متحدہ عرب امارات اسرائیل اور ایران

تو کیا واقعی امارات کو ایران سے خطرہ ہے کہ جس کے مفروضے پر یہ ساری تعلقاتی عمارت کھڑی کی گئی؟

ایک زمانہ تھا کہ سب عرب بھلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں مگر اس نکتے پر متفق تھے کہ اسرائیل عربوں کا مشترکہ دشمن ہے اور اسرائیل کا وجود ناجائز ہے۔پھر جیسا کے ہوتا ہے۔مصر نے اسرائیل سے تین جنگیں ہارنے کے بعد اسرائیل دشمنی کے شیشے میں سمجھوتے کا پہلا پتھر مارا۔جن جن عرب حکمرانوں نے اسرائیل کو ابھرتے دیکھا تھا۔

ان میں سے اکثر رفتہ رفتہ وقت کی دھند میں معدوم ہوتے گئے اور ان کی جگہ جس نئی نسل نے لی اس کے لیے اسرائیل محض ورثے میں ملی دشمنی کا نام تھا۔چنانچہ گزشتہ نسل کے برعکس حکمرانوں کی نئی نسل کا فلسطینی کاز سے کمٹمنٹ رسمی رہ گیا۔اس نئی نسل کے دشمنی چارٹ میں اسرائیل کی جگہ ایران، جہاد پرستوں اور آزادی کی خواہاں پڑھی لکھی بے روزگار نسل نے لے لی۔یوں حکمرانوں کی پرانی نسل جو وسائل اسرائیل کے خلاف یکجا کرتی تھی ان کے ورثا نے وہی وسائل نئے دشمنوں کے خلاف اور اپنا علاقائی اثرونفوذ بڑھانے میں جھونکنا منظور فرمایا۔

اس تناظر میں اگر خلیجی ریاستوں میں سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ دیکھی جائے تو دیگر خلیجی ریاستوں کے اسرائیل سے معاملات سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔

متحدہ عرب امارات کے پہلے صدر شیخ زید بن سلطان النہیان کا انتقال نومبر دو ہزار چار میں ہوا۔ان کی جگہ ان کے بڑے بیٹے خلیفہ بن زید النہیان نے سنبھالی۔ان کے چھوٹے بھائی محمد بن زید النہیان ولی عہد اور اماراتی افواج کے نائب سپریم کمانڈر مقرر ہوئے۔

کہا جاتا ہے کہ جس طرح سعودی عرب میں گزشتہ چار برس سے بیشتر اختیارات ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہیں اسی طرح متحدہ عرب امارات میں اہم فیصلہ سازی پر ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہیان کے ہاتھ میں ہے۔جس طرح سعودی ولی عہد محمد بن سلمان میڈیا میں ایم بی ایس کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اسی طرح ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید ایم بی زیڈ کے مخفف سے پہچانے جاتے ہیں۔

دونوں کی ذہنی ہم آہنگی بھی مثالی ہے۔مثلاً یمن میں مشترکہ فوجی مداخلت ایم بی ایس اور ایم بی زیڈ کا مشترکہ آئیڈیا تھا۔قطر کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے اس کی معاشی ناکہ بندی کی حکمتِ عملی کے نشانات بھی ایم بی ایس اور ایم بی زیڈ کے محلات تک پہنچتے ہیں۔

مصر میں جنرل عبدالفتح السسی کی آمریت کی مکمل پشت پناہی ہو کہ لیبیا میں قومی حکومت کو چیلنج کرنے والے جنرل خلیفہ ہفتر کو اسلحے اور کرائے کے فوجیوں کی فراہمی ہو یا پھر سوڈان پر جمہوریت پسندوں کے مقابلے میں فوج کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے فوجی قیادت کی پوشیدہ پشت پناہی ہو ، یا پھر بھارت کے ساتھ اقتصادی و اسٹرٹیجک تعلقات کا دائرہ پھیلانے کے اقدامات ہوں یا پھر ترکی کے اثر و نفوذ کو خلیج ، مشرقی بحیرہ روم اور لیبیا سمیت شمالی افریقہ میں مغربی طاقتوں کی پشت پناہی کے ساتھ چیلنج کرنے کا مقصد ہو یا پھر ایران کی عسکری، جوہری اور اقتصادی ناکہ بندی کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ وسیع تر اتحاد کے معاملات ہوں۔ایم بی زیڈ اور ایم بی ایس میں کمال تال میل ہے۔

ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ شیخ زید بن سلطان کی دو ہزار چار میں وفات کے بعد متحدہ عرب امارات کی اسرائیل پالیسی میں رفتہ رفتہ تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اس کا پہلا اشارہ تب ملا جب امریکا میں متعین اسرائیلی و اماراتی سفیروں نے مشترکہ طور پر جنوری دو ہزار نو میں برسرِ اقتدار آنے والی اوباما انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے تعلق سے کوئی بنیادی لچک نہ دکھائے بصورتِ دیگر علاقے میں امریکی اتحادیوں کے لیے بقائی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے مگر اوباما انتظامیہ نے ایران کے ساتھ کسی بین الاقوامی سمجھوتے تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھی نیز مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاری کی حکمتِ عملی سے اختلاف کے نتیجے میں امریکا اسرائیل تعلقات بھی سرد مہری کی زد میں آ گئے۔

سولہ جنوری دو ہزار دس کو اسرائیلی وزیرِ تعمیرات اوزی لنڈاؤ نے ابوظہبی میں توانائی کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر کی امارات کی سرزمین پر پہلی آمد تھی۔مگر اس کے صرف تین روز بعد دبئی میں ایک ایسی واردات ہوئی جس کے سبب اماراتی ریاستی نظام ہل کے رہ گیا۔

انیس جنوری دو ہزار دس کو دبئی کے ایک ہوٹل کے ایک کمرے میں فلسطینی تنظیم حماس کے ایک کمانڈر محمود المبوح مردہ حالت میں پائے گئے۔ایک دن پہلے ہی اس ہوٹل میں مختلف یورپی ممالک کے پاسپورٹوں پر چھبیس افراد چیک ان ہوئے تھے۔اور وہ سب کے سب محمود المبوح کی لاش ملنے سے پہلے ہی چیک آؤٹ ہو کر متحدہ عرب امارات سے پرواز کر گئے۔

چند ہی دن میں پتہ چل گیا کہ یہ چھبیس غیر ملکی دراصل اسرائیلی ایجنٹ تھے جو یورپی یونین کے جعلی پاسپورٹوں پر سفر کر رہے تھے۔ محمود المبوح کے قتل کی بنیادی منصوبہ بندی موساد کے سربراہ مئیردگان نے کی تھی۔دبئی پولیس نے ان سمیت متعدد اسرائیلی اہلکاروں کے انٹرپول کے ذریعے ریڈ وارنٹ نکالے۔

دبئی پولیس کے اس وقت کے سربراہ داہی خلفان تمیم نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے وارنٹ نکالنے کا بھی مطالبہ کیا مگر اعلیٰ حکام نے اس کی اجازت نہیں دی۔موساد چیف مئیر دگان کو مشن طشت ازبام ہونے کے بعد جبری ریٹائر کر دیا گیا اور مارچ دو ہزار سولہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔دونوں ممالک نے یہ مقدمہ ریت میں دبا دیا اور وقت آگے بڑھ گیا۔


دبئی میں حماس اہلکار کے قتل کے دو برس بعد ستمبر دو ہزار بارہ میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور اماراتی وزیرِ خارجہ عبداللہ بن زید النہیان کی نیویارک میں ملاقات ہوئی جس میں ایران کے اثر و نفوذ کو روکنے کے طریقوں کو موثر بنانے پر زور دیا گیا۔اوباما دور میں نیتن یاہو اور اعلیٰ اماراتی قیادت کی قبرص میں بھی خفیہ ملاقات ہوئی جب کہ اعلیٰ سطح پر مواصلاتی رابطہ بھی برقرار رہا۔ ان روابط کا مقصد اوباما انتظامیہ اور ایران کے تناظر میں باہمی ہم آہنگی برقرار رکھنا تھا۔

جولائی دو ہزار سترہ میں امارات نے لیبیا کے باغی رہنما خلیفہ ہفتر کے لئِے اسرائیلی فوجی امداد اور انٹیلی جینس معلومات کی سطح پر تعاون کی خاطر موساد کے اہلکاروں سے ملاقات میں سہولت کاری کی۔مارچ دو ہزار اٹھارہ میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی امریکا میں اماراتی سفیر یوسف العتیبہ اور بحرینی سفیر سے ایران کے موضوع پر نیویارک کے ایک ریستوراں میں گفتگو ہوئی۔دس اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو امریکا میں اسرائیلی سفیر رونی ڈیمر اور اماراتی سفیر یوسف العتیبہ جیوش انسٹی ٹیوٹ کے سالانہ ڈنر میں ایک ہی میز پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہے۔

غزہ پر بمباری کے بعد دو ہزار سولہ میں ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات معطل کر دیے تھے۔ستمبر دو ہزار اٹھارہ میں ابوظہبی نے ان تعلقات کی بحالی کے لیے کامیاب دوطرفہ بات چیت کی میزبانی کی۔

اگست دو ہزار سولہ میں امریکی ریاست نیواڈا میں مشترکہ فضائی مشقوں میں امریکا ، پاکستان ، اسپین ، امارات اور اسرائیل نے شرکت کی۔دو ہزار سترہ میں یونان میں امریکی ، اطالوی ، اسرائیلی و اماراتی فضائیہ نے مشترکہ فضائی مشقیں کیں۔

ستمبر دو ہزار انیس میں ابوظہبی کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ دو ہزار بائیس تک امارات میں پہلا یہودی معبد کھل جائے گا۔یہ معبد بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے منصوبے کی کڑی ہے۔اکتیس اگست سے دونوں ممالک کے درمیان پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔

امارات ، اتحاد اور اسرائیلی ایئرلائنز ال آل کا مسافر پروازوں کا شیڈول اگلے چند دنوں میں جاری ہونے والا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کی ویزمین یونیورسٹی اور اور محمد بن زید یونیورسٹی کے مابین مشترکہ سائنسی تحقیقی منصوبے شروع کرنے کا سمجھوتہ ہوا ہے۔اس کے تحت دونوں یونیورسٹیاں طلبا اور اساتذہ کا باہمی تبادلہ کر سکیں گی۔

اسرائیل امارات امن سمجھوتے کے بعد اماراتی فضائیہ جدید ترین امریکی ایف تھرٹی فائیو طیارے اور شکاری ریپر ڈرون حاصل کرنے کی اہل ہو گی۔اب تک یہ دونوں امریکی عسکری سوغاتیں صرف اسرائیل کے زیرِ استعمال ہیں۔امریکی قوانین کے تحت کوئی بھی ایسا اسلحہ جس سے اسرائیل کی فوجی برتری متاثر ہو اسرائیلی اجازت کے بغیر ناٹو کے علاوہ کسی غیر ناٹو ملک کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

امارات کو یہ بھی امید ہے کہ اسرائیل سے جامع امن سمجھوتہ آنے والی ہر امریکی انتظامیہ میں اماراتی مفاد کو آگے بڑھانے کے لیے بطور انشورنس پالیسی کام آئے گا۔

تو کیا واقعی امارات کو ایران سے خطرہ ہے کہ جس کے مفروضے پر یہ ساری تعلقاتی عمارت کھڑی کی گئی؟ اس کا کوئی نہ واضح جواب ہے نہ ثبوت۔

بس یہ بتا سکتا ہوں کہ اس وقت امارات میں پانچ لاکھ ایرانی ملازمت یا کاروبار کر رہے ہیں۔جب کہ لگ بھگ پانچ سو ایرانی کمپنیاں امارات میں رجسٹرڈ ہیں۔

جہاں تک دو طرفہ تجارت کا معاملہ ہے تو گزشتہ دس ماہ میں کوویڈ سے پیدا ہونے والی معاشی ابتری کے باوجود چین اور عراق کے بعد امارات ایران کا تیسرا بڑا ساجھے دار ہے اور گزشتہ دس ماہ میں دو طرفہ تجارت کا حجم گزشتہ برس کی نسبت پینتیس فیصد کمی کے باوجود تین اعشاریہ سات ارب ڈالر رہا ہے۔اس سے آپ دوطرفہ دشمنی کے لیول کا اندازہ خود لگا لیں۔

( اگلے مضمون میں دیگر خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے تعلقات پر بات کریں گے )۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story