اے پی سی 2020 کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے
اگر واقعی میاں صاحب نے کشتیاں جلا کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے تو ان کو پھر کھل کر سامنے آنا چاہئے تھا
یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر بہت محتاط ہوکر لکھنا پڑتا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کیا اور شہباز گل کی وارننگ کے باوجود الیکٹرانک میڈیا نے اس کو دکھا بھی دیا۔ تاہم، حیرانگی اس وقت ہوئی جب ہم نے ٹی وی چینلز پر ٹکرز دیکھے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود اس تقریر کو آن ایئر کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہم یہاں پر قانونی باریکیوں میں نہیں جاتے، لیکن خان صاحب نے عین وقت میں اچھا پتا پھینک کر اپوزیشن کو پریشان ضرور کیا تھا کیونکہ ان کا آخری وقت تک یہی خیال تھا کہ وزیراعظم ایسا نہیں کریں گے اور ہم مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا بیانیہ بیچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہم سوشل میڈیا سے تقاریر اور کارروائی دکھائیں گے اور ہمدردیاں سمیٹ لیں گے۔ لیکن خان صاحب نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
اس اے پی سی میں نواز شریف کا خطاب اہمیت کا حامل تھا، اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ لندن میں کافی دیر سے خاموش تھے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہاں ایک بات اور بھی بتانا ضروری ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کا بے انتہا احترام کرتے ہیں اور ان کا کہا حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ان میں اختلاف بھی ہوتا ہے تو مکمل ادب و احترام سے ہوتا ہے۔ شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی ہی تھی جس نے ن لیگ کے گرد کسا ہوا شکنجہ کم کیا اور میاں صاحب لندن چلے گئے۔ لندن کے ذرائع یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ میاں صاحب کا علاج کہاں تک پہنچا ہے، ہوا بھی ہے یا نہیں ہوا؟ میاں صاحب نے شہباز شریف پالیسی کو واپس کرتے ہوئے اپنے موڈ میں آنے کا فیصلہ کیا اور اے پی سی سے 'بظاہر' ایک دھواں دھار سا خطاب کیا۔ میں نے بظاہر کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس میں ایک پیراگراف کے علاوہ وہی پرانی باتیں اور وہی پرانے فقرے اور وہی رٹے رٹائے جملے ہی تھے۔ اس میں نیا کیا تھا؟
اگر واقعی میاں صاحب نے کشتیاں جلا کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے تو ان کو پھر کھل کر سامنے آنا چاہئے تھا۔ ایسا نہیں ہوا۔ وہ تو ان کے نام بھی نہیں لے رہے تھے جن سے ان کی لڑائی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں وزیراعظم کو تو یہ کہہ کر سائیڈ پر کردیا کہ میرا ان سے کوئی پھڈا نہیں ہے۔ تو حضور! جن سے ہے، ان کا نام تو لیجئے۔
یہاں ایک اور بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کانفرنس سے ایک رات پہلے تقریباً تمام اپوزیشن کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں باہمی امور کی جو باتیں ہونی تھیں وہ ہوئیں۔ لیکن ایک بات جو میڈیا نے رپورٹ کی ہے وہ یہ کہ آرمی چیف نے واضح کہا ہے کہ پاکستان آرمی کو سیاسی معاملات میں نہ لائیں۔ یہ ایک سطر انتہائی گہری اور قابل توجہ ہے۔ آرمی چیف کو ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیونکہ اپوزیشن بالواسطہ یا بلاواسطہ موجودہ صورتحال کا ذمے دار آرمی کو ٹھہرا رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے بھی ایسا ہی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ آخرکار آرمی چیف کو خود یہ کہنا پڑا کہ ہمیں اس کام میں مت لائیں، سیاست ہمارا کام نہیں ہے۔ اس موقع پر ایک سیاستدان نے نیب کے کردار پر بات کی تو آرمی چیف نے صاف کہا کہ یہ اپائنٹمنٹس آپ کی اپنی ہیں، اس میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔
اس کانفرنس میں اپوزیشن میں اتحاد بھی نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر سنسر کرنے پر باقاعدہ احتجاج کیا۔ مولانا کے کردار سے کس کو انکار ہے۔ اس اے پی سی کو منعقد کروانے میں ان کی بھی بڑی محنت ہے لیکن اسمبلی میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے ان کا خطاب ہی لائیو نہیں جانے دیا۔ یہ ایک غلط قدم تھا۔ ان کو مولانا کے قد کا ہی احترام کرنا چاہیے تھا۔ اے پی سی کا اعلامیہ پڑھیے تو اس کا خلاصہ ہے کہ ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے''۔ اس میں حکومت کے خلاف نہ تو کوئی واضح لائحہ عمل ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی یکسوئی نظر آرہی ہے۔ اس اے پی سی کا اختتام دیکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سراج الحق نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرکے اچھا ہی کیا ہے۔
اس اے پی سی کا اپوزیشن کو شاید کوئی فائدہ نہ ہو لیکن حکومت کو فوری طور پر فائدہ ہوا ہے۔ یہ تاثر کہ حکومت نے اپوزیشن کو دبایا ہوا ہے، یہ زائل ہوا ہے۔ اپوزیشن نے اے پی سی کرلی۔ یہ تاثر کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہے، اس کی بھی نفی ہوئی ہے اور سابق وزیراعظم کی تقریر ٹی وی چینلز نے دکھائی۔ اپوزیشن بھی مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ جیسے موضوعات پر جامع بات کرنے میں ناکام رہی۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو عام آدمی کے ہیں اور عوام کو دیگر موضوعات میں دلچسپی ہو یا نہ ہو، ان میں دلچسپی ہے، جس سے عوام کو براہ راست اثر ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی یہ خواہش کہ وہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے پہلے کچھ کرلے، میرا ذاتی خیال ہے کہ خواہش ہی رہے گی۔ کیونکہ وہ جیسے چل رہی ہے، حکومت کو اس کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس اے پی سی میں نواز شریف کا خطاب اہمیت کا حامل تھا، اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ لندن میں کافی دیر سے خاموش تھے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہاں ایک بات اور بھی بتانا ضروری ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کا بے انتہا احترام کرتے ہیں اور ان کا کہا حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ان میں اختلاف بھی ہوتا ہے تو مکمل ادب و احترام سے ہوتا ہے۔ شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی ہی تھی جس نے ن لیگ کے گرد کسا ہوا شکنجہ کم کیا اور میاں صاحب لندن چلے گئے۔ لندن کے ذرائع یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ میاں صاحب کا علاج کہاں تک پہنچا ہے، ہوا بھی ہے یا نہیں ہوا؟ میاں صاحب نے شہباز شریف پالیسی کو واپس کرتے ہوئے اپنے موڈ میں آنے کا فیصلہ کیا اور اے پی سی سے 'بظاہر' ایک دھواں دھار سا خطاب کیا۔ میں نے بظاہر کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس میں ایک پیراگراف کے علاوہ وہی پرانی باتیں اور وہی پرانے فقرے اور وہی رٹے رٹائے جملے ہی تھے۔ اس میں نیا کیا تھا؟
اگر واقعی میاں صاحب نے کشتیاں جلا کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے تو ان کو پھر کھل کر سامنے آنا چاہئے تھا۔ ایسا نہیں ہوا۔ وہ تو ان کے نام بھی نہیں لے رہے تھے جن سے ان کی لڑائی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں وزیراعظم کو تو یہ کہہ کر سائیڈ پر کردیا کہ میرا ان سے کوئی پھڈا نہیں ہے۔ تو حضور! جن سے ہے، ان کا نام تو لیجئے۔
یہاں ایک اور بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کانفرنس سے ایک رات پہلے تقریباً تمام اپوزیشن کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں باہمی امور کی جو باتیں ہونی تھیں وہ ہوئیں۔ لیکن ایک بات جو میڈیا نے رپورٹ کی ہے وہ یہ کہ آرمی چیف نے واضح کہا ہے کہ پاکستان آرمی کو سیاسی معاملات میں نہ لائیں۔ یہ ایک سطر انتہائی گہری اور قابل توجہ ہے۔ آرمی چیف کو ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیونکہ اپوزیشن بالواسطہ یا بلاواسطہ موجودہ صورتحال کا ذمے دار آرمی کو ٹھہرا رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے بھی ایسا ہی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ آخرکار آرمی چیف کو خود یہ کہنا پڑا کہ ہمیں اس کام میں مت لائیں، سیاست ہمارا کام نہیں ہے۔ اس موقع پر ایک سیاستدان نے نیب کے کردار پر بات کی تو آرمی چیف نے صاف کہا کہ یہ اپائنٹمنٹس آپ کی اپنی ہیں، اس میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔
اس کانفرنس میں اپوزیشن میں اتحاد بھی نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر سنسر کرنے پر باقاعدہ احتجاج کیا۔ مولانا کے کردار سے کس کو انکار ہے۔ اس اے پی سی کو منعقد کروانے میں ان کی بھی بڑی محنت ہے لیکن اسمبلی میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے ان کا خطاب ہی لائیو نہیں جانے دیا۔ یہ ایک غلط قدم تھا۔ ان کو مولانا کے قد کا ہی احترام کرنا چاہیے تھا۔ اے پی سی کا اعلامیہ پڑھیے تو اس کا خلاصہ ہے کہ ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے''۔ اس میں حکومت کے خلاف نہ تو کوئی واضح لائحہ عمل ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی یکسوئی نظر آرہی ہے۔ اس اے پی سی کا اختتام دیکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سراج الحق نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرکے اچھا ہی کیا ہے۔
اس اے پی سی کا اپوزیشن کو شاید کوئی فائدہ نہ ہو لیکن حکومت کو فوری طور پر فائدہ ہوا ہے۔ یہ تاثر کہ حکومت نے اپوزیشن کو دبایا ہوا ہے، یہ زائل ہوا ہے۔ اپوزیشن نے اے پی سی کرلی۔ یہ تاثر کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہے، اس کی بھی نفی ہوئی ہے اور سابق وزیراعظم کی تقریر ٹی وی چینلز نے دکھائی۔ اپوزیشن بھی مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ جیسے موضوعات پر جامع بات کرنے میں ناکام رہی۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو عام آدمی کے ہیں اور عوام کو دیگر موضوعات میں دلچسپی ہو یا نہ ہو، ان میں دلچسپی ہے، جس سے عوام کو براہ راست اثر ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی یہ خواہش کہ وہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے پہلے کچھ کرلے، میرا ذاتی خیال ہے کہ خواہش ہی رہے گی۔ کیونکہ وہ جیسے چل رہی ہے، حکومت کو اس کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔