ماموں نے بھانجے کو غصے کی آگ میں جلا ڈالا
مغوی کی تلاش میں مصروف بہروپیا مشکوک بیان پر گرفتار، اعتراف جرم، نعش برآمد کروا دی
اپنوں کے قتل کا اقدام، معاشرے میں برداشت اور اُمید کے خاتمے کا ایک ایسا صریح اعلان ہے، جس کے بعد کسی دوسرے اعلان کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ کبھی غصہ و انتقام سے جنم لیتا ہے تو کہیں حرص و ہوس کی آگ اس کا باعث بنتی ہے اور بسا اوقات مال و زر کی طلب اس کا محرک بن جایا کرتی ہے کیوں کہ جب انسان لالچ، خود غرضی اور مادیت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ ایسے اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا جو اس کیلئے دنیاوی اور آخروی زندگی میں کرب کا باعث بنتے ہیں۔
گجرات میں ایسی ہی قتل کی ایک واردات ہوئی، جس میں اپنوں نے ہی اپنا خون ایسی بے دردی سے بہایا کہ جس کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ اس جرم کے بعد سفاک قاتلوں نے مغوی کی تلاش سے لے کر تدفین تک خاندان کے ساتھ رہ کر کئی دنوں تک کھیل بھی کھیلا مگر قدرت نے ان کے مکروہ چہروں کو عیاں کر دیا۔
یہ واقعہ گجرات کے گاؤں جگو میں 8اگست 2020ء کو اس وقت پیش آیا، جب اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں کرائے پر موٹر سائیکل چلانے والا 30 سالہ حق نواز گھر واپسی کے بعد عصر کے وقت موٹر سائیکل پر بال کٹوانے کے لئے نکلا، مگر رات گئے تک واپس نہ لوٹا جس پر اس کے اہل خانہ نے تلاش شروع کی تو تین روز بعد اس کا موٹر سائیکل نواحی گاؤں دندی دارہ کے قریب سے مل گیا، مگر حق نوازبدستور غائب تھا۔
بالآخر اُس کے بھائی رب نواز نے چار روز بعد پولیس کو اطلاع دیتے ہوئے 12اگست کو اس کے اغواء کا مقدمہ اپنی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروادیا۔ اس نوجوان کے اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لئے 3 ہفتے قبل ہی گجرات میں ڈی پی او تعینات ہونے والے عمر سلامت نے ضلع بھر میں سنگین وارداتوں اور اندھے قتل کی وارداتوں سمیت اس وقوعہ کو دنوں میں ٹریس کرکے متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کے لئے اپنی پالیسی کے مطابق ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے انہیں سستی،کاہلی چھوڑ کر دنوں میں کارکردگی دکھانے کے خصوصی ٹاسک سونپ دئیے۔
اس اندھے قتل کے مقدمہ کے لئے ڈی ایس پی سرائے عالمگیر مدثر اقبال کی زیر نگرانی قائم کی گئی ٹیم نے حق نواز کے اسلام آباد سے گاؤں اور گھر سے حلقہ احباب، عزیز و اقارب کے ساتھ میل جول تک کے تمام پہلوؤں پر ازسر نو تفتیش کا آغاز کیا توڈی ایس پی مدثر اقبال نے چند دنوں میں ہی اپنے تجربہ مہارت کی بدولت مشکوک ، متضاد بیانات پر اس کے سگے ماموں اور خالہ زاد کزن کو شک کے دائرہ میں لاتے ہوئے اپنی نظریں ان پر مرکوز کر کے صورتحال سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سلامت کو آگاہ کیا۔
جنہوں نے فوری طور پر دونوں ملزمان کو حراست میں لینے اور پوچھ گچھ کرنے کے احکامات جاری کیے تو ملزمان گرفت مین آنے سے قبل ہی صورتحال بھانپ لینے پر سرائے عالمگیر کی پبی میں روپوش ہو گئے، جہاں پولیس نے انہیں قابو کر لیا اور تفتیش شروع کی تو ملزم منیر احمد عرف صاحب نے سگے بھانجے محمد وقاص کے ساتھ مل کر اسے گھر سے بلا کر اغواء کرنے ، جنگل میں لے جا کر بیدردی سے گولیاں مار کر قتل کرنے اور نعش کو گڑا کھود کر دفنا دینے کے جرم کا اعتراف کر لیا، جس پر پولیس نے ان کی نشاندہی پر جائے وقوعہ سے جھاڑیوں سے ڈھکے گڑھے سے حق نواز کی مسخ شدہ نعش برآمد کر کے ورثاء کے سپرد کر دی۔
ملزم منیر احمدنے ابتدائی مرحلے میں پولیس کو یہ بھی انکشاف کیا کہ 8/9 سال قبل مقدمہ قتل میں جیل یاترا کے دوران مقتول بھانجے حق نواز نے اپنے ہی گھر میں بچوں کے ہمراہ مقیم اس کی بیوی و اپنی ممانی کے ساتھ زیادتی کر ڈالی مگر وہ بہن کے کہنے پر خاندان اور گاؤں میں شرمندگی کے ڈر سے خاموش ہو گیا۔
جس میں پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران اس بات میں صداقت ثابت نہ ہوسکی اور جب روایتی انداز میں دوبارہ دونوں ملزمان سے پوچھ گچھ کی توسفاک قاتلوں نے حقیقت عیاں کی کہ 30سالہ حق نواز کو ساڑھے 3لاکھ روپے کے لین دین اور گالی گلوچ کرنے پر موت کے گھاٹ اتارا گیاکیوں کہ ملزم منیر نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے 2009 ء میں قتل کیس میں جیل بندش کے دوران اپنے گھر ،بیوی بچوں اور مقدمہ کی پیروی کے لئے مقتول حق نواز کے والد و اپنے بہنوئی مہدی خاں کو ساڑھے 3لاکھ روپے دئیے، جس میں سے صرف 30ہزار خرچ ہوئے اور ڈیڑھ سال بعد مقدمہ میں صلح ہو کر بری ہو جانے کے بعد جب اپنی بقیہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رقم دینے کے بجائے بہنوئی مہدی خاں نے الٹا مزید رقم کا مطالبہ کر دیا۔
جس پر بھانجے اور بہنوئی کے ساتھ توں تکرار سے بات لڑائی جھگڑے ، دھمکیوں تک پہنچ گئی اور پھر وقوعہ سے چند روز قبل دوبارہ لڑائی جھگڑے کا بدلہ لینے کے لئے اپنے دوسرے بھانجے محمد وقاص کے ساتھ مل کر اس کے قتل کی منصوبہ بندی کر لی ۔ بھانجے کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ملزم منیر نے نم آنکھوں کے ساتھ خود کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے یہ الزامات بھی عائد کئے کہ مقتول پانچ وقت کا نمازی نہیں بلکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھا، جس بناء پر اس کی بیوی نے 7سال قبل اس سے طلاق لے لی تھی اور اب وہ زبردستی میری 13سالہ بیٹی کے ساتھ رشتہ کرنے کی ضد کیے ہوئے تھا۔
ڈی پی او گجرات عمر سلامت کا کہنا ہے کہ پولیس آفیسرز، اہلکار اگر اپنی ذمہ داریوں کو فرض سمجھ کر ادا کرتے رہیں تو کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ہر قسم کے کرائم سے کافی حد تک پاک ہو سکتا ہے، مگر اس کیلئے نیک نیتی، پختہ ارادے اور خود پر یقین لازم ہونا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس کا مرکزی اور عادی مجرم منیر احمد تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کا باپ ہے، جس پر تھانہ گلیانہ میں قتل، میر پور ضلع میں ڈکیتی، تھانہ بولانی میں چوری، تھانہ ٹانڈہ میں لڑائی جھگڑے اور ناجائز اسلحہ کے مقدمات درج ہیں۔ شاطر قاتل واردات کے بعد اپنی سگی بہن ، بہنوئی کے ساتھ مل کر مقتول کو تلاش کرنے اور خود پر سے توجہ ہٹائے رکھنے کیلئے وقوعہ کو الجھانے کی کئی دنوں تک کوششیں بھی کرتا رہا مگر وہ پولیس کے تجربہ کے سامنے بار آور ثابت نہ ہو سکیں، یوں لالچ کے نشے اور غصے کی آگ میں سگے ماموںکا اپنی ہی سگی بہن کی اولادکے خون سے ہاتھ رنگ لینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آج کے مادہ پرستی یا مشینی دور میں ہمارا معاشرتی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔
گجرات میں ایسی ہی قتل کی ایک واردات ہوئی، جس میں اپنوں نے ہی اپنا خون ایسی بے دردی سے بہایا کہ جس کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ اس جرم کے بعد سفاک قاتلوں نے مغوی کی تلاش سے لے کر تدفین تک خاندان کے ساتھ رہ کر کئی دنوں تک کھیل بھی کھیلا مگر قدرت نے ان کے مکروہ چہروں کو عیاں کر دیا۔
یہ واقعہ گجرات کے گاؤں جگو میں 8اگست 2020ء کو اس وقت پیش آیا، جب اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں کرائے پر موٹر سائیکل چلانے والا 30 سالہ حق نواز گھر واپسی کے بعد عصر کے وقت موٹر سائیکل پر بال کٹوانے کے لئے نکلا، مگر رات گئے تک واپس نہ لوٹا جس پر اس کے اہل خانہ نے تلاش شروع کی تو تین روز بعد اس کا موٹر سائیکل نواحی گاؤں دندی دارہ کے قریب سے مل گیا، مگر حق نوازبدستور غائب تھا۔
بالآخر اُس کے بھائی رب نواز نے چار روز بعد پولیس کو اطلاع دیتے ہوئے 12اگست کو اس کے اغواء کا مقدمہ اپنی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروادیا۔ اس نوجوان کے اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لئے 3 ہفتے قبل ہی گجرات میں ڈی پی او تعینات ہونے والے عمر سلامت نے ضلع بھر میں سنگین وارداتوں اور اندھے قتل کی وارداتوں سمیت اس وقوعہ کو دنوں میں ٹریس کرکے متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کے لئے اپنی پالیسی کے مطابق ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے انہیں سستی،کاہلی چھوڑ کر دنوں میں کارکردگی دکھانے کے خصوصی ٹاسک سونپ دئیے۔
اس اندھے قتل کے مقدمہ کے لئے ڈی ایس پی سرائے عالمگیر مدثر اقبال کی زیر نگرانی قائم کی گئی ٹیم نے حق نواز کے اسلام آباد سے گاؤں اور گھر سے حلقہ احباب، عزیز و اقارب کے ساتھ میل جول تک کے تمام پہلوؤں پر ازسر نو تفتیش کا آغاز کیا توڈی ایس پی مدثر اقبال نے چند دنوں میں ہی اپنے تجربہ مہارت کی بدولت مشکوک ، متضاد بیانات پر اس کے سگے ماموں اور خالہ زاد کزن کو شک کے دائرہ میں لاتے ہوئے اپنی نظریں ان پر مرکوز کر کے صورتحال سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سلامت کو آگاہ کیا۔
جنہوں نے فوری طور پر دونوں ملزمان کو حراست میں لینے اور پوچھ گچھ کرنے کے احکامات جاری کیے تو ملزمان گرفت مین آنے سے قبل ہی صورتحال بھانپ لینے پر سرائے عالمگیر کی پبی میں روپوش ہو گئے، جہاں پولیس نے انہیں قابو کر لیا اور تفتیش شروع کی تو ملزم منیر احمد عرف صاحب نے سگے بھانجے محمد وقاص کے ساتھ مل کر اسے گھر سے بلا کر اغواء کرنے ، جنگل میں لے جا کر بیدردی سے گولیاں مار کر قتل کرنے اور نعش کو گڑا کھود کر دفنا دینے کے جرم کا اعتراف کر لیا، جس پر پولیس نے ان کی نشاندہی پر جائے وقوعہ سے جھاڑیوں سے ڈھکے گڑھے سے حق نواز کی مسخ شدہ نعش برآمد کر کے ورثاء کے سپرد کر دی۔
ملزم منیر احمدنے ابتدائی مرحلے میں پولیس کو یہ بھی انکشاف کیا کہ 8/9 سال قبل مقدمہ قتل میں جیل یاترا کے دوران مقتول بھانجے حق نواز نے اپنے ہی گھر میں بچوں کے ہمراہ مقیم اس کی بیوی و اپنی ممانی کے ساتھ زیادتی کر ڈالی مگر وہ بہن کے کہنے پر خاندان اور گاؤں میں شرمندگی کے ڈر سے خاموش ہو گیا۔
جس میں پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران اس بات میں صداقت ثابت نہ ہوسکی اور جب روایتی انداز میں دوبارہ دونوں ملزمان سے پوچھ گچھ کی توسفاک قاتلوں نے حقیقت عیاں کی کہ 30سالہ حق نواز کو ساڑھے 3لاکھ روپے کے لین دین اور گالی گلوچ کرنے پر موت کے گھاٹ اتارا گیاکیوں کہ ملزم منیر نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے 2009 ء میں قتل کیس میں جیل بندش کے دوران اپنے گھر ،بیوی بچوں اور مقدمہ کی پیروی کے لئے مقتول حق نواز کے والد و اپنے بہنوئی مہدی خاں کو ساڑھے 3لاکھ روپے دئیے، جس میں سے صرف 30ہزار خرچ ہوئے اور ڈیڑھ سال بعد مقدمہ میں صلح ہو کر بری ہو جانے کے بعد جب اپنی بقیہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رقم دینے کے بجائے بہنوئی مہدی خاں نے الٹا مزید رقم کا مطالبہ کر دیا۔
جس پر بھانجے اور بہنوئی کے ساتھ توں تکرار سے بات لڑائی جھگڑے ، دھمکیوں تک پہنچ گئی اور پھر وقوعہ سے چند روز قبل دوبارہ لڑائی جھگڑے کا بدلہ لینے کے لئے اپنے دوسرے بھانجے محمد وقاص کے ساتھ مل کر اس کے قتل کی منصوبہ بندی کر لی ۔ بھانجے کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ملزم منیر نے نم آنکھوں کے ساتھ خود کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے یہ الزامات بھی عائد کئے کہ مقتول پانچ وقت کا نمازی نہیں بلکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھا، جس بناء پر اس کی بیوی نے 7سال قبل اس سے طلاق لے لی تھی اور اب وہ زبردستی میری 13سالہ بیٹی کے ساتھ رشتہ کرنے کی ضد کیے ہوئے تھا۔
ڈی پی او گجرات عمر سلامت کا کہنا ہے کہ پولیس آفیسرز، اہلکار اگر اپنی ذمہ داریوں کو فرض سمجھ کر ادا کرتے رہیں تو کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ہر قسم کے کرائم سے کافی حد تک پاک ہو سکتا ہے، مگر اس کیلئے نیک نیتی، پختہ ارادے اور خود پر یقین لازم ہونا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس کا مرکزی اور عادی مجرم منیر احمد تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کا باپ ہے، جس پر تھانہ گلیانہ میں قتل، میر پور ضلع میں ڈکیتی، تھانہ بولانی میں چوری، تھانہ ٹانڈہ میں لڑائی جھگڑے اور ناجائز اسلحہ کے مقدمات درج ہیں۔ شاطر قاتل واردات کے بعد اپنی سگی بہن ، بہنوئی کے ساتھ مل کر مقتول کو تلاش کرنے اور خود پر سے توجہ ہٹائے رکھنے کیلئے وقوعہ کو الجھانے کی کئی دنوں تک کوششیں بھی کرتا رہا مگر وہ پولیس کے تجربہ کے سامنے بار آور ثابت نہ ہو سکیں، یوں لالچ کے نشے اور غصے کی آگ میں سگے ماموںکا اپنی ہی سگی بہن کی اولادکے خون سے ہاتھ رنگ لینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آج کے مادہ پرستی یا مشینی دور میں ہمارا معاشرتی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔