کل کا کراچی آج تک
اس روز اس غزل نے اس لیے بھی دل میں جگہ نہیں بنائی کہ اس کے کہنے والے احمد فراز تھے بلکہ اس کا سبب ایک اور بھی تھا۔
وہ پوری رات ہم نے آنکھوں میں گزاردی، سبب اس کا کوئی مجبوری نہیں بلکہ ذوق و شوق کی وہ کیفیت تھی، لڑکپن میں جس کی آبیاری استاد محترم پروفیسر سید ارشاد حسین نقوی اور پروفیسرڈاکٹر خورشید رضوی کی مبارک صحبت میں ہوئی۔
کراچی کے مشاعروں کی شہرت سن رکھی تھی ۔ ایک مشاعرے کی تحریری جھلکیاں تو آج بھی حافظے کا حصہ ہیں جن میں ابوالاثر حفیظ جالندھری ، احمد ندیم قاسمی اور دیگراساتذہ فن نے لوگوں کو اپنے کلام سے سرفراز کرنے کے علاوہ جملے بازی کی تہذیب سے بھی آشنا کیا تھا۔
بیچ میں کچھ برس ایسے بھی آئے جن میں تہذیبی سرگرمیاں تعطل کا شکار رہیں۔ اتنے برسوں کے بعد جب مشاعرے کا اہتمام ہوا تو سچی بات یہ ہے کہ شہر میں خوشی اور جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔یہ وہی مشاعرہ ہے جس میں احمد فراز نے اپنی وہ معروف غزل پہلی بار پڑھی تھی ؎
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اس روز اس غزل نے اس لیے بھی دل میں جگہ نہیں بنائی کہ اس کے کہنے والے احمد فراز تھے بلکہ اس کا سبب ایک اور بھی تھا۔مشاعرہ جما ہوا تھا اور ہندوستان کی ایک شاعرہ کا ترنم سامعین کو مسحور کیے ہوئے تھا کہ اچانک اس میں کچھ خلل پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق تشریف لائے ہیں۔ اُن کی آمدکا اعلان ہوا تو لوگوں نے خوش دلی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا کہ اہل سیاست نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تہذیبی اور ادبی سرگرمیوں میں خود کو شریک کر کے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔
ان کے استقبال کا غلغلہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ ایک اور ہنگامے نے مشاعرے میں کھنڈت ڈال دی۔یہ افراتفری دیر تک جاری رہی لیکن مشاعرے کے سامعین بڑے صبر کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔اس مشاعرے کے سامعین بھی بڑے باذوق تھے، ان میں سے بیشتر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئے تھے۔گویا یہ ایک ایسا تہذیبی واقعہ تھا جس کی تربیت اور روایت کی منتقلی کے لیے تمام اہل خانہ کی موجودگی ضروری تھی۔
کراچی والے بیٹھنے کے لیے چاندنیاں اور تازہ دم ہو جانے کے چائے قہوے کے تھرماس بھی اپنے گھروں سے لائے تھے۔ جلد ہی معلوم ہو گیا، یہ ہنگامہ ''مجذوب'' شاعر جون ایلیا کے ایک جملے سے شروع ہوا جوعظیم احمد طارق کی آمد پر ان کی زبان سے بے ساختہ پھسلا اور ان کی جان کو خطرے میں ڈال گیا۔
اس ہنگامہ آرائی میں منتظمین کو کچھ اور نہ سوجھا تو انھوں نے احمد فراز کو مدعو کر لیا۔ اپنے دیس کے اس البیلے شاعر کو سننے کا یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا لیکن دو تہائی بیتی ہوئی رات کی خنکی میں جب انھوں نے اپنے پرسکون ،ہموار اور مخمورلہجے میں پہلا مصرعہ ادا کیا۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو یقین جانئے جیسے بھڑکتے ہوئے شعلوں پر شبنم کی پھوار برس گئی ہو، پھر یہ مشاعرہ ایسا جما کہ فجر کی آذانوں کے بعد تک جاری رہا۔یہ اسی دن کی بات ہے ابھی نیند پوری نہیں ہوئی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور اس کے بعد میں نیند آرام چھوڑ کر ایئر پورٹ کی طرف بھاگا۔لاہورسے میرے رشتے کے بھائی محمود فاروقی آرہے تھے۔ محمود فاروقی سے خون کا رشتہ تو تھا ہی لیکن ان سے میرا ایک اور بھی رشتہ تھا۔
وہ بڑے صاحب ذوق تھے، ان کے پاس کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ بہت سی ایسی کتابیں جن کا میں نے صرف نام ہی سن رکھا تھا، ان کے ہاں ہی دیکھیں اور پڑھیں۔ شاعری سے بھی شغف تھا لیکن اس روز ان سے جو ملاقات ہوئی، اس میں؛میں نے ان کا ایک اور گن بھی دیکھا۔اپنی کاروباری مصروفیات سے نمٹ کر مجھ سے کہنے لگے کہ گاڑی میں پیٹرول ڈلواؤ اور نکل پڑو، میں اس شہر کو یوں دیکھنا چاہتا ہوں جیسے کوئی کسی کو بے دھیانی میں پکڑتا ہے۔
یہ آوارہ گردی کوئی دو روز تک جاری رہی۔ واپسی پر یہ کہتے ہوئے مجھ سے گلے ملے کہ بھاگ اوئے محمود! پوچھا کہ خیریت بھائی جان؟کہنے لگے کہ اس شہر میں کوئی آسیب ہے جو اسے ویران کیے دیتا ہے۔اُس رات کا مشاعرہ، اس میں ہونے والاہنگامہ اور شہر والوں کے صبر کے بے مثال مظاہرے نے اس شہر کے مزاج کے کچھ مجھ پرپہلو آشکار کیے تھے۔ اس کے فوراًبعد محمود بھائی کا یہ تبصرہ، میں چکرا کر رہ گیا ۔ یہ دیکھ کرانھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا کہ آؤ دیکھتے ہیں۔
یہ ان زمانوں کی بات ہے جب کراچی کا نیا ایئر پورٹ یعنی جناح انٹر نیشنل ابھی پرانا نہیں ہوا تھا۔ وہ مجھے اسی نئے ایئر پورٹ کے کچھ ایسے گوشوں میں لے گئے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ ایک روز قبل ہاکی اسٹیڈیم ہمارا جانا ہوا تھا۔یہ عمارت ایک زمانے میں شہر کاحسن سمجھی جاتی تھی ،سمیع اللہ کلیم اللہ کی ہاکیاں جب حریفوں کو ڈاج دیتے ہوئے گول پر گول کیا کرتی تھیں، یہاں کراچی والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے مگر وہ پہلی بار تھی جب میں نے دیکھا کہ وہ شاندار اسٹیڈیم جس کی رونقیں شہر کے اجتماعی حافظے میں آج بھی زندہ ہیں، کسمپرسی کا شکار تھا، کئی جگہ سے اس کی چار دیواری کے بلاک گرے ہوئے تھے اور بیٹھنے والی سیڑھیاں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔
محمود بھائی نے ایک ایک کر کے شہر کے بعض دیگر اہم علاقوں اور عمارتوں کے مناظر کا ذکر کیا اور کہا کہ جانتے ہو ، اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ پھر کہا، بے اعتنائی۔ یہ شہر بے اعتنائی کا شکار ہے۔ میں شہر والوں کو کچھ نہیں کہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اختیار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ اس شہر کو Ownنہیں کرتے۔وہ شہر اور اس کے وسائل سے مستفید تو ہوتے ہیں لیکن اس کا حق اسے لوٹانے پر یقین نہیں رکھتے۔
ابھی کچھ دیر ہوئی ہے جب فیس بک پر میں نے لبنیٰ کی ایک پوسٹ دیکھی ۔ لبنیٰ میری بھتیجی اور شعر و ادب کی طالب علم ہے، کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنی پوسٹ میں احمد فراز کی وہ پوری غزل لکھ دی جسے سننے کا اتفاق مجھے تب ہوا جب وہ پہلی بار کسی مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔اس طرح کراچی کے ان دنوں کی یاد تازہ ہو گئی جس نے آج کے کراچی کے لیے بنیاد کا کام دیا۔ اس غزل کا ایک شعر تو ایسا ہے جو بالکل کراچی کے حسب حال ہے ؎
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
بات یہ ہے کہ قومی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خراب حالوں نے اس شہر کو پکارا اور اس شہر نے بڑی وارفتگی کے ساتھ لبیک کہا اور خود کو برباد کیا۔لوگ اسے پکارتے گئے، اپنا کام نکالتے گئے لیکن پلٹ کر کسی نے بھی شہر والوں کی طرف نہ دیکھا۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے دوران میں اس شہر پر جو بیتی، آج کا کراچی اسی کا نتیجہ ہے۔ سونے والے انگڑائی لے کر بیدار ہو جائیں اور پورے خلوص اور تندہی کے ساتھ کراچی کو اس کیفیت سے نکالیں ، اسی میں سب کا بھلاہے۔
کراچی کے مشاعروں کی شہرت سن رکھی تھی ۔ ایک مشاعرے کی تحریری جھلکیاں تو آج بھی حافظے کا حصہ ہیں جن میں ابوالاثر حفیظ جالندھری ، احمد ندیم قاسمی اور دیگراساتذہ فن نے لوگوں کو اپنے کلام سے سرفراز کرنے کے علاوہ جملے بازی کی تہذیب سے بھی آشنا کیا تھا۔
بیچ میں کچھ برس ایسے بھی آئے جن میں تہذیبی سرگرمیاں تعطل کا شکار رہیں۔ اتنے برسوں کے بعد جب مشاعرے کا اہتمام ہوا تو سچی بات یہ ہے کہ شہر میں خوشی اور جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔یہ وہی مشاعرہ ہے جس میں احمد فراز نے اپنی وہ معروف غزل پہلی بار پڑھی تھی ؎
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اس روز اس غزل نے اس لیے بھی دل میں جگہ نہیں بنائی کہ اس کے کہنے والے احمد فراز تھے بلکہ اس کا سبب ایک اور بھی تھا۔مشاعرہ جما ہوا تھا اور ہندوستان کی ایک شاعرہ کا ترنم سامعین کو مسحور کیے ہوئے تھا کہ اچانک اس میں کچھ خلل پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق تشریف لائے ہیں۔ اُن کی آمدکا اعلان ہوا تو لوگوں نے خوش دلی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا کہ اہل سیاست نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تہذیبی اور ادبی سرگرمیوں میں خود کو شریک کر کے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔
ان کے استقبال کا غلغلہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ ایک اور ہنگامے نے مشاعرے میں کھنڈت ڈال دی۔یہ افراتفری دیر تک جاری رہی لیکن مشاعرے کے سامعین بڑے صبر کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔اس مشاعرے کے سامعین بھی بڑے باذوق تھے، ان میں سے بیشتر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئے تھے۔گویا یہ ایک ایسا تہذیبی واقعہ تھا جس کی تربیت اور روایت کی منتقلی کے لیے تمام اہل خانہ کی موجودگی ضروری تھی۔
کراچی والے بیٹھنے کے لیے چاندنیاں اور تازہ دم ہو جانے کے چائے قہوے کے تھرماس بھی اپنے گھروں سے لائے تھے۔ جلد ہی معلوم ہو گیا، یہ ہنگامہ ''مجذوب'' شاعر جون ایلیا کے ایک جملے سے شروع ہوا جوعظیم احمد طارق کی آمد پر ان کی زبان سے بے ساختہ پھسلا اور ان کی جان کو خطرے میں ڈال گیا۔
اس ہنگامہ آرائی میں منتظمین کو کچھ اور نہ سوجھا تو انھوں نے احمد فراز کو مدعو کر لیا۔ اپنے دیس کے اس البیلے شاعر کو سننے کا یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا لیکن دو تہائی بیتی ہوئی رات کی خنکی میں جب انھوں نے اپنے پرسکون ،ہموار اور مخمورلہجے میں پہلا مصرعہ ادا کیا۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو یقین جانئے جیسے بھڑکتے ہوئے شعلوں پر شبنم کی پھوار برس گئی ہو، پھر یہ مشاعرہ ایسا جما کہ فجر کی آذانوں کے بعد تک جاری رہا۔یہ اسی دن کی بات ہے ابھی نیند پوری نہیں ہوئی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور اس کے بعد میں نیند آرام چھوڑ کر ایئر پورٹ کی طرف بھاگا۔لاہورسے میرے رشتے کے بھائی محمود فاروقی آرہے تھے۔ محمود فاروقی سے خون کا رشتہ تو تھا ہی لیکن ان سے میرا ایک اور بھی رشتہ تھا۔
وہ بڑے صاحب ذوق تھے، ان کے پاس کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ بہت سی ایسی کتابیں جن کا میں نے صرف نام ہی سن رکھا تھا، ان کے ہاں ہی دیکھیں اور پڑھیں۔ شاعری سے بھی شغف تھا لیکن اس روز ان سے جو ملاقات ہوئی، اس میں؛میں نے ان کا ایک اور گن بھی دیکھا۔اپنی کاروباری مصروفیات سے نمٹ کر مجھ سے کہنے لگے کہ گاڑی میں پیٹرول ڈلواؤ اور نکل پڑو، میں اس شہر کو یوں دیکھنا چاہتا ہوں جیسے کوئی کسی کو بے دھیانی میں پکڑتا ہے۔
یہ آوارہ گردی کوئی دو روز تک جاری رہی۔ واپسی پر یہ کہتے ہوئے مجھ سے گلے ملے کہ بھاگ اوئے محمود! پوچھا کہ خیریت بھائی جان؟کہنے لگے کہ اس شہر میں کوئی آسیب ہے جو اسے ویران کیے دیتا ہے۔اُس رات کا مشاعرہ، اس میں ہونے والاہنگامہ اور شہر والوں کے صبر کے بے مثال مظاہرے نے اس شہر کے مزاج کے کچھ مجھ پرپہلو آشکار کیے تھے۔ اس کے فوراًبعد محمود بھائی کا یہ تبصرہ، میں چکرا کر رہ گیا ۔ یہ دیکھ کرانھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا کہ آؤ دیکھتے ہیں۔
یہ ان زمانوں کی بات ہے جب کراچی کا نیا ایئر پورٹ یعنی جناح انٹر نیشنل ابھی پرانا نہیں ہوا تھا۔ وہ مجھے اسی نئے ایئر پورٹ کے کچھ ایسے گوشوں میں لے گئے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ ایک روز قبل ہاکی اسٹیڈیم ہمارا جانا ہوا تھا۔یہ عمارت ایک زمانے میں شہر کاحسن سمجھی جاتی تھی ،سمیع اللہ کلیم اللہ کی ہاکیاں جب حریفوں کو ڈاج دیتے ہوئے گول پر گول کیا کرتی تھیں، یہاں کراچی والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے مگر وہ پہلی بار تھی جب میں نے دیکھا کہ وہ شاندار اسٹیڈیم جس کی رونقیں شہر کے اجتماعی حافظے میں آج بھی زندہ ہیں، کسمپرسی کا شکار تھا، کئی جگہ سے اس کی چار دیواری کے بلاک گرے ہوئے تھے اور بیٹھنے والی سیڑھیاں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔
محمود بھائی نے ایک ایک کر کے شہر کے بعض دیگر اہم علاقوں اور عمارتوں کے مناظر کا ذکر کیا اور کہا کہ جانتے ہو ، اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ پھر کہا، بے اعتنائی۔ یہ شہر بے اعتنائی کا شکار ہے۔ میں شہر والوں کو کچھ نہیں کہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اختیار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ اس شہر کو Ownنہیں کرتے۔وہ شہر اور اس کے وسائل سے مستفید تو ہوتے ہیں لیکن اس کا حق اسے لوٹانے پر یقین نہیں رکھتے۔
ابھی کچھ دیر ہوئی ہے جب فیس بک پر میں نے لبنیٰ کی ایک پوسٹ دیکھی ۔ لبنیٰ میری بھتیجی اور شعر و ادب کی طالب علم ہے، کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنی پوسٹ میں احمد فراز کی وہ پوری غزل لکھ دی جسے سننے کا اتفاق مجھے تب ہوا جب وہ پہلی بار کسی مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔اس طرح کراچی کے ان دنوں کی یاد تازہ ہو گئی جس نے آج کے کراچی کے لیے بنیاد کا کام دیا۔ اس غزل کا ایک شعر تو ایسا ہے جو بالکل کراچی کے حسب حال ہے ؎
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
بات یہ ہے کہ قومی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خراب حالوں نے اس شہر کو پکارا اور اس شہر نے بڑی وارفتگی کے ساتھ لبیک کہا اور خود کو برباد کیا۔لوگ اسے پکارتے گئے، اپنا کام نکالتے گئے لیکن پلٹ کر کسی نے بھی شہر والوں کی طرف نہ دیکھا۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے دوران میں اس شہر پر جو بیتی، آج کا کراچی اسی کا نتیجہ ہے۔ سونے والے انگڑائی لے کر بیدار ہو جائیں اور پورے خلوص اور تندہی کے ساتھ کراچی کو اس کیفیت سے نکالیں ، اسی میں سب کا بھلاہے۔