خطرے اور سازشیں
پاکستان جیسے ملکوں میں جمہوری حکومتیں ہمیشہ خطرے میں رہتی ہیں،سابق حکومت کے پانچ برس ایسے نکلے کہ اب گئی کہ اب گئی
پاکستان جیسے ملکوں میں جمہوری حکومتیں ہمیشہ خطرے میں رہتی ہیں۔ سابق حکومت کے پورے پانچ برس ایسے نکلے کہ اب گئی کہ اب گئی۔ ہر چھ ماہ بعد حکومت کے خاتمے کی تاریخ سامنے آ جاتی تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئے ابھی چھ سات ماہ ہی ہوئے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی قومی اسمبلی میں یہ انکشاف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ انھیں انگوٹھوں کے نشانات کو جواز بنا کر مڈٹرم الیکشن کے لیے سازش کی بو آ رہی ہے۔ برسراقتدار پارٹی عموماً ایسی بات کرنے سے گریز کرتی ہے جس سے اس کے بارے میں منفی یا کمزوری کا تاثر پیدا ہو لیکن اقتدار کی غلام گردشوں کے مسافر پرچھائیوں پر بھی نگاہ رکھتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ 2013 کے الیکشن میں جادوگری تو ہوئی ہے، ایسی جادوگری ماضی کے ہر الیکشن میں ہوتی رہی ہے لیکن اس بار سفیدپوش جادوگر پرانے اور ماہر سحرکاروں پر بازی لے گئے۔ آصف علی زرداری تو کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب خصوصاً سرائیکی بیلٹ میں آر اوز نے ہرایا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ملاقات میں چوہدری پرویز الٰہی نے بتایا تھا کہ انھیں ''دوست'' بروقت اطلاع نہ دیتے تو وہ بھی اپنے آبائی حلقے سے فارغ تھے۔
انتخابی جادوگری پر پیپلز پارٹی والے تو اس لیے خاموش ہیں کہ وہ اس سیٹ اپ کے میجر سٹیک ہولڈر ہیں' بالکل ایسے ہی جیسے مسلم لیگ ن 2008 کے الیکشن میں سٹیک ہولڈر تھی۔ اس نے پانچ برس پنجاب میںدھڑلے سے حکومت کی۔ پیپلز پارٹی انستھیزیا لے کر سوئی رہی۔ اب پیپلز پارٹی سندھ میں موج کر رہی ہے لہٰذا انتخابی جادوگری پر وہ منہ میں گھنگھنیا ڈالے خاموش ہے۔ اے این پی بیچاری تو قوم پرستی کا زہریلا لڈو کھا کر بستر مرگ پر پڑی ہے' لہٰذا اس کا بولنا یا خاموش رہنا، کسی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ رہ گئے حضرت مولانا، وہ ہر دور میں اپنا ٹانکا فٹ کر لیتے ہیں' آجکل وہ کبھی کابل جاتے ہیں اور کبھی دلی' طالبان سے مذاکرات ہوں یا بھارت کے ساتھ تعلقات ان کی پانچوں گھی میں ہیں۔ یوں انھیں بھی موجودہ سیٹ اپ کا حصہ ہی سمجھیں' اس لیے وہ انتخابی دھاندلی کے ایشو پر خاموش ہیں۔ متحدہ بھی اس سیٹ اپ کی سٹیک ہولڈر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے تو وہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ہے۔
الیکشن 2013 میں ان کی اٹھان جیتے ہوئے گھوڑے والی تھی۔ بعض لو گ تو یہ تک کہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ تک بن چکی تھی۔ لیکن سارے خواب بکھر گئے۔ عمران خان کا بیس کیمپ پنجاب ہے' خان صاحب اپنے گھر کی سیٹ ہار گئے' ذرا سوچئے کہ میاں نواز شریف لاہور سے ہار جاتے تو ان کا کیا حال ہوتا۔ خان صاحب لاہور سے باہرکہیں سے بھی جیت جائیں' ان پر لگا یہ دھبہ نہیں دھل سکے گا کہ جو لیڈر اپنے گھر سے نہیں جیت سکتا' وہ قوم کی رہنمائی کیا کرے گا۔ ان کے لیے ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ پنجاب میں ان کا امیج طالبان خان کے طور پر ابھرا جب کہ خیبر پختونخوا میں انھیں پنجابی سامراج کا طعنہ ملا۔ تحریک انصاف صرف خیبر پختونخوا تک محدود ہو گئی ہے' پنجاب میں اب اس کی حیثیت اے این پی یا جے یو آئی کی طرح ہے' یعنی اسے ایسی سیاسی جماعت سمجھا جا رہا ہے جو پنجاب کے بجائے شمال مغرب کے مفادات کو زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ قارئین آپ ہی بتائیں ایسے تاثر والی جماعت یا شخصیت پنجاب سے کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔
2013 کا الیکشن عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے سنہری موقع تھا، لیکن وہ موقع چھین لیا گیا۔ الیکشن بھی ایک جنگ ہی ہوتی ہے۔ اس جنگ میں عوام کے سامنے سیاسی چہرے ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بے چہرہ طاقتیں ہوتی ہیں جو اصل جنگ لڑتی ہیں ۔ عمران خان کو چلانے والی قوتوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے' مجھے چوہدری نثار علی خان کا بیان سچ معلوم ہوتا ہے کہ مڈٹرم الیکشن کی سازش کی بو آ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت خصوصاً حکمران خاندان کے مالی اور کاروباری معاملات کے حوالے سے ایک منفی مہم شروع ہونے کی افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔ حکمران خاندان کی تھائی لینڈ میں کاروباری سرگرمیوں کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو رہی ہیں۔ مجھے ایک دو نجی محفلوں میں ایسی گفتگو سننے کو ملی کہ جب سانحہ راولپنڈی رونما ہوا تو وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن میں تھے' وہ وہاں سے تھائی لینڈ کے دورے پر کیوں چلے گئے حالانکہ انھیں پاکستان آنا چاہیے تھا۔ یہ وہ سوالیہ باتیں ہیں جو اہم لوگوں کے ڈرائنگ رومز میں بڑے پر اسرار انداز میں ہورہی ہیں۔ میاں صاحب کی بھارت پالیسی بھی ایک طاقتور اور منہ زور لابی کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی لیکن میاں صاحب بھارت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے کسی حکمران کی بھارت کے بارے میں یہ غیر معمولی پالیسی ہے۔
ان معاملات کی کڑیوں کو ملایا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں مسلسل شکست کھا نے کے باوجود آرام سے نہیں بیٹھی ہیں' پہلے انھوں نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ تمام تر کوششوں کے باوجود برسراقتدار آ گئی' پھر اسے ناکام بنانے کا عمل شروع ہوا' بلاشبہ یہ لابی پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپاہج بنانے میں کامیاب رہی تاہم اس نے جیسے تیسے اپنی آئینی مدت پوری کر لی' اب مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی ہے۔ اسے بھی روکنے کی کوشش کی گئی لیکن عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کامیاب ہو گئی' مسلم لیگ ن کو پنجاب میں جو کامیابی ملی' اس کی پس پردہ کہانی سے وہ قوتیں آگاہ ہیں جو میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتی ہیں' ان کی کوشش تھی کہ اول تو میاں نواز شریف اقتدار سے باہر ہو جائیں اور ایک بار پھر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں' اگر وہ جیتیں بھی تو حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کے در پہ دستک دیں لیکن یہ ارادے پنجاب کے میدانوں میں ناکام ہو گئے ہیں۔ یہی وہ جادوگری ہوئی جس نے تحریک انصاف کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا۔ سابق چیف جسٹس پیپلز پارٹی سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن ان کا ایک کریڈٹ ضرور ہے کہ انھوں نے سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا' سچی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے اقتدار میں ان کا بھی اہم کردار ہے' انھوں نے کھلے عام ایسے فیصلے دیے جن سے مسلم لیگ ن کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا۔
انتخابی جادوگری پر پیپلز پارٹی والے تو اس لیے خاموش ہیں کہ وہ اس سیٹ اپ کے میجر سٹیک ہولڈر ہیں' بالکل ایسے ہی جیسے مسلم لیگ ن 2008 کے الیکشن میں سٹیک ہولڈر تھی۔ اس نے پانچ برس پنجاب میںدھڑلے سے حکومت کی۔ پیپلز پارٹی انستھیزیا لے کر سوئی رہی۔ اب پیپلز پارٹی سندھ میں موج کر رہی ہے لہٰذا انتخابی جادوگری پر وہ منہ میں گھنگھنیا ڈالے خاموش ہے۔ اے این پی بیچاری تو قوم پرستی کا زہریلا لڈو کھا کر بستر مرگ پر پڑی ہے' لہٰذا اس کا بولنا یا خاموش رہنا، کسی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ رہ گئے حضرت مولانا، وہ ہر دور میں اپنا ٹانکا فٹ کر لیتے ہیں' آجکل وہ کبھی کابل جاتے ہیں اور کبھی دلی' طالبان سے مذاکرات ہوں یا بھارت کے ساتھ تعلقات ان کی پانچوں گھی میں ہیں۔ یوں انھیں بھی موجودہ سیٹ اپ کا حصہ ہی سمجھیں' اس لیے وہ انتخابی دھاندلی کے ایشو پر خاموش ہیں۔ متحدہ بھی اس سیٹ اپ کی سٹیک ہولڈر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے تو وہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ہے۔
الیکشن 2013 میں ان کی اٹھان جیتے ہوئے گھوڑے والی تھی۔ بعض لو گ تو یہ تک کہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ تک بن چکی تھی۔ لیکن سارے خواب بکھر گئے۔ عمران خان کا بیس کیمپ پنجاب ہے' خان صاحب اپنے گھر کی سیٹ ہار گئے' ذرا سوچئے کہ میاں نواز شریف لاہور سے ہار جاتے تو ان کا کیا حال ہوتا۔ خان صاحب لاہور سے باہرکہیں سے بھی جیت جائیں' ان پر لگا یہ دھبہ نہیں دھل سکے گا کہ جو لیڈر اپنے گھر سے نہیں جیت سکتا' وہ قوم کی رہنمائی کیا کرے گا۔ ان کے لیے ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ پنجاب میں ان کا امیج طالبان خان کے طور پر ابھرا جب کہ خیبر پختونخوا میں انھیں پنجابی سامراج کا طعنہ ملا۔ تحریک انصاف صرف خیبر پختونخوا تک محدود ہو گئی ہے' پنجاب میں اب اس کی حیثیت اے این پی یا جے یو آئی کی طرح ہے' یعنی اسے ایسی سیاسی جماعت سمجھا جا رہا ہے جو پنجاب کے بجائے شمال مغرب کے مفادات کو زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ قارئین آپ ہی بتائیں ایسے تاثر والی جماعت یا شخصیت پنجاب سے کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔
2013 کا الیکشن عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے سنہری موقع تھا، لیکن وہ موقع چھین لیا گیا۔ الیکشن بھی ایک جنگ ہی ہوتی ہے۔ اس جنگ میں عوام کے سامنے سیاسی چہرے ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بے چہرہ طاقتیں ہوتی ہیں جو اصل جنگ لڑتی ہیں ۔ عمران خان کو چلانے والی قوتوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے' مجھے چوہدری نثار علی خان کا بیان سچ معلوم ہوتا ہے کہ مڈٹرم الیکشن کی سازش کی بو آ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت خصوصاً حکمران خاندان کے مالی اور کاروباری معاملات کے حوالے سے ایک منفی مہم شروع ہونے کی افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔ حکمران خاندان کی تھائی لینڈ میں کاروباری سرگرمیوں کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو رہی ہیں۔ مجھے ایک دو نجی محفلوں میں ایسی گفتگو سننے کو ملی کہ جب سانحہ راولپنڈی رونما ہوا تو وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن میں تھے' وہ وہاں سے تھائی لینڈ کے دورے پر کیوں چلے گئے حالانکہ انھیں پاکستان آنا چاہیے تھا۔ یہ وہ سوالیہ باتیں ہیں جو اہم لوگوں کے ڈرائنگ رومز میں بڑے پر اسرار انداز میں ہورہی ہیں۔ میاں صاحب کی بھارت پالیسی بھی ایک طاقتور اور منہ زور لابی کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی لیکن میاں صاحب بھارت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے کسی حکمران کی بھارت کے بارے میں یہ غیر معمولی پالیسی ہے۔
ان معاملات کی کڑیوں کو ملایا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں مسلسل شکست کھا نے کے باوجود آرام سے نہیں بیٹھی ہیں' پہلے انھوں نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ تمام تر کوششوں کے باوجود برسراقتدار آ گئی' پھر اسے ناکام بنانے کا عمل شروع ہوا' بلاشبہ یہ لابی پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپاہج بنانے میں کامیاب رہی تاہم اس نے جیسے تیسے اپنی آئینی مدت پوری کر لی' اب مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی ہے۔ اسے بھی روکنے کی کوشش کی گئی لیکن عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کامیاب ہو گئی' مسلم لیگ ن کو پنجاب میں جو کامیابی ملی' اس کی پس پردہ کہانی سے وہ قوتیں آگاہ ہیں جو میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتی ہیں' ان کی کوشش تھی کہ اول تو میاں نواز شریف اقتدار سے باہر ہو جائیں اور ایک بار پھر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں' اگر وہ جیتیں بھی تو حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کے در پہ دستک دیں لیکن یہ ارادے پنجاب کے میدانوں میں ناکام ہو گئے ہیں۔ یہی وہ جادوگری ہوئی جس نے تحریک انصاف کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا۔ سابق چیف جسٹس پیپلز پارٹی سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن ان کا ایک کریڈٹ ضرور ہے کہ انھوں نے سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا' سچی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے اقتدار میں ان کا بھی اہم کردار ہے' انھوں نے کھلے عام ایسے فیصلے دیے جن سے مسلم لیگ ن کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا۔