ڈالر کی قدر میں کمی کا معاملہ

شاید ڈار جی، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہونے کی وجہ سے وہ باریکیاں سمجھنے سے قاصر ہیں جو کہ ایک معاشیات دان کو سمجھ آتی ہیں۔۔۔

Jvqazi@gmail.com

ویسے تو یہ ڈار صاحب کی اپنی مرضی ہے، وہ جو چاہیں بطور وزیر خزانہ کہیں، مگر وہ ملک کے انتہائی ذمے دار عہدے پر فائز ہیں اس کے بھی کچھ معروضی تقاضے ہیں۔ ٹھیک ہے لوگوں کو اچھی خبریں بھی دی جائیں، لیکن وہ خبریں ہوں، فسانے نہیں اور اگر وعدے بھی کیے جائیں تو وہ محض وعدے نہ ہوں۔ آپ نے کل لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈالر واپس 1998 والی سطح پر آ جائے گا اور لوگ جلدی سے اپنے ڈالر بیچیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ نہیں بتایا کہ کیسے آئے گا۔ آپ وزیر خزانہ بنے تو کہا کہ 500 ارب کا سرکلر قرضہ دو ہفتوں میں ختم ہو جائے گا، سب حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ مگر آپ نے یہ کارنامہ کر کے دکھایا، پیسے کہاں سے آئے وہ اس کا جواب نہیں دے سکے اور جب جواب نہیں دے سکے تو ٹھیک دو مہینوں بعد دوبارہ سرکلر قرضہ 250 ارب روپے واپس سامنے آ کھڑا ہو گیا۔ اور لگتا ہے کہ 500 ارب تک بھی پہنچ جائے گا۔ 1998میں مالیاتی ایمرجنسی لگنے سے پہلے ڈالر چالیس روپے کے گرد گھوم رہا تھا۔ آپ نے ایمرجنسی نافذ کی تو ایک ہی جھٹکے میں 56 روپے کے برابر ڈالر ہو گیا۔ آج جب اسٹیٹ بینک کے پاس لگ بھگ تین ارب ڈالر کے بیرونی ذخائر پڑے ہیں، تو نجی بینکوں میں ساڑھے چار ارب ڈالر پڑے ہیں اور اس صورت حال میں لوگ اپنے بینکوں کے ڈالر اکاؤنٹ آہستہ آہستہ خالی کر رہے ہیں، اس ڈر سے کہ پاکستان کے تیزی سے سکڑتے ہوئے بیرونی ذخائر کی وجہ سے کہیں حکومت ماضی کی طرح دوبارہ مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر کے ان کے ڈالر اکاؤنٹ نہ منجمد کر دے۔

شاید ڈار جی، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہونے کی وجہ سے وہ باریکیاں سمجھنے سے قاصر ہیں جو کہ ایک معاشیات دان کو سمجھ آتی ہیں کہ کس طرح افراط زر خود ڈالر بھی جذب کرتا ہے اور اس کے بڑھنے وغیرہ کے فیصلے اسٹیٹ بینک نہیں کرتا بلکہ بازار کرتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ افراط زر تو بے لگام ہو مگر ڈالر نہیں اور دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ڈالر کا بڑھنا و گھٹنا اہم ہوتا ہے یا اس کے اندر استحکام کا ہونا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب افراط زر میں استحکام ہو گا، ہمارے بیرونی ذخائر میں استحکام ہو گا، یعنی کم از کم چھ ماہ کے امپورٹ بل جتنے یا دوسرے الفاظ میں اسٹیٹ بینک کے پاس چودہ ارب ڈالر کے بیرونی ذخائر، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مستقل ہوں تو ڈالر کی قیمت میں بھی استحکام ہو گا اور ساتھ ساتھ افراط زر کی شرح میں بھی استحکام رہے گا۔ جب حکومت نے ہزار ارب سے بھی زیادہ اسٹیٹ بینک سے پیسہ اپنے اخراجات کے لیے لیا اور یہ بھی ان چھ مہینوں کے چھوٹے عرصے میں! اب تک اس سے پہلے کسی حکومت نے بھی ایسا نہیں کیا۔ اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر یہ پیسے آپ کو دے تو جو مہنگائی کے گُل بڑے سالوں بعد اب کھلے ہیں، یہ کام اگر جاری رہا تو روپے کی قدر مزید کیوں نہیں گرے گی۔ اسٹیٹ بینک سے پیسے اس لیے لیے گئے کہ حکومتی قرضوں کی ادائیگی میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن ہوا کیا؟ جو بیرونی قرضے تھے وہ روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے اور بڑھ گئے۔ افراط زر میں تیزی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو شرح سود بڑھانا پڑ گیا اور ایسے بھی حکومت کا قرضوں کی ادائیگی کا حجم اور بھی بڑھ گیا چنانچہ واپس نجی بینکوں کے پاس بلآخر حکومت کو قرضے لینے کے لیے لوٹنا پڑا کہ پہلے قرضوں کی ادائیگی کا حجم تو بڑھے لیکن افراط زر نہ بڑھے جب کہ اس کی وجہ سے خود روپے قدر بھی تو نہ گرے۔


حال ہی میں افراط زر بڑھنے کی وجہ کوئی خرید و رسد میں عدم توازن نہیں تھا بلکہ پالیسی کی وجہ سے تھا۔ موصوف نے آتے ہی دو فیصد سیلز ٹیکس میں اضافہ کر دیا۔ وہ کام جو گزشتہ حکومت نے پانچ سالوں میں نہیں کیا۔ لیکن ڈار صاحب کے پاس Tax to GDP rate بڑھانا بہت اہم تھا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ سیلز ٹیکس لگنے سے چیزوں کی جو لاگت بڑھے گی وہ بلآخر صارفین کے گلے پڑ جائے گا، اس سے مہنگائی بڑھے گی جس سے گزشتہ حکومت آگاہی رکھتی تھی وہ آگاہی ڈار صاحب رکھنے سے قاصر نظر آئے۔ ہوا کیا، سیلز ٹیکس بھی بڑھا۔ مگر حقیقی قیمت میں ٹیکسز نہیں بڑھے۔ یعنی اگر دس فیصد سے اوپر افراط زر ہے اور دس فیصد Nominal Value میں ٹیکسز بڑھے تو فرق صفر ہوا۔ ہاں مگر ڈالر وہ فرق دس فیصد کے حساب سے اپنی قدر میں جذب کر گیا اور یہ سفر اگر اس طرح جاری رہا تو روپے کی قدر اور گرے گی۔ایوب خان کے زمانے میں 1960میں بھی ڈالر تین روپے تھا اور جب 1968 قریب آیا تو بھی ڈالر تین روپے تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی اس کے دور حکومت میں شرح نمود 7 فیصد رہا۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم شرح نمود بڑھائیں۔ کل ہی کہیں میاں صاحب نے کہا کہ پاکستان کی شرح نمود تین فیصد سے بڑھ کر اب پانچ فیصد سے اوپر ہو گئی ہے۔ وہ کیسے ہو گئی اس کے کوئی بھی شواہد میاں صاحب نہیں دے سکے اور ویسے بھی ہم شفاف انداز سے نہ ڈیٹا حاصل کرتے ہیں نہ اس کی کھپت اس طرح کرتے ہیں جس سے صحیح انداز میں ہمارے پاس تصویر آ سکے کہ ملک GDP (شرح نمود) کسی انداز بڑھ رہی ہے اور اگر اس طرح بڑھ رہے ہیں جیسا میاں صاحب کہتے ہیں تو خود اسی حوالے سے حکومت کو مزید پیسے ملتے ہیں اور ٹیکسز حاصل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کو قرضے کم لینے پڑ جائیں گے اور ایکسپورٹ بھی بڑھتی ہے جس سے ڈالر کی آمد و ترسیل بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً افراط زر پہ قابو پایا جا سکتا ہے اور اس طرح روپے کی قدر کو گرنے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔

ڈار صاحب اگر یہ کہتے ہیں کہ وہ ڈالر کو دوبارہ پہلے مرحلے میں یعنی 98 روپے پر لے آئیں گے، جو کہ ناممکن ہے۔ اگر وہ ایسا کر بھی پائیں تب بھی وہ کسی معاشیات دان کی آنکھ سے دیکھا جائے تو غلط ہو گا، جس سے Inflation نہیں مگر Deflation آئے گی۔ Export کرنے والی صنعت کی کمر بیٹھ جائے گی۔ اس کی لاگت ڈالر میں بڑھ جائے گی اور اس طرح سے وہ جو Bid Price اپنے بیرونی خریدار کو دے گا اس پر اس کا مسابقتی فائدہ غیر موثر ہوجائے گا۔

یہ مفروضہ انتہائی غیر منطقی اور بچگانہ ہے کہ ڈالر کی قیمت 1998کی سطح پر واپس آ جائے گی۔ اس کے برعکس یہ کہنا چاہیے کہ نچلی سطح پر دراصل ڈالر کی قیمت میں استحکام آئے گا اور اس طرح اگر ڈالر 105 پر بھی آ جائے تو بہت صحت مند بات ہے۔ اور اگر 107 پر ہی رہتا ہے اور کم از کم ایک سال اس سطح پر خریدا جاتا ہے تو بھی بڑی بات ہو گی۔ ڈار صاحب کو ایسی باتیں کرنی چاہئیں۔ نہ صرف کرنی چاہئیں بلکہ کر کے دکھانی چاہئیں۔ ڈالر کی قیمت پر جن چیزوں سے استحکام آئے گا وہ یہ ہیں۔ مثال کی طور پر جس طرح GSP Plus کا ہمیں یورپین یونین کی طرف سے اسٹیٹس ملنے سے ہماری ایکسپورٹ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔ اس سے روزگار کے مواقعے فراہم ہوں گے شرح نمود بڑھے گا۔ ایکسپورٹ و امپورٹ میں عدم توازن کم ہو گا۔ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر پڑے گا۔ہم اگر دہشت گردی یا مذہبی انتہا پرستی پر قابو پا جاتے ہیں اس سے بھی شرح نمود بڑھے گی اور یہ بھی ہو جائے کہ ہمارا ایران گیس پائپ لائن والا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچے، اس کے درمیان جو رکاوٹیں ہیں وہ اگر ختم ہو جاتی ہیں تو اس سے بھی شرح نمود میں اضافہ ہو گا۔ کوئی اور نہیں جانتا مگر حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر کا ڈالر کی نسبت گر جانا خود اس عمل کا مظہر Manifestation ہے۔
Load Next Story