تحفظِ ماحولیات میں اسلام کا کردار و راہ نمائی
دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح ماحولیات کے معاملے پر بھی اسلامی تعلیمات موجود ہیں
HYDERABAD:
ماحولیات کا لفظ بہت وسیع ہے، اس کا تعلق ہمارے ارد گرد کے ماحول ہی سے نہیں ہے بل کہ اس پوری کائنات سے ہے، جسے ہم دنیا کہتے ہیں۔
ایک صحت مند اور آرام دہ زندگی کے لیے دنیا کے ماحول کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ دنیا جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کررہی ہے اس سے اگرچہ انسان کی آسائش و آرام کی بے شمار چیزیں وجود میں آرہی ہیں مگر اس پہلو سے انسان کی زندگی اور اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے بے شمار مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، اگر ہم ان مسائل کو کسی ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو وہ کثافت اور آلودگی ہے، گویا ہمارے دور کا سب سے اہم مسئلہ اس آلودگی اور کثافت پر قابو پانا ہے، اسی کے بعد ہم انسانی زندگی کو مادی راحت و آرام کے ساتھ جسمانی صحت اور روحانی سکون کی نعمتوں سے بھی مالا مال کرسکتے ہیں۔
کثافت اور آلودگی بھی مختلف طریقوں سے پھیل رہی ہے۔ پانی کی آلودگی، ہوا کی آلودگی، شعاعی آلودگی، صوتی آلودگی، ان تمام آلودگیوں نے مل کر انسان کا جینا حرام کررکھا ہے۔ اس کے لیے کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، خود انسان اپنے لیے گڑھا کھود رہا ہے، خود ہی اس میں اوندھے مونہہ گررہا ہے اور خود ہی اٹھنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہا ہے۔ مغربی اقوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کا تصور ان کے ذہن کا اختراع ہے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے ہمیں بتلا دیا تھا کہ دنیا کو ہر اعتبار سے محفوظ بنانے کے لیے انسان کو کیا اقدامات کرنے چاہییں، مغرب تو صرف مادّی نقطۂ نظر کی بات کرتا ہے جب کہ قرآن کی نظر دنیا کی روحانی اور معنوی آلودگی پر بھی ہے، بل کہ ثانی الذکر آلودگی زیادہ اہم ہے کیوں کہ وہ زیادہ تباہ کن ہے۔ دنیا کو اس آلودگی سے بچانے کی فکر و اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔
قرآن کریم میں غور کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کم و بیش دو سو آیات ماحولیات سے متعلق ہیں، ان میں زمین، پانی، ہوا، زندہ اور مردہ مخلوقات، شجر، حجر، پہاڑ، سمندر اور وہ سب عجائبات عالم زیر بحث آئے ہیں جن کی تخلیق اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کا ملہ کی گواہی دیتی ہے اور زبان حال سے پکار پکار کر یہ اعلان کرتے ہیں: ''اﷲ کی کاری گر ی ہے جس نے ہر چیز کو مضبوطی کے ساتھ بنایا ہے۔'' (نمل)
اﷲ نے ان چیزوں کو پیدا ہی نہیں کیا بل کہ انسانوں کو یہ دعوت بھی دی کہ وہ ان کو دیکھے، ان پر غور کرے اور ان کے ذریعے خالق کی عظمت اور قدرت کا ادراک کرے۔ سورۃ النمل کی آیت 5 سے آیت 14 تک مسلسل ان نعمتوں کو شمار کرایا گیا ہے جو اﷲ نے انسانوں کو عطا کی ہیں اور جن پر غور و فکر کر نے کی ضرورت ہے، تاکہ ان نعمتوں کے حوالے سے ہم اس ہستی کو پہچانیں، اس کی عظمت کے گن گائیں اور اس کا شکر ادا کریں جس نے یہ نعمتیں پیدا کیں اور جن سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع بخشا۔
اس کائنات کا محور انسان ہے، کیو ں کہ اﷲ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات میں سے یہ واحد مخلوق ہے جسے دنیا کی خلافت عطا کی گئی ہے، یعنی اسے یہ صلاحیت بخشی گئی ہے کہ وہ دنیا میں آکر اس کو آباد کرے، اس کا نظام چلائے، اس کی نعمتوں سے مستفید ہو اور دوسری مخلوقات میں مخفی خدا کی قدرت کے اسرار کی حقیقت تک پہنچے۔ اﷲ تعالیٰ یہ کام کسی اور مخلوق کے بھی سپرد کرسکتا تھا، لیکن اس نے انسان کو ترجیح دی جو اس کے لیے اعزاز بھی ہے اور ابتلاء اور آزمائش بھی۔ قرآن کریم میں خلافت ارضی کے حوالہ سے فرمایا گیا : ''اور یاد کرو جب اﷲ نے ارشاد فرمایا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں۔'' (البقرۃ)
''وہی ہے جس نے تم کو زمین میں صاحب اختیار بنایا۔'' ( الانعام)
اﷲ نے انسان کو زمین میں بھیج کر اس کے حقوق و فرائض بھی متعین کردیے۔ فرض تو صرف ایک ہے، باقی تمام فرائض کا تعلق اسی ایک فرض کی تکمیل سے ہے۔ رب تعالٰی نے فرمایا: ''اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔'' (الذاریات)
یہی حال حقوق کا ہے، اگر ہم ایک جملے میں ان حقوق کی وضاحت کرنا چاہیں تو اس طرح کہہ سکتے کہ اﷲ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر کے اس کے تابع بنادیا ہے کہ وہ جائز حدود میں رہ کر جس طرح چاہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں تسخیر کائنات کے حوالے سے گفت گُو کی گئی ہے، مثال کے طور پر ایک جگہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا: ''اور اﷲ نے تمہارے لیے رات دن کو ا ور سورج چاند کو مسخر کیا ہے۔'' (النحل)
پھر فرمایا: ''کیا تُو یہ نہیں دیکھتا کہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔'' (الحج)
خلافت ارضی اور تسخیر کائنات گویا اﷲ کی وہ عظیم نعمتیں ہیں جو انسان کو بن مانگے عطا کی گئی ہیں، اب یہ خود انسان کا فرض ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرے اور ان کا حق ادا کرے۔ ان نعمتوں کی قدر اور حق کی ادائی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے حُسن نظام کی حفاظت کی جائے، انسان کی جہالت، نادانی یا سرکشی یہ ہے کہ وہ اس کائنات کو جسے اﷲ نے اس کے لیے مسخر کیا ہے خود اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کررہا ہے۔
آئیے دیکھیں یہ کائنات انسان کے ذریعے کس طرح برباد ہو رہی ہے ۔۔۔۔ ؟
کائنات کی تباہی کی بنیادی وجہ کثافت ہے، اس میں شک نہیں کہ بعض کثافتیں تو قدرت نے خود ہی پیدا کی ہیں اور بعض انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں، حالاں کہ جو کثافتیں قدرت کی پیدا کردہ ہیں ان پر قدرت کے بتلائے طریقہ پر عمل کرکے قابُو پایا جاسکتا ہے اور جو کثافتیں خود پیدا کی جارہی ہیں ان پر قابُو پانے کے لیے بھی مؤثر تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں، لیکن فطرت سے بغاوت کا جو عنصر انسان کی طبیعت میں ہے اس نے مشکلات پیدا کردی ہیں، اس لیے کثافت پر قابو پانے کا مسئلہ انتہائی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔
اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ماہرین ارضیات اور اَربابِ بست و کشاد وقتاً فوقتاً سر جوڑ کر بیٹھتے رہتے ہیں، تدبیریں سوچتے ہیں، تجاویز پاس کرتے ہیں، مگر عمل نہیں کرا پاتے۔ 1992ء میں اقوام متحدہ نے برازیل کے دارالحکومت میں دوسری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں 30ہزار افراد نے شرکت کی، تقریباً سو عالمی لیڈر بھی اپنے ملکوں کے ارضیاتی ماہرین اور جغرافیائی سائنس دانوں کے ساتھ شریک رہے، اس کانفرنس میں ماحولیاتی نظام کی بربادی کی جو تباہ کن تصویر سامنے آئی وہ کچھ اس طرح تھی۔
(1) گزشتہ پچیس سالوں کے دوران افریقی ملکوں میں اناج کی پیداوار 28 فی صد کم ہوگئی ہے۔
(2) ایتھوپیا نے 1900ء کے بعد سے اب تک اپنے جنگلات کا 90 فی صد حصہ کھو دیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کی زمینیں بنجر ہوچکی ہیں۔
(3) آسٹریلیا میں حیوانات مسلسل کم ہورہے ہیں، حالیہ برسوں میں ان کی تعداد میں 28فی صد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔
(4) آسٹریلیا ہی جیسی صورت حال پوری دنیا میں ہے، اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ صرف ایک سال کے عرصے میں حیوانات کی 36 نسلیں اور پرندوں کی 94 نسلیں دنیا سے ناپید ہوگئی ہیں، جب کہ 311 نسلوں کو خطرات لاحق ہیں۔
(5) فضائی آلودگی کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ 2 فی صد سالانہ کے اعتبار سے گھٹتا جارہا ہے، ہر دہائی میں خشک زمین کا 7 فی صد رقبہ گھٹ رہا ہے۔
(6) خلیجی جنگ کے دوران لاکھوں بیرل تیل خلیج عرب کے پانیوں میں مل گیا، جس سے سمندر ی زندگی کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے 180برس درکار ہوں گے۔
(7) یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ2025ء تک فضائی کثافت ایک خوف ناک بحران کی شکل اختیار کر جائے گی، ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 4گنا اضافہ ہوجائے گا، اور ا س کے نتیجے میں حیاتیاتی اجناس کو 25 فی صد تک خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
(8) یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ مشرقی ملکوں کے مقابلے میں مغربی ممالک 20 گُنا زیادہ پانی برباد کرتے ہیں اور20گُنا زیادہ کثافت پھیلاتے ہیں، ایک امریکی شہری تیسری دنیا کے شہری کے مقابلے میں20سے لے کر 100گنا تک کثافت پھیلانے کا سبب بنتا ہے، جب کہ ایک امریکی شہری پانی جیسے قدرتی وسائل 3 جاپانی، 6 میکسیکن، 13چینی، 35 ہندوستانی، 153 بنگلا دیشی اور 499 ایتھوپیائی شہری کے برابر استعمال کر کے ضایع کرتا ہے۔
(9) صنعتی اور مشینی ترقیات کے نتیجے میں خارج ہونے والی گیسیز، دھویں، فضلات اور دوسری کثافتوں کی وجہ سے اوزون گیس کی پرت میں شگاف پڑگیا ہے جس کی وجہ سے سورج کی مضر شعائیں زمین تک بلا روک ٹوک پہنچنے لگی ہیں اور کینسر جیسی جسمانی بیماریوں کا سبب بن ر ہی ہیں۔
(10) دنیا میں جتنے دریا اور نہریں وغیرہ ہیں ان میں سے 10 فی صد آبی وسائل انسانی جسم کے فضلات، گھروں سے نکلنے والی نجاستوں اور فیکٹریوں اور کارخانوں کے فضلات کی وجہ سے نہ صرف گندے ہوچکے ہیں بل کہ ان کا پانی بھی زہریلا ہوگیا ہے۔
بلاشبہہ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ عالمی سطح کا مسئلہ ہے، تنہا کسی علاقے، کسی ملک، کسی قوم یا کسی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے، سب کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مؤثر مذہبی تعلیمات ہوسکتی ہیں بہ شرطے کہ ان پر کان دھرا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے اس مسئلے کی اہمیت کو اس وقت سمجھا جب دنیا ماحولیاتی آلودگی کے نام سے بھی واقف نہیں تھی، چہ جائے کہ اس کے تباہ کن اثرات سے واقف ہوتی، اس وقت قرآن کریم نے نسل انسانی کی صحت مند بقا کے لیے بہت سی چیزوں کی نشان دہی کی، سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے ارشاداتِ مبارکہ کے ذریعے انسان کو محفوظ زندگی گزارنے کے طریقے سکھلائے، یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ اس نے ان ارشادات کو دل کے کانوں سے نہیں سنا، آج اس کا نتیجہ سامنے ہے، قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی انسانی ہوس نے دنیا کے 6 ارب باشندوں کو ہلاکت کی کگار پر لا کھڑا کیا ہے، اب خدا ہی انہیں تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے، کم از کم انسان کے بس میں تو نہیں کہ وہ اس بحران سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کرسکے۔
اﷲ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، اس میں انسان کے لیے بے شمار فائدے رکھے، مثال کے طور پر یہ کہ اسے انسانی رہائش کے قابل بنایا، اس کے سینے میں معدنیات کی دولت رکھی، اس کے اندر پھل، پُھول، غلّے اور میوے پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا فرمائی، کہیں اس کو ٹھوس بنایا اور کہیں نرم رکھا تاکہ انسان اس کے نرم حصے پر کھیتیاں اگا سکے، درخت لگا سکے، پانی نکال سکے، اسے اس قابل بنایا کہ آسمان سے جو بارش برسے وہ اس پر ٹھہر سکے۔
اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھی، نہریں، دریا، چشمے اور پانی کے دوسرے ذخیرے پیدا کیے، اس میں مختلف شکل و صورت کے جانور پیدا کیے، جن میں سے بعض کا گوشت کھایا جاتا ہے، بعض سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں، بعض جانوروں کے اون سے پوشاکیں تیار کی جاتی ہیں، بعض جانوروں کو دیکھنے اور ان کی آوازیں سننے سے دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار فوائد کی حامل یہ زمین قدرت کا بے مثال تحفہ ہے، اب اگر ہم اس تحفہ کی قدر نہ کریں اور اس کی صورت مسخ کر کے اسے تمام صلاحیتوں سے محروم کر کے خود بھی اس کے فوائد سے محروم ہوجائیں تو اس سے بڑھ کر ہماری بد قسمتی اور کیا ہوگی!
ماحولیاتی آلودگی ایک خطرناک مسئلہ اور ہمارے خطے کے لیے ایک بڑا چیلینج ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا تعلق پوری دنیائے انسانیت سے ہے، آج دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی نوعیت کی فضائی آلودگی کا شکار ہیں، لیکن اس میں برصغیر ہند و پاک کا خطہ سرفہرست ہے جہاں فضائی اور صوتی آلودگی نے طرح طرح کے مسائل پیدا کررکھے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے یہ خطہ بین الاقوامی سطح پر بحث و گفت گُو کا موضوع بن چکا ہے، پہلے فضائی آلودگی صرف شہری اور صنعتی علاقوں کے لیے ایک مسئلہ تھا، پچھلی دو تین دہائیوں سے دیہی علاقے بھی اس آلودگی کی زد میں آگئے ہیں، تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں گھریلو پیداوار میں اضافہ تو ہوا ہے، مگر اس سے انسانی صحت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، پھر ہمارے ہاں ترقی اور خوش حالی صرف شہروں تک محدود ہے اس لیے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے خوش حالی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں سڑکوں پر بھیڑ بڑھ گئی ہے۔
اور شہری علاقوں کی فضائی کیفیت دھماکا خیز ہوتی جارہی ہے، صحت سے متعلق زیادہ تر مسائل ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں، آج اس خطے کو دنیا کی سب سے زیادہ خراب ماحولیات کا حامل خطہ کہا جارہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر صنعتیں ماحولیات کے تعلق سے راہ نما اُصول اور ضوابط کی پابندی نہیں کرتیں، حکومتیں داخلی کرپشن کی وجہ سے ان صنعتوں کو ضوابط کا پابند کرنے میں ناکام ہیں، ماحولیات کے سُدھار کے متعلق جو اقدامات بھی کرنے ہیں ان کا تعلق حکومتوں سے ہے، لیکن عوام کی ذمے داری بھی کچھ کم نہیں ہے۔
ماحولیات کے مسئلے پر دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی تعلیمات موجود ہیں اور عوام اور حکومت دونوں ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بل کہ دونوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر ماحول کی کثافت اور آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کریں اور نسل انسانی کو خالق کائنات کی رضا اور منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں۔
ماحولیاتی کثافت کی بنیادی وجہ ماحول کے قدرتی توازن میں مداخلت ہے، اﷲ رب العزت نے اس کائنات کی ہر چیز کو نپی تلی مقدار میں اور باہم توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، یہ حقیقت قرآن کریم کی متعدد آیات میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے، یہ حقیقت اگرچہ چودہ سو برسوں سے قرآن کریم کی آیات میں پوشیدہ تھی مگر انسان کے ہاتھوں قدرت کے پیدا کردہ توازن سے چھیڑ چھاڑ نے خود اس کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کردی ہیں اور ان مشکلات کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس چھیڑ چھاڑ سے باز آئے اور جو توازن اس نے بگاڑا ہے اس کو اپنی اصل حالت پر واپس لانے کی کوشش کرے، اس کی ذمے داری اگرچہ حکومتوں کی ہے، لیکن عوام بھی اس میں اپنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں بل کہ انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کھلے عام رفع حاجت کرنا، سڑکوں، پارکوں اور عام گزرگاہوں پر پان اور گٹکے کھاکر تھوکنا، پیشاب کرنا، گھروں کا آلودہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کاموں کے وقت گرد و غبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، یہ سب وہ امور ہیں جن میں عام شہری پوری طرح ملوث ہیں، اَوّل تو حکومت اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے مؤثر قوانین نہیں بناتی اور اگر قوانین بناتی بھی ہے تو ان کا صحیح طور پر نفاذ نہیں ہو پاتا۔ ضروری ہے کہ اس طرح کے قوانین بنیں، صحیح طور پر نافذ ہوں اور ملک کا ہر شہری اپنی ذمے داری محسوس کرے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کی کوشش کرے۔
صوتی آلودگی بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہے، ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں کا ہر 12 شخص بڑھتے ہوئے شور و شغب کے باعث سماعت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہر مسلمان شہری کے لیے ضروری ہے کہ ماحول کو گندگی اور آلودگی سے بچائے اور یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔
اس کے لیے کم آلودگی پھیلانے والے ایندھن کا استعمال ہونا چاہیے، تمباکو نوشی نہ کی جائے، ایسی جگہوں پر تھوکنے سے احتراز کیا جائے، کھلی نالیوں میں گندگی نہ ڈالی جائے، بلاضرورت اور بغیر اجازت درخت نہ کاٹے جائیں، کسی بھی نوعیت کی تقاریب یا اجتماع میں بلند اور تیز آواز اسپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومتوں نے ماحولیاتی آلودگی کے سلسلے میں جو قوانین بنائے ہیں مسلمان پوری دیانت داری کے ساتھ ان قوانین پر عمل پیرا ہوں۔
ماحولیات کا لفظ بہت وسیع ہے، اس کا تعلق ہمارے ارد گرد کے ماحول ہی سے نہیں ہے بل کہ اس پوری کائنات سے ہے، جسے ہم دنیا کہتے ہیں۔
ایک صحت مند اور آرام دہ زندگی کے لیے دنیا کے ماحول کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ دنیا جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کررہی ہے اس سے اگرچہ انسان کی آسائش و آرام کی بے شمار چیزیں وجود میں آرہی ہیں مگر اس پہلو سے انسان کی زندگی اور اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے بے شمار مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، اگر ہم ان مسائل کو کسی ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو وہ کثافت اور آلودگی ہے، گویا ہمارے دور کا سب سے اہم مسئلہ اس آلودگی اور کثافت پر قابو پانا ہے، اسی کے بعد ہم انسانی زندگی کو مادی راحت و آرام کے ساتھ جسمانی صحت اور روحانی سکون کی نعمتوں سے بھی مالا مال کرسکتے ہیں۔
کثافت اور آلودگی بھی مختلف طریقوں سے پھیل رہی ہے۔ پانی کی آلودگی، ہوا کی آلودگی، شعاعی آلودگی، صوتی آلودگی، ان تمام آلودگیوں نے مل کر انسان کا جینا حرام کررکھا ہے۔ اس کے لیے کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، خود انسان اپنے لیے گڑھا کھود رہا ہے، خود ہی اس میں اوندھے مونہہ گررہا ہے اور خود ہی اٹھنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہا ہے۔ مغربی اقوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کا تصور ان کے ذہن کا اختراع ہے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے ہمیں بتلا دیا تھا کہ دنیا کو ہر اعتبار سے محفوظ بنانے کے لیے انسان کو کیا اقدامات کرنے چاہییں، مغرب تو صرف مادّی نقطۂ نظر کی بات کرتا ہے جب کہ قرآن کی نظر دنیا کی روحانی اور معنوی آلودگی پر بھی ہے، بل کہ ثانی الذکر آلودگی زیادہ اہم ہے کیوں کہ وہ زیادہ تباہ کن ہے۔ دنیا کو اس آلودگی سے بچانے کی فکر و اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔
قرآن کریم میں غور کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کم و بیش دو سو آیات ماحولیات سے متعلق ہیں، ان میں زمین، پانی، ہوا، زندہ اور مردہ مخلوقات، شجر، حجر، پہاڑ، سمندر اور وہ سب عجائبات عالم زیر بحث آئے ہیں جن کی تخلیق اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کا ملہ کی گواہی دیتی ہے اور زبان حال سے پکار پکار کر یہ اعلان کرتے ہیں: ''اﷲ کی کاری گر ی ہے جس نے ہر چیز کو مضبوطی کے ساتھ بنایا ہے۔'' (نمل)
اﷲ نے ان چیزوں کو پیدا ہی نہیں کیا بل کہ انسانوں کو یہ دعوت بھی دی کہ وہ ان کو دیکھے، ان پر غور کرے اور ان کے ذریعے خالق کی عظمت اور قدرت کا ادراک کرے۔ سورۃ النمل کی آیت 5 سے آیت 14 تک مسلسل ان نعمتوں کو شمار کرایا گیا ہے جو اﷲ نے انسانوں کو عطا کی ہیں اور جن پر غور و فکر کر نے کی ضرورت ہے، تاکہ ان نعمتوں کے حوالے سے ہم اس ہستی کو پہچانیں، اس کی عظمت کے گن گائیں اور اس کا شکر ادا کریں جس نے یہ نعمتیں پیدا کیں اور جن سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع بخشا۔
اس کائنات کا محور انسان ہے، کیو ں کہ اﷲ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات میں سے یہ واحد مخلوق ہے جسے دنیا کی خلافت عطا کی گئی ہے، یعنی اسے یہ صلاحیت بخشی گئی ہے کہ وہ دنیا میں آکر اس کو آباد کرے، اس کا نظام چلائے، اس کی نعمتوں سے مستفید ہو اور دوسری مخلوقات میں مخفی خدا کی قدرت کے اسرار کی حقیقت تک پہنچے۔ اﷲ تعالیٰ یہ کام کسی اور مخلوق کے بھی سپرد کرسکتا تھا، لیکن اس نے انسان کو ترجیح دی جو اس کے لیے اعزاز بھی ہے اور ابتلاء اور آزمائش بھی۔ قرآن کریم میں خلافت ارضی کے حوالہ سے فرمایا گیا : ''اور یاد کرو جب اﷲ نے ارشاد فرمایا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں۔'' (البقرۃ)
''وہی ہے جس نے تم کو زمین میں صاحب اختیار بنایا۔'' ( الانعام)
اﷲ نے انسان کو زمین میں بھیج کر اس کے حقوق و فرائض بھی متعین کردیے۔ فرض تو صرف ایک ہے، باقی تمام فرائض کا تعلق اسی ایک فرض کی تکمیل سے ہے۔ رب تعالٰی نے فرمایا: ''اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔'' (الذاریات)
یہی حال حقوق کا ہے، اگر ہم ایک جملے میں ان حقوق کی وضاحت کرنا چاہیں تو اس طرح کہہ سکتے کہ اﷲ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر کے اس کے تابع بنادیا ہے کہ وہ جائز حدود میں رہ کر جس طرح چاہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں تسخیر کائنات کے حوالے سے گفت گُو کی گئی ہے، مثال کے طور پر ایک جگہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا: ''اور اﷲ نے تمہارے لیے رات دن کو ا ور سورج چاند کو مسخر کیا ہے۔'' (النحل)
پھر فرمایا: ''کیا تُو یہ نہیں دیکھتا کہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔'' (الحج)
خلافت ارضی اور تسخیر کائنات گویا اﷲ کی وہ عظیم نعمتیں ہیں جو انسان کو بن مانگے عطا کی گئی ہیں، اب یہ خود انسان کا فرض ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرے اور ان کا حق ادا کرے۔ ان نعمتوں کی قدر اور حق کی ادائی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے حُسن نظام کی حفاظت کی جائے، انسان کی جہالت، نادانی یا سرکشی یہ ہے کہ وہ اس کائنات کو جسے اﷲ نے اس کے لیے مسخر کیا ہے خود اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کررہا ہے۔
آئیے دیکھیں یہ کائنات انسان کے ذریعے کس طرح برباد ہو رہی ہے ۔۔۔۔ ؟
کائنات کی تباہی کی بنیادی وجہ کثافت ہے، اس میں شک نہیں کہ بعض کثافتیں تو قدرت نے خود ہی پیدا کی ہیں اور بعض انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں، حالاں کہ جو کثافتیں قدرت کی پیدا کردہ ہیں ان پر قدرت کے بتلائے طریقہ پر عمل کرکے قابُو پایا جاسکتا ہے اور جو کثافتیں خود پیدا کی جارہی ہیں ان پر قابُو پانے کے لیے بھی مؤثر تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں، لیکن فطرت سے بغاوت کا جو عنصر انسان کی طبیعت میں ہے اس نے مشکلات پیدا کردی ہیں، اس لیے کثافت پر قابو پانے کا مسئلہ انتہائی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔
اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ماہرین ارضیات اور اَربابِ بست و کشاد وقتاً فوقتاً سر جوڑ کر بیٹھتے رہتے ہیں، تدبیریں سوچتے ہیں، تجاویز پاس کرتے ہیں، مگر عمل نہیں کرا پاتے۔ 1992ء میں اقوام متحدہ نے برازیل کے دارالحکومت میں دوسری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں 30ہزار افراد نے شرکت کی، تقریباً سو عالمی لیڈر بھی اپنے ملکوں کے ارضیاتی ماہرین اور جغرافیائی سائنس دانوں کے ساتھ شریک رہے، اس کانفرنس میں ماحولیاتی نظام کی بربادی کی جو تباہ کن تصویر سامنے آئی وہ کچھ اس طرح تھی۔
(1) گزشتہ پچیس سالوں کے دوران افریقی ملکوں میں اناج کی پیداوار 28 فی صد کم ہوگئی ہے۔
(2) ایتھوپیا نے 1900ء کے بعد سے اب تک اپنے جنگلات کا 90 فی صد حصہ کھو دیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کی زمینیں بنجر ہوچکی ہیں۔
(3) آسٹریلیا میں حیوانات مسلسل کم ہورہے ہیں، حالیہ برسوں میں ان کی تعداد میں 28فی صد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔
(4) آسٹریلیا ہی جیسی صورت حال پوری دنیا میں ہے، اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ صرف ایک سال کے عرصے میں حیوانات کی 36 نسلیں اور پرندوں کی 94 نسلیں دنیا سے ناپید ہوگئی ہیں، جب کہ 311 نسلوں کو خطرات لاحق ہیں۔
(5) فضائی آلودگی کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ 2 فی صد سالانہ کے اعتبار سے گھٹتا جارہا ہے، ہر دہائی میں خشک زمین کا 7 فی صد رقبہ گھٹ رہا ہے۔
(6) خلیجی جنگ کے دوران لاکھوں بیرل تیل خلیج عرب کے پانیوں میں مل گیا، جس سے سمندر ی زندگی کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے 180برس درکار ہوں گے۔
(7) یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ2025ء تک فضائی کثافت ایک خوف ناک بحران کی شکل اختیار کر جائے گی، ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 4گنا اضافہ ہوجائے گا، اور ا س کے نتیجے میں حیاتیاتی اجناس کو 25 فی صد تک خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
(8) یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ مشرقی ملکوں کے مقابلے میں مغربی ممالک 20 گُنا زیادہ پانی برباد کرتے ہیں اور20گُنا زیادہ کثافت پھیلاتے ہیں، ایک امریکی شہری تیسری دنیا کے شہری کے مقابلے میں20سے لے کر 100گنا تک کثافت پھیلانے کا سبب بنتا ہے، جب کہ ایک امریکی شہری پانی جیسے قدرتی وسائل 3 جاپانی، 6 میکسیکن، 13چینی، 35 ہندوستانی، 153 بنگلا دیشی اور 499 ایتھوپیائی شہری کے برابر استعمال کر کے ضایع کرتا ہے۔
(9) صنعتی اور مشینی ترقیات کے نتیجے میں خارج ہونے والی گیسیز، دھویں، فضلات اور دوسری کثافتوں کی وجہ سے اوزون گیس کی پرت میں شگاف پڑگیا ہے جس کی وجہ سے سورج کی مضر شعائیں زمین تک بلا روک ٹوک پہنچنے لگی ہیں اور کینسر جیسی جسمانی بیماریوں کا سبب بن ر ہی ہیں۔
(10) دنیا میں جتنے دریا اور نہریں وغیرہ ہیں ان میں سے 10 فی صد آبی وسائل انسانی جسم کے فضلات، گھروں سے نکلنے والی نجاستوں اور فیکٹریوں اور کارخانوں کے فضلات کی وجہ سے نہ صرف گندے ہوچکے ہیں بل کہ ان کا پانی بھی زہریلا ہوگیا ہے۔
بلاشبہہ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ عالمی سطح کا مسئلہ ہے، تنہا کسی علاقے، کسی ملک، کسی قوم یا کسی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے، سب کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مؤثر مذہبی تعلیمات ہوسکتی ہیں بہ شرطے کہ ان پر کان دھرا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے اس مسئلے کی اہمیت کو اس وقت سمجھا جب دنیا ماحولیاتی آلودگی کے نام سے بھی واقف نہیں تھی، چہ جائے کہ اس کے تباہ کن اثرات سے واقف ہوتی، اس وقت قرآن کریم نے نسل انسانی کی صحت مند بقا کے لیے بہت سی چیزوں کی نشان دہی کی، سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے ارشاداتِ مبارکہ کے ذریعے انسان کو محفوظ زندگی گزارنے کے طریقے سکھلائے، یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ اس نے ان ارشادات کو دل کے کانوں سے نہیں سنا، آج اس کا نتیجہ سامنے ہے، قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی انسانی ہوس نے دنیا کے 6 ارب باشندوں کو ہلاکت کی کگار پر لا کھڑا کیا ہے، اب خدا ہی انہیں تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے، کم از کم انسان کے بس میں تو نہیں کہ وہ اس بحران سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کرسکے۔
اﷲ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، اس میں انسان کے لیے بے شمار فائدے رکھے، مثال کے طور پر یہ کہ اسے انسانی رہائش کے قابل بنایا، اس کے سینے میں معدنیات کی دولت رکھی، اس کے اندر پھل، پُھول، غلّے اور میوے پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا فرمائی، کہیں اس کو ٹھوس بنایا اور کہیں نرم رکھا تاکہ انسان اس کے نرم حصے پر کھیتیاں اگا سکے، درخت لگا سکے، پانی نکال سکے، اسے اس قابل بنایا کہ آسمان سے جو بارش برسے وہ اس پر ٹھہر سکے۔
اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھی، نہریں، دریا، چشمے اور پانی کے دوسرے ذخیرے پیدا کیے، اس میں مختلف شکل و صورت کے جانور پیدا کیے، جن میں سے بعض کا گوشت کھایا جاتا ہے، بعض سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں، بعض جانوروں کے اون سے پوشاکیں تیار کی جاتی ہیں، بعض جانوروں کو دیکھنے اور ان کی آوازیں سننے سے دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار فوائد کی حامل یہ زمین قدرت کا بے مثال تحفہ ہے، اب اگر ہم اس تحفہ کی قدر نہ کریں اور اس کی صورت مسخ کر کے اسے تمام صلاحیتوں سے محروم کر کے خود بھی اس کے فوائد سے محروم ہوجائیں تو اس سے بڑھ کر ہماری بد قسمتی اور کیا ہوگی!
ماحولیاتی آلودگی ایک خطرناک مسئلہ اور ہمارے خطے کے لیے ایک بڑا چیلینج ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا تعلق پوری دنیائے انسانیت سے ہے، آج دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی نوعیت کی فضائی آلودگی کا شکار ہیں، لیکن اس میں برصغیر ہند و پاک کا خطہ سرفہرست ہے جہاں فضائی اور صوتی آلودگی نے طرح طرح کے مسائل پیدا کررکھے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے یہ خطہ بین الاقوامی سطح پر بحث و گفت گُو کا موضوع بن چکا ہے، پہلے فضائی آلودگی صرف شہری اور صنعتی علاقوں کے لیے ایک مسئلہ تھا، پچھلی دو تین دہائیوں سے دیہی علاقے بھی اس آلودگی کی زد میں آگئے ہیں، تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں گھریلو پیداوار میں اضافہ تو ہوا ہے، مگر اس سے انسانی صحت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، پھر ہمارے ہاں ترقی اور خوش حالی صرف شہروں تک محدود ہے اس لیے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے خوش حالی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں سڑکوں پر بھیڑ بڑھ گئی ہے۔
اور شہری علاقوں کی فضائی کیفیت دھماکا خیز ہوتی جارہی ہے، صحت سے متعلق زیادہ تر مسائل ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں، آج اس خطے کو دنیا کی سب سے زیادہ خراب ماحولیات کا حامل خطہ کہا جارہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر صنعتیں ماحولیات کے تعلق سے راہ نما اُصول اور ضوابط کی پابندی نہیں کرتیں، حکومتیں داخلی کرپشن کی وجہ سے ان صنعتوں کو ضوابط کا پابند کرنے میں ناکام ہیں، ماحولیات کے سُدھار کے متعلق جو اقدامات بھی کرنے ہیں ان کا تعلق حکومتوں سے ہے، لیکن عوام کی ذمے داری بھی کچھ کم نہیں ہے۔
ماحولیات کے مسئلے پر دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی تعلیمات موجود ہیں اور عوام اور حکومت دونوں ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بل کہ دونوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر ماحول کی کثافت اور آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کریں اور نسل انسانی کو خالق کائنات کی رضا اور منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں۔
ماحولیاتی کثافت کی بنیادی وجہ ماحول کے قدرتی توازن میں مداخلت ہے، اﷲ رب العزت نے اس کائنات کی ہر چیز کو نپی تلی مقدار میں اور باہم توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، یہ حقیقت قرآن کریم کی متعدد آیات میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے، یہ حقیقت اگرچہ چودہ سو برسوں سے قرآن کریم کی آیات میں پوشیدہ تھی مگر انسان کے ہاتھوں قدرت کے پیدا کردہ توازن سے چھیڑ چھاڑ نے خود اس کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کردی ہیں اور ان مشکلات کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس چھیڑ چھاڑ سے باز آئے اور جو توازن اس نے بگاڑا ہے اس کو اپنی اصل حالت پر واپس لانے کی کوشش کرے، اس کی ذمے داری اگرچہ حکومتوں کی ہے، لیکن عوام بھی اس میں اپنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں بل کہ انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کھلے عام رفع حاجت کرنا، سڑکوں، پارکوں اور عام گزرگاہوں پر پان اور گٹکے کھاکر تھوکنا، پیشاب کرنا، گھروں کا آلودہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کاموں کے وقت گرد و غبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، یہ سب وہ امور ہیں جن میں عام شہری پوری طرح ملوث ہیں، اَوّل تو حکومت اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے مؤثر قوانین نہیں بناتی اور اگر قوانین بناتی بھی ہے تو ان کا صحیح طور پر نفاذ نہیں ہو پاتا۔ ضروری ہے کہ اس طرح کے قوانین بنیں، صحیح طور پر نافذ ہوں اور ملک کا ہر شہری اپنی ذمے داری محسوس کرے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کی کوشش کرے۔
صوتی آلودگی بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہے، ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں کا ہر 12 شخص بڑھتے ہوئے شور و شغب کے باعث سماعت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہر مسلمان شہری کے لیے ضروری ہے کہ ماحول کو گندگی اور آلودگی سے بچائے اور یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔
اس کے لیے کم آلودگی پھیلانے والے ایندھن کا استعمال ہونا چاہیے، تمباکو نوشی نہ کی جائے، ایسی جگہوں پر تھوکنے سے احتراز کیا جائے، کھلی نالیوں میں گندگی نہ ڈالی جائے، بلاضرورت اور بغیر اجازت درخت نہ کاٹے جائیں، کسی بھی نوعیت کی تقاریب یا اجتماع میں بلند اور تیز آواز اسپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومتوں نے ماحولیاتی آلودگی کے سلسلے میں جو قوانین بنائے ہیں مسلمان پوری دیانت داری کے ساتھ ان قوانین پر عمل پیرا ہوں۔