سرکلر ریلوے 5 سال بعد چلے گی

کراچی سرکلر ریلوے KCR پانچ سال کے بعد چلائی جائے گی، انتظامات کر لیے ہیں، کراچی کے شہریوں کو ایک بہترین تحفہ دیں گے۔۔۔

حکومت سندھ نے اعلان کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے KCR پانچ سال کے بعد چلائی جائے گی، انتظامات کر لیے ہیں، کراچی کے شہریوں کو ایک بہترین تحفہ دیں گے تا کہ ٹرانسپورٹ کے مارے ہوئے کراچی کے عوام بہتر سہولت حاصل کر سکیں۔ میرا چونکہ ریلوے سے گہرا تعلق تھا اور اب بھی ہے۔ میں کراچی میں 1945میں کراچی سٹی ریلوے کالونی میں پیدا ہوا۔ تقسیم ہند کا پتہ نہیں والد نور محمد خان (مرحوم) 1940 میں ریلوے میں ملازم ہو گئے تھے۔ سو میں بھی ریلوے کالونی میں پلا بڑھا۔ مختصر یہ کہ ایوب خان کے دور حکومت میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے زیادہ تر افراد کراچی آ گئے۔ کراچی شہر خالی تھا آبادی کم تھی لوگ آباد ہو گئے۔ ایوب خان کے ایک جنرل اعظم خان نے مہاجرین کی آبادی کو بسانے کے لیے لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈرگ کالونی میں رہائش کے لیے سرکاری کوارٹرز بنائے جہاں یہ لوگ آباد ہوئے۔ چونکہ ریلوے کا نظام موجود تھا اس لیے کراچی سٹی اسٹیشن تا لانڈھی تک لوکل ٹرینیں چلائی گئیں تا کہ اس میں عام مسافر اور رہائشی عوام سفر کر سکیں۔ 25 پیسے ٹکٹ مقرر کیا گیا اور اس طرح کراچی سٹی تا لانڈھی تک ٹرینیں چلائی گئیں۔ اسی دوران طے کیا گیا کہ پورے کراچی کو محفوظ کرنے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے بھی چلائی جائے تا کہ عوام کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ منصوبہ 1958 تا 1968تک مکمل ہونا تھا چونکہ کراچی کی آبادی بڑھ رہی تھی نئی نئی آبادیاں بن رہی تھیں۔ اس لیے لوکل ٹرین کا نظام ضروری تھا جب کہ کراچی میں ویگنیں اور بسوں کا نظام برائے نام تھا۔


کراچی سرکلر ریلوے کا پروگرام 1969 میں مکمل ہو گیا تھا۔ اس طرح کراچی سٹی تا لانڈھی، ملیر کینٹ، میل لائن پر لوکل ٹرینوں کے علاوہ پیسنجر کی میل ایکسپریس ٹرینیں بھی چلتی رہیں جو ڈرگ روڈ اور لانڈھی اسٹیشن پر کھڑی ہوتی تھیں بعد میں لوکل ٹرینوں کی تعداد بڑھا دی گئی چونکہ ایوب خان کے دور میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا قائم ہو چکا تھا پھر پاکستان انڈسٹریل ایریا (پی آئی ڈی سی) کے تحت سائٹ (SITE) میں بھی ملیں اور کارخانے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ لاکھوں مسافر ان ٹرینوں میں سفر کرنے لگے۔ کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیر کینٹ کے لیے 28 ٹرینیں اپ میں جاتی تھیں اور اسی طرح 28 ٹرینیں ڈاؤن میں آتی تھیں۔ بعد ازاں سرکلر ریلوے بھی چل پڑی جو لانڈھی ملیر کینٹ کے بعد ڈرگ روڈ اور ڈرگ کالونی سے براستہ ہوتی ہوئیں ڈپو ہل، کراچی یونیورسٹی، اردو سائنس کالج، (گیلانی) لیاقت آباد، ناظم آباد، اورنگی ٹاؤن، منگھو پیر، سائٹ (SITE) بلدیہ، لیاری اور وزیر مینشن سے (ٹاور) تک چلائی گئیں۔ بعدازاں 1970 میں وزیر مینشن سے توسیع کر کے کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) اور کراچی سٹی پر پلیٹ فارم نمبر 5-6 کا اضافہ کر کے اس پورے سرکل کو مکمل کر لیا گیا۔ اس طرح مکمل طور پر کراچی سرکلر ریلوے چل پڑی۔ جس پر لاکھوں مسافر 25 پیسہ ادا کر کے سفر کیا کرتے تھے مجھے یہ بھی اعزاز حاصل رہا ہے کہ جنوری 1970میں کراچی سٹی کے پلیٹ فارم نمبر 5-6 جو کہ نیشنل بینک ہیڈ آفس کے ساتھ منسلک ہے پہلا ٹکٹ میں نے جاری کیا جو کہ P.T.V پر دکھایا گیا۔

وائس چیئرمین ریلوے D.S کراچی نے لائن (Q) میں لگ کر مجھ سے ٹکٹ حاصل کیا اور 13 ٹرینیں اپ میں 13 ٹرینیں ڈاؤن میں چلنے لگیں اس طرح کل لوکل ٹرینیں41 اپ میں 41 ڈاؤن میں چلنے لگیں اس طرح کل 82 لوکل ٹرینیں روزانہ آنے اور جانے لگیں۔ ماہانہ ٹکٹ بھی بننے لگے طالب علموں کے لیے بھی رعایتی ماہانہ ٹکٹ جاری کیے گئے۔ یہ لوکل ٹرینیں 1995 تک بڑی کارآمد رہیں۔ کرایہ دو روپے، 5 روپے ، 7 روپے اور آخر میں 10 روپے ہو گیا۔ بعد میں ٹرانسپورٹ مافیا بھی آ گئی کرائے بڑھ گئے، جو فاصلہ کراچی سٹی تا لانڈھی55 منٹ کا تھا اب ایک گھنٹہ بیس منٹ 120 ہو گیا جب کہ سرکلر ریلوے کا ٹائم دو گھنٹے ہو گیا۔ بغیر ٹکٹ کا رجحان بڑھ گیا۔ ٹرینیں لیٹ ہونا شروع ہو گئیں، خسارہ بڑھ گیا۔ اس طرح ریلوے کے چیئرمین جو بعد میں وزیر ریلوے بھی بنے جو پرویز مشرف کی حکومت میں تھے جن کا نام جاوید اشرف قاضی ریٹائرڈ جنرل تھے۔ 1999 میں سرکلر کی لوکل ٹرینیں خسارے کا بہانہ بنا کر بند کر دی گئیں۔ اس طرح 1999 سے سرکلر ریلوے بند پڑی ہے۔ بعد میں اس کو چلانے کا منصوبہ 2005 میں بنایا گیا۔ تاحال سرکلر ریلوے نہیں چلی، اب آخر میں پھر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، شہری حکومت کو خیال آیا کہ سرکلر ریلوے چلنی چاہیے، سو اب میں نئی صورت حال کے تحت جو کہ اخبارات کو میڈیا کے لیے خبریں بھی بن رہی ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے جاپان کی حکومت کے تعاون سے 5 سال بعد چل پڑے گی جس پر 240 ارب روپے خرچ آئے گا 6 لاکھ مسافر روزانہ سفر کریں گے کرایہ 16 روپے تا 24 روپے ہو گا۔ ریلوے میں 34 اسٹیشن بنائے جائیں گے انڈر گراؤنڈ اور اونچی سطح پر بھی ٹرین چلے گی اور زمین پر چلے گی دیکھیں کب چلے گی شہری منتظر رہیں گے۔
Load Next Story