جنسی تشدد اور حکومتی ذمے داری
موٹر وے پر پیش آنے والا المناک سانحہ دراصل حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔
RAWALPINDI:
موٹروے پر دوران سفر خاتون کی بیحرمتی کے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیدیا ہے۔
مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ملزموں کو گرفتارکرکے سخت سزا دی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے خاتون سے زیادتی کے واقعہ میں ملوث ملزمان کی جلد گرفتاری کا حکم دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ خاتون سے زیادتی کیس پر پیش رفت کا ذاتی طور پر جائزہ لے رہا ہوں۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے 5رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ۔
واقعہ کو تین روزگزرنے کے بعد مجرم تادم تحریرگرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔ اس المناک سانحے کی تفصیلات اور بہت سی رپورٹس میڈیا پر پیش کی جا رہی ہیں، واقعہ کی جزئیات کو دہرانے کی قلم میں سکت نہیں ہے۔
متاثرہ خاتون کے حوالے سے سی سی پی او لاہور نے جو ریمارکس دیے، اس پر انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا اور انھیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے متنازع بیان پر طلب کرلیا ہے۔سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے خاتون کے حوالے سے اپنے متنازع بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عام عوام کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے لیکن ہم نے اپنی ذمے داری سے پہلو تہی نہیں کی۔
اس شرمناک واقعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت ختم ہوگئی ہے ، درندے اس لیے آزاد گھوم رہے ہیں کہ ان کو پکڑنے والے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ہم درس انسانیت کو بھول چکے ہیں، چار سالہ بچی کے ریپ سے لے کر لڑکوں، حتٰی کہ خواجہ سراؤں تک جنسی تشدد کے بعد قتل کرنے کی روایت پختہ ہوتی جارہی ہے، ایک، ایک قاتل کے دامن پرکتنے خون کے دھبے ہیں۔
قانون شکنی وطیرہ بنتا جارہا ہے، کیا عورت مرنے کے بعد بھی محفوظ ہے، ہرگز نہیں بلکہ قبروں میں مدفون عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات بھی تسلسل سے منظر عام پر آچکے ہیں۔
ریاست پاکستان کا قانون تمام شہریوں کو صنفی تقسیم کے بغیر تحفظ فراہم کرنے کی یقینی دہانی کراتا ہے ۔ اس ساری المناک واردات میں پولیس اور انتظامیہ نے ایک مظلوم کو بچانے کے لیے روایتی تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے بہت دیرکردی۔
عورت کی مشکلات آج کل کے جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دور میں کم ہونے کے بجائے کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ خواتین پر ہونے والا ذہنی، جسمانی ، جنسی اورگھریلو تشدد بڑھتا جارہا ہے۔
عورت پر تشدد نہ صرف ایک ظلم بلکہ جرم کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے، اگر اسلام کی رو سے دیکھیں تو اسلام نے عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کیے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگر وہ بیٹی ہے تو رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہرکے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے توکہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے کہیں وہ غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عورتوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا انتہائی درد ناک المیہ ہے اس سے زیادہ درد ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کا آغازگھر ہی کے منفی رویوں سے ہوتا ہے۔ تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے۔ سب سے بڑا سچ یہ بھی ہے کہ عورتیں تنہا اپنے خلاف تشدد نہیں رکوا سکتیں۔
صنفی تشدد اسی وقت رکے گا جب مرد اس کی مخالفت کریں گے اور ایک دوسرے کو بدلنے میں مدد دیں گے۔ عورت جو ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہے، اس کے وجود کو بے بنیاد نظریات کی بنا پر ظلم کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے عورتوں کے ساتھ مار پیٹ گالم گلوچ، بے جا پابندیاں، ذہنی دباؤ، بنیادی ضروریات کی غیر فراہمی، بیٹیوں کی زبردستی شادی،گھریلو تشدد کے زمرے میں آتی ہیں آج کل تقریباً ہرگھر میں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے اس کے علاوہ غربت اور تعلیم کی کمی بھی اس کی شرح میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
مرد کو عورت پر فضیلت اس لیے دی گئی ہے کیونکہ مرد سارا دن باہرکی کٹھن دنیا سے خون پسینہ بہا کر روزی کما کے لاتا ہے اور بیوی بچوں کے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، لیکن دورِ حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہی نازک طبع عورت کھیتوں کھلیانوں میں پسینہ بہا رہی ہوتی ہے، یہی عورت سڑک بنا رہی ہے، یہی عورت پہاڑکاٹ رہی ہے، یہی عورت اسکولوں، دفاتر اور دیگر اداروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کام میں جُتی رہتی ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں طویل عرصے تک لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن اس دوران آن لائن ہراسانی سے متعلق شکایات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ سوشل میڈیا استعمال کرنیوالی خواتین کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ درندگی کے واقعات قصورکی زینب سے لے کر موٹر وے پر خاتون پر جنسی تشدد تک آ پہنچے ہیں۔
کیا ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ وبرباد ہورہا ہے اور اس کی بنیادیں ہل چکی ہے۔ مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لیے معصوم بچوں، بچیوں اور خواتین کو قتل کررہے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی ڈیٹا بیس سرے سے موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص پر نظر رکھ سکے ۔ ہم بحیثیت معاشرہ اور ریاست پستی اور ذہنی گراؤٹ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
خواتین پر تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، جو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں حقوقِ نسواں کے تحفظ سے متعلق ملک میں موثر قانون سازی ہوئی ہے جب کہ اس ضمن میں بنائے جانے والے قوانین کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا لیکن اس کے باوجود خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔
کسی دردِ مند انسان کا قول ہے کہ ''اگر مرد چِلا سکتا ہے تو عورت کو بھی کم ازکم آہ بھرنے کی آزادی ہونی چاہیے'' یہ سچ ہے کہ عورت چھپکلی سے ڈرتی ہے لیکن وقت پڑنے پر یہی عورت شیرکے منہ میں ہاتھ ڈالنے سے ذرا نہیں کتراتی۔ اس عالمِ رنگ و بوکی رعنائی اسی عورت کے دم سے ہے۔
بیشتر مرد صنفی تشدد کے رویوں اور خیالات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن پھر بھی اسے چیلنج کرنے یا روکنے کے لیے بہت سے مرد کچھ نہیں کرتے۔کہا جاتا ہے کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں،بعض صورتوں میں عورت وہ پچھلا پہیہ ہے جسے سارا زور لگا کر زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنا ہے اور مرد وہ اگلا پہیہ ہے جو صرف اپنی ناک اور شان وشوکت قائم رکھنے کے لیے آگے رہنا پسند کرتا ہے۔
خواتین پرگھریلو تشدد، جسمانی تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے، دفاتر، نیم سرکاری، صنعتی، کاروباری، تجارتی و دیگر اداروں میں کام کے دوران صعوبتوں سے نجات اور خواتین کے مسائل کے متعلق آگاہی اور شعور بیدارکرنا لازمی امر ہے۔
آقائے دوجہاں، رحمت دوعالم حضرت محمدﷺ نے سب سے پہلے عورت کے اصلاح کی جانب خاص توجہ مبذول فرمائی اور عورت کو دنیا کے سامنے ایک مثالی نمونہ بناکر پیش کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔
انھیں امہات المومنین، صحابیات جیسے خطابات سے نوازا خصوصاً عورت کو ماں کا درجہ دے کرکہا کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی واضح طور پر ذکر فرمایا اور مردوں کے برابر عورتوں کے حقوق بھی عطا کیے ہیں، لیکن ہم نے اسلام میں عورت کو دی گئی عزت کو خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
عورت پر تشدد کم ظرفی کی نشانی ہے، عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں بلکہ ذہنی بیماری ہے ، عورت پر ظلم کرنے والے مرد یا تو ایسے ہی منفی ماحول میں بڑے ہوتے ہیں یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ عورت ماں بھی ہے، بہن بھی بیٹی بھی اور بیوی بھی یقیناً ہر روپ میں عورت قابل احترام ہے جس گھر میں عورت کی عزت نہ کی جاتی ہو عورت تکلیف میں ہو، وہاں برکت نہیں ہوتی۔ اسی بات کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ملک بھر سے برکت اٹھ گئی ہے۔
موٹر وے پر پیش آنے والا المناک سانحہ دراصل حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے، اگر مظلوم کو انصاف ملتا ہے اور مجرموں کو سرعام پھانسی دی جاتی ہے تو پھر یقینا قانون کا خوف پیدا ہوگا مجرموں کے دلوں میں۔ حرف آخر ہمیں معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل، کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔
ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جس سے ناصرف ہمارا ملک بلکہ اسلام بھی بدنام ہورہا ہے، حکومت کو سنجیدگی سے قانون بنانے ہوں گے اور خواتین کو تحفظ دینا ہوگا۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس 90کلو میٹر طویل موٹروے کو آج تک موٹروے پولیس کی تحویل میں نہیں دیا گیااور نہ اس پر عوام کی حفاظت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی اقدام کیا گیا۔حکومت اس موٹروے پر عوام کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ آیندہ ایسا کوئی بھی واقعہ رونما نہ ہو۔
موٹروے پر دوران سفر خاتون کی بیحرمتی کے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیدیا ہے۔
مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ملزموں کو گرفتارکرکے سخت سزا دی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے خاتون سے زیادتی کے واقعہ میں ملوث ملزمان کی جلد گرفتاری کا حکم دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ خاتون سے زیادتی کیس پر پیش رفت کا ذاتی طور پر جائزہ لے رہا ہوں۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے 5رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ۔
واقعہ کو تین روزگزرنے کے بعد مجرم تادم تحریرگرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔ اس المناک سانحے کی تفصیلات اور بہت سی رپورٹس میڈیا پر پیش کی جا رہی ہیں، واقعہ کی جزئیات کو دہرانے کی قلم میں سکت نہیں ہے۔
متاثرہ خاتون کے حوالے سے سی سی پی او لاہور نے جو ریمارکس دیے، اس پر انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا اور انھیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے متنازع بیان پر طلب کرلیا ہے۔سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے خاتون کے حوالے سے اپنے متنازع بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عام عوام کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے لیکن ہم نے اپنی ذمے داری سے پہلو تہی نہیں کی۔
اس شرمناک واقعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت ختم ہوگئی ہے ، درندے اس لیے آزاد گھوم رہے ہیں کہ ان کو پکڑنے والے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ہم درس انسانیت کو بھول چکے ہیں، چار سالہ بچی کے ریپ سے لے کر لڑکوں، حتٰی کہ خواجہ سراؤں تک جنسی تشدد کے بعد قتل کرنے کی روایت پختہ ہوتی جارہی ہے، ایک، ایک قاتل کے دامن پرکتنے خون کے دھبے ہیں۔
قانون شکنی وطیرہ بنتا جارہا ہے، کیا عورت مرنے کے بعد بھی محفوظ ہے، ہرگز نہیں بلکہ قبروں میں مدفون عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات بھی تسلسل سے منظر عام پر آچکے ہیں۔
ریاست پاکستان کا قانون تمام شہریوں کو صنفی تقسیم کے بغیر تحفظ فراہم کرنے کی یقینی دہانی کراتا ہے ۔ اس ساری المناک واردات میں پولیس اور انتظامیہ نے ایک مظلوم کو بچانے کے لیے روایتی تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے بہت دیرکردی۔
عورت کی مشکلات آج کل کے جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دور میں کم ہونے کے بجائے کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ خواتین پر ہونے والا ذہنی، جسمانی ، جنسی اورگھریلو تشدد بڑھتا جارہا ہے۔
عورت پر تشدد نہ صرف ایک ظلم بلکہ جرم کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے، اگر اسلام کی رو سے دیکھیں تو اسلام نے عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کیے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگر وہ بیٹی ہے تو رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہرکے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے توکہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے کہیں وہ غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عورتوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا انتہائی درد ناک المیہ ہے اس سے زیادہ درد ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کا آغازگھر ہی کے منفی رویوں سے ہوتا ہے۔ تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے۔ سب سے بڑا سچ یہ بھی ہے کہ عورتیں تنہا اپنے خلاف تشدد نہیں رکوا سکتیں۔
صنفی تشدد اسی وقت رکے گا جب مرد اس کی مخالفت کریں گے اور ایک دوسرے کو بدلنے میں مدد دیں گے۔ عورت جو ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہے، اس کے وجود کو بے بنیاد نظریات کی بنا پر ظلم کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے عورتوں کے ساتھ مار پیٹ گالم گلوچ، بے جا پابندیاں، ذہنی دباؤ، بنیادی ضروریات کی غیر فراہمی، بیٹیوں کی زبردستی شادی،گھریلو تشدد کے زمرے میں آتی ہیں آج کل تقریباً ہرگھر میں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے اس کے علاوہ غربت اور تعلیم کی کمی بھی اس کی شرح میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
مرد کو عورت پر فضیلت اس لیے دی گئی ہے کیونکہ مرد سارا دن باہرکی کٹھن دنیا سے خون پسینہ بہا کر روزی کما کے لاتا ہے اور بیوی بچوں کے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، لیکن دورِ حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہی نازک طبع عورت کھیتوں کھلیانوں میں پسینہ بہا رہی ہوتی ہے، یہی عورت سڑک بنا رہی ہے، یہی عورت پہاڑکاٹ رہی ہے، یہی عورت اسکولوں، دفاتر اور دیگر اداروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کام میں جُتی رہتی ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں طویل عرصے تک لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن اس دوران آن لائن ہراسانی سے متعلق شکایات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ سوشل میڈیا استعمال کرنیوالی خواتین کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ درندگی کے واقعات قصورکی زینب سے لے کر موٹر وے پر خاتون پر جنسی تشدد تک آ پہنچے ہیں۔
کیا ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ وبرباد ہورہا ہے اور اس کی بنیادیں ہل چکی ہے۔ مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لیے معصوم بچوں، بچیوں اور خواتین کو قتل کررہے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی ڈیٹا بیس سرے سے موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص پر نظر رکھ سکے ۔ ہم بحیثیت معاشرہ اور ریاست پستی اور ذہنی گراؤٹ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
خواتین پر تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، جو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں حقوقِ نسواں کے تحفظ سے متعلق ملک میں موثر قانون سازی ہوئی ہے جب کہ اس ضمن میں بنائے جانے والے قوانین کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا لیکن اس کے باوجود خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔
کسی دردِ مند انسان کا قول ہے کہ ''اگر مرد چِلا سکتا ہے تو عورت کو بھی کم ازکم آہ بھرنے کی آزادی ہونی چاہیے'' یہ سچ ہے کہ عورت چھپکلی سے ڈرتی ہے لیکن وقت پڑنے پر یہی عورت شیرکے منہ میں ہاتھ ڈالنے سے ذرا نہیں کتراتی۔ اس عالمِ رنگ و بوکی رعنائی اسی عورت کے دم سے ہے۔
بیشتر مرد صنفی تشدد کے رویوں اور خیالات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن پھر بھی اسے چیلنج کرنے یا روکنے کے لیے بہت سے مرد کچھ نہیں کرتے۔کہا جاتا ہے کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں،بعض صورتوں میں عورت وہ پچھلا پہیہ ہے جسے سارا زور لگا کر زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنا ہے اور مرد وہ اگلا پہیہ ہے جو صرف اپنی ناک اور شان وشوکت قائم رکھنے کے لیے آگے رہنا پسند کرتا ہے۔
خواتین پرگھریلو تشدد، جسمانی تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے، دفاتر، نیم سرکاری، صنعتی، کاروباری، تجارتی و دیگر اداروں میں کام کے دوران صعوبتوں سے نجات اور خواتین کے مسائل کے متعلق آگاہی اور شعور بیدارکرنا لازمی امر ہے۔
آقائے دوجہاں، رحمت دوعالم حضرت محمدﷺ نے سب سے پہلے عورت کے اصلاح کی جانب خاص توجہ مبذول فرمائی اور عورت کو دنیا کے سامنے ایک مثالی نمونہ بناکر پیش کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔
انھیں امہات المومنین، صحابیات جیسے خطابات سے نوازا خصوصاً عورت کو ماں کا درجہ دے کرکہا کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی واضح طور پر ذکر فرمایا اور مردوں کے برابر عورتوں کے حقوق بھی عطا کیے ہیں، لیکن ہم نے اسلام میں عورت کو دی گئی عزت کو خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
عورت پر تشدد کم ظرفی کی نشانی ہے، عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں بلکہ ذہنی بیماری ہے ، عورت پر ظلم کرنے والے مرد یا تو ایسے ہی منفی ماحول میں بڑے ہوتے ہیں یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ عورت ماں بھی ہے، بہن بھی بیٹی بھی اور بیوی بھی یقیناً ہر روپ میں عورت قابل احترام ہے جس گھر میں عورت کی عزت نہ کی جاتی ہو عورت تکلیف میں ہو، وہاں برکت نہیں ہوتی۔ اسی بات کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ملک بھر سے برکت اٹھ گئی ہے۔
موٹر وے پر پیش آنے والا المناک سانحہ دراصل حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے، اگر مظلوم کو انصاف ملتا ہے اور مجرموں کو سرعام پھانسی دی جاتی ہے تو پھر یقینا قانون کا خوف پیدا ہوگا مجرموں کے دلوں میں۔ حرف آخر ہمیں معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل، کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔
ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جس سے ناصرف ہمارا ملک بلکہ اسلام بھی بدنام ہورہا ہے، حکومت کو سنجیدگی سے قانون بنانے ہوں گے اور خواتین کو تحفظ دینا ہوگا۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس 90کلو میٹر طویل موٹروے کو آج تک موٹروے پولیس کی تحویل میں نہیں دیا گیااور نہ اس پر عوام کی حفاظت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی اقدام کیا گیا۔حکومت اس موٹروے پر عوام کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ آیندہ ایسا کوئی بھی واقعہ رونما نہ ہو۔