کراچی میں مزار قائد سے تبت سینٹر تک تحفظ ناموس رسالت وعظمت صحابہ واہلبیت مارچ
توہین رسالت، توہین صحابہ اور توہین اہلبیت کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے، مفتی منیب الرحمن
LUXEMBOURG:
ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ توہین رسالت، توہین صحابہ اور توہین اہلبیت کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔
اہلسنت و جماعت کے تحت کراچی میں مزار قائد اعظم سے تبت سینٹر تک "تحفظ ناموس رسالت وعظمت صحابہ واہلبیت مارچ" سے خطاب کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہم کسی دھمکی میں نہیں آئیں گے،ہم دین کے تحفظ کے مشن سے کسی صورت میں دستبردار نہیں ہوں گے اور پر امن انداز میں اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔
مفتی منیب نے کہا کہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھاکہ مقدس دینی شخصیات کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن ہوگا لیکن کچھ نہیں ہوا بلکہ ان واقعات میں ملوث افراد کو بیرون ملک فرار کرادیا گیا،آپ اپنی صفوں میں ایسے افراد کو تلاش کریں جو ان واقعات میں ملوث ہیں،
انہوں نے ریاست فرقہ واریت میں ملوث عناصر کے خلاف عملی کارروائی کرے، دینی مقدس شخصیات کی توہین کرنے والوں کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔
مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہم کسی مذہب اور فرقے کے خلاف نہیں ہیں، سب کا احترام کرتے ہیں،سب کو ہمارا احترام بھی کرنا چاہیے،ہم کسی صورت میں دینی مقدس شخصیات کی توہین کو برداشت نہیں کرسکتے۔
مفتی منیب کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک میں دینی مقدس شخصیات کی توہین کی گئی،یہ آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے جزبات کومجروح کرنے کی سازش ہے۔ ایسے ممالک ان واقعات سے باز رہیں۔ریاست یہ معاملہ عالمی فورمز پر اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے ارکان اسمبلی مقدس شخصیات کی توہین اور آئندہ ان کی روک تھام کے معاملے کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں اٹھائیں بصورت ہم عوام سے درخواست کریں گے کہ آئندہ انتخابات میں ان کو ووٹ نہ دیں۔
اپنے خطاب میں شاہ عبد الحق قادری نے کہا کہ دینی شخصیات کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ مفتی جان محمد نعیمی نے کہا کہ ہم بانیاں پاکستان کے جاں نشین ہیں،کسی صورت میں مقدس شخصیات کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی،حکومت کو ہمارے مطالبات کو مانے ،اس ملک میں قانون ایک ہونا چاہیے۔
ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ یہ شہر اور پاکستان نبی کے غلاموں کا ہے،ہم دین کے تحفظ کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔حاجی حنیف طیب نے کہا کہ بارہ ربیع الاول کو کراچی میں بڑا جلسہ کیا جائے گا۔دیگر علمائے کرام نے کہا کہ اگر گستاخوں کو سزا نہیں دی گئی تو پھر احتجاج کا دائرہ بڑھایا جاسکتا ہے۔
ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ توہین رسالت، توہین صحابہ اور توہین اہلبیت کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔
اہلسنت و جماعت کے تحت کراچی میں مزار قائد اعظم سے تبت سینٹر تک "تحفظ ناموس رسالت وعظمت صحابہ واہلبیت مارچ" سے خطاب کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہم کسی دھمکی میں نہیں آئیں گے،ہم دین کے تحفظ کے مشن سے کسی صورت میں دستبردار نہیں ہوں گے اور پر امن انداز میں اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔
مفتی منیب نے کہا کہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھاکہ مقدس دینی شخصیات کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن ہوگا لیکن کچھ نہیں ہوا بلکہ ان واقعات میں ملوث افراد کو بیرون ملک فرار کرادیا گیا،آپ اپنی صفوں میں ایسے افراد کو تلاش کریں جو ان واقعات میں ملوث ہیں،
انہوں نے ریاست فرقہ واریت میں ملوث عناصر کے خلاف عملی کارروائی کرے، دینی مقدس شخصیات کی توہین کرنے والوں کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔
مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہم کسی مذہب اور فرقے کے خلاف نہیں ہیں، سب کا احترام کرتے ہیں،سب کو ہمارا احترام بھی کرنا چاہیے،ہم کسی صورت میں دینی مقدس شخصیات کی توہین کو برداشت نہیں کرسکتے۔
مفتی منیب کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک میں دینی مقدس شخصیات کی توہین کی گئی،یہ آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے جزبات کومجروح کرنے کی سازش ہے۔ ایسے ممالک ان واقعات سے باز رہیں۔ریاست یہ معاملہ عالمی فورمز پر اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے ارکان اسمبلی مقدس شخصیات کی توہین اور آئندہ ان کی روک تھام کے معاملے کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں اٹھائیں بصورت ہم عوام سے درخواست کریں گے کہ آئندہ انتخابات میں ان کو ووٹ نہ دیں۔
اپنے خطاب میں شاہ عبد الحق قادری نے کہا کہ دینی شخصیات کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ مفتی جان محمد نعیمی نے کہا کہ ہم بانیاں پاکستان کے جاں نشین ہیں،کسی صورت میں مقدس شخصیات کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی،حکومت کو ہمارے مطالبات کو مانے ،اس ملک میں قانون ایک ہونا چاہیے۔
ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ یہ شہر اور پاکستان نبی کے غلاموں کا ہے،ہم دین کے تحفظ کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔حاجی حنیف طیب نے کہا کہ بارہ ربیع الاول کو کراچی میں بڑا جلسہ کیا جائے گا۔دیگر علمائے کرام نے کہا کہ اگر گستاخوں کو سزا نہیں دی گئی تو پھر احتجاج کا دائرہ بڑھایا جاسکتا ہے۔