فرض کیجیے…

سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات میں ایک بڑا حصہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی تھی۔۔۔

ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے ... مگر بات ایسی ہے کہ فرض کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے... اور دشواری یہ ہے کہ فرض کیے بغیر یہ سادہ سا سوال سمجھ میں بھی نہیں آئے گا، اس لیے ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر فرض کر ہی لیجیے کہ... کہ خاکم بدہن پاکستان کے چاروں صوبوں میں سے کوئی ایک بھارت کی 'مدد' سے اسی طرح آزاد ہو کر اپنی نئی شناخت بنا لیتا ہے جس طرح متحدہ ہندوستان سے پاکستان کے دونوں (مشرقی و مغربی) دھڑے 1947میں اور پھر... 1971 میں ہندوستان کی مدد سے مشرقی پاکستان نے پاکستانیت کی چادر اتار کر بنگلہ دیش کا روپ دھارا تھا... اور فرض کیجیے کہ آپ اسی صوبے کے رہائشی ہوں اور اتفاق سے آپ صرف اپنے صوبے یا زبان والوں سے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی شدید محبت میں بھی گرفتار ہوں، اتنا کہ اکثر یہ گنگناتے ہوئے آنکھوں میں آنسو بھر لاتے ہوں...ع

تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا

اور آپ کا عقیدے کی حد تک نظریہ ہو کہ ملکِ عزیز کا کونہ کونہ محترم اور چومنے کے لائق ہے تو ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ اس میں فرض کرنے کی بات ہی نہیں ہے کہ آپ یقیناً جان لڑا دیں گے کہ آپ کی زمین کا 'چاند روشن اور چمکتا ستارہ 'ہی رہے یعنی پاکستان ہی رہے، مشرقی پاکستان کی طرح بنگلہ دیش نہ بن جائے...لیکن فرض کیجیے کہ آپ بے پناہ قربانی دے کر بھی اپنی جنم بھومی کو 'روشن درخشاں اور تاباں' پاکستان کے جھنڈے تلے نہ رکھ پائیں اور آپ کی سر زمین ایک نئے لال پیلے جھنڈے، ایک نئے نعرے اور ملی نغموں کی ایک نئی کھیپ کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ظاہر ہو جائے اور ... اور آپ یکلخت اپنی ہی سر زمین پر اجنبی ہو جائیں... وہی زمین جس کی نسبت پاکیزہ رکھنے کے لیے آپ نے خون پسینے کی طرح بہایا ہو، آپ پر تنگ ہو جائے اور آسمان بے مہر ہو جائے...آپ اچانک محب وطن سے غدار قرار پائیں... اور یہ جوہری تبدیلی سالوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ چند دنوں میں واقع ہو جائے تو بتائیے آپ کیسا محسوس کریں گے؟

آپ ویسا ہی محسوس کریں گے جیسا 16دسمبر 1971 کی اس سرد شام میں ان لاکھوں پاکستانیوں نے محسوس کیا جنہوں نے اپنی آنکھوں سے لیلۃ القدر میں آزاد ہونے والی مملکت کے ایک ٹکڑے کو جس کے کونے کونے کو وہ چومنے کے لائق سمجھتے تھے، یکلخت اجنبی ہوتے دیکھا۔ جنہوں نے اپنے ہی کلمہ گو مسلمان بھائیوں کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت کی وہ چنگاریاں دیکھیں جو تقسیم کے وقت ہندو بنیوں اور سکھوں کی تلواروں اور کرپانوں کی کاٹ میں بھی نہ تھی۔ ان لاکھوں لوگوں نے جن کے دل میں پاکستان کی محبت ہلکورے لے رہی تھی، پھر آنیوالے چند دنوں میں وہ ظلم و ستم کی وہ ندیاں پار کیں کہ جن کا تصور بھی انسانیت کے لیے مشکل ہے ... اور ستم در ستم یہ کہ ظلم و درندگی اور سفاکیت و بہیمیت کی یہ خون رنگ داستانیں کبھی کھل کر بیان بھی نہیں کی گئیں۔


تقسیم کے وقت کے ظلم کے قصے اب کلاسک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں جن کو بیان کر کے ہم اردو ادب میں حزنیہ ادب کی کمی کو پورا کرتے ہیں... لیکن سقوط ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان جو بنگلہ دیش بن چکا تھا' میں جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، انھیں شاید دانستہ چھپا لیا گیا... کیوں؟؟... کیا اس لیے کہ تقسیم کے وقت ظلم کرنیوالے ہاتھ ہندوؤں اور سکھوں کے تھے اور 71 میں بے حرمتی کرنیوالے اور زندہ جلانے والے اپنے مسلمان بھائی ہی تھے!؟جی ہاں 3 دسمبر سے 17 دسمبر 1971 صرف چودہ دن رہنے والی اس جنگ میں وہ کچھ ہوا جو مسلمانوں کی تاریخ پر نہایت شرمناک دھبہ ہے۔ ان چودہ دنوں میں ہونے والے واقعات سے سرسری واقفیت نے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ان کا سر شرم سے جھک گیا۔ یہ ثابت ہو گیا کہ کسی مسلمان قوم اور ملک کے ظاہری اعمال اور دینی جوش و خروش کے مظاہرے پر اس وقت تک اعتبار نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کا اسلامی فہم 'جاہلیت' کے اثرات سے پاک نہ ہو جائے اور وہ اسلام کی نسبت و حمیت کو وطن، قوم، نسل اور زبان کی ہر نسبت پر ترجیح دینے والا نہ ہو۔

بے شک آج ثابت ہو گیا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات میں ایک بڑا حصہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی تھی، یہ حکمراں بنگالی زبان بولنے والوں کو حقیر سمجھتے تھے اور خود احساس برتری بلکہ حاکمانہ نخوت و غرور میں مبتلا تھے۔ لیکن اس کے ردعمل میں اُس 'جاہلیت' کا بھی کوئی جواز نہ تھا جو دسمبر 71 میں بنگلہ دیش میں روا رکھی گئی۔حضرت مولانا ابوالحسن ندوی المعروف علی میاں رحمہ اللہ اپنی سرگزشت حیات' کاروانِ زندگی' میں شایع سقوط ڈھاکہ کے چند دن بعد کی ایک تقریر میں کیا لرزہ خیز نقشہ کھینچتے ہیں: ''زبان و تہذیب کے جنون کی ایک تیز و تند لہر اٹھی اور دیکھتے دیکھتے صدیوں کی محنت پر پانی پھر گیا۔ مسلمان نے بے تکلف مسلمان کا گلا کاٹا، بے گناہ انسان اس طرح مارے گئے جیسے سانپ اور بچھو مارے جاتے ہیں، کسی کے دل میں ان مظلوموں کے لیے رحم کا جذبہ تھا نہ کسی کی آنکھ میں ان کے لیے کوئی آنسو، انسانوں کا شکار اس طرح کھیلا جا رہا تھا جیسے کسی جنگل میں درندوں، پرندوں کا اور کسی تالاب یا دریا میں مچھلیوں کا کھیلا جاتا ہے۔

مسجد میں نمازیوں پر بم پھینکے گئے اور بعض دوستوں نے بتایا کہ انسانوں کو زندہ بھی دفن کیا گیا۔ زبان کی 'وثنیت' (بت پرستی) عقیدۂ توحید پر، قوم پرستی اور نسل پرستی اسلامی وحدت پر اور حمیت جاہلیت اور عصبیت اخوتِ اسلامی پر اس طرح غالب آ کر رہی کہ ابتدائے اسلام سے آج تک کسی خطۂ زمین پر اس طرح غالب نہیں آئی تھی اور مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں کبھی اس طرح ذلیل نہیں ہوئے جس طرح اس زمانہ میں۔''اور آج بھی جب سقوط کو بیالیس سال گزر گئے، ان شہیدوں کی تیسری نسل اپنے دل میں پاکستان کی محبت کا الاؤ دہکائے مہاجر کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ برملا خود کو پاکستانی کہتے ہیں اور پاکستان کی محبت کی وجہ سے جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں ۔

غموں سے نڈھال، زخموں سے چور یہ سچے پاکستانی، یومِ پاکستان، یوم اقبال اور یوم قائداعظم سمیت دیگر قومی ایام منانا کبھی نہیں بھولتے۔ خستہ حال جھونپڑیوں میں محصور یہ زخم خوردہ لوگ ٹوٹی چپلیں پہنے اور بدن پر چیتھڑے لپیٹے پاکستان کے قومی ایام کے موقعے پر رہی سہی جان بھی قربان کرنے کا عہد تازہ کرتے ہیں۔ وہ اس یقین پر زندگی گزار رہے ہیں کہ ایک دن وہ پاک سرزمین کو چومنے کی سعادت حاصل کریں گے، اسی امید کے سہارے وہ آج بھی سبز ہلالی پرچم سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں۔ بے چارے نہیں جانتے کہ وہ جس پاکستان کی محبت میں مجنوں بنے خوار ہو رہے ہیں اور ان کے رہنما سقوط کے بیالیس سال بعد بھی ملک کو توڑنے سے بچانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکائے جا رہے ہیں، وہ لیلیٰ اب انھیں بھول کر صیاد سے پینگیں بڑھا رہی ہے اور امن کے گیت گا رہی ہے!!
Load Next Story