سبز روشنی میں بیٹھنے سے آدھے سر کا درد کم ہوجاتا ہے تحقیق
سبز روشنی سے مائیگرین کے علاج کے منفی اثرات بھی سامنے نہیں آئے
آج سے تین سال پہلے یونیورسٹی آف ایریزونا کے سائنسدانوں نے چوہوں پر ابتدائی مطالعات میں یہ دریافت کیا تھا کہ سبز روشنی میں بیٹھنے سے آدھے سر کے درد (مائیگرین یا دردِ شقیقہ) کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اب انہی سائنسدانوں نے یہی تجربات انسانوں پر دوہرائے ہیں اور انسانوں میں بھی وہی نتائج ایک بار پھر حاصل کیے ہیں۔
ڈاکٹر محب ابراہیم اور ان کے ساتھیوں نے مائیگرین کے 29 مریضوں پر سبز روشنی سے علاج کا طریقہ دس ہفتے تک آزمایا۔ یہ تمام مریض وہ تھے جن پر مائیگرین کے مروجہ علاج کا اثر نہیں ہورہا تھا۔
تجربات شروع ہونے سے پہلے، دس ہفتے تک انہیں روزانہ دو گھنٹے تک سفید روشنی میں بٹھایا گیا۔ اس کے بعد دو ہفتے کا وقفہ دیا گیا اور پھر اصل تجربات شروع کیے گئے جن میں انہیں روزانہ ایک سے دو گھنٹے تک سبز روشنی میں بٹھایا گیا۔ ان دونوں تجربات میں بالترتیب سفید اور سبز ایل ای ڈیز استعمال کی گئیں۔
تمام رضاکاروں سے سوالنامے بھی پُر کروائے جاتے رہے تاکہ ان میں دردِ شقیقہ سے وابستہ کیفیات کا پتا چلتا رہے۔ علاوہ ازیں، ان رضاکاروں کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ اپنے ڈاکٹروں کے مشورے پر معمول کا علاج بھی جاری رکھیں اور اگر وہ کوئی نئی دوا یا نیا طریقہ تجویز کریں تو وہ بھی استعمال کرتے رہیں۔
مطالعے کے اختتام پر جب ان تمام معلومات اور اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ ان مریضوں میں مائیگرین کے باعث شدید درد کے واقعات میں 60 فیصد تک کمی ہوگئی تھی، مائیگرین میں درد کی شدت بھی صرف 40 فیصد رہ گئی تھی جبکہ درد کی مدت بھی کم رہ گئی تھی۔
سبز روشنی میں بیٹھنے کی وجہ سے ان مریضوں میں سونے، جاگنے، روزمرہ کام اور ملازمت کے معمولات بھی بہتر ہوگئے کیونکہ انہیں مائیگرین کے درد کا کم سامنا کرنا پڑا۔
خاص بات یہ نوٹ کی گئی کہ سبز روشنی سے علاج کے کوئی منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔
البتہ، ڈاکٹر محب ابراہیم نے خبردار کیا ہے کہ اپنے تمام امید افزاء نتائج کے باوجود، یہ مطالعہ ابتدائی نوعیت کا ہے جسے خاص ماحول میں انجام دیا گیا تھا۔ فی الحال یہ جاننا باقی ہے کہ سبز روشنی آخر کس طرح مائیگرین کے درد میں افاقے کا باعث بنتی ہے۔
یہ جاننے اور سمجھنے کے بعد مستقبل میں مائیگرین کے علاوہ دیگر اقسام کے دردِ سر کا علاج بھی بہتر بنایا جاسکے گا۔
اس تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ''سیفال ایلجیا'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر محب ابراہیم اور ان کے ساتھیوں نے مائیگرین کے 29 مریضوں پر سبز روشنی سے علاج کا طریقہ دس ہفتے تک آزمایا۔ یہ تمام مریض وہ تھے جن پر مائیگرین کے مروجہ علاج کا اثر نہیں ہورہا تھا۔
تجربات شروع ہونے سے پہلے، دس ہفتے تک انہیں روزانہ دو گھنٹے تک سفید روشنی میں بٹھایا گیا۔ اس کے بعد دو ہفتے کا وقفہ دیا گیا اور پھر اصل تجربات شروع کیے گئے جن میں انہیں روزانہ ایک سے دو گھنٹے تک سبز روشنی میں بٹھایا گیا۔ ان دونوں تجربات میں بالترتیب سفید اور سبز ایل ای ڈیز استعمال کی گئیں۔
تمام رضاکاروں سے سوالنامے بھی پُر کروائے جاتے رہے تاکہ ان میں دردِ شقیقہ سے وابستہ کیفیات کا پتا چلتا رہے۔ علاوہ ازیں، ان رضاکاروں کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ اپنے ڈاکٹروں کے مشورے پر معمول کا علاج بھی جاری رکھیں اور اگر وہ کوئی نئی دوا یا نیا طریقہ تجویز کریں تو وہ بھی استعمال کرتے رہیں۔
مطالعے کے اختتام پر جب ان تمام معلومات اور اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ ان مریضوں میں مائیگرین کے باعث شدید درد کے واقعات میں 60 فیصد تک کمی ہوگئی تھی، مائیگرین میں درد کی شدت بھی صرف 40 فیصد رہ گئی تھی جبکہ درد کی مدت بھی کم رہ گئی تھی۔
سبز روشنی میں بیٹھنے کی وجہ سے ان مریضوں میں سونے، جاگنے، روزمرہ کام اور ملازمت کے معمولات بھی بہتر ہوگئے کیونکہ انہیں مائیگرین کے درد کا کم سامنا کرنا پڑا۔
خاص بات یہ نوٹ کی گئی کہ سبز روشنی سے علاج کے کوئی منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔
البتہ، ڈاکٹر محب ابراہیم نے خبردار کیا ہے کہ اپنے تمام امید افزاء نتائج کے باوجود، یہ مطالعہ ابتدائی نوعیت کا ہے جسے خاص ماحول میں انجام دیا گیا تھا۔ فی الحال یہ جاننا باقی ہے کہ سبز روشنی آخر کس طرح مائیگرین کے درد میں افاقے کا باعث بنتی ہے۔
یہ جاننے اور سمجھنے کے بعد مستقبل میں مائیگرین کے علاوہ دیگر اقسام کے دردِ سر کا علاج بھی بہتر بنایا جاسکے گا۔
اس تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ''سیفال ایلجیا'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔