گرچہ چھوٹی ہے ذات ڈنگی کی
یہ ڈنگی جلوس تھا۔ مگر ڈنگی کے خلاف کوئی نعرہ نہیں سنا گی
تھی خبر گرم کہ ڈنگی کے اڑیں گے پرزے۔ مگر ڈنگی ڈے تو آرام سے گزر گیا۔
ڈنگی کا بال بیکا نہیں ہوا۔ جیل روڈ سے گزرتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ ایک جلوس سروسز اسپتال لاہور کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ڈنگی جلوس تھا۔ مگر ڈنگی کے خلاف کوئی نعرہ نہیں سنا گیا۔ کم از کم ایک مرتبہ تو ڈنگی مردہ باد کا نعرہ لگنا چاہیے تھا۔ شاید مظاہرین نے سوچا کہ ہمارے نعرے کا کیا اثر ہو گا۔ ڈنگی کے کانوں پر تو جوں بھی نہیں رینگے گی۔ پھر ایسے جلوس کا فائدہ۔ مطلب یہ ہے کہ ڈنگی ڈے تو منا لیا مگر ڈنگی کا یوم الحساب ابھی دور ہے۔ کتنے دنوں سے ہم ڈنگی مکائو ڈنگی مکائو کی رٹ لگا رہے تھے۔ ڈنگی نے اپنے خلاف یہ بول ایک کان سنے دوسرے کان اڑا دیئے۔ اسے بہرحال آنا تھا اور وہ آ گیا۔
اب ہم آپ تو یہی کر سکتے ہیں جو ایسی صورتوں میں کرتے چلے آئے ہیں۔ گھروں میں گلیوں میں صفائی رکھیں۔ گندگی کا انسداد کریں۔ مگر ڈنگی مکھی نہیں' ملیریا کا مچھر نہیں یہ مکھی مچھر گندگی کے کیڑے ہیں۔ گندگی انھیں راس آتی ہے مگر ڈنگی کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ڈنگی بہت نفاست پسند مخلوق ہے۔ گھر اور گلیوں میں صفائی کا انتظام رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ڈنگی کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
خیر یہ تو پہلے ہی تحقیق ہو چکی تھی کہ ڈنگی بہت نفاست پسند مخلوق ہے۔ صفائی ستھرائی کی بہت قائل ہے مگر صرف معاملہ اس حد تک نہیں ہے۔ اس سے آگے کی تحقیق یہ ہے کہ ڈنگی بہت منجھے ہوئے جمالیاتی ذوق سے متصف ہے۔ ڈنگی کی مادہ یعنی مسز ڈنگی ناک پہ مکھی نہیں بیٹھتے دیتی۔ بدبو برداشت نہیں کرتی خوشبو کی دلدادہ ہے۔ سینٹ کی مہک ہو تو سبحان اﷲ۔ ہماری فیشن ایبل خواتین جو تیل پھلیل ملتی ہیں اور چہروں پر سرخی پائوڈر لگاتی ہیں اس پر ڈنگیاں جان دیتی ہیں۔
ویسے تو جمالیاتی ذوق قابل تعریف صفت ہے۔ لیکن ڈنگی میں جمالیاتی ذوق کا ہونا' یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ اس سے یہ تو پتہ چل گیا کہ ڈنگی بہت مہذب اور شائستہ مخلوق ہے۔ مگر یہ شائستہ طبعی اور یہ رچا ہوا تہذیبی مزاج ہمارے لیے خبر بد ہے۔ خاص طور پر نفاست پسند خواتین کو ڈنگیوں کی نفاست پسندی ایک آنکھ نہیں بھائے گی۔ ڈنگی کو ایسے پر لگ گئے کہ وہ ان کی برابری کرنے لگ گئی۔
ڈنگی ہے تو مچھر ہی کی اولاد۔ اور مچھر سے تو جنم جنم سے ہمارا ساتھ چلا آ رہا ہے۔ بلکہ 'قصص الانبیا' نے تو اس کا رشتہ زمین کی پیدائش کے ساتھ ملا دیا ہے۔
اس کے بیان کے مطابق جب اﷲ میاں نے زمین تخلیق کی تو سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اس پہاڑ سی زمین کو کہاں ٹکایا جائے۔ تب اﷲ میاں نے گائے کو پیدا کیا اور گائے کے سر کے دائیں بائیں دو سینگ نصب کیے ۔ ان دو سینگوں پر کرہ ارض کو ٹکا دیا۔ خیر گائے کی طرف سے تو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ تو اﷲ میاں کی گائے تھی اور اب تک وہ غریب اﷲ میاں کی گائے ہی چلی آ رہی ہے۔ مگر وہ جو اس کے سر پر دو سینگ نصب ہیں ان کی وجہ سے بے چین رہتی ہے۔
اس کی بے چینی سے سینگ ہلتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہلتے رہے تو زمین بھی ہلے گی اور اس کے ساتھ پوری خلقت ہلے گی۔ تب اﷲ میاں نے ایک مچھر پیدا کیا اور اسے گائے کے نتھنوں کے مقابل ٹکا دیا۔ بس اس خوف سے اب وہ سینگ نہیں ہلاتی کہ مچھر بے چین ہو کر سیدھا اس کے نتھنوں میں گھس جائے گا۔ سو اس مچھر کی عنایت ہے کہ گائے کے سینگ ساکت ہیں۔ اس باعث زمین بھی سکون سے ہے اور خلق خدا بھی آرام سے بسر کر رہی ہے۔ سو اب جو بھی دنیا میں بے آرامی ہے وہ دنیا والوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ اس میں نہ تو گائے کا کوئی دخل ہے اور نہ ازلی مچھر کا۔
مچھر کا معاملہ یہ ہے کہ گرچہ چھوٹی ہے ذات مچھر کی مگر فتنہ پروری اس پر ختم ہے۔ وہ کائناتی مچھر جو گائے کے نتھنوں کے بالمقابل پہریدار بنا بیٹھا ہے اس کے لیے وہ پہریداری بہت ہے باقی دنیا کے کسی لینے دینے میں نہیں ہے۔ مگر اس نے جو اولاد پیدا کی ہے وہ تو اپنی ننھی سی ذات میں فتنہ سے بڑھ کر فتنہ ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ ملیریا سے لے کر ڈنگی بخار تک اس نے کیسے کیسے فتنے برپا کیے ہیں۔ ملیریا پر خدا خدا کر کے ہم نے کسی قدر قابو پایا تھا کہ ہماری جان کو ڈنگی بخار نے آ لیا۔
ہے تو اسی کی اولاد مگر ذرا غور کیجیے کہ یہ ڈنگی' یہ نوخیز مچھر' جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش اس پر قابو پانا کتنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ ارے وہ ملیریا والا مچھر۔ وہ تو گندگی کی پیداوار تھا۔ گندگی سے نجات میں ملیریا کے مچھر سے نجات بھی شامل تھی۔ مگر ڈنگی تو صفائی اور پاکیزگی کی گود میں پلا ہے۔ اس کا کیا اور کیسے علاج کریں۔ کیا اس کی ضد میں ہم گندگی میں لت پت ہو جائیں۔ یا پھر وہ پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کریں کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور زہر کو زہر مارتا ہے۔ مطلب یہ کہ جتنا ستھرا جمالیاتی ذوق ڈنگی کا ہے اس سے بڑھ کر جمالیاتی ذوق کا مظاہرہ ہماری آپ کی طرف سے ہو بلکہ نئی تحقیق کو پیش نظر رکھیں تو اصل مقابلہ ہماری فیشن ایبل خواتین اور ڈنگی مادائوں کے درمیان ہے۔
ارے تو ہم اس اصلی شخصیت کو بھولے ہی جا رہے ہیں جس نے ڈنگی کو علی الاعلان للکارا ہے یعنی پنجاب کے وزیر اعلیٰ یا بقول خود خادم اعلیٰ۔
ویسے تو اس اعتبار سے بھی اظہار اطمینان کرنا تھا کہ بالآخر کوئی تو ڈنگی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے میدان میں اترا مگر ہمارے لیے اس میں اطمینان کا پہلو ایک اور حوالے سے بھی ہے۔ شہباز شریف صاحب ابھی تک سیاست کے اکھاڑے میں زور آزمائی کر رہے تھے۔ اب انھیں پتہ چلا ہے کہ ان کا مدمقابل تو کہیں سیاست کے اکھاڑے سے باہر رجز خوانی کر رہا ہے۔ ہمارے دوست شہرت بخاری ایسے نووارد ادیبوں کو' جو چار چھ دن ہائو ہو کر کے غائب غلہ ہو جاتے تھے' فصلی بٹیروں کے خطاب سے نوازتے تھے۔ اب ہمیں پتہ نہیں کہ بٹیروں کی بھی فصل اُگتی ہے۔
بہرحال سیاست کی دنیا میں کتنے تو بس فصلی بٹیرے ہوتے ہیں جو بس ایک الیکشن کی مار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا پتہ نہیں چلتا کہ کہاں پڑے اپنے زخموں کو سہلا رہے ہیں۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کے فصلی بٹیروں کو مارا تو کیا مارا۔ بڑا پہلوان بقول استاد ذوقؔ نفس امارہ ہے۔ اور دوسرا بڑا پہلوان بقول ہمارے ڈنگی ہے۔ اسے پچھاڑ کر دکھائو۔ قدم بڑھائو۔ ڈنگی کو مکائو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
ڈنگی کا بال بیکا نہیں ہوا۔ جیل روڈ سے گزرتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ ایک جلوس سروسز اسپتال لاہور کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ڈنگی جلوس تھا۔ مگر ڈنگی کے خلاف کوئی نعرہ نہیں سنا گیا۔ کم از کم ایک مرتبہ تو ڈنگی مردہ باد کا نعرہ لگنا چاہیے تھا۔ شاید مظاہرین نے سوچا کہ ہمارے نعرے کا کیا اثر ہو گا۔ ڈنگی کے کانوں پر تو جوں بھی نہیں رینگے گی۔ پھر ایسے جلوس کا فائدہ۔ مطلب یہ ہے کہ ڈنگی ڈے تو منا لیا مگر ڈنگی کا یوم الحساب ابھی دور ہے۔ کتنے دنوں سے ہم ڈنگی مکائو ڈنگی مکائو کی رٹ لگا رہے تھے۔ ڈنگی نے اپنے خلاف یہ بول ایک کان سنے دوسرے کان اڑا دیئے۔ اسے بہرحال آنا تھا اور وہ آ گیا۔
اب ہم آپ تو یہی کر سکتے ہیں جو ایسی صورتوں میں کرتے چلے آئے ہیں۔ گھروں میں گلیوں میں صفائی رکھیں۔ گندگی کا انسداد کریں۔ مگر ڈنگی مکھی نہیں' ملیریا کا مچھر نہیں یہ مکھی مچھر گندگی کے کیڑے ہیں۔ گندگی انھیں راس آتی ہے مگر ڈنگی کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ڈنگی بہت نفاست پسند مخلوق ہے۔ گھر اور گلیوں میں صفائی کا انتظام رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ڈنگی کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
خیر یہ تو پہلے ہی تحقیق ہو چکی تھی کہ ڈنگی بہت نفاست پسند مخلوق ہے۔ صفائی ستھرائی کی بہت قائل ہے مگر صرف معاملہ اس حد تک نہیں ہے۔ اس سے آگے کی تحقیق یہ ہے کہ ڈنگی بہت منجھے ہوئے جمالیاتی ذوق سے متصف ہے۔ ڈنگی کی مادہ یعنی مسز ڈنگی ناک پہ مکھی نہیں بیٹھتے دیتی۔ بدبو برداشت نہیں کرتی خوشبو کی دلدادہ ہے۔ سینٹ کی مہک ہو تو سبحان اﷲ۔ ہماری فیشن ایبل خواتین جو تیل پھلیل ملتی ہیں اور چہروں پر سرخی پائوڈر لگاتی ہیں اس پر ڈنگیاں جان دیتی ہیں۔
ویسے تو جمالیاتی ذوق قابل تعریف صفت ہے۔ لیکن ڈنگی میں جمالیاتی ذوق کا ہونا' یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ اس سے یہ تو پتہ چل گیا کہ ڈنگی بہت مہذب اور شائستہ مخلوق ہے۔ مگر یہ شائستہ طبعی اور یہ رچا ہوا تہذیبی مزاج ہمارے لیے خبر بد ہے۔ خاص طور پر نفاست پسند خواتین کو ڈنگیوں کی نفاست پسندی ایک آنکھ نہیں بھائے گی۔ ڈنگی کو ایسے پر لگ گئے کہ وہ ان کی برابری کرنے لگ گئی۔
ڈنگی ہے تو مچھر ہی کی اولاد۔ اور مچھر سے تو جنم جنم سے ہمارا ساتھ چلا آ رہا ہے۔ بلکہ 'قصص الانبیا' نے تو اس کا رشتہ زمین کی پیدائش کے ساتھ ملا دیا ہے۔
اس کے بیان کے مطابق جب اﷲ میاں نے زمین تخلیق کی تو سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اس پہاڑ سی زمین کو کہاں ٹکایا جائے۔ تب اﷲ میاں نے گائے کو پیدا کیا اور گائے کے سر کے دائیں بائیں دو سینگ نصب کیے ۔ ان دو سینگوں پر کرہ ارض کو ٹکا دیا۔ خیر گائے کی طرف سے تو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ تو اﷲ میاں کی گائے تھی اور اب تک وہ غریب اﷲ میاں کی گائے ہی چلی آ رہی ہے۔ مگر وہ جو اس کے سر پر دو سینگ نصب ہیں ان کی وجہ سے بے چین رہتی ہے۔
اس کی بے چینی سے سینگ ہلتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہلتے رہے تو زمین بھی ہلے گی اور اس کے ساتھ پوری خلقت ہلے گی۔ تب اﷲ میاں نے ایک مچھر پیدا کیا اور اسے گائے کے نتھنوں کے مقابل ٹکا دیا۔ بس اس خوف سے اب وہ سینگ نہیں ہلاتی کہ مچھر بے چین ہو کر سیدھا اس کے نتھنوں میں گھس جائے گا۔ سو اس مچھر کی عنایت ہے کہ گائے کے سینگ ساکت ہیں۔ اس باعث زمین بھی سکون سے ہے اور خلق خدا بھی آرام سے بسر کر رہی ہے۔ سو اب جو بھی دنیا میں بے آرامی ہے وہ دنیا والوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ اس میں نہ تو گائے کا کوئی دخل ہے اور نہ ازلی مچھر کا۔
مچھر کا معاملہ یہ ہے کہ گرچہ چھوٹی ہے ذات مچھر کی مگر فتنہ پروری اس پر ختم ہے۔ وہ کائناتی مچھر جو گائے کے نتھنوں کے بالمقابل پہریدار بنا بیٹھا ہے اس کے لیے وہ پہریداری بہت ہے باقی دنیا کے کسی لینے دینے میں نہیں ہے۔ مگر اس نے جو اولاد پیدا کی ہے وہ تو اپنی ننھی سی ذات میں فتنہ سے بڑھ کر فتنہ ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ ملیریا سے لے کر ڈنگی بخار تک اس نے کیسے کیسے فتنے برپا کیے ہیں۔ ملیریا پر خدا خدا کر کے ہم نے کسی قدر قابو پایا تھا کہ ہماری جان کو ڈنگی بخار نے آ لیا۔
ہے تو اسی کی اولاد مگر ذرا غور کیجیے کہ یہ ڈنگی' یہ نوخیز مچھر' جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش اس پر قابو پانا کتنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ ارے وہ ملیریا والا مچھر۔ وہ تو گندگی کی پیداوار تھا۔ گندگی سے نجات میں ملیریا کے مچھر سے نجات بھی شامل تھی۔ مگر ڈنگی تو صفائی اور پاکیزگی کی گود میں پلا ہے۔ اس کا کیا اور کیسے علاج کریں۔ کیا اس کی ضد میں ہم گندگی میں لت پت ہو جائیں۔ یا پھر وہ پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کریں کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور زہر کو زہر مارتا ہے۔ مطلب یہ کہ جتنا ستھرا جمالیاتی ذوق ڈنگی کا ہے اس سے بڑھ کر جمالیاتی ذوق کا مظاہرہ ہماری آپ کی طرف سے ہو بلکہ نئی تحقیق کو پیش نظر رکھیں تو اصل مقابلہ ہماری فیشن ایبل خواتین اور ڈنگی مادائوں کے درمیان ہے۔
ارے تو ہم اس اصلی شخصیت کو بھولے ہی جا رہے ہیں جس نے ڈنگی کو علی الاعلان للکارا ہے یعنی پنجاب کے وزیر اعلیٰ یا بقول خود خادم اعلیٰ۔
ویسے تو اس اعتبار سے بھی اظہار اطمینان کرنا تھا کہ بالآخر کوئی تو ڈنگی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے میدان میں اترا مگر ہمارے لیے اس میں اطمینان کا پہلو ایک اور حوالے سے بھی ہے۔ شہباز شریف صاحب ابھی تک سیاست کے اکھاڑے میں زور آزمائی کر رہے تھے۔ اب انھیں پتہ چلا ہے کہ ان کا مدمقابل تو کہیں سیاست کے اکھاڑے سے باہر رجز خوانی کر رہا ہے۔ ہمارے دوست شہرت بخاری ایسے نووارد ادیبوں کو' جو چار چھ دن ہائو ہو کر کے غائب غلہ ہو جاتے تھے' فصلی بٹیروں کے خطاب سے نوازتے تھے۔ اب ہمیں پتہ نہیں کہ بٹیروں کی بھی فصل اُگتی ہے۔
بہرحال سیاست کی دنیا میں کتنے تو بس فصلی بٹیرے ہوتے ہیں جو بس ایک الیکشن کی مار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا پتہ نہیں چلتا کہ کہاں پڑے اپنے زخموں کو سہلا رہے ہیں۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کے فصلی بٹیروں کو مارا تو کیا مارا۔ بڑا پہلوان بقول استاد ذوقؔ نفس امارہ ہے۔ اور دوسرا بڑا پہلوان بقول ہمارے ڈنگی ہے۔ اسے پچھاڑ کر دکھائو۔ قدم بڑھائو۔ ڈنگی کو مکائو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔