پاکستان کرکٹ کی لیبارٹری میں تجربات کا سلسلہ جاری

تبدیلیوں کا ڈھنڈورا بہت، تاحال مثبت نتائج نظر نہیں آسکے

تبدیلیوں کا ڈھنڈورا بہت، تاحال مثبت نتائج نظر نہیں آسکے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ ایک ایسی لیبارٹری ہے جس میں تجربات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

احسان مانی نے چیئرمین پی سی بی کا عہدہ سنبھالا تو تبدیلی کا نقارہ بجا دیا گیا، اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو کہنہ مشق چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی، ان کو رخصت کرنے سے قبل ہی وسیم خان چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے، بعد ازاں سبحان احمد کی مسند سلمان تاثیر نے سنبھال لی، اس کے علاوہ بھی دیگر عہدوں پر بھی عہدیدار تبدیل کردیئے گئے۔

چیئرمین ہوں یا چیف ایگزیکٹو غیر ملکی میڈیا کو انٹرویوز میں ملک کی کرکٹ کے حوالے سے کھل کر اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں، ان میں سے سرفہرست یہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور چیف پیٹرن عمران خان کے ویڑن کے مطابق پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کو مسابقتی بنانے کے لیے نمایاں بہترین پیش رفت کی ہے۔

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ 200کے قریب کرکٹرز کو کنٹریکٹ ملے ہیں، پی سی بی ان پر دولت کی برسات کرنے کا دعویٰ بھی کررہا ہے لیکن سال بھر میں 30 لاکھ روپے کی کمائی اے پلس کیٹیگری میں شامل ان 10 کھلاڑیوں کو حاصل ہوگی جو پورے سیزن میں تینوں فارمیٹ کے تمام میچ کھیل پائیں گے، ہاں مگر سال بھر ماہانہ تنخواہ کو ان کو ضرور ملتی رہے گی،کنٹریکٹ پانے والے کرکٹرز کو تو کسی نہ کسی طور اپنے گھر کے چولہے جلانے کا موقع مل جائے گا۔

اصل مسئلہ ان ڈیڑھ ہزار کے قریب کھلاڑیوں کا ہے جو مختلف ڈیپارٹمنٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے بطور ملازم ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے وصول کرتے تھے اس کے علاوہ پی سی بی سے میچ فیس کی مد میں بھی کچھ اضافی رقم ہاتھ لگ جاتی، اداروں کی ٹیمیں ہونے کی وجہ سے کھلاڑی سیزن میں 4ماہ کرکٹ کھیلتے لیکن پورا سال معاشی فکروں سے آزاد رہتے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق، ٹیسٹ کپتان اظہر علی اور بورڈ میں مختلف عہدوں پر موجود سابق کرکٹرز کی بڑی تعداد اپنے کیریئرز میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی وجہ سے ہی معاشی تحفظ کی حامل رہی، ٹیمیں ختم ہونے کے باوجود کئی اب بھی کسی نہ کسی طور اپنی تنخواہوں کا سلسلہ جاری رکھوانے میں کامیاب ہیں، دوسری جانب پی سی بی کے اس فیصلے کی وجہ سے گراس روٹ لیول پر کرکٹ اپنی کشش کھو بیٹھی ہے، پہلے ہرکرکٹر کو آس ہوتی تھی کہ کسی ادارے میں نوکری ملنے سے کھیل کے ساتھ ساتھ روزگار کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا۔

کلب، زون اور ڈسٹرکٹ سطح پر کھیلنے والے کسی نہ کسی مرحلے پر ڈپارٹمنٹس کی نظروں میں آنے کی کوشش کرتے،اب پاکستان بھرکے کرکٹرز کے لیے صرف ایک ہی پلیٹ فارم باقی ہے کہ وہ سفارشی کلچر میں پی سی بی کے تحت بننے والی مختلف ٹیموں کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی جوانی کے آخری حصے میں سینٹرل کنٹریکٹ پانے والوں کی فہرست میں جگہ بنائیں اور اس فکر مندی کے ساتھ پورا سیزن کھیلیں کہ ذرا سی بھی اونچ نیچ ہوگئی تو اگلی بار بیروزگار ہو جائیں گے۔


پروفیشنل انداز میں معاملات چلانا کوئی غلط بات نہیں لیکن کرکٹ کو محدود کر کے نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے دعوے میں کوئی وزن نہیں محسوس ہوتا، بہتر تو یہ تھا کہ پہلے سے موجود سسٹم میں میرٹ کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے کام کرتے، الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جاتا، جس سطح پر بھی کرکٹ ہو رہی ہے، پی سی بی اس کو سمت درست کرنے کے لیے اپنی مہارت کو استعمال کرتا۔

سابق کرکٹرز کو ذمہ داریاں دے کر ان کے احتساب کا کڑا نظام بھی وضع کیا جاتا لیکن ایسا کرنے کے بجائے پورا سسٹم ہی الٹ پلٹ دیا گیا، اب صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ چند سال میں سامنے آنے والے مخصوص کھلاڑیوں کے پول میں سے کوئی اوپر ، کوئی نیچے ہوتا رہے گا، بھاری بھر کم تنخواہوں پر نوکریاں پانے والے عہدیداروں سے بھرے پی سی بی کے پاس اگر اتنی گنجائش نہیں کہ وہ زیادہ کرکٹرزکو تنخواہیں اد کرسکے تو یہ کام کرنے والے ڈپارٹمنٹس کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائے گئے۔

دوسرا انقلابی فیصلہ جس پر کرکٹ بورڈ کے دونوں بڑے ناز کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ پروفیشنل ٹیم مینجمنٹ کے ساتھ ہائی پرفارمنس سینٹر میں بھی بہترین عہدیدار متعارف کروائے گئے ہیں، سب سے بڑا اور اہم فیصلہ مصباح الحق کو ہیڈ کوچ کے ساتھ چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی سونپ دینا ہے، انگلینڈ سے واپسی پر لاہور میں پریس کانفرنس میں مصباح الحق نے اعتراف کیا کہ طویل ٹور کے دوران بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے ڈومیسٹک کرکٹ کے لیے صوبائی کوچز کے تقرر اور کھلاڑیوں کے انتخاب سمیت مختلف معاملات سے قطع نظر رہا۔

ٹور طویل ہو یا مختصر انٹرنیشنل کرکٹ کا اپنا ہی دباؤ اور تقاضے ہوتے ہیں، ایسی صورتحال میں چیف سلیکٹر کے لیے ملک میں موجود نئے ٹیلنٹ کے ساتھ انصاف کرنا ممکن نظر نہیں آتا، دوسری طرف ایسوسی ایشنز کے کوچز نے پہلے کنٹریکٹ اور پھر ملتان اور راولپنڈی میں 30 ستمبر سے شروع ہونے والے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے میں میرٹ کی دھجیاں بکھیردیں، سسٹم نیا ہو یا پرانا شفافیت کے بغیر نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔

نیا ڈومیسٹک اسٹرکچر ابھی تک کتنا مفید ثابت ہوا ہے،تبدیلیوں کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا، مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے، قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اس کی گواہ ہے، دورہ انگلینڈ کو ہی دیکھ لیں، 30 کے قریب کرکٹرز کا ٹور کے لیے انتخاب کیا گیا تو اس میں کتنے نئے باصلاحیت کھلاڑی شامل تھے کہ جن کو نئی دریافت کہا جا سکے، اگر تھے بھی تو ان میں سے کتنے تھے جن کو کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا، پہلے سے دستیاب پول میں شامل جن کرکٹرز کو تجربہ کی بنیاد پر ترجیح دی گئی، ان میں سے شان مسعود اور اظہر علی کی ایک ایک سنچری کے سوا کس کی کارکردگی نظر آئی۔

مصباح الحق نے دہری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ٹیم کا کمبینیشن بنایا، اس پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، فی الحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ مستقبل کے لیے کن کھلاڑیوں کی کھیپ میسر ہے، ٹیسٹ سیریز میں محمد رضوان اور آخری ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے کا موقع پانے والے حیدر علی نے ثابت کیا ہے کہ وہ لمبی ریس کے گھوڑے ثابت ہو سکتے ہیں، بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے محمد حفیظ اور وہاب ریاض کے متبادل تلاش کرنے کی سخت ضرورت ہے، شعیب ملک کو بھی طویل مدت پلاننگ میں شامل نہیں رکھا جا سکتا۔

شاید ٹیسٹ کرکٹ میں اسد شفیق سے بھی پیچھا چھڑانے کا وقت آ چکا ہے، تکنیکی اور ذہنی طور پر مضبوط بابراعظم نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں منوا لیا، اسد شفیق ایک اوسط درجے کے بیٹسمین سے سپر سٹار تک کا سفر مکمل کرنے میں یکسر ناکام رہے، پاکستان کو ڈومیسٹک کرکٹ میں بار بار تجربات کرنے کے بجائے سکول، کالج سمیت گراس روٹ لیول پر کھیل کو فروغ دینا ہوگا۔

گلیوں بازاروں میں ضائع ہو جانے والے ٹیلنٹ کو میدانوں میں لاکر نکھرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع دینا ہوں،کھیل سکڑتا اور کھلاڑی تعداد میں محدود ہوتے رہے تو ایک دن کرکٹ کی حالت بھی ہاکی جیسی ہو جائے گی، نوجوانوں میں کشش کھو بیٹھنے کے بعد ہی قومی کھیل کے زوال کا سفر شروع ہوا تھا،40 یا 50 دستیاب کھلاڑیوں میں سے بار بار منتخب ہونے والی ہاکی ٹیم سے فتوحات روٹھ چکی ہیں، یہی سلسلہ اب کرکٹ میچ شروع ہو چکا ہے۔
Load Next Story