بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر حکومت کیخلاف متحرک
مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں اے پی سی کو محض ایک ڈھونگ قرار دے رہی ہیں۔
اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے زیر اہتمام اے پی سی کے انعقاد کے بعد اپوزیشن کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے فیصلہ کے حوالے سے صوبے میں بھی اپوزیشن جماعتوں کو آکسیجن مل گئی اور آئندہ چند ہفتوں میں صوبے کی اپوزیشن جماعتوں نے باقاعدہ اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کیلئے کمر کس لی ہے۔
بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتیں بی این پی مینگل،پشتونخواملی عوامی پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ن)اور جمعیت علماء اسلام بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پراکھٹی تو ہیں لیکن اب اے پی سی کے فیصلوں کے بعد ان جماعتوں کی مرکزی قیادت کی اے پی سی میں شمولیت اور اے پی سی کے مشترکہ فیصلے آنے کے بعد صوبائی سطح پر بھی ان جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک طرف اے پی سی فیصلوں سے جہاں اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف اپنی بھرپور طاقت دکھانے کاموقع ہاتھ آرہا ہے وہیں مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں اے پی سی کو محض ایک ڈھونگ قرار دے رہی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی ، ایچ ڈی پی اور بی این پی (عوامی )کی جانب سے اے پی سی کے فیصلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی ماضی میں بھی بلوچستان کے عوام کو دلاسے دینے کے سوا کچھ نہ کر سکی اور اب بھی صرف چند پارٹیوں کے مفادات کیلئے اے پی سی کاانعقاد کیا گیا ہے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں وہ اب اس قسم کے دھوکے میں نہیں آئیںگے۔
مخلوط حکومت میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی جمہوری وطن پارٹی اگر چہ بلوچستان حکومت میں ہوتے ہوئے بالواسطہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں شامل ہیں ان کیلئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کیونکہ مرکز میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی صف میں کھڑی ہیں لیکن بلوچستان میں وہ پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت کے مزے لے رہی ہیں۔
اگر بلوچستان سے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف کسی قسم کی بھی تحریک کاآغاز ہوتا ہے تو وہ کس طریقے سے اپنے کارکنوں کو موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر لائینگے جس میں دو سال سے وہ خود وزارتوں پر برا جمان ہیں۔ اے پی سی کے فیصلوں میں اگر چہ کسی مخصوص صوبے کی حکومت کو گرانے کا فیصلہ نہیں ہوا لیکن وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک بارپھر بلوچستان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے اپنا زور لگائیں گی ۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں مرکزی سطح پر اپنی حکومتوں کا دفاع کرنا اچھی طرح جانتی ہے کسی بھی طرح سے بلوچستان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی، پی ٹی آئی بلوچستان میں وزیراعلیٰ جام کمال کا بھرپور دفاع کریگی بلوچستان میں اپوزیشن کے پاس نہ تو مطلوبہ اکثریت ہے نہ ہی مختلف الخیال جماعتیں آپس میں متحد ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر چہ بلوچستان میں پی ٹی آئی اپنی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کا بھرپور دفاع کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے لیکن صوبے میں پی ٹی آئی کی اپنی پارلیمانی جماعت گروپوں میں تقسیم نظرآتی ہے۔
پی ٹی آئی کاایک پارلیمانی گروپ وزیراعلیٰ بلوچستان سے ناراض نظرآتا ہے اس پارلیمانی گروپ کو صوبے میں اپنے کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے صوبائی حکومت کے خلاف تحفظات آج کے نہیں بلکہ کافی عرصے سے چلے آرہے ہیں جس کی جھلک پی ٹی آئی کے کوئٹہ میں مرکزی قیادت کے زیر صدارت منعقدہ کنونشن میں بھی دیکھنے کو ملی۔
کارکنوں نے کھل کر صوبائی حکومت کے خلاف اپنے تحفظات مرکزی سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی جو ورکرز کنونشن میں خصوصی طور پر شرکت کیلئے کوئٹہ آئے تھے اس دوران کارکنوں نے نہ صرف صوبائی حکومت کے خلاف کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور وزراء کو بھی کارکنوں کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کیا بلکہ تحریری طور پر بھی قیادت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، کارکنوں نے بھی شکایت کی کہ پارٹی بلوچستان میں کئی دھڑوں میں تقسیم ہے ہر دھڑا اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ سے مسجد بنا کر مرکزی قیادت کو گمراہ کر رہا ہے کارکنوں نے مطالبہ کیاکہ صوبے میں پی ٹی آئی ورکرز میں پائی جانے والی مایوسی کو ختم کرکے فوری طور پر پارٹی کی از سرنو تنظیم سازی کی جائے۔
دوسری جانب بلوچستان میں مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد تعلیمی ادارے 15ستمبر سے کھلنا شروع تو ہوئے لیکن صوبے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سلسلہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔ صوبے میں 131 نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 14269 ہوگئی تاہم کورونا وائرس سے حالیہ دنوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، تشویش ناک امر یہ ہے کہ بلوچستان کے مختلف تعلیمی ادارے کھلتے ہی کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوا۔
تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث صوبے کی سات یونیورسٹیاں اور 25 اسکولز کو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ بند کیے جانے والے اسکولز میںکوئٹہ کے ایک نجی اسکول سمیت تین سرکاری گرلز اسکولز ، گوادر میں تین، ژوب اور ڈیرہ بگٹی میں ایک ایک اسکول میں کورونا کیسز کے سامنے آنے کے بعد تدریسی سرگرمیاں معطل کرکے فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ جامعہ بلوچستان کھلتے ہی جامعہ میں شعبہ صحت حکومت بلوچستان کے تعاون سے کورونا کے ٹیسٹ کیمپ لگائے گئے جس میں زیادہ تر اساتذہ ، طلبہ اور ملازمین کے ٹیسٹ مثبت آئے جس کے بعد جامعہ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ جامعہ میں درس و تدریس کا عمل عارضی طور پر بند رہے گا اور بوائز و گرلز ہاسٹل بھی بند رہیں گے۔
دوسری جانب کوئٹہ میں قائم سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ میں شروع ہونیوالی کلاسز ملتوی کردی گئی ہیں، لورالائی میڈیکل کالج کے تین ڈاکٹرز عملے کے تین ارکان اور چار طلباء میں کورونا وا ئر س کی تصدیق ہو نے پر میڈیکل کالج کو دوبارہ بند کردیا گیا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے حوالے سے ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا موقف سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر تعلیمی اداروں کے کھولے جانے سے متعلق صوبائی حکومت کے تحفظات تھے لیکن ایس او پیز کے تحت پورے ملک میں تدریسی سرگرمیوں کے حوالے سے حکمت عملی بنائی گئی تھی اس پر صوبے نے بھی عملدرآمد شروع کیا، تاہم صوبے میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، تعلیمی اداروں میں اب تک 67 مثبت کیسز رپورٹ ہونے کے بعد متعدد تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں۔
بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتیں بی این پی مینگل،پشتونخواملی عوامی پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ن)اور جمعیت علماء اسلام بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پراکھٹی تو ہیں لیکن اب اے پی سی کے فیصلوں کے بعد ان جماعتوں کی مرکزی قیادت کی اے پی سی میں شمولیت اور اے پی سی کے مشترکہ فیصلے آنے کے بعد صوبائی سطح پر بھی ان جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک طرف اے پی سی فیصلوں سے جہاں اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف اپنی بھرپور طاقت دکھانے کاموقع ہاتھ آرہا ہے وہیں مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں اے پی سی کو محض ایک ڈھونگ قرار دے رہی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی ، ایچ ڈی پی اور بی این پی (عوامی )کی جانب سے اے پی سی کے فیصلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی ماضی میں بھی بلوچستان کے عوام کو دلاسے دینے کے سوا کچھ نہ کر سکی اور اب بھی صرف چند پارٹیوں کے مفادات کیلئے اے پی سی کاانعقاد کیا گیا ہے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں وہ اب اس قسم کے دھوکے میں نہیں آئیںگے۔
مخلوط حکومت میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی جمہوری وطن پارٹی اگر چہ بلوچستان حکومت میں ہوتے ہوئے بالواسطہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں شامل ہیں ان کیلئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کیونکہ مرکز میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی صف میں کھڑی ہیں لیکن بلوچستان میں وہ پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت کے مزے لے رہی ہیں۔
اگر بلوچستان سے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف کسی قسم کی بھی تحریک کاآغاز ہوتا ہے تو وہ کس طریقے سے اپنے کارکنوں کو موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر لائینگے جس میں دو سال سے وہ خود وزارتوں پر برا جمان ہیں۔ اے پی سی کے فیصلوں میں اگر چہ کسی مخصوص صوبے کی حکومت کو گرانے کا فیصلہ نہیں ہوا لیکن وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک بارپھر بلوچستان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے اپنا زور لگائیں گی ۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں مرکزی سطح پر اپنی حکومتوں کا دفاع کرنا اچھی طرح جانتی ہے کسی بھی طرح سے بلوچستان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی، پی ٹی آئی بلوچستان میں وزیراعلیٰ جام کمال کا بھرپور دفاع کریگی بلوچستان میں اپوزیشن کے پاس نہ تو مطلوبہ اکثریت ہے نہ ہی مختلف الخیال جماعتیں آپس میں متحد ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر چہ بلوچستان میں پی ٹی آئی اپنی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کا بھرپور دفاع کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے لیکن صوبے میں پی ٹی آئی کی اپنی پارلیمانی جماعت گروپوں میں تقسیم نظرآتی ہے۔
پی ٹی آئی کاایک پارلیمانی گروپ وزیراعلیٰ بلوچستان سے ناراض نظرآتا ہے اس پارلیمانی گروپ کو صوبے میں اپنے کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے صوبائی حکومت کے خلاف تحفظات آج کے نہیں بلکہ کافی عرصے سے چلے آرہے ہیں جس کی جھلک پی ٹی آئی کے کوئٹہ میں مرکزی قیادت کے زیر صدارت منعقدہ کنونشن میں بھی دیکھنے کو ملی۔
کارکنوں نے کھل کر صوبائی حکومت کے خلاف اپنے تحفظات مرکزی سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی جو ورکرز کنونشن میں خصوصی طور پر شرکت کیلئے کوئٹہ آئے تھے اس دوران کارکنوں نے نہ صرف صوبائی حکومت کے خلاف کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور وزراء کو بھی کارکنوں کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کیا بلکہ تحریری طور پر بھی قیادت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، کارکنوں نے بھی شکایت کی کہ پارٹی بلوچستان میں کئی دھڑوں میں تقسیم ہے ہر دھڑا اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ سے مسجد بنا کر مرکزی قیادت کو گمراہ کر رہا ہے کارکنوں نے مطالبہ کیاکہ صوبے میں پی ٹی آئی ورکرز میں پائی جانے والی مایوسی کو ختم کرکے فوری طور پر پارٹی کی از سرنو تنظیم سازی کی جائے۔
دوسری جانب بلوچستان میں مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد تعلیمی ادارے 15ستمبر سے کھلنا شروع تو ہوئے لیکن صوبے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سلسلہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔ صوبے میں 131 نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 14269 ہوگئی تاہم کورونا وائرس سے حالیہ دنوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، تشویش ناک امر یہ ہے کہ بلوچستان کے مختلف تعلیمی ادارے کھلتے ہی کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوا۔
تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث صوبے کی سات یونیورسٹیاں اور 25 اسکولز کو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ بند کیے جانے والے اسکولز میںکوئٹہ کے ایک نجی اسکول سمیت تین سرکاری گرلز اسکولز ، گوادر میں تین، ژوب اور ڈیرہ بگٹی میں ایک ایک اسکول میں کورونا کیسز کے سامنے آنے کے بعد تدریسی سرگرمیاں معطل کرکے فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ جامعہ بلوچستان کھلتے ہی جامعہ میں شعبہ صحت حکومت بلوچستان کے تعاون سے کورونا کے ٹیسٹ کیمپ لگائے گئے جس میں زیادہ تر اساتذہ ، طلبہ اور ملازمین کے ٹیسٹ مثبت آئے جس کے بعد جامعہ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ جامعہ میں درس و تدریس کا عمل عارضی طور پر بند رہے گا اور بوائز و گرلز ہاسٹل بھی بند رہیں گے۔
دوسری جانب کوئٹہ میں قائم سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ میں شروع ہونیوالی کلاسز ملتوی کردی گئی ہیں، لورالائی میڈیکل کالج کے تین ڈاکٹرز عملے کے تین ارکان اور چار طلباء میں کورونا وا ئر س کی تصدیق ہو نے پر میڈیکل کالج کو دوبارہ بند کردیا گیا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے حوالے سے ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا موقف سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر تعلیمی اداروں کے کھولے جانے سے متعلق صوبائی حکومت کے تحفظات تھے لیکن ایس او پیز کے تحت پورے ملک میں تدریسی سرگرمیوں کے حوالے سے حکمت عملی بنائی گئی تھی اس پر صوبے نے بھی عملدرآمد شروع کیا، تاہم صوبے میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، تعلیمی اداروں میں اب تک 67 مثبت کیسز رپورٹ ہونے کے بعد متعدد تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں۔