فرٹیلائزرکمپنیوں کی فی بوری قیمت میں 500 روپے اضافے کی دھمکی
گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کی رقم وصول کرنیکی کوشش کی گئی تو پھر مجبور ہونگے
فرٹیلائزر کمپنیوں نے جمعے کے روز حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اگر اس نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی رقم وصول کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی کھاد کی قیمتوں میں 17 فیصد یا 500 روپے فی بوری اضافہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
کھاد بنانے والی کمپنیوں اور ٹیکسٹایل سیکٹر کے نمائندگان نے کابینہ کے ارکان سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ وزارت مالیات سے جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقاتوں کے دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور وزیر صنعت حماد اظہر بھی موجود تھے، جس کی صدارت وزیر اعظم کے مشیر مالیات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کی۔
مراسلے کے مطابق ان ملاقاتوں میں یہ طے پایا کہ اس مسئلے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہی حل کیا جائے گا۔ تاہم حکومت کورونا کے بعد کی صورت حال میں صنعتوں کی معاونت بھی کرے گی۔
اجلاس کے دوران کھاد ساز کمپنیوں کے نمائندوں نے حکومت سے صاف کہہ دیا کہ اگر واجبات ان سے وصول کیے جائیں گے تو پھر وہ کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کھاد بنانے والی کمپنیاں یہ واجبات پہلے ہی کسانوں سے وصول کرچکی ہیں۔
نمائندوں کا کہنا تھا کہ کھادساز کمپنیاں یہ جرمانہ یا واجبات ادا کرنے کو تیار ہیں تاہم اس کی مدت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 2سال سے بڑھا کر 10سال کی جائے اور اگر حکومت 10سال کے عرصے پر راضی ہوتی ہے تو بھی انھوں نے کھاد کی فی بوری قیمت میں 100 روپے یا 3 اعشاریہ 5 فیصد اضافے کی دھمکی دی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ جی آئی ڈی سی کے واجبات صنعتی اور تجارتی سیکٹر سے دو سال کے دوران وصول کیا جائے۔ ان صنعتوں پر کل واجبات کی رقم 523 ارب روپے ہے۔
گزشتہ سال وزیر اعظم عمران خان نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یہ واجبات معاف کردیے تھے تاہم میڈیا میں خبر آنے اور احتجاج کے بعد وزیر اعظم کو یہ آرڈیننس واپس لینا پڑا تھا۔سپریم کورٹ کے احکام کے بعد وزارت توانائی نے کھادساز کمپنیوں، سرکاری پاور کمپنیوں، آئی پی پیز، کے الیکٹرک اور گیس کمپنیوں کو ہدایات جاری کی تھی کہ وہ 523 ارب روپے کے واجبات جمع کرادیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ہدایات جاری کیں کہ 2گروپس تشکیل دیے جائیں جو اس معاملے کا جائزہ لیں اور اس کے آسان حل کے لیے دو یا تین قابل عمل تجاویز پیش کریں۔ پہلے گروپ میں فرٹیلائزر انڈسٹری، وزارت مالیات، ایف بی آر اور مشیر پیٹرولیم شامل ہوں گے جبکہ اس کی قیادت وزیر صنعت کریں گے۔
کھاد بنانے والی کمپنیوں اور ٹیکسٹایل سیکٹر کے نمائندگان نے کابینہ کے ارکان سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ وزارت مالیات سے جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقاتوں کے دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور وزیر صنعت حماد اظہر بھی موجود تھے، جس کی صدارت وزیر اعظم کے مشیر مالیات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کی۔
مراسلے کے مطابق ان ملاقاتوں میں یہ طے پایا کہ اس مسئلے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہی حل کیا جائے گا۔ تاہم حکومت کورونا کے بعد کی صورت حال میں صنعتوں کی معاونت بھی کرے گی۔
اجلاس کے دوران کھاد ساز کمپنیوں کے نمائندوں نے حکومت سے صاف کہہ دیا کہ اگر واجبات ان سے وصول کیے جائیں گے تو پھر وہ کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کھاد بنانے والی کمپنیاں یہ واجبات پہلے ہی کسانوں سے وصول کرچکی ہیں۔
نمائندوں کا کہنا تھا کہ کھادساز کمپنیاں یہ جرمانہ یا واجبات ادا کرنے کو تیار ہیں تاہم اس کی مدت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 2سال سے بڑھا کر 10سال کی جائے اور اگر حکومت 10سال کے عرصے پر راضی ہوتی ہے تو بھی انھوں نے کھاد کی فی بوری قیمت میں 100 روپے یا 3 اعشاریہ 5 فیصد اضافے کی دھمکی دی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ جی آئی ڈی سی کے واجبات صنعتی اور تجارتی سیکٹر سے دو سال کے دوران وصول کیا جائے۔ ان صنعتوں پر کل واجبات کی رقم 523 ارب روپے ہے۔
گزشتہ سال وزیر اعظم عمران خان نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یہ واجبات معاف کردیے تھے تاہم میڈیا میں خبر آنے اور احتجاج کے بعد وزیر اعظم کو یہ آرڈیننس واپس لینا پڑا تھا۔سپریم کورٹ کے احکام کے بعد وزارت توانائی نے کھادساز کمپنیوں، سرکاری پاور کمپنیوں، آئی پی پیز، کے الیکٹرک اور گیس کمپنیوں کو ہدایات جاری کی تھی کہ وہ 523 ارب روپے کے واجبات جمع کرادیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ہدایات جاری کیں کہ 2گروپس تشکیل دیے جائیں جو اس معاملے کا جائزہ لیں اور اس کے آسان حل کے لیے دو یا تین قابل عمل تجاویز پیش کریں۔ پہلے گروپ میں فرٹیلائزر انڈسٹری، وزارت مالیات، ایف بی آر اور مشیر پیٹرولیم شامل ہوں گے جبکہ اس کی قیادت وزیر صنعت کریں گے۔