غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی سزائیں
کیا ملک کو ریاست مدینہ پکارنے سے عوام کے وہ سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں جو حقیقی ریاست مدینہ میں حل ہوتے تھے
کسی سیانے نے کیا ہی سچ کہا ہے کہ ''نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان''۔ ہمارے جیسے تقربیاً بائیس کروڑ کی آبادی والے معاشرے پر یہ ضرب المثل بڑی فٹ بیٹھتی ہے۔ کیونکہ ہماری ہجوم جیسی قوم کا المیہ یہ ہے کہ جیسے ہی ہمارے ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہر فرد بغیر سوچے سمجھے اور بغیر اس بارے میں کوئی علم رکھے، ایسے ایسے تبصرے کرتا ہے اور ایسے قوانین سامنے لاتا ہے کہ خود قانون بھی شرما جاتا ہے۔ اس کے بعد سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے ملکی قوانین ایسے ہیں کہ جو مرضی راگ الاپتا رہے اس کو روکا نہیں جاسکتا، کیونکہ اس طرح اس کے آزادی اظہار پر حرف آتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ یہاں جاری و ساری رہتا ہے۔
مندرجہ بالا ضرب المثل کے یہاں فٹ آنے کی تازہ ترین مثال لاہور۔ سیالکوٹ موٹر وے پر پیش آنے والا واقعہ ہے جس میں مجرموں نے ڈکیتی کے ساتھ ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔ اس کیس پر حکومتی اداروں کی کارروائی جاری ہے اور آج یا کل سارے مجرم قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ اس واقعے کے فوری بعد کی صورت حال کو حکومتی نمائندوں اور اداروں کی جانب سے بھی ٹھیک طرح سے ہینڈل نہیں کیا گیا کہ ہر طرف سے مختلف نقطہ نظر سامنے آئے اور جس کے دل میں جو آتا گیا وہ کہتا گیا اور پھیلاتا گیا۔ ایسے وقت میں ہمارے ملک کی اپوزیشن کو اور کیا چاہیے ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ اسے کوئی موقع ملے اور وہ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے اور ساتھ ہی دو چار استعفے بھی مانگ لے۔ یہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ کل کیا ہوگا اللہ ہی جانتا ہے۔
اب یہاں سے ایک قدم آگے چلتے ہیں کہ جیسے ہی ایسا کوئی واقعہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس کے بعد اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمے داری ہمارا میڈیا اپنے سر لے لیتا ہے اور پھر ریٹنگ کے چکر میں ایسی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ اصل واقعہ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور نیا کیس سامنے آجاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ان گنت چینلز پر بے شمار تبصرہ نگار جن میں صحافی، فنکار، گلوکار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے لوگ شامل ہوتے ہیں، اپنی اپنی رائے دے رہے ہوتے ہیں۔ ان میں یقیناً قابل لوگ بھی ہوتے ہیں اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان میں نیم حکیم اور نیم ملا بھی موجود ہوتے ہیں، جو جان اور ایمان کےلیے کسی خطرے سے کم نہیں ہوتے۔ باقی رہ گئے ہمارے عوام، تو ان میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو ماہر معاشیات، ماہر آئین و قانون، دوراندیش اور ملک کی بہتری کےلیے ناگزیر سمجھتا ہے اور ہر واقعے میں اپنے علم کی پھلجڑیاں بکھیرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔
رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی جس نے ہر شخص کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے کہ جہاں پر کچھ لکھنے اور کہنے کےلیے نہ کسی کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ آپ کے علم کو پرکھنے کا کوئی معیار مقرر ہے۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے کہتا چلا جاتا ہے، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ جس بارے میں وہ بات کررہا ہے اس کی الف اور ب سے بھی واقف نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں سائبر کرائم کے بارے میں قانون موجود ہے مگر اس کے باوجود سب کچھ دھڑلے سے ہورہا ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں اور کئی حساس معاملات پر بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
لاہور۔ سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے دلخراش واقعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بظاہر ہر ذی شعور انسان کی ہمدردیاں بے گناہ خاتون کے ساتھ ہیں۔ جن درندوں نے یہ قیامت ڈھائی آج ہم سب ان کے خلاف ہیں اور ہر کوئی ان کو سخت سے سخت سزا دینے کا حامی ہے اور ہر کوئی اپنے طریقے پیش کررہا ہے کہ ان کو اس طرح سزا دی جائے۔ لیکن ان سب کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی جرم کی سزا ملک پاکستان کے آئین و قانون میں دی گئی سزا سے ہٹ کر دی جاسکتی ہے؟ کچھ لوگ ساری باتیں بھول کر ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ اسلامی سزا دے کر ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ اس رائے کےلیے سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایک غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی سزا دی جاسکتی ہے؟ اور کیا وہ سارے لوگ جو اس رائے کے حق میں ہیں، وہ اپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا صرف ملک کے نام کے ساتھ اسلامی لکھ دینے سے اس کی مقتدر قوتوں کو باقی سارے معاملات سے بری الذمہ کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا ملک کو ریاست مدینہ پکارنے سے عوام کے وہ سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں جو حقیقی ریاست مدینہ میں حل ہوتے تھے۔ ہرگز نہیں۔
اسلام ایک دین فطرت ہے جسے اللہ نے دین کے طور پر ہمارے لیے پسند کرلیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اس پورے دین کو اس کے سارے لوازمات کے ساتھ نافذ کردیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی کہانی یہاں کام نہیں آتی کہ جہاں ہمارا مفاد اسلام کے قانون سے محفوظ ہوتا ہو وہاں ہم سر پر ٹوپی پہن کو پورے مسلمان بن جائیں اور جہاں ہمارے مفادات کو اسلامی قانون کے تحت زد پہنچتی ہو وہاں ہم اس قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کےلیے اپنی توجیہات پیش کرنا شروع کردیں۔ اسلامی نظام ایک مکمل دستور حیات ہے جس کو معاشرے میں پورے کا پورا نافذ کرنا ضروری ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں ہم اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسلامی سزاؤں کا نظام ایسا ہے جو برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بظاہر ہاتھ کاٹنا، کوڑے برسانا اور سنگساری جیسی سزائیں بہت سخت نظر آتی ہیں اور اسلامی نظام اور سزاؤں پر تنقید کرنے والے ان پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اسلام کے نظام کو ان باتو ں سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ معاشرے کو ہمارے رہنے کے قابل بنانے کےلیے اس کی تمام تعلیمات حق اور سچ پر مبنی ہیں۔ یہاں پر صرف سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک میں انصاف کا ایسا فول پروف نظام قائم کیا جائے کہ کوئی بے گناہ سولی نہ چڑھ جائے اور کسی ایک کی سزا کسی دوسرے کو بھگتنا نہ پڑ جائے۔
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے قبل معاشرے میں حکومت کی طرف سے ایسی اصلاحات اور قانون سازی بہت ضروری ہے کہ جن کی بدولت لوگوں کی نیکی کی ترغیب ملے اور برائی سے نفرت پیدا ہو۔ اس کے ساتھ ایسے اقدامات کیے جانے بھی ضروری ہیں کہ جہاں لوگ امن و محبت اور بھائی چارے کی فضا میں رہنے کے قابل ہوسکیں۔ جہاں حقدار کو اس کا حق ملے اور ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس کی عزت نفس، جان اور مال محفوظ رہے۔ معاشرے میں برائی پھیلانے کا باعث بننے والے عناصر اور اقدامات کو سختی سے کچل کر رکھ دیا جائے۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک ایسا تعلیمی نظام اور سلیبس جاری کیا جائے جو ہمارے بچوں، جوانوں اور خواتین کو حقیقی اسلامی نظام کی روایات سے روشناس کرا سکے اور انہیں حقیقی معنوں میں ایک قابل فخر مسلمان بناسکے اور وہ سب ایک دوسرے کےلیے فائدہ مند انسان بن سکیں۔ حکومتی سطح پر تمام ایسے اقدامات جو دین اسلام کی روح کے منافی ہیں انہیں فی الفور یا بتدریج ختم کردیا جائے۔ بے سہاروں کےلیے سہارا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا فول پروف نظام رائج کیا جائے۔ یہ سب کچھ کرنے سے معاشرہ اسلامی روایات اور قوانین کو قبول کرنے کے قابل ہوجائے گا اور اسلامی سزاؤں کا نفاذ بھی ممکن اور ضروری ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے قبل معاشرے کو اسلامی بنانا ضروری ہے۔ اسلام صرف سزاؤں کا قانون نہیں بلکہ ایک مکمل دین فطرت ہے۔ پہلے وہ ایسا ماحول بناتا ہے جہاں انسان کو نیکی کی ترغیب ملے اور برائی سے بچنے کے انتظامات ہوں، پھر اس کے بعد معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا اور کڑی سے کڑی عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے۔
لاہور۔ سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے واقعے پر بلاشبہ ساری قوم اس لحاظ سے متفق ہے کہ اس کے تمام مجرموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے اور ساتھ ہی ہماری یہ اپیل ہے کہ ایسے واقعات پر نیم حکیموں اور نیم ملاؤں کے تبصروں کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام کی ایک ان پڑھ اکثریت کنفیوژن کا شکار نہ ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ ایسی قانون سازی کرے کہ ایسے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔ ہمارا ملک پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا تو اس میں مکمل اسلامی نفاذ کےلیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ پنپ سکے جہاں اسلامی قوانین کی عمل داری کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ دھرتی اللہ کی ہے جو اس سب کا خالق ہے تو نظام بھی اگر خالق کا نافذ کیا جائے تو تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مندرجہ بالا ضرب المثل کے یہاں فٹ آنے کی تازہ ترین مثال لاہور۔ سیالکوٹ موٹر وے پر پیش آنے والا واقعہ ہے جس میں مجرموں نے ڈکیتی کے ساتھ ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔ اس کیس پر حکومتی اداروں کی کارروائی جاری ہے اور آج یا کل سارے مجرم قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ اس واقعے کے فوری بعد کی صورت حال کو حکومتی نمائندوں اور اداروں کی جانب سے بھی ٹھیک طرح سے ہینڈل نہیں کیا گیا کہ ہر طرف سے مختلف نقطہ نظر سامنے آئے اور جس کے دل میں جو آتا گیا وہ کہتا گیا اور پھیلاتا گیا۔ ایسے وقت میں ہمارے ملک کی اپوزیشن کو اور کیا چاہیے ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ اسے کوئی موقع ملے اور وہ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے اور ساتھ ہی دو چار استعفے بھی مانگ لے۔ یہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ کل کیا ہوگا اللہ ہی جانتا ہے۔
اب یہاں سے ایک قدم آگے چلتے ہیں کہ جیسے ہی ایسا کوئی واقعہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس کے بعد اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمے داری ہمارا میڈیا اپنے سر لے لیتا ہے اور پھر ریٹنگ کے چکر میں ایسی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ اصل واقعہ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور نیا کیس سامنے آجاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ان گنت چینلز پر بے شمار تبصرہ نگار جن میں صحافی، فنکار، گلوکار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے لوگ شامل ہوتے ہیں، اپنی اپنی رائے دے رہے ہوتے ہیں۔ ان میں یقیناً قابل لوگ بھی ہوتے ہیں اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان میں نیم حکیم اور نیم ملا بھی موجود ہوتے ہیں، جو جان اور ایمان کےلیے کسی خطرے سے کم نہیں ہوتے۔ باقی رہ گئے ہمارے عوام، تو ان میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو ماہر معاشیات، ماہر آئین و قانون، دوراندیش اور ملک کی بہتری کےلیے ناگزیر سمجھتا ہے اور ہر واقعے میں اپنے علم کی پھلجڑیاں بکھیرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔
رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی جس نے ہر شخص کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے کہ جہاں پر کچھ لکھنے اور کہنے کےلیے نہ کسی کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ آپ کے علم کو پرکھنے کا کوئی معیار مقرر ہے۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے کہتا چلا جاتا ہے، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ جس بارے میں وہ بات کررہا ہے اس کی الف اور ب سے بھی واقف نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں سائبر کرائم کے بارے میں قانون موجود ہے مگر اس کے باوجود سب کچھ دھڑلے سے ہورہا ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں اور کئی حساس معاملات پر بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
لاہور۔ سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے دلخراش واقعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بظاہر ہر ذی شعور انسان کی ہمدردیاں بے گناہ خاتون کے ساتھ ہیں۔ جن درندوں نے یہ قیامت ڈھائی آج ہم سب ان کے خلاف ہیں اور ہر کوئی ان کو سخت سے سخت سزا دینے کا حامی ہے اور ہر کوئی اپنے طریقے پیش کررہا ہے کہ ان کو اس طرح سزا دی جائے۔ لیکن ان سب کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی جرم کی سزا ملک پاکستان کے آئین و قانون میں دی گئی سزا سے ہٹ کر دی جاسکتی ہے؟ کچھ لوگ ساری باتیں بھول کر ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ اسلامی سزا دے کر ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ اس رائے کےلیے سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایک غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی سزا دی جاسکتی ہے؟ اور کیا وہ سارے لوگ جو اس رائے کے حق میں ہیں، وہ اپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا صرف ملک کے نام کے ساتھ اسلامی لکھ دینے سے اس کی مقتدر قوتوں کو باقی سارے معاملات سے بری الذمہ کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا ملک کو ریاست مدینہ پکارنے سے عوام کے وہ سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں جو حقیقی ریاست مدینہ میں حل ہوتے تھے۔ ہرگز نہیں۔
اسلام ایک دین فطرت ہے جسے اللہ نے دین کے طور پر ہمارے لیے پسند کرلیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اس پورے دین کو اس کے سارے لوازمات کے ساتھ نافذ کردیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی کہانی یہاں کام نہیں آتی کہ جہاں ہمارا مفاد اسلام کے قانون سے محفوظ ہوتا ہو وہاں ہم سر پر ٹوپی پہن کو پورے مسلمان بن جائیں اور جہاں ہمارے مفادات کو اسلامی قانون کے تحت زد پہنچتی ہو وہاں ہم اس قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کےلیے اپنی توجیہات پیش کرنا شروع کردیں۔ اسلامی نظام ایک مکمل دستور حیات ہے جس کو معاشرے میں پورے کا پورا نافذ کرنا ضروری ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں ہم اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسلامی سزاؤں کا نظام ایسا ہے جو برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بظاہر ہاتھ کاٹنا، کوڑے برسانا اور سنگساری جیسی سزائیں بہت سخت نظر آتی ہیں اور اسلامی نظام اور سزاؤں پر تنقید کرنے والے ان پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اسلام کے نظام کو ان باتو ں سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ معاشرے کو ہمارے رہنے کے قابل بنانے کےلیے اس کی تمام تعلیمات حق اور سچ پر مبنی ہیں۔ یہاں پر صرف سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک میں انصاف کا ایسا فول پروف نظام قائم کیا جائے کہ کوئی بے گناہ سولی نہ چڑھ جائے اور کسی ایک کی سزا کسی دوسرے کو بھگتنا نہ پڑ جائے۔
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے قبل معاشرے میں حکومت کی طرف سے ایسی اصلاحات اور قانون سازی بہت ضروری ہے کہ جن کی بدولت لوگوں کی نیکی کی ترغیب ملے اور برائی سے نفرت پیدا ہو۔ اس کے ساتھ ایسے اقدامات کیے جانے بھی ضروری ہیں کہ جہاں لوگ امن و محبت اور بھائی چارے کی فضا میں رہنے کے قابل ہوسکیں۔ جہاں حقدار کو اس کا حق ملے اور ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس کی عزت نفس، جان اور مال محفوظ رہے۔ معاشرے میں برائی پھیلانے کا باعث بننے والے عناصر اور اقدامات کو سختی سے کچل کر رکھ دیا جائے۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک ایسا تعلیمی نظام اور سلیبس جاری کیا جائے جو ہمارے بچوں، جوانوں اور خواتین کو حقیقی اسلامی نظام کی روایات سے روشناس کرا سکے اور انہیں حقیقی معنوں میں ایک قابل فخر مسلمان بناسکے اور وہ سب ایک دوسرے کےلیے فائدہ مند انسان بن سکیں۔ حکومتی سطح پر تمام ایسے اقدامات جو دین اسلام کی روح کے منافی ہیں انہیں فی الفور یا بتدریج ختم کردیا جائے۔ بے سہاروں کےلیے سہارا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا فول پروف نظام رائج کیا جائے۔ یہ سب کچھ کرنے سے معاشرہ اسلامی روایات اور قوانین کو قبول کرنے کے قابل ہوجائے گا اور اسلامی سزاؤں کا نفاذ بھی ممکن اور ضروری ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے قبل معاشرے کو اسلامی بنانا ضروری ہے۔ اسلام صرف سزاؤں کا قانون نہیں بلکہ ایک مکمل دین فطرت ہے۔ پہلے وہ ایسا ماحول بناتا ہے جہاں انسان کو نیکی کی ترغیب ملے اور برائی سے بچنے کے انتظامات ہوں، پھر اس کے بعد معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا اور کڑی سے کڑی عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے۔
لاہور۔ سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے واقعے پر بلاشبہ ساری قوم اس لحاظ سے متفق ہے کہ اس کے تمام مجرموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے اور ساتھ ہی ہماری یہ اپیل ہے کہ ایسے واقعات پر نیم حکیموں اور نیم ملاؤں کے تبصروں کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام کی ایک ان پڑھ اکثریت کنفیوژن کا شکار نہ ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ ایسی قانون سازی کرے کہ ایسے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔ ہمارا ملک پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا تو اس میں مکمل اسلامی نفاذ کےلیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ پنپ سکے جہاں اسلامی قوانین کی عمل داری کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ دھرتی اللہ کی ہے جو اس سب کا خالق ہے تو نظام بھی اگر خالق کا نافذ کیا جائے تو تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔