قوم کے سامنے لا کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے معاون سرکاری عملے کو بھی قانونی گرفت میں لانا چاہیے تاکہ اس مکروہ دھندے کا خاتمہ ہو سکے۔حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک جانب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ہیں تو دوسری جانب دہشت گردی کا عفریت ہے اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں کرپشن کے باعث عوام کا ان اداروں پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔
اب حکومت نے نادرا کے انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کے حوالے کر کے دھاندلی کا شور مچانے والی جماعتوں کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ہر عام انتخابات کے بعد ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگانے لگتی ہیں۔ حکومت کو بھارتی عام انتخابات کے انتظامات کے لیے اپنائی جانے والی پالیسی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے جس میں الیکشن کمیشن کو مکمل بااختیار بنایا جاتا اور ووٹنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس سے انتخابی نتائج کا اعلان جلد ازجلد ہو جاتا ہے اور دھاندلی کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کو ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ دھاندلی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔