اکیلی عورت
اکیلی عورت پاکستانی ہو یا ہندوستانی، یا پھر انگلستانی، وہ غیر محفوظ ہے۔
ان صاحب کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ ساتھ موجود دوشیزہ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بڑی تیزی سے پاسپورٹ کنٹرول کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اچانک اس لڑکی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ ساتھ موجود مرد کو ''میں ان کے ساتھ ہوں'' کہتے ہوئے میری طرف بڑھی۔ میں نے اہلیہ کو اشارہ کیا اور خاتون کو اپنےساتھ کرلیا۔ وہ صاحب جو کچھ دیر قبل شاید آسماں پر تھے، اب حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ پاسپورٹ کنٹرول اور دیگر مراحل سے فراغت کے بعد ہم نے لڑکی کے شوہر سے رابطہ کیا جو ایئرپورٹ کے باہر موجود تھے اور لڑکی کو ان کے حوالے کردیا۔
دراصل ہوا کچھ یوں تھا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اس لڑکی (جو اپنے شوہر کے پاس دبئی آرہی تھی) کے اہل خانہ نے میرے والد صاحب سے درخواست کرکے ہمارے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ جہاز میں سیٹ مختلف جگہ پر ہونے کی وجہ سے یہ ہم سے بچھڑ گئیں اور اکیلی لڑکی سمجھ کر مدد کے نام پر وہ صاحب ان کے سرپرست بن بیٹھے۔ اس سے پہلے کہ وہ حضرت اپنی محنت کا پھل کھاتے لڑکی کی عقلمندی کی بدولت ان صاحب کی محنت ضائع ہوگئی۔
اکیلی عورت دنیا میں ہر جگہ غیر محفوظ ہے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس سال کے عرصے میں دنیا بھر میں ایک کروڑ 77 لاکھ خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ یعنی ہر روز 2425 اور ہر 35 سیکنڈ کے بعد ایک عورت ریپ کا شکار ہوئی۔
اگر بات کی جائے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی، جہاں مدرسے جانے والی بچی قاری صاحب، اسکول جانے والی استاد محترم، کالج جانے والی پروفیسر صاحب اور یونیورسٹی تک پہنچ جانے والی ڈین کی طرف سے خطرے کا شکار ہو، وہاں ہر شخص کےلیے لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کرنے کا بندوبست کرے۔
ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ہزار سے زائد بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2016 میں ہر روز گیارہ بچوں کا ریپ کیا گیا۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ کسی بھی ذریعے سے حاصل کردہ اعداد و شمار حقیقت سے بہت دور ہوتے ہیں۔ کیونکہ جرائم کنٹرول کرنے والے اداروں کے رویے کی بدولت مظلوموں کی اکثریت جرم رپورٹ کرنے سے گریز کرتی ہے۔
صرف پاکستان ہی نہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت کے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر 15 منٹ میں ایک خاتون کا ریپ کیا گیا۔ صرف 2017 میں بھارت میں 330000 خواتین کا ریپ اور گینگ ریپ کیا گیا۔ ایک اور غیر سرکاری رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بھارت میں ہر 6 منٹ کے اندر کوئی نہ کوئی خاتون جنسی ہراسگی یا بدسلوکی کا شکار ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ اکیلی عورت پاکستانی ہو یا ہندوستانی، یا پھر انگلستانی، وہ غیر محفوظ ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بچی ہو یا بڑی، دن ہو یا رات کسی بھی وقت اور کسی بھی حال میں عورت اکیلی نہ ہو۔ کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں انسان کم اور انسان نما درندے زیادہ ہیں۔ اور اگر نکلنا ناگزیر ہو تو پھر مکمل بندوبست کے ساتھ نکلے۔ گاڑی میں پٹرول فل ہو، موبائل کی بیٹری مکمل چارج ہو، اسے پتا ہو کہ ایمرجنسی میں کس ادارے سے رابطہ کرنا ہے وغیرہ۔
اور ایک آخری بات کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اکیلی عورت کو قطعی طور پر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ ایک دوسرے امام کے نزدیک اگر اکیلی عورت کسی دوسرے خاندان کے ساتھ سفر کررہی ہے تو اس صورت میں صدیق یعنی دوست امین ہے اور ساتھ میں عورتیں بھی ہیں تو پھر جائز ہے۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ اپنی جان، مال اور اہل و عیال کی حفاظت کے سلسلے میں صرف ریاست پر انحصار نہیں کریں گے، بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی حفاظت کو خود ہی یقینی بنائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دراصل ہوا کچھ یوں تھا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اس لڑکی (جو اپنے شوہر کے پاس دبئی آرہی تھی) کے اہل خانہ نے میرے والد صاحب سے درخواست کرکے ہمارے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ جہاز میں سیٹ مختلف جگہ پر ہونے کی وجہ سے یہ ہم سے بچھڑ گئیں اور اکیلی لڑکی سمجھ کر مدد کے نام پر وہ صاحب ان کے سرپرست بن بیٹھے۔ اس سے پہلے کہ وہ حضرت اپنی محنت کا پھل کھاتے لڑکی کی عقلمندی کی بدولت ان صاحب کی محنت ضائع ہوگئی۔
اکیلی عورت دنیا میں ہر جگہ غیر محفوظ ہے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس سال کے عرصے میں دنیا بھر میں ایک کروڑ 77 لاکھ خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ یعنی ہر روز 2425 اور ہر 35 سیکنڈ کے بعد ایک عورت ریپ کا شکار ہوئی۔
اگر بات کی جائے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی، جہاں مدرسے جانے والی بچی قاری صاحب، اسکول جانے والی استاد محترم، کالج جانے والی پروفیسر صاحب اور یونیورسٹی تک پہنچ جانے والی ڈین کی طرف سے خطرے کا شکار ہو، وہاں ہر شخص کےلیے لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کرنے کا بندوبست کرے۔
ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ہزار سے زائد بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2016 میں ہر روز گیارہ بچوں کا ریپ کیا گیا۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ کسی بھی ذریعے سے حاصل کردہ اعداد و شمار حقیقت سے بہت دور ہوتے ہیں۔ کیونکہ جرائم کنٹرول کرنے والے اداروں کے رویے کی بدولت مظلوموں کی اکثریت جرم رپورٹ کرنے سے گریز کرتی ہے۔
صرف پاکستان ہی نہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت کے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر 15 منٹ میں ایک خاتون کا ریپ کیا گیا۔ صرف 2017 میں بھارت میں 330000 خواتین کا ریپ اور گینگ ریپ کیا گیا۔ ایک اور غیر سرکاری رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بھارت میں ہر 6 منٹ کے اندر کوئی نہ کوئی خاتون جنسی ہراسگی یا بدسلوکی کا شکار ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ اکیلی عورت پاکستانی ہو یا ہندوستانی، یا پھر انگلستانی، وہ غیر محفوظ ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بچی ہو یا بڑی، دن ہو یا رات کسی بھی وقت اور کسی بھی حال میں عورت اکیلی نہ ہو۔ کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں انسان کم اور انسان نما درندے زیادہ ہیں۔ اور اگر نکلنا ناگزیر ہو تو پھر مکمل بندوبست کے ساتھ نکلے۔ گاڑی میں پٹرول فل ہو، موبائل کی بیٹری مکمل چارج ہو، اسے پتا ہو کہ ایمرجنسی میں کس ادارے سے رابطہ کرنا ہے وغیرہ۔
اور ایک آخری بات کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اکیلی عورت کو قطعی طور پر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ ایک دوسرے امام کے نزدیک اگر اکیلی عورت کسی دوسرے خاندان کے ساتھ سفر کررہی ہے تو اس صورت میں صدیق یعنی دوست امین ہے اور ساتھ میں عورتیں بھی ہیں تو پھر جائز ہے۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ اپنی جان، مال اور اہل و عیال کی حفاظت کے سلسلے میں صرف ریاست پر انحصار نہیں کریں گے، بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی حفاظت کو خود ہی یقینی بنائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔