ایک ممکنہ وزیراعظم کا انتخابی حلقہ

عمران خان بھی تو انقلاب لانے کے دعوے دار ہیں۔ اسی لیے تو انھوں نے اپنی جماعت کو ’’تحریک‘‘ کا نام دے رکھا ہے

nusrat.javeed@gmail.com

KARACHI:
جناح انسٹی ٹیوٹ ایک تھنک ٹینک ہے۔ شیری رحمٰن جب وزارتِ اطلاعات سے فارغ ہوئیں تو کچھ عرصہ میڈیا اور عملی سیاست سے دور رہ کر آیندہ کے منصوبے بناتی رہیں۔

ان ہی دنوں اس تھنک ٹینک کا خیال ان کے ذہن میں آیا۔ شیری ایک محنتی خاتون ہیں۔ دھن کی بھی پکی۔ چند ہی دنوں میں انھوں نے اپنی سوچ کو ایک سچ مچ کے ادارے کی صورت عطاء کردی۔ بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان اس ادارے کے لیے بڑی سوچ بچار اور تحقیق کے بعد مقالے اور کتابیں تیار کیا کرتے ہیں۔ وہ خود تو ہماری سفیر بن کر امریکا چلی گئی ہیں۔

مگر ان کا بنایا ادارہ بڑی توانائی سے اپنے کام میں مصروف ہے۔ اس ادارے سے متعلقہ کچھ نوجوان اپنی ''ذاتی حیثیت'' میں انگریزی اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔ جناح انسٹی ٹیوٹ کا ان مضامین لکھنے والوں کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ ایسے مضمون نگاروں میں ایک آفریدی صاحب بھی ہیں۔ ان کا عمران خان کے بارے میں لکھا ایک مضمون بدھ کے روز ایک ہم عصر میں شائع ہوا۔ میری انگریزی واجبی سی ہے۔ اسی لیے مجھے اس مضمون کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ایک نہیں دوبار پڑھنا پڑا۔

آفریدی صاحب نے اپنے مضمون کا آغاز کچھ اس انداز سے کیا جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ شاید وہ علمی تجزیے کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ عمران خان، تحریک انصاف کے لاہور میں ہونے والے 30 اکتوبر کے جلسے کے بعد بدلے بدلے سے کیوں نظر آ رہے ہیں۔ لوگ یہ کیوں محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ ''سونامی'' میں اب وہ دہشت اور گھن گرج باقی نہیں رہی جو سال گزشتہ کے آخری تین مہینوں میں بڑی شدت کے ساتھ نظرآ رہی تھی۔

یہ مضمون پڑھنے کے بعد میں یہ سمجھا کہ آفریدی صاحب کی نظر میں عمران خان اور ان کی جماعت کی عوام میں مقبولیت اپنی جگہ بدستور قائم ہے۔ مگر ہمیں اس جماعت کا طمطراق اس وجہ سے مدھم مدھم سا نظر آ رہا ہے کیونکہ اس کی صفوں میں عمران خان کے پرانے ورکروں اور دوسری جماعتیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنے والی بھاری بھرکم سیاسی شخصیتوں کے درمیان شدید چپقلش ہو رہی ہے۔

عمران خان مگر اس کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔ بڑی ہوشیاری سے وہ آہستہ آہستہ اس امرکو یقینی بنا رہے ہیں کہ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے تحریک انصاف کے کارکنوں کی بھرپور شرکت کے ذریعے وہ اپنی جماعت میں زیریں ترین مقامی سطح سے بلند ترین مرکزی سطح تک کے عہدوں کے لیے انتخابات کرا دیں۔ پشاور سے کراچی اور ٹانک سے گوادر تک پھیلی ایک مقبول عام سیاسی جماعت میں اس طرح کے انتخابات یقیناً ایک معجزے سے کم نہ ہوں گے۔ یہ ہو گئے تو تحریک انصاف ایک طویل المدت بنیادوں پر زندہ رہنے والی جماعت بن جائے گی۔

اسی طرح جیسے بھارت میں کانگریس گاندھی اور نہرو کے مرجانے کے بعد بھی زندہ ہے اور پاکستان میں مسلم لیگ قائد اعظم کے 1948ء میں وفات پا جانے کے بعد بھی۔ یہی بات ہم ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مودودی کے بعد پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے موجود رہنے کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔


آپس کی بات ہے کہ جن دقیق دلائل کے ذریعے آفریدی صاحب نے تحریک انصاف کی طویل العمری کے امکانات سمجھانے کی کوشش کی، میں نے ان پر زیادہ غور نہ کیا۔ بطور ایک چسکہ تلاش سیاسی رپورٹر کے مجھے اس مضمون کے آخری حصے نے البتہ چونکا دیا۔ اپنی اختتامی سطروں میں آفریدی صاحب نے ہمیں اس امر پر تیار کرنے کی کوشش کی کہ آیندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان اپنی بجائے اسد عمر کو وزیر اعظم بھی نامزد کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ صدر پاکستان کا عہدہ بھی اپنی جماعت کے کسی اور رہنما کی نظرکر دیں۔ میرے خبطی ذہن کو یہ دونوں باتیں خوشگوار انہونیاں محسوس ہوئیں۔

مگر سیانے یہ بھی تو کہتے ہیں کہ نمک کی کان میں داخل ہو کر وہاں کام کرنے والے خود بھی نمک بن جایا کرتے ہیں۔ میں نے خود تو سیاست کبھی نہیں کی مگر 1985ء سے مسلسل منتخب اور فارغ کر دی جانے والی اسمبلیوں کے ذریعے بنتی مٹتی حکومتوں کو بہت قریب سے دیکھ کر رپورٹ کیا ہے۔ شاید اس Status-Quo کو برقرار رکھنے والی سیاست کو اتنے عرصے سے بھگتنے کے بعد میرا اپنا ذہن بھی کند ہو گیا۔ میں نئے خیالات اور امکانات سوچ ہی نہیں پاتا۔

آفریدی صاحب کا مضمون پڑھا تو خیال آیا کہ ساری زندگی سیاست کی نذر کر دینے کے باوجود موہن چند کرم داس گاندھی نے بھارت کو آزادی مل جانے کے بعد اس ملک کا گورنر جنرل یا وزیر اعظم بننے کے بجائے ''مہاتما'' بنے رہنے پر اکتفا کیا تھا۔ 1947ء تو دور کی بات ہے، میری آنکھوں کے سامنے برسوں تک پھیلی جدوجہد کے بعد آیت اﷲ روح اﷲ خمینی نے جب انقلاب ایران برپا کیا تو بجائے تہران کے صدارتی محل میں جانے کے قم کی اسی درسگاہ میں رہنے کا فیصلہ کیا جہاں سے انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔

عمران خان بھی تو انقلاب لانے کے دعوے دار ہیں۔ اسی لیے تو انھوں نے اپنی جماعت کو ''تحریک'' کا نام دے رکھا ہے۔ اقتدار کا حصول اس تحریک کی منزل نہیں۔ آیندہ انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف کو تو اس ملک میں حقیقی تبدیلی کا آغاز کرنا ہے۔ اقتدار تو تبدیلی کے عمل کی طرف بڑھنے کی پہلی سیڑھی ہے۔ انقلابی عمل کے تسلسل اور استقلال کے لیے عمران خان شاید اپنی جگہ اور لوگوں کو صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کے لیے نامزد کریں۔

شاید یہ لوگ اسی طرح کے ''اہل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' ہوں گے جن کی حکومت بنانے کے خواب آج سے تین ماہ پہلے تک بڑے خلوص سے دیکھے اور دکھائے جا رہے تھے۔ اسد عمر صاحب کا نام اس حکومت کے ممکنہ سربراہوں میں نمایاں طور پر لیا جا رہا تھا۔ اب یہ بھی سمجھ آ رہی ہے کہ عمر صاحب نے اس ضمن میں اپنا نام گردش کرنے سے بے اعتنائی کیوں برتی۔ عمران خان کے ذریعے اگر انھیں عوام کی بھرپور شرکت سے قائم ہونے والی جمہوری حکومت کی قیادت مل سکتی ہے تو وہ عدلیہ یا فوج کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی کی گئی عبوری مگر ''قومی حکومت'' کی سربراہی پر کیوں آمادہ ہوں؟

آفریدی صاحب کا مضمون پڑھنے کے بعد میرے اندر کا سیاسی رپورٹر تو اب وہ حلقہ ڈھونڈنا شروع ہوگیا ہے جہاں سے اسد عمر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بنیں گے۔ فوری طورپر میرے ذہن میں تو کراچی کا وہ حلقہ آیا جہاں ووٹروں کی اکثریت پڑھی لکھی اور نسبتاََ خوش حال ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں وہاں پیپلز پارٹی کے اشتیاق بیگ اور ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔ خوش بخت بالآخراس ضمن میں اسم مسمیٰ ثابت ہوئیں۔

اسد عمر کے اسی حلقے سے جیت کے کافی روشن امکانات دیکھتے ہوئے میرا مشورہ پھر بھی یہی ہوگا کہ مستقبل کے اس وزیر اعظم کے لیے احتیاطاََ ایک اور حلقہ بھی ڈھونڈ لیا جائے۔ بہتر تو یہی ہے کہ وہ پنجاب کے اس حلقے سے بھی کھڑے ہوں جہاں ان کا مقابلہ براہِ راست نواز شریف سے ہو۔ Status-Quo کو ابھی تک بچائے رکھنے والی دو جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو حقیقی شکست سے دو چار کرنے کے لیے اس بات میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ اسد عمر کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لاڑکانہ کے کسی حلقے سے بھی جتوا کر قومی اسمبلی میں لایا جائے۔
Load Next Story